پاکستان نصف صدی قبل جون 1971

252

(گزشتہ سے پیوستہ)
۱۱؍ جون ۱۹۷۱ء کو امریکی سینٹ میں برسر اقتدار اور حزب مخالف نے ایک مشترکہ قرارداد کی منظوری دی۔ جس کے تحت پاکستان کو دی جانے والی ہر قسم کی مالی و فوجی امداد اس وقت تک بند کردی گئی ، جب تک وہ بھارت میں پناہ لینے والے بنگالیوں کو واپس قبول نہیں کرلیتا۔اسی ماہ کے آخری عشر ے میں عالمی بینک کے کنسورشیم نے بھی انہی بنیادوں پر پاکستان کی امداد بند کرنے کا اعلان کردیا۔
اس وقت کے صدر جنرل یحییٰ خان نے ۲۸؍ جون کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے شیخ مجیب الرحمن پر علیٰحد گی اورغداری کا الزام عائد کیا اور اعلان کیا کہ ماہرین کی ایک ٹیم ملک کا آئین تیار کرے گی۔ جس میں قومی اسمبلی ترمیم کی مجاز ہوگی ۔ انہوں نے مشرقی پاکستان میں اسمبلیوں کی خالی نشستوں کو ضمنی انتخابات کے ذریعہ پر کرنے کا بھی اعلان کیا۔ انہوں نے ان سیاسی جماعتوں پر پابندی کے امکانات کی طرف بھی اشارہ کیا جو عملاً قومی حیثیت کی حامل نہیں ہیں۔
بھٹو صاحب نے صدر یحییٰ کی تقریر پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئین سازی کا حق نامعلوم ماہرین کے بجائے صرف منتخب عوامی نمائندوں کو حاصل ہے۔ انہوں نے علاقائی جماعتوں پر پابندی کی تجویز پر بھی تنقید کی اور کہا کہ اس طرح پیپلز پارٹی جیسی جماعت کو بھی، جسے مغربی پاکستان سے اسمبلیوں کی نشستوں پر بھاری کامیابی حاصل ہوئی ہے ، علاقائی جماعت قرار دیا جاسکتا ہے اور کسی بھی چھوٹی جماعت کو جس کے پاس ملک کے دونوں بازوؤں سے ایک ایک دو دو نشستیں حاصل کی ہیں، قومی جماعت کہا جاسکتا ہے۔ انہوں نے دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اگر ان کی جماعت پر پابندی عائد کی گئی تو اس کے نتائج پوری دنیا دیکھے گی۔ مشرقی پاکستان میں ضمنی انتخابات پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر یہ انتخابات آزادانہ ماحول میں ہوئے تو ان میں ضرور شرکت کریں گے ، لیکن اگر ان کا مقصد عوامی لیگ کے بجائے آرمی لیگ کو لانا ہے تو ہمیں اس موضوع پر دوبارہ غور کرنا پڑے گا۔ جون ہی میں موسم برسات کے دوران بھارت نے مشرقی پاکستان میں اپنی جارحانہ مہم تیز کردی اس کا مقصد پلوں کی تباہی کے ذریعہ ذرائع مواصلات میں رکاوٹ ڈالنا اور عوام کو دہشت زدہ کرنا تھا۔جنرل یحییٰ نے معتدل مزاج بنگالیوں کی تالیف قلب کے لئے سیاسی سرگرمیوں کی بحالی کا وعدہ کیا مگر ان کی یہ نیم دلانہ کوشش کسی منظم اقدام اور واضح پروگرام کی عدم موجودگی اور اعتماد میں کمی کی وجہ سے نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکی۔
