ترکی جو میں دیکھا(قسط نمبر 20) 

رومیوں کے قبرِ مبارک سے متعلق ناپاک عزائم
سیدنا ابوایوب انصاریؓ کی تدفین رات کو کی گئی، اس احتیاط کے پیشِ نظر کہ رومی جو ابھی تک شہر پر قابض اور مسلمانوں کے طویل محاصرے کا نشانہ تھے، کہیں قبرِ مبارک کو نقصان پہنچائیں یا بے حرمتی کریں۔ ایسا ہی ہوا، انہوں نے اگلے روز مسلمانوں سے پوچھا کہ رات کو کیسی ہلچل تھی؟ اس پر اس مبارک ہستی کے بارے میں آگاہ کیا گیا اور خبردار بھی کیا گیا کہ اگر اس کی بے حرمتی کی گئی تو ساری دنیا میں مسلمانوں کے زیر تسلط کوئی عیسائی مَعبد نہ محفوظ رہے گا، نہ وہاں عبادت کی جاسکے گی۔ اس تنبیہ پر رومی محتاط ہوگئے، اور بعدازاں جب کبھی قحط سالی کے مواقع درپیش ہوئے تو یہاں حاضر ہوکر بارش برسنے، اور قحط سالی دور ہونے کی دعائیں کرتے۔
مزارِ مبارک
مزارِ مبارک استنبول کے ایک بڑے ضلع ’’سلطان ایوب‘‘ میں واقع ہے، جو سیدنا ابوایوب انصاریؓ کے اسم گرامی سے ہی منسوب ہے۔ نیلی ٹائلوں سے مُرصّع ایک راہداری سے گزر کر گنبد نما کمرے میں مزارِ مبارک کے سامنے خوبصورت، آراستہ اور مزین عمارت میں سے قبرِ مبارک کی محض جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔ بغلی دروازے سے باہر نکل کر دعا و فاتحہ کے لیے جالیاں لگاکر موقع فراہم کیا گیا ہے۔ مزار میں کئی تبرکات بھی موجود ہیں، مگر اکثر زائرین کو پتا نہیں چل پاتا، اور وہ قبرِ مبارک کے سامنے سے عقیدت و احترام کے جذبات سے معمور اور اردگرد سے بے خبر گزر جاتے ہیں۔ ان تبرکات میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا موئے مبارک اور ایک پتھر جس پر قدمِ مبارک کے نشان ہیں، شامل ہیں۔ موئے مبارک تو شاید کسی ڈبیا میں بند ہو، جو دیکھی جاسکتی تھی، البتہ قدمِ مبارک والا پتھر دکھائی نہیں دیا۔ ممکن ہے اندر کسی محفوظ جگہ پر موجود ہو۔ یہ ترک روایت بھی معلوم ہوئی کہ سلاطینِ عثمانیہ تخت نشینی کے موقع پر اسی متبرک مقام پر حاضر ہوتے، جہاں انہیں مخصوص عثمانی تلوار دی جاتی۔
ہم عجیب سے جذبات کے ساتھ اس مزارِ مبارک میں داخل ہوئے اور عقیدت و احترام کے فراواں جذبوں سے پہرے داروں کے حکم پر ہجوم کے ساتھ باہر نکل گئے۔ تسلی نہ ہوئی تو کچھ دیر بعد دوبارہ اندر گئے، دعا کی اور نظر بھر کر زیارت کا شرف حاصل کیا۔ یہ ہمارے اِس سفر کا سب سے سعید اور یادگار لمحہ تھا، اور قرآنی محاورے کے مطابق مشک و عنبر کی مہر لگ کر نہایت قیمتی اور حسین و یادگار اختتامِ سفر ہوا۔
گردوپیش
سیدنا ابوایوب انصاریؓ کا مزارِ مبارک اہلِ ترکی کے نزدیک بہت برکتوں اور سعادتوں کا مرکز ہے۔ روایات ہیں کہ اس مقام تک محاصرۂ قسطنطنیہ میں سیدنا ابن عباسؓ، سیدنا ابن عمرؓ، سیدنا ابن زبیرؓ اور سیدنا ابوالدرداءؓ جیسے کبار صحابہ نے بھی شرکت کی۔ اہلِ ترکی سمجھتے ہیں کہ کم از کم 20 صحابہ ضرور ایسے ہیں جو مزارِ ایوبؓ کے اردگرد واقع وسیع و عریض قبرستان میں مدفون ہیں۔ ہمارے گائیڈ مسٹر والکن نے میرے استفسار پر بتایا کہ ان بیس میں سے چار صحابہ کی شناخت موجود ہے، بعض مؤرخین نے ان ہزاروں قبروں کے درمیان سیدنا ابوالدرداءؓ یا سیدنا ابوسعید الخدریؓ کی قبروں کی دریافت بھی کی ہے اور سوشل میڈیا پر شیئر بھی۔ عثمانی عہد، اور بعد کے ادوار کے وزراء، اعیانِ سلطنت اور امراء کے علاوہ شیوخ الاسلام خواہش کرتے کہ وہ اس متبرک مقام و ماحول میں مدفون ہوں، اسی لیے اس کے اردگرد کھلی قبروں اور مسقف مقبروں کی بہت بڑی تعداد جو بلامبالغہ ہزاروں سے بھی زیادہ ہوگی، موجود ہے۔ ہر صاحبِ قبر کا تعارف پختہ سنگی کتبوں پر عربی و فارسی میں تحریر ہے۔ مزار سے باہر نکلتے ہوئے اِن میں سے بعض مقابر پر حاضری اور دعائے مغفرت و بلندیِ درجات کا موقع ہم نے نہ گنوایا۔ فرداً فرداً اُن کے کتبات و لوحات پڑھنے کی فرصت تھی نہ ایسا ممکن تھا، کہ ’’عمرِدراز‘‘ (ویزا) مانگ کر لائے تھے محض آٹھ دن۔ اور آج آخری دن تھا۔
مسجدِ ایوبؓ
مزارِ مبارک کے بالکل سامنے محض چند قدم کے فاصلے پر ترکی کی یہ قدیم ترین مسجد ’مسجدِ ایوب‘ کے نام سے موسوم موجود تھی۔ دو میناروں، ایک مرکزی اور چند چھوٹے گنبدوں والی عثمانی طرزِ تعمیر کی عکاس یہ مسجد قسطنطنیہ کی فتح کے بعد 1458ء میں تعمیر ہوئی۔ اسے ترک زبان میں EYUP SULTAN MOSQUE لکھتے اور تلفظاً ایوب سلطان جامی (جامع مسجد ایوب سلطان) پکارتے ہیں۔ مسجد خوبصورت ہے مگر اس کی تفصیلات سیدنا ابو ایوبؓ کی قدآور، جلیل القدر ہستی کے سامنے دب سی گئیں۔ مزار کے خارجی دروازے کے باہر شاپنگ سینٹرز ہیں، اور دروازے پر ایک بہت بڑا سنگی کتبہ نصب ہے جس پر سنہری حروف میں معروف مورخ ابن الاثیر الجزری کی مشہور کتاب ’’اُسدالغابۃ فی معرفتہ الصحابۃ‘‘ کا اقتباس درج ہے جس میں سیدنا ابو ایوب انصاریؓ کا تعارف پیش کیا گیا ہے اور قبر کی تصدیق کی گئی ہے۔
ہم ڈر رہے تھے جس سے، پھر وہی بات ہوگئی
مزارِ ایوبؓ کی منور و معطر یادیں اور روح پرور منظر قلب و نظر میں سموئے جب مزارِ مبارک سے باہر نکلے، تو ہر فکر اور اندیشے اور شرکائِ قافلہ کی ناراضی کے ڈر اور وقتِ واپسی سے بے نیاز ہوکر اصحابِ قبور کے لیے دعائیں کرتے اور تصاویر بناتے بناتے ہم راستہ کھو بیٹھے۔ اب لگے چھوٹنے پسینے۔ جب تلاشِ بسیار کے باوجود وہ جگہ نہ ملی جہاں ہماری بسیں ہماری منتظر تھیں اور شرکائے قافلہ ہمیں کوسنے میں مصروف، اور منتظمین ہم سے رابطے کی کوشش میں سرگرم۔ ہمارے پاس مقامی فون سم تھی، نہ انٹرنیٹ کنکشن، لوگوں کو انگریزی نہیں آتی تھی، اور ہمیں ترکی۔ لہٰذا اپنی منزلِ مراد سے چند قدموں اور دیواروں کے فاصلے کے اندر ہی بھٹکتے رہے۔ سارے ترکی میں ہم جہاں گئے، بس راستہ بھول جانے کے اندیشے میں گرفتار رہے، اور اسی خوف کے پیش نظر زیادہ گھومنے پھرنے سے بھی گریز کیا، اور بعض نادر و قابلِ دید اور قابلِ رسائی جگہوں سے بھی محروم رہے۔
عربی زبان و ادب کے وقیع و معتبر استاذ، اور دانشور، انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی کے سابق صدر شعبہ عربی ادبیات، معروف ماہرِ امورِ خارجہ عبدالغفار عزیزؒ کے بڑے بھائی، میرے ایم اے عربی کے کلاس فیلو ڈاکٹر حسیب الرحمٰن عاصم کے مشہور شعر کا مصرع نوکِ زباں پر آگیا:
ہم ڈر رہے تھے جس سے، پھر وہی بات ہوگئی
کے مصداق بالآخر ہم بھی مدینے کی نہ سہی، استنبول کی گلیوں میں، صحابیِ رسولؐ کی محبت میں دیوانگی، وارفتگی اور شیفتگی کے عالم میں راستہ بھول بیٹھے۔
راہِ منزل سے بھٹک جانے پر مسلسل تشویش میں اضافہ ہوتا رہا۔ منتظمین کا حکم تھا کہ بروقت واپس آجائیں، تاکہ دوپہر کا کھانا، ایئرپورٹ کا طویل سفر اور رخصتی کے مراحل سے باآسانی اور بروقت نمٹا جاسکے۔ بڑھتی پریشانی کے عالم میں خوشگوار ہوا کا جھونکا تب آیا جب اپنی طرح ایک اور تقریباً ہم عمر جوڑے کو بھٹکتے پایا تو خوشی ہوئی کہ چلو ’’گم راہی‘‘ کے سفر میں ہم اکیلے نہیں۔ بھٹکنے کی داستان طویل ہے، یہ مزید طویل ہوجاتی اگر ایک خاتون قدیم ترکی لباس اور حجاب میں ’’فرشتہ‘‘ بن کر اشاروں سے ہمیں منزل کا پتا نہ دیتیں۔ انہوں نے جس گلی کی نشاندہی کی، اُس پر چند قدم چل کر ہمیں بھیڑوں کا وہ باڑا مل گیا جو مزار پر صدقے کے طور پر چڑھانے کے لیے زائرین کی سہولت کے لیے موجود تھا۔ ہم نے جاتے ہوئے اسی باڑے کو اپنی ’’نشانی‘‘ بنایا تھا، مگر بھول گئے۔ اس کی بُو نے ہمیں اس تک پہنچایا، اور پھر ہم تیز قدم اُٹھاتے درست منزل کی جانب بڑھ گئے، جہاں ’’یارانِ گام‘‘ ہمارے بارے میں متفکر اور خیریت کی دعائوں میں مصروف تھے۔ ہم نے اپنا پسینہ پونچھا، کچھ ٹھنڈی آہیں بھریں، زبانِ حال سے اُن کے سوالوں کے جواب دیے، اور اُن کے تشکر آمیز جذبات کو سلے ہوئے لبوں سے قبول کیا۔ خیر ابھی کچھ بگڑا نہ تھا، واپسی کا سفر شروع ہوا تو ہمارا دُکھ اس طرح ہرا ہوگیا کہ ان ہی راستوں پر ہم بھٹکتے رہے، اور منزل سے چند گز کے فاصلے پر بار بار گزرتے رہے۔ مگر جو ہونا تھا وہ ہوکر رہا۔ ترکی کے سفر کے خواہش مند عقل والوں کے لیے اس میں بھی ایک پیغام و نصیحت موجود ہے۔ بہتر ہے وہ ان مناظر کو کیمرے میں محفوظ کرلیں تاکہ دکھا کر منزلِ مراد کا پتا پوچھا جاسکے۔
یارانِ سفر
سفر کے ساتھیوں کا تذکرہ چلا، تو کچھ مزید یادیں۔
ہمارے یارانِ سفر میں ہر عمر، مزاج، طبقے اور پروفیشنل صلاحیت کے لوگ شامل تھے۔ ڈی جی خان کے میڈیکل ڈاکٹر افتخاریقیناً اچھے پروفیشنل ہوں گے، مگر گلوکار بہت اچھے تھے بلکہ گلوکاری میں استاد۔ پروفیشنل انداز سے گاتے اور رونق لگائے رکھتے۔ ملتان کے مرزا صاحب غالباً دبئی وغیرہ میں کام کرتے تھے۔ جابجا دبئی، ترکی کا موازنہ کرتے رہتے۔ وہاڑی کے نوجوان عرفان پراپرٹی کا کام کرتے تھے، شرکائے سفر کے لیے بہت مہربان اور ہمہ وقت خدمت و معاونت کے لیے تیار۔ سیروسیاحت کے شوقین ملتان کے ڈاکٹر سلطان سنجیدہ اور باوقار شخصیت تھے۔ ترکی میں مسلسل مصروفیات اور انواع و اقسام کے کھانوں نے عین اُس روز جب ہم استنبول کے قدیم علاقے میں بھرپور دن گزارنے ایا صوفیہ، توپ کاپی اور نیلی مسجد پہنچے، مگر انہوں نے ہمت کی اور ایا صوفیہ کی ویڈیوز بناتے پائے گئے۔ لاہور کے نوجوان، علامہ طاہرالقادری کے عقیدت مند شاذب چودھری اور اُن کی نئی نویلی دُلہن غالباً ہنی مون پر تھے… ایک خوبصورت جوڑا… سب کی محبتیں اور دعائیں سمیٹتے رہے۔ لاہور سے دو مکمل فیملیز شریکِ سفر تھیں۔ بچے بڑے، مرد و خواتین۔ ان میں لاہور کی محترمہ سامیہ اسلم بھی اپنی فیملی کے ساتھ تھیں۔ گلبرگ لاہور میں ان کا یوگا اسٹوڈیو ہے، انہوں نے جہاں جہاں موقع ملا یوگا کے خصائل و کمالات سے آگاہ کیا۔ استنبول سے پرنسس آئی لینڈ جاتے ہوئے تو انہوں نے فیری کے عرشے پر یوگا پر سیر حاصل لیکچر دیا۔ لاہور سے رانا اسلام، اُن کے بھائی اور بھتیجا۔ بھتیجے نے اپنے چچا کو سارے سفر میں نچائے اور ستائے رکھا۔ یہ اُن کے پیار و محبت کی علامت تھی، ہم اس سے محظوظ ہوتے رہے۔ لاہور ہی کے ریٹائرڈ ایجوکیشنسٹ میاں بیوی سعید صاحب اور اُن کی اہلیہ اپنے تجربات سے بھی مستفید کرتے رہے اور ضرورت پڑنے پر آزمودہ اور سریع الاثر میڈیسن بھی فراہم کرتے رہے۔ فیصل آباد کے واحد ساتھی علامہ الیاس قادری کے عقیدت گزار طارق عطاری صاحب سنجیدہ و متین شخصیت ہیں۔ مزاراتِ مقدسہ پر ادب و احترام اور عقیدت سے سرشار رہتے۔ بورصا میں ایک شاپنگ سینٹر میں کسی دوست کی فرمائش پر کوئی خاص قسم کا اسپغول تلاش کرتے رہے۔ میری مدد بھی حاصل کی۔ مگر ہم ترک سیلز مین کو عربی، انگلش میں کوشش کے باوجود مقصود و مطلوب اور مدعا نہ سمجھا سکے۔ اُس کا انداز اور ترجیح ڈسپلے میں موجود سامان فروخت کرنا ہی تھا، وہ اُسی میں مصروف رہا، اور ہمیں شوگر اور بلڈ پریشر کے لیے مخصوص جڑی بوٹی فروخت کرنے میں کامیاب ہوگیا، جو ہم نے یہاں آکر ایک بار بھی استعمال نہیں کی۔ کراچی اور بیرونِ ملک برطانیہ کے کچھ مرد و خواتین بھی شریکِ سفر تھے۔
ہماری بس نمبر ایک میں فرنٹ سیٹ پر ملتان اور اسلام آباد کی تین بچیاں بیٹھتیں، جو گائیڈ مسٹر والکن سے مسلسل نوک جھونک اور اُسے پنجابی سکھانے، شادی کے ماہیئے گوانے میں مصروف رہتیں، اور وقتاً فوقتاً ارطغرل ڈرامے کے کرداروں اور مقامات سے آگاہ کرتی رہتیں۔ انہوں نے خوب جی بھر کر شاپنگ کی اور پیسے اس طرح لٹائے کہ پنجابی محاورے کی مانند ’’لیرولیر‘‘ ہوگئے۔ پنجابی میں ’’لیر‘‘ کا مطلب ٹکڑا، کپڑے کی کترن… یعنی سب کچھ ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ ترک کرنسی ’’لیرا‘‘ کی نسبت سے اس محاورے نے بڑا لطف دیا، اور ہر شاپنگ کے بعد مسلسل گونجتا رہا۔ ایک بچی جو ملتان کی یونیورسٹی میں ماس کمیونی کیشن کی طالبہ تھی ’’ڈیلی پاکستان‘‘ کا مائیک لیے ویڈیو بھی بناتی اور ٹور کے اہم مقامات بالخصوص ’’ارطغرل‘‘ کے مزار کو فلماتی رہیں۔ بعدازاں اپ لوڈ ہونے پر ہزاروں لوگوں نے اسے پسند کیا۔
اے آر وائی کے مقبولِ عام پروگرام ’’سرِعام‘‘ کے میزبان اور انویسٹی گیٹر جناب اقرار الحسن سارے سفر میں سب کے ساتھ گھل مل کر رہے۔ لوگ اُن کے ساتھ گپ شپ لگاتے، سیلیفیاں بناتے۔ مہذب، بااخلاق، وجیہ و شکیل نوجوان… وسیع مطالعہ اور مشاہدہ ان کی شخصیت کا نمایاں پہلو تھا۔ ’’سرعام‘‘ پروگرام کے تحقیقی اور ابلاغی مراحل پر تفصیلی بات ہوئی اور بڑے دلچسپ واقعات سامنے آئے۔ رائل سلطان ٹور گروپ کے چیف ایگزیکٹو ارسلان اپنے بھاری بھرکم وجود، اور آرگنائزر آصف خان اپنی ہمہ وقت آمادۂ خدمت شخصیت کے باعث تمام شرکائے سفر کے محورِ نظر تھے۔ سب کے آرام کا خیال رکھنا، ضروریات پوری کرنا، نخرے اُٹھانا، روٹھوں کو منانا، اگلا پلان بنانا، آگاہ کرنا، تصاویر شیئر کرنا، اطلاعات پہنچانا ان کا مستقل معمول تھا۔ اس طرح یہ ایک فیملی اورینٹڈ ٹرپ تھا۔ بے تکلفی، خوش گپی، باہمی موافقت و معاونت کے ماحول میں ایک یادگار سفر۔
(جاری ہے)