سود

بینک کا سود:
سچ یہ ہے کہ بینک زیادہ تر سود خوروں کی باضابطہ کمیٹیوں کا نام ہے۔ لیکن جب اس کا تنظیمی و اختیاری عملہ وہ نہیں ہوتا جن سے مسلمانوں کو روکا نہیں گیا ہے تو اب اس کمیٹی کی ممبری یا رکنیت نہیں ہے بلکہ اس کمپنی سے معاملہ ہے جو لوگوں کو سود پر قرض دیتی ہے؟ کن سے سودلیتی ہے؟ یہ اس کا اپنا معاملہ اور جدید عقد ہے جس سے اس معاملہ کو قطعاً نسبت نہیں جو ایک مسلمان نے ارباب بینک سے کیا ہے‘ بلکہ بین الملی قوانین کے جو دفعات آئین اسلامی سے گزر چکے ان کو سامنے رکھتےکے بعد بینک والوں کے سارے کاروبار جس کسی سے ہوں صحیح ہو جاتے ہیں۔
ہاں میں نے پہلے بھی کہا ہے اور اب بھی کہتا ہوں اور ہمیشہ کہوں گا کہ جو ایسا کرتے ہیں وہ وطن کی پاسبانی نہیں کر رہے ہیں۔ وطن والوں کے ساتھ‘ وطن کے مزدوروں کے ساتھ اچھا نہیں کر رہے ہیں لیکن جو وطن کا محافظ ہے‘ جس حکومت کو وطن کے باشندوں کی نگرانی سپرد کی گئی ہے‘ جب وہی ان معاملات کو وطن کی بہبودی اور ترقی کا ذریعہ سمجھتی ہے اور خود وطن والے بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں تو مسلمان وطن کی وفاداری میں کیا اپنی قوم سے غداری کریں۔ حالانکہ وطن تو وطن ان پر تو خاندانی حقوق کے سلسلے میں بھی قومی غداری حرام ہے۔ قرآن کا عام اعلان ہے۔ ’’تمہارے رشتے اور تمہارے بچے قیامت کے دن کام نہیں آئیں گے۔ خدا تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اسے دیکھ رہا ہے۔‘‘ (الممتحنہ:3)یہ صحیح ہے کہ ہمیں صبر کا حکم دیا گیا ہے اور خاص وقت تک صبر ہی ہمارے لیے بہتر ہے۔ لیکن کیا قانون صبر کے ساتھ ’’مجازاۃ بالمثل‘‘ کی بھی قرآن ہی نے تعلیم نہیں دی ہے؟
’’اگر تم پر زیادتی کی جائے تو تم بھی اتنی ہی زیادتی کرو جتنی تم پر کی گئی اور صبر کرو گے تو صبر کرنے والوں کے لیے یہی بہتر ہے۔‘‘ (النحل 126)
’’اپنے ہاتھوں سے اپنے کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔‘‘ (البقرہ:195)
فے کا نہ لینا وطنی جرم بھی ہے:
بلکہ سوچنے والے تو یہ کہتے ہیں کہ اس فے کا نہ لینا صرف اپنی قوم کے ساتھ ہی نہیں بلکہ وطن والوں کے ساتھ بھی دشمنی ہے۔ زہر کھانے والے کو دیکھ کر صرف دل میں افسوس کرنا یہ حقیقی ہمدردی ہے؟ یا آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے کا چھین لینا سچی بہی خواہی ہے۔
’’تم میں سے کوئی بری بات دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے۔ نہ زور رکھتا ہو تو زبان سے اسے پلٹے‘ اس کی بھی مجال نہ ہو تو دل سے برا جانے اور یہ بڑے کمزور ایمان والا ہے۔‘‘
حدیث کی ساری کتابوں میں سیکھتے ہو‘ لیکن پھر بھی ایمانی ضعف کے دائرے سے نکلنے کی لوگوں میں جرأت نہیں ہوتی خصوصاً جب استطاعت بھی ہو‘ حکومت کی قوت تمہارے ساتھ ہو‘ وطن والے اس معاملے میںتمہارے ہمنوا ہوں تو بتائو تمہارے لیے کیا عذر باقی رہا؟ کیا جو لوگوں کے گال پر تھپڑ مارتا ہے وہ جرم کے نتائج و آثار کو اس وقت تک سمجھ سکتا ہے جب تک کہ خود اس کے رخساروں کو بھی اسی گزند کی خوراک نہ دی جائے جس کو اب تک اس نے نہیں چکھا ہے۔اگر ایسا نہ کیا جائے گا تو وہ بے چارے غریب انسانوں کی نازک کھالوں کو اپنی انگلیوں میں قوت پیدا کرنے کی مشق گاہ خیال کرے گا۔
ہو سکتا ہے کہ جو گزند آج مسلمانوں کو پہنچایا جارہا ہے جب اس کا احساس دوسروںکو بھی ہوگا تو ممکن ہے کہ حکومت ہی ان معاملات کو قانوناً بند کر دے۔ اگر وہ ایسا کرے گی تو اس وقت سب سے پہلے اس قانون کی تعمیل کے لیے جن کا سر مذہب جھکا دے گا وہ اس نبیؐ کی امت ہوگی جو دنیا میں اعلیٰ اور برتر مکارم اخلاق کی تکمیل ہی کے لیے مبعوث ہوئے۔ ’’ہم مسلمان سب سے پہلے عمدہ بلند احکام کے حق دار ہیں۔‘‘ اس وقت ہم مذہب کے مجرم ہوں گے اگر قانونِ وقت کے ساتھ غدر کریں گے‘ اگر حکومت نے بھی نہ سنا تو کیا تم تعجب کرتے ہو کہ جو دکھ مسلمانوں کو پہنچا جب اسی میںدوسرے پڑیں گے تو ’’دہن توپ‘‘ کے اس وعظ سے وطن والے اسی طرح لاپروائی برتیں گے جس طرح وہ زبان و قلم کے واعظوں پر قہقہے لگاتے رہے ہیں۔ اگرانہوں نے آگے چل کر ہم سے ان معاملات کے اٹھا دینے کا کبھی معاہدہ کیا تو مسلمانوں کو ان کے خدا نے اس کی اجازت نہیں فرمائی ہے کہ ’’اللہ تم کو ان لوگوں سے نہیں روکتا جو دین میں تم سے نہیں جھگڑتے اور تم کو وطن سے بے وطن نہیں کرتے کہ ان لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور ان کے ساتھ انصاف کرو انصاف کرنے والوں کو خدا پیار کرتا ہے۔‘‘ (الممتحنہ: 8)
ایسے معاہدوں پر جو امت سب سے پہلے دستخط کرے گی وہ وہی ہوگی جو تمام دنیا کے لوگوںکو نفع پہنچانے کے لیے ظاہر کی گئی ہے‘ ہم دل سے بھی ان معاملات کو برا جانیںگے‘ زبان سے اس پر اصرار کریںگے‘ حکومت کو بھی ادھر بار بار توجہ دلائیں گے‘ وطن والوں سے بھی کہیں گے جس طرح اب تک کہا ہے آئندہ بھی کہیںگے‘ زور سے کہیں گے اور مسلسل کہیں گے‘ ہم کو وطن سے بے وطن اور اپنے گھروں سے بے گھر بنانے پر وہ جس قدر بھی چاہیں اصرار کریں‘ لیکن ہم ان کی بہی خواہی میں کبھی کمی نہ کریں گے اور اسی بہی خواہی کے سلسلے میں زبان سے آگے بڑھ کر ہم ہاتھ سے بھی اپنے ’’بری باتوں سے روکنا۔‘‘ اور ’’اچھی جانی پہچانی باتوں کا حکم دینا۔‘‘ کے آسمانی فریضہ کو ادا کریںگے جس کے لیے ہم بنائے گئے ہیں تاایں کہ وطن کے فرزندوں کا‘ ہمارے پڑوسیوں کا اس کی خرابی و ضرر رسانی پر اتفاق ہو جائے۔ ٹوٹے ہوئے دل یوں ہی ملیں گے اور وہ تو ان شاءاللہ ایک دن مل کر ہی رہیں گے۔
اسلامی حکومتوں اور ریاستوںکا حکم:
مسئلہ ختم کرنے سے پہلے چند باتیں اور بھی قابل ذکر رہ جاتی ہیں‘ آخر ان کو کیوں چھوڑا جائے۔ جب اسلامی قوانین ہماری رہنمائی دوست گیری کے لیے ہر حال میں تیار ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن اسلامی ممالک میں شرعی قانون کسی نہ کسی وجہ سے اٹھ گیا ہے ان کا کیا حکم ہے؟ ہاں وہاں کے حکام دولاۃ سلاطین و ملوک تو مسلمان ہیں۔ شامی میں اس کا فتویٰ موجود ہے کہ اگرسلاطین اسلام ان ممالک میں اسلامی قوانین کے نفاذ کی نہیں کرتے تو ایسا ملک دارالسلام ہی رہے گا۔ کہتے ہیں (ترجمہ) ’’اور اس سے معلوم ہوا کہ شام کا علاقہ کوہ تیم اللہ جس کا عام نام جبل دروز ہے اور دوسرے شہر جو اس کے تابع ہیں سب دارالاسلام ہیں کیوں کہ اگرچہ وہاں دروزیوں کا یا عیسائیوں کا قانون ہے اور ان کے جج و حکام انہی کے مذہب کے ہیں اور ان میں بعض علانیہ مسلمانوں کو اور اسلام کو گالیاں دیتے ہیں‘ لیکن چونکہ اسلامی حکومت کے ماتحت ہیں اور اسلامی ممالک ان کو چاروں طرف سے محیط ہیں اور مسلمانوں کا امیر اگر چاے تو ان میں ہمارے (یعنی اسلامی) احکام نافذ کرسکتا ہے۔‘‘
اس سے ظاہر ہے کہ جن ممالک میں مسلمان سلاطین یاولاۃ امور باوجود ارادے کے اسلامی احکام کے نفاذ پر قادر نہ ہوں اور وہ دارالاسلام باقی نہ رہ سکتے۔ واللہ اعلم بالصواب۔باقی یہ مسئلہ کہ اس قسم کے غیر اسلامی ممالک میں جمعہ‘ عید وغیرہ کا نظم کس طرح ہوگا‘ شامی میں اس کے متعلق موجود ہے:
’’ہر وہ شہر جہاں کا رئیس کفار کی منظوری سے ہوا‘ اس کی جانب سے جمعہ اور عید کا قیام کرنا جائز ہے اور اس ملک کا خراج لینا بھی نیز عدالت کے قضاۃ (حکام) کے تقرر کا بھی اسے اختیار ہے‘ اوربیوائوں کی شادی بھی وہی کر دے۔‘‘
لیکن جس غیر اسلامی ملک میں غیر اسلامی حکومت کا کوئی تسلیم شدہ مسلمان رئیس نہ ہو تو اس کے متعلق یہ حکم ہے ’’لیکن ایک ایسا ملک جہاں کے ولاۃ کفار ہین تو مسلمان کو یہ جائز ہے کہ اس شہر میں بھی خود جمعہ اور عیدین قائم کریں‘ قاضی مسلمان باہمی سمجھوتہ سے مقررکر لیں‘ لیکن ان پر مسلمان رئیس کی تلاش واجب ہے۔‘‘اسی سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ جن مسائل میں مسلمانوں کو ’’قضاء شرعی‘‘ کی ضرورت پیش آتی ہے ’’دینِ کامل‘‘نے غیر اسلامی ممالک میں اس کا کیا چارۂ کار بتایا ہے اور غالباً اس تفصیل کے بعد عہدِ حاضر کے اسلامی ممالک کے احکام واضح ہو گئے۔