اسی دوران پاک فوج مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی سے نمٹنے میں مصروف تھی۔ اس خانہ جنگی کے پس پشت بھارت تھا اور ’’ہمارے اپنے ‘‘ مکتی باہنی کے روپ میں۔ ابتداء میں تو ان کی کارروائیوں میں شدت نہ تھی، لیکن جون آتے آتے ان کی کارروائیوں میں نہ صرف شدت بڑھتی گئی بلکہ ان کا دائرہ بھی وسیع ہوتا چلا گیا۔ بھارت نے مشرقی پاکستان کی سرحدوں پر مکتی باہنی کے تربیتی کیمپ قائم کئے تھے جن کی ابتدا میں تعداد کم تھی ۔ لیکن اس کے بعد بتدریج اضافہ ہوتا گیا۔ہر کیمپ میں مقررہ تربیتی مدت کے دوران پانچ سو سے دو ہزار افراد کو تربیت دینے کی گنجائش تھی۔
ان باغیوں کے لئے ہتھیار اور دوسرا جنگی سامان حاصل کرنے میں شروع شروع میں بھارت کو دشواری کا سامنا کرنا پڑا لیکن روس سے معاہدۂ دوستی ہوجانے کے بعد یہ مشکل آسان ہوگئی۔ فن حرب سے متعلق ایک مطالعاتی اور تجزیاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق روسی حکومت نے بھارت کو یقین دلایا کہ مکتی باہنی کو دئیے گئے ہتھیاروں کی جگہ مزید ہتھیار دئیے جائیں گے تو بھارت نے باغیوں کو اسلحہ کی فراہمی میں اضافہ کردیا۔
اسی دوران یہ اطلاع بھی ملی کہ مشرقی یورپ میں دوسری جنگ عظیم کے متروک روسی اسلحہ کے ڈھیر لگے تھے، جنہیں بھارت کو فراہم کیا گیا۔ ہتھیار حاصل کرنے کا ایک اور بڑا ذریعہ براہ راست خریداری تھی، جو بنگلہ دیش کی جلاوطن حکومت بھارت اور روس کی مدد سے غیرملکی منڈیوں سے خریدتی تھی۔ اس کے لئے ’’بنگلہ دیش‘‘ کے غیر سرکاری سفیر برطانیہ اور امریکا میں فنڈ جمع کرتے تھے۔ دوسری جانب پاک فوج کے وسائل بہت محدود تھے، مشرقی پاکستان میں ایک ہزار ۲۶۰ افسر اور اکتالیس (۴۱) ہزار سے زائد سپاہی تھے، جن کے ذمے پچپن (۵۵) ہزار ۱۲۶ مربع میل علاقے کا دفاع تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے مشہور گوریلا لیڈر ٹی ای لارنس نے اپنی کتاب Seven Pillars of Wisdomمیں لکھا ہے کہ ہر چار مربع میل قطعہ ٔ اراضی کے تحفظ کے لیے بیس سپاہی درکار ہوتے ہیں۔ لارنس نے یہ تناسب صحرائی جنگ کے تناظر میں مقرر کیا تھا جہاں نگاہ کافی دور تک جاتی ہے، مگر مشرقی پاکستان میں گھنے جنگلوں اور درختوں کی وجہ سے حدِ نظر خاصی محدود تھی اس کا مطلب یہ تھا کہ اس خطے کے تحفظ کے لئے کم ازکم تین لاکھ پچھتر(۷۵) ہزار سے زائد نفری درکار تھی، یعنی دستیاب وسائل سے تقریباً سات گنا زیادہ ۔ ایک غیرملکی صحافی ڈیوڈ لوشک نے مطلوبہ تعداد کا اندازہ کم ازکم دولاکھ پچاس ہزار لگایا تھا۔
ان نامساعد حالات کے باوجود پاک فوج نے ڈٹ کر باغیوں کا مقابلہ کیا اور پورے آٹھ ماہ تک اپنے پاؤں میں لغزش نہ آنے دی۔ اس نے اہم ضلعی ہیڈکوارٹرز اور سب ڈویژنل ہیڈکوارٹرز سمیت تمام بڑے بڑے شہروں اور قصبوں کو مکتی باہنی سے محفوظ رکھا۔ تین سو ستر(۳۷۰) سرحدی چوکیوں میں سے دوسو ساٹھ (۲۶۰) کو اپنے قبضے میں رکھا۔
