سوشل میڈیا پر کورونا ویکسین کا بیانیہ

240

ٓآہ بامسی آہ۔ ارتغرل کے بعدساتویں سیزن تک ساتھ نبھانے والا اُس کا عظیم ساتھی ’ بامسی بیرک‘ بھی شہید ہو گیا۔دو منٹ دورانیہ کا یہ سین ، اس کے ڈائیلاگ، پس منظر میں چلنے والی دھن، کلمہ شہادت کے الفاظ ، جیرکوتائی کی غمزدہ کیفیت یہ جاننے کے باوجودکے سب ڈرامہ ہے ، دھوکہ ہے ،میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہر آنکھ نم ہوئی ہوگی ۔یہ بات مجھے اس لیے کرنی پڑ رہی ہے کہ بدھ کی شب آنے والی قسط میں بامسی کے کردارکی شہادت ہوگئی ، جس کاغم اگلے روز تک ٹوئٹر پر پاکستان میں ٹاپ ٹرینڈ کی صورت منایا جاتا رہا۔لوگوں نے منظر دیکھ کر روتے ہوئے اپنی اس ہفتے عظیم ترک ڈراما سیریل درلیش ارتغرل کے تسلسل ’کرولش عثمان‘کی رواں قسط میں بامسی کا کردار ادا کرنے والے ’نورتن سونمیز‘ اپنے بے شمار شائقین کو آنسوؤں میں روتا چھوڑ گئے۔ سیریز کے مصنف، پروڈیوسر مہمت بوزداغ نے ٹوئیٹ کر کے اُن کے کردار کو یادگار ، بے مثال اور شاندار قرار دیا ہے ۔نورتن کے کردارکو بھی سیریز کی ٹیم نے واقعی بہت منفرد اور جاندار بنا کر پیش کیا تھا۔نورتن سونمیز اِسی سال پاکستان بھی تشریف لائے تھے اور پی ٹی وی پر ایک خوبصورت انٹرویو بھی دیا تھا۔میں یقین سے کہہ سکتا ہوںکہ اس سیریل نے یہ بات کروڑوں مسلمانوں کو ضرور سمجھا دی اور یاد دلا دی کہ مرتے وقت زبان پر کلمہ شہادت کا ہونا کتنا ضروری ہے۔بامسی کے کردار پر مصنف مہمت بوزداغ نے پانچویں سیزن میں اتنا تاریخی سبق یاد دلایا اور سکھایا تھا جس کی نظیر نہیںمل سکتی۔ منگول کمانڈر کے اڈے پر حملہ کے دوران ارتغرل ایک جگہ اپنے قبیلہ کے سپہ سالار بامسی کو ایک جگہ تعینات کر کے حکم دیتا ہے کہ جگہ مت چھوڑنا ، لیکن اتفاق سے حالات ایسے ہو جاتے ہیں کہ اپنے کچھ ساتھیوں کا دفا ع کرنے کی خاطر بامسی وہ جگہ چھوڑ دیتا ہے ،پس یہ غلطی اور اس پر بعدمیں ہونے والی سرزنش ، گفتگو اور سزا کے طور پر معطلی کے مناظرنے ایک جانب پس منظر میں غزوہ احد کا سبق بھی یاد دلایا-سیریز کے ایک پرانے شائق قاضی نصیر اپنے تاثرات کا یوں اظہار کرتے ہیںکہ ’یوں تو ترکی کے ایک چھوٹے سے قصبے میں ایک قبر پر کئی برس سے بامسی بیرک کے نام کا کتبہ موجود ہے ،لیکن وہ گزشتہ کئی صدیوں سے ترکوں کی دیومالائی داستانوں میں اپنی بہادری، شجاعت اور وفاداری کی بدولت زندہ تھا۔بامسی بیرک کی شہادت در حقیقت آج کے دن ہوئی۔کل جس بامسی کے لیے چھوٹا سا قبیلہ سوگوار تھا ، آج اِسی بامسی کے لیے ایک دنیا شدت غم سے نڈھال نظر آرہی ہے۔دُنیا کا کون سا کونا ہے جہاں اس کے نام کی گونج موجود نہیں۔
اتفاق سے ارتغرل پر بات چلی ہے تو اس ہفتہ اسی سے متعلق اثرات کا ایک اور منظر بھی دیکھ لیں۔یہ سلسلہ تہذیبی سطح پر گھڑ سوار خواتین کی صورت مزید وسیع ہوتا ہوا ، کراچی میں شاہراہ فیصل پر محسوس ہوا ۔ جماعت اسلامی کے زیر اہتمام فلسطین مارچ میں کراچی کے مرد و خواتین نے بھرپور حصہ لیا ۔ بلاشبہ اہل کراچی کا فلسطینی مسلمانوں سے اِظہار یکجہتی کا ایک زبردست منظر تھا لیکن اس میں ’گھڑ سوار خواتین ‘، الگ سے توجہ لے گئیں۔