(1) مسئلہ کی تعبیر میں ضرور مسامحت ہوئی ہے جس سے شدید غلط فہمی کا اندیشہ ارقام فرمایا گیا ہے کہ ’’غیر اسلامی حکومتوں کے ماتحت ربوٰ‘ ربوٰ نہیں رہتا۔ الخ۔ اس سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ فقہ حنفی میں ہر شخص خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم‘ اس کے ساتھ اس قسم کے معاملات جائز ہیں اور ان کے اموال غیر معصوم و مباح ہو جاتے ہیں حالانکہ مقصد یہ نہیں ہے بلکہ یہ حکم صرف ایسی غیر اسلامی اقوام مثلاً یہود و نصاریٰ سے مجوس و ہنود وغیرہ کے ساتھ مخصوص ہے جن کی ذمہ داری کسی اسلامی حکومت نے نہیں لی ہے۔‘‘ میں نے اپنے دعوے کے ثبوت میں امام محمد کی ’’سیر کبیر‘‘ کا مشہور فتویٰ نقل کیا ہے‘ اسی سے غایت اطمینان کے لیے اس قانون کی یہ دفعہ بھی نقل کر دیتا ہوں۔
’’اور اگر یہ معاملہ دو مسلمانوں کے درمیان ہو جو دارالحرب (غیر الاسلامی ملک) میں معاہدہ امن کرکے مقیم ہوں‘ یا قیدی ہو‘ تو یہ معاملہ باطل و مردود ہوگا کیوں کہ یہ دونوں اسلامی قوانین کے ہر جگہ ذمہ دار ہیں۔‘‘ (سیر کبیر: جلد۔3‘ ص:226)
قیدی اسیر کے لیے فقہمی طور پر ضروری نہیں کہ وہ جیل خانہ میں ہو‘ بلکہ ہر وہ شخص جو کسی ملک سے دوسرے ملک میں بغیر اجازت یا پاسپورٹ کے نہیں جا سکتا وہ اسیر ہے۔
-2 دوسری بات مجھے یہ کہنی ہے کہ بلاشبہ میں نے ذرا عجلت سے کام لے کر اس مضمون کو قبل از مشورہ شائع کرا دیا۔ اس عبد خاطی و عاجز کو اپنے اس قصور کا اعتراف ہے۔ لیکن میں نے جن جذبات اور ہیجانات سے مجبور ہو کر اس مضمون کو لکھا تھا اس سے خدائے خبیر و بصیر خوب واقف ہے۔ ماسوا اس کے اس مسئلے کی بنیاد جن مقدمات پرہے وہ کل دو ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہندوستان دارالکفر ہے۔ دوسرے یہ کہ دارالکفر میں عقود فاسدہ فی الاسلام کے ذریعے سے اموال غیر معصومہ کا لینا مباح ہے۔
ان میں سے پہلے مقدمہ کے متعلق میں نے ہندوستان کے اکثر علماء ثقافت و ارباب فہم و تقویٰ کو متفق پایا۔ البتہ دوسرے مقدمہ کے متعلق میں نے ان کرام اکابر علما سے بالتفصیل نہیں دریافت کیا‘ جن کے اسمائے گرامی آپ نے درج کیے ہیں اور جن میں سے اکثر اس خاکسار کے اساتذہ یا فی حکم الاساتذہ ہیں۔ صرف مولانا اشرف علی صاحب تھانوی مدظللہ العالیٰ کی رائے گرامی کا مجھے علم تھا کہ وہ اس مسئلے میں فقہ حنفی کے اس جزیہ کے متعلق مطمئن نہیں ہیں۔ انہوں نے اپنے فتاویٰ نیز تفسیر میں دوسرے مقدمے کی صحت میں حدیثاً و اصولاً کلام کیا ہے۔ لیکن جہاں تک اس نا چیز کی رسائی تھی‘ امام ابو حنیفہؒ کے مسلک کو میں نے اوفق الکتاب و السنہ پایاؤ امام صاحب نے یہ سمجھا ہے کہ جس طرح ’’اپنی جانوں کو نہ مارو‘‘ کا منصوص اوربظاہر عام حکم صرف مسلمانوں تک محدود ہے ورنہ قانونِ جہاد بے معنی ہوجاتا ہے‘ اسی طرح ’’تم اپنے مالوں کو اپنے درمیان ناجائز ذرائع سے نہ کھایا کرو۔‘‘ اسی کی ایک ذیلی تفصیل ’’سود نہ کھائو‘‘ کا بظاہر عام حکم بھی صرف مسلمانوں کے ساتھ مخصوص ہے۔ خصوصاً جب ’’اموال محرمہ‘‘ کے حکم نہی میں ’’بینکم‘‘ کی تصریح بھی ہے تو وہ قانو ن قتل کی عمومیت سے اور بھی زیادہ خاص ہو جاتا ہے۔

حصہ