فوج نے اپنی کارروائیوں کے لیے بڑے بڑے شہروں میں اپنا اڈاہ یا ہیڈکوارٹر بنا رکھا تھا۔ جہاں سے فوجی دستے گردونواح کے علاقوں میں باغیوں کی سرکوبی اور تخریبی کارروائیوں کی روک تھام کے لئے جایا کرتے تھے۔ شروع شروع میں یہ فوجی بڑی پھرتی مستعدی سے نقل وحرکت کرتے اور باغی ان کا مقابلہ کئے بغیر بھاگ جاتے ۔ بعد میں تھکاوٹ کے آثار ابھرنے لگے اور ہمارے فوجی صرف اسی وقت کارروائی کرتے جب وہ ناگزیر ہوجاتی ، خواہ مخواہ اصلی یا نقلی تخریب کاروں کا پیچھا نہ کرتے۔ مدافعت سے بچنے کے لئے عام طورپر باغی کچے راستوں سے آتے جاتے تھے جبکہ فوجی اکثر پکی سڑکیں استعمال کرتے تھے۔ رنگپور سے ایک باغی نے سرحد پار اپنے ایک رفیق کار کو خط لکھا کہ پاکستانی فوج ہمیں کبھی نہیں پکڑ سکتی کیونکہ وہ عام شاہراہوں، کشتیوں کے اڈوں اور بڑے بڑے گھاٹوں کی رکھوالی میں مصروف رہتی ہے جبکہ ہم متروک راستے استعمال کرتے ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ وہ کشتی کی تلاشی لیتے وقت یہ نہیں دیکھتے کہ اس کی نچلی سطح میں کیا رکھا ہے۔ اس کے علاوہ یہ عموماًامام مسجدوں اور امن کمیٹی کے ارکان کے گھروں پر نظر نہیں رکھتے جبکہ یہی ہماری پناہ گاہیں ہیں ۔ ہمارا طریقہ کار مکارانہ، مگر ہمارا مقصد عظیم ہے یقینا فتح ہماری ہوگی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تخریب کاروں کی تیکنیک میں بھی نفاست آتی گئی۔ شروع شروع میں وہ بُوبی ٹریپ اور سیفٹی والو استعمال کرتے تھے ۔ جب انہیں پتا چلا کہ پاک فوج ان سے بچنے کی تدبیر کرنے لگی ہے۔ مثلاًفوجی قافلے کے آگے خالی چھکڑا یا کوئی اور خالی گاڑی چلادیتے ہیں تو تخریب کاروں نے ریموٹ کنٹرول دھماکہ خیز مواد استعمال کرنے شروع کردئیے ، جن کی مدد سے وہ چلتی گاڑی کو اپنی مرضی سے اڑ ا سکتے تھے۔ اسی طرح پہلے وہ ڈائنمو اپنے ساتھ لاتے تھے، مگر بعد میں ڈرائی بیٹری سیل استعمال کرنے لگے۔
بحری علاقوں میں انہوں نے اپنے طریقہ کار کو بہتر بنایا۔ پہلے وہ بارودی سرنگ وغیرہ کسی ساکن جہاز یا کشتی سے باندھ جاتے تھے۔ مگر بعد میں لمپٹ مائن استعمال کرنے لگے، جس کے منہ پر مقنا طیس لگا ہوتا جو ٹارگٹ کے قریب آکرخودبخود اس سے چپک جاتا اور مطلوبہ وقت پر پھٹ جاتا ۔ جب یہ کام بھی ناکافی لگا تو انہوں نے بھارت کے تربیت یافتہ غوطہ خور بھیجنے شروع کردئیے جو زیر آب تیرتے ہوئے جہاز وغیرہ کے پاس آتے اور اس سے تباہ کن سرنگ چپکا کر خاموشی سے واپس چلے جاتے۔ بھارت نے ایسے تین سو غوطہ خور تیار کئے تھے۔
اتنا زیادہ نقصان پہنچانے کے لئے جس جذبے کی ضرورت تھی ، اس کا اندازہ ایک واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے ۔ وہ واقعہ جون کے مہینے میں روحانپور میںپیش آیا ۔ تخریب کاری کے شبے میں ایک نوجوان بنگالی کو پکڑ کر کمپنی ہیڈکوارٹرز میں لایا گیا۔ اس سے پوچھ گچھ کی گئی، مگر اس نے زبان کھولنے سے انکار کردیا۔ جب سارے ہتھکنڈے ناکام ہوگئے تو میجر نے اپنی اسٹین گن اس کے سینے پر رکھ کر کہا کہ بتاؤ، ورنہ تمام گولیاں تمہارے سینے کے پار ہوجائیں گی۔ وہ نیچے جھکا ، زمین کو بوسہ دیا اور آسمان کی طرف منہ کرکے کہنے لگا کہ اب میں موت کی آغوش میں جانے کو تیار ہوں۔میرا خون اس مقدس سرزمین کو یقینا آزادی سے ہمکنار کرے گا۔
پاک فوج کو نہ صرف ایسے جذبوں کا سامنا تھا، بلکہ اس کی مشکلات میں مقامی موسم بھی بہت رکاوٹ تھا، خاص طور پر برسات کا موسم بہت سخت ہوتا تھا۔ کیونکہ ہمارے سپاہی عام طورپر پنجاب یا خیبر پختونخوا سے تعلق رکھتے تھے اور تیراکی یا کشتی رانی سے عموماً واقف نہ تھے۔ اس کے برعکس تخریب کار مچھلی کی طرح پانی سے مانوس تھے اور وہ کبھی تیر کر اور کبھی کشتی میں بیٹھ کر اپنا کام کرجاتے تھے۔ کئی دفعہ ان کے تعاقب میں ہمارے سپاہیوں کی کشتی یا تو خودبخود الٹ گئی یا تخریب کاری کا نشانہ بن گئی۔ بعض مقامات پروہ شرپسندوں کے تعاقب میں پیدل پانی یا دلدل میں گھس جاتے جہاں سمندری گھاس یا جونکیں ان کی ٹانگوں سے لپٹ جاتیں ۔
بریگیڈئیر صدیق سالک کے مطابق فوجی کارروائیوں کے دوران لوٹ مار، قتل و غارت اور آبروریزی کے بھی تھوڑے بہت واقعات ہوئے۔ لیکن ان چند واقعات کی وجہ سے پوری پاک فوج کی رسوائی ہوئی۔آبروریزی کی مجموعی طور پر نو (۹) وارداتیں ہوئیں اور ان میں ملوث تمام مجرموں کو عبرتناک سزائیں دی گئیں لیکن ان سزاؤں سے پاک فوج کی رسوائی کا داغ دھویا نہ جاسکا۔ ایسے واقعات کی مجموعی تعداد کا تو اندازہ نہیں، لیکن ایسا ایک واقعہ بھی پوری فوج کو رسوا کرنے کے لیے کافی تھا۔ ان غیر ذمہ دارانہ حرکات نے بنگالی عوام کو بدظن کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اگرچہ پاک فوج پہلے بھی ان کی نظروں میں پسندیدہ نہ تھی۔ لیکن ایسے واقعات سے وہ پاک فوج سے سخت نفرت کرنے لگے۔ اس نفرت کو کم کرنے کے لیے مثبت کوششیں نہیں کی گئیں۔ لہٰذا مشرقی پاکستان کی اکثر آبادی پاک فوج کو غیرملکی قابض فوج تصور کرنے لگی۔ صرف اسلام پسند بنگالی عناصر نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر فوج سے تعاون کیا۔اسی دوران پیپلز پارٹی کا ایک وفد ڈھاکہ گیا اور اس نے جنرل نیازی سے شکایت کی کہ انہوں نے جماعت اسلامی کے کارکنوں پرمشتمل نئی فوج تیارکرلی ہے۔ اس پر جنرل نیازی نے احکامات جاری کئے کہ آئندہ سے رضاکاروں کو البدر اور الشمس کے ناموں سے پکارا کرو تاکہ پتا چلے کہ ان کا تعلق صرف ایک پارٹی سے نہیں۔
البدر اور الشمس رضاکاروں نے پاکستان کی سلامتی کے لئے اپنی زندگیاں وقف کررکھی تھیں۔ وہ ہر وقت پاک فوج کے حکم پر لبیک کہتے تھے۔ انہیں جو کام سونپا جاتا ، وہ پوری دیانتداری اور بعض اوقات جانی قربانی دے کر انجام دیتے ۔ اس تعاون کی پاداش میں تقریباً پانچ ہزار رضاکاروں یا ان کے خاندانوں نے شرپسندوں کے ہاتھوں نقصان اٹھایا۔ ان کی قربانیاں روح کو گرما دیتی تھیں۔ مثلاً نواب گنج تھانے میں واقع ایک گاؤں گالپور میں شرپسندوں کو سرکوبی کے لئے ایک فوجی دستہ بھیجا گیا جس کی رہنمائی کے لئے الشمس کا ایک رضاکار ان کے ساتھ گیا۔ مشن کامیاب رہا اور باغیوں کو ٹھکانے لگادیا گیا، لیکن جب وہ واپس اپنے گاؤں پہنچا تو پتا چلا کہ شرپسندوں نے اس کے تین بیٹوں کوشہید اور اس کی اکلوتی بیٹی کو اغوا کرلیا ہے۔
اسی طرح گماسپور(راجشاہی ) میں ایک پل کی حفاظت کے لئے الشمس کا ایک رضاکار تعینات تھا۔ اسے باغیوں نے آدبوچا اور سنگینیں مار مار کر مجبور کرنے لگے کہ جئے بنگلہ کا نعرہ لگاؤ، مگر وہ آخر دم تک پاکستان زندہ باد کہتا رہا۔
البدر کے ایک کمانڈر محمد کمال ( فرید پور) کے بقول ماہ جون میں فرید پور کے علاقے میں البدر کی تشکیل ہوئی ، ۲۹۔ بلوچ رجمنٹ کے میجر عطاء محمد نے نگرانی کی پہلے گروپ میں ۲۸۰کارکنان جمعیت نے البدر کے تحت باقاعدہ تربیت حاصل کی۔ تربیت کے فوری بعد ہم آپریشن کے لئے گئے۔ اس آپریشن میں البدر کے دس اور فوج کے پانچ جوان تھے۔ رات دو بجے جب ہم لوگ شرپسندوں کے مرکز کے قریب پہنچے تو فائرنگ کا آغاز دشمن کی جانب سے ہوا لیکن ہماری جوابی فائرنگ سے وہ فرار ہوگئے اور ان کے مرکز پر ہمارا قبضہ ہوگیا۔ اس آپریشن میں کیپٹن ہدایت اللہ ہمارے ساتھ تھے۔ صبح صادق کے وقت ہم واپس اپنے کیمپ میں خیریت سے پہنچ گئے۔ دشمن پچیس لاشیں چھوڑ کر فرار ہوا تھا۔
فرید پور سے تین میل دور اوکتاپور گاؤں میں مسلم لیگ کے ایک چیئرمین کے گھر پر مکتی باہنی نے حملہ کردیا ، ان کا گھر لوٹ لیا اور خواتین کی آبروریزی کی۔ چیئرمین صاحب کسی طرح بچتے بچاتے ہمارے پاس پہنچے اور اپنی دردناک کہانی سنائی، ہم نے بدلہ لینے کا فیصلہ کیا اور تیس البدر ابوالحسن بھائی کے زیر قیادت اور تیس پاک آرمی کے جوان کیپٹن فیاض کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ ہم نے تیس تیس افراد پر مشتمل دو دستے تیار کئے اور پیشقدمی کی ، ابھی ہم اپنے ہدف سے ایک کلومیٹر دور تھے کہ دشمن نے فائر کھول دیا۔ ہم نے جواب دینے کے بجائے دشمن کا گھیراؤ کرنے میں زیادہ تیزی دکھائی، لیکن وہ گھیرے میں آنے کے بجائے ایک ایک دو دو کرکے تتر بتر ہوگئے۔ پھر بھی ان کے گیاہ افراد ہلاک ہوئے۔ جب ہم چیئرمین کے گھر پہنچے تو وہاں سے بھارتی ساختہ ۲۵۷ گرینیڈ، اسٹین گن کی کئی ہزار گولیاں، ۱۷ پستول اور ایک طاقت ور دوربین ملی۔
(حوالہ جات: البدر از سلیم منصور خالد، میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا از صدیق سالک، پاکستان کیوں ٹوٹا از ڈاکٹر صفدر محمود، pakistan Divided)

حصہ