منتخب غزلیں

406

بہادر شاہ ظفر

اتنا نہ اپنے جامے سے باہر نکل کے چل
دنیا ہے چل چلاؤ کا رستہ سنبھل کے چل
کم ظرف پر غرور ذرا اپنا ظرف دیکھ
مانند جوش غم نہ زیادہ ابل کے چل
فرصت ہے اک صدا کی یہاں سوز دل کے ساتھ
اس پر سپند وار نہ اتنا اچھل کے چل
یہ غول وش ہیں ان کو سمجھ تو نہ رہ نما
سائے سے بچ کے اہل فریب و دغل کے چل
اوروں کے بل پہ بل نہ کر اتنا نہ چل نکل
بل ہے تو بل کے بل پہ تو کچھ اپنے بل کے چل
انساں کو کل کا پتلا بنایا ہے اس نے آپ
اور آپ ہی وہ کہتا ہے پتلے کو کل کے چل
پھر آنکھیں بھی تو دیں ہیں کہ رکھ دیکھ کر قدم
کہتا ہے کون تجھ کو نہ چل چل سنبھل کے چل
ہے طرفہ امن گاہ نہاں خانۂ عدم
آنکھوں کے روبرو سے تو لوگوں کے ٹل کے چل
کیا چل سکے گا ہم سے کہ پہچانتے ہیں ہم
تو لاکھ اپنی چال کو ظالم بدل کے چل
ہے شمع سر کے بل جو محبت میں گرم ہو
پروانہ اپنے دل سے یہ کہتا ہے جل کے چل
بلبل کے ہوش نکہت گل کی طرح اڑا
گلشن میں میرے ساتھ ذرا عطر مل کے چل
گر قصد سوئے دل ہے ترا اے نگاہ یار
دو چار تیر پیک سے آگے اجل کے چل
جو امتحان طبع کرے اپنا اے ظفرؔ
تو کہہ دو اس کو طور پہ تو اس غزل کے چل
…٭…
خواجہ میر درد

تہمت چند اپنے ذمے دھر چلے
جس لیے آئے تھے سو ہم کر چلے
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
کیا ہمیں کام ان گلوں سے اے صبا
ایک دم آئے ادھر اودھر چلے
دوستو دیکھا تماشا یاں کا سب
تم رہو خوش ہم تو اپنے گھر چلے
آہ بس مت جی جلا تب جانیے
جب کوئی افسوں ترا اس پر چلے
ایک میں دل ریش ہوں ویسا ہی دوست
زخم کتنوں کے سنا ہے بھر چلے
شمع کے مانند ہم اس بزم میں
چشم تر آئے تھے دامن تر چلے
ڈھونڈھتے ہیں آپ سے اس کو پرے
شیخ صاحب چھوڑ گھر ،باہر چلے
ہم نہ جانے پائے باہر آپ سے
وہ ہی آڑے آ گیا جیدھر چلے
ہم جہاں میں آئے تھے تنہا ولے
ساتھ اپنے اب اسے لے کر چلے
جوں شرر اے ہستیٔ بے بود یاں
بارے ہم بھی اپنی باری بھر چلے
ساقیا یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ
جب تلک بس چل سکے ساغر چلے
دردؔ کچھ معلوم ہے یہ لوگ سب
کس طرف سے آئے تھے کیدھر چلے
…٭…
جون ایلیا

عمر گزرے گی امتحان میں کیا
داغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا
میری ہر بات بے اثر ہی رہی
نقص ہے کچھ مرے بیان میں کیا
مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا
اپنی محرومیاں چھپاتے ہیں
ہم غریبوں کی آن بان میں کیا
خود کو جانا جدا زمانے سے
آ گیا تھا مرے گمان میں کیا
شام ہی سے دکان دید ہے بند
نہیں نقصان تک دکان میں کیا
اے مرے صبح و شام دل کی شفق
تو نہاتی ہے اب بھی بان میں کیا
بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا
خامشی کہہ رہی ہے کان میں کیا
آ رہا ہے مرے گمان میں کیا
دل کہ آتے ہیں جس کو دھیان بہت
خود بھی آتا ہے اپنے دھیان میں کیا
وہ ملے تو یہ پوچھنا ہے مجھے
اب بھی ہوں میں تری امان میں کیا
یوں جو تکتا ہے آسمان کو تو
کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا
ہے نسیم بہار گرد آلود
خاک اڑتی ہے اس مکان میں کیا
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا
…٭…
احمد فراز

اب شوق سے کہ جاں سے گزر جانا چاہیے
بول اے ہوائے شہر کدھر جانا چاہیے
کب تک اسی کو آخری منزل کہیں گے ہم
کوئے مراد سے بھی ادھر جانا چاہیے
وہ وقت آ گیا ہے کہ ساحل کو چھوڑ کر
گہرے سمندروں میں اتر جانا چاہیے
اب رفتگاں کی بات نہیں کارواں کی ہے
جس سمت بھی ہو گرد سفر جانا چاہیے
کچھ تو ثبوت خون تمنا کہیں ملے
ہے دل تہی تو آنکھ کو بھر جانا چاہیے
یا اپنی خواہشوں کو مقدس نہ جانتے
یا خواہشوں کے ساتھ ہی مر جانا چاہیے
…٭…
داغؔ دہلوی

سب لوگ جدھر وہ ہیں ادھر دیکھ رہے ہیں
ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں
تیور ترے اے رشک قمر دیکھ رہے ہیں
ہم شام سے آثار سحر دیکھ رہے ہیں
میرا دل گم گشتہ جو ڈھونڈا نہیں ملتا
وہ اپنا دہن اپنی کمر دیکھ رہے ہیں
کوئی تو نکل آئے گا سر باز محبت
دل دیکھ رہے ہیں وہ جگر دیکھ رہے ہیں
ہے مجمع اغیار کہ ہنگامۂ محشر
کیا سیر مرے دیدۂ تر دیکھ رہے ہیں
اب اے نگہ شوق نہ رہ جائے تمنا
اس وقت ادھر سے وہ ادھر دیکھ رہے ہیں
ہر چند کہ ہر روز کی رنجش ہے قیامت
ہم کوئی دن اس کو بھی مگر دیکھ رہے ہیں
آمد ہے کسی کی کہ گیا کوئی ادھر سے
کیوں سب طرف راہ گزر دیکھ رہے ہیں
تکرار تجلی نے ترے جلوے میں کیوں کی
حیرت زدہ سب اہل نظر دیکھ رہے ہیں
نیرنگ ہے ایک ایک ترا دید کے قابل
ہم اے فلک شعبدہ گر دیکھ رہے ہیں
کب تک ہے تمہارا سخن تلخ گوارا
اس زہر میں کتنا ہے اثر دیکھ رہے ہیں
کچھ دیکھ رہے ہیں دل بسمل کا تڑپنا
کچھ غور سے قاتل کا ہنر دیکھ رہے ہیں
اب تک تو جو قسمت نے دکھایا وہی دیکھا
آئندہ ہو کیا نفع و ضرر دیکھ رہے ہیں
پہلے تو سنا کرتے تھے عاشق کی مصیبت
اب آنکھ سے وہ آٹھ پہر دیکھ رہے ہیں
کیوں کفر ہے دیدار صنم حضرت واعظ
اللہ دکھاتا ہے بشر دیکھ رہے ہیں
خط غیر کا پڑھتے تھے جو ٹوکا تو وہ بولے
اخبار کا پرچہ ہے خبر دیکھ رہے ہیں
پڑھ پڑھ کے وہ دم کرتے ہیں کچھ ہاتھ پر اپنے
ہنس ہنس کے مرے زخم جگر دیکھ رہے ہیں
میں داغؔ ہوں مرتا ہوں ادھر دیکھیے مجھ کو
منہ پھیر کے یہ آپ کدھر دیکھ رہے ہیں
…٭…

شمیم حنفی

پھر لوٹ کے اس بزم میں آنے کے نہیں ہیں
ہم لوگ کسی اور زمانے کے نہیں ہیں
اک دور کنارا ہے وہیں جا کے رکیں گے
جتنے بھی یہاں گھر ہیں ٹھکانے کے نہیں ہیں
یوں جاگتے رہنا ہے تو آنکھوں میں ہماری
جو خواب چھپے ہیں نظر آنے کے نہیں ہیں
دل ہے تو یہ دولت کبھی معدوم نہ ہوگی
یہ درد کسی اور خزانے کے نہیں ہیں
کل رات خموشی نے عجب رنگ دکھائے
یہ شعر اگر ہیں تو سنانے کے نہیں ہیں
ہر سمت اجالا بھی ہے سورج بھی ہے لیکن
ہم اپنے چراغوں کو بجھانے کے نہیں ہیں
دنیا نے بھی کچھ ہم کو بہت گھیر لیا ہے
کچھ ہم بھی اسے چھوڑ کے جانے کے نہیں ہی
…٭…

یروشلم/نعیم صدیقی

یروشلم یروشلم تو ایک حریم محترم
تیرے ہی سنگ در پر آج منہ کے بل گرے ہیں ہم
تجھے دیا ہے ہاتھ سے بزخم دل بچشم نم
یروشلم یروشلم یروشلم یروشلم
…٭…

حصہ