ایک ٹی وی شومیں اس عمل کے پیچھے بھی ارتغرل یا ترک ڈرامہ سیریل کی مقبولیت و اثرات کابھی کردارکہاگیا۔میڈیا پر اکثر خواتین باپردہ ہی تھیں ۔جماعت اسلامی کی قیادت عرصے سے یہی بات بتانا سمجھانا چاہتی ہے کہ پردہ میں رہ کر خواتین کام کر سکتی ہیں ۔ اس لیے جماعت اسلامی کی آفیشل جاری کردہ ویڈیوزمیں بھی متعلقہ خواتین کو بار بار دکھایا گیا۔ تاہم ایک جانب سے سوشل میڈیا پریہ صدا بھی سنائی دی کہ ’’سید مودودی ؒمرحوم کے استاد علامہ فراہی رحمہ اللّٰہ فرمایا کرتے تھے کہ شعارِ اسلامی کو کبھی حقیر نہ سمجھو، جس طرح چٹکی بھر مٹی ہوا کے رُخ کا بتادیتی ہے اسی طرح شعارِ اسلامی کی بابت حساسیت بھی افراد کے اِجتماعی ضمیر و رجحانات کا بتادیتی ہے۔ (بحوالہ ذکرِ فراہی)! مسئلہ محض کسی دوشیزہ کی گھڑ سواری کا نہیں بلکہ اْس مخصوص اجتماعیت کے اجتماعی ضمیر کا ہے کہ جس کو تہذیبوں کے تصادم میں تہذیب اسلامی کے علمبردار ہونے کا دعویٰ ہے! جس جماعت کے بانی سید مودودی ؒمرحوم نے ’پردہ‘ نامی تہذیبی دستاویز سپردِ قلم کر کے مشرقی ہی نہیں مغربی عورت کو بھی society consumer سے اُٹھا کر اْس کو سائبانِ تہذیب و تقدس تک پہنچایا ہو، آج اْسی فکرسے جڑے افراد اگر اپنی جوان دوشیزاؤں کو امت سے یکجہتی کے نام پر ،جہاد کے عنوان سے ،چوراہوں، ملکی و غیر ملکی میڈیا کی زینت بنانے کی خاطر گھوڑوں پر بٹھا کر اور پھر شانہ بشانہ انٹرویو کروارہے ہیں۔
کورونا ویکسین جوکہ تادم تحریر 1.74بلین افراد کو لگائی جا چکی ہے ،اس ہفتہ بھی تنقید کی زدمیں رہی۔اس کی 2 ڈوز بتائی گئی ہیں جن میں سے 403ملین افراد کو دونوں لگائی جا چکی ہیں۔پاکستان میں اب تک 5.36ملین ڈوزز دی جا چکی ہیں جس میں سے 1.29ملین افراد کو پوری ڈوز ملی ہے۔چین، جرمنی ، روس کے بعدپاکستان نے بھی اپنی ویکسین تیار کر لی ۔ اس پر بھی پاکستان کو مبارک باد کا ٹرینڈ سوشل میڈیا پر چلا۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ جن ممالک میں ویکسین بھرپور انداز سے لگائی گئی ہے جیسا چین و برطانیہ جہاں آبادی کے نصف تک ویکسین لگائی جا چکی ہے وہاں بڑی حد تک قابو پایا جا چکا ہے۔سوشل میڈیا پر اس ویکسین کے بارے میں ابتدا ہی سے کافی ساری ’سازشی ‘ کہانیاں جاری تھیں کہ اس میں کراچی سے جاری ہوکر وائرل ہونے والی ویڈیوز کے زریعہ بڑا کام ہوا۔ دو ویڈیوز میں ویکسین کی جگہ پر مقناطیس کے چپکنے کے تجربات کیے گئے اور دو ویڈیوزمیں ایک صاحب نے بالترتیب شاید پہلی و دوسری ڈوز کے بعد چارجیبل ایل ای ڈی کو روشن کرنے کے تجربات کر کے دکھائے ۔ عوام نے بڑی دلچسپی سے دیکھا اور اپنے اپنے عقائد کی روشنی میں مختلف فیصلے کیے ۔ حکومت نے بہر حال ویکسین کی سہولیات میں اضافہ کیا مگر ویکسین کے بارے میں گمراہ کن ویڈیوز پھیلانے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ اس کے بعد فرانس کے ایک معروف سائنسدان کا موقربیان وائرل ہوا جس میں انہوں نے بتایا کہ بڑے پیمانے پر ویکسین لگنے کی وجہ سے وائرس نئی اشکال میں حملہ آور ہوگا اور مبینہ بطور پر اس ویکسین کا اثر دو سال رہے گا۔
اُس نے اس ویکسین کو سائنٹیفک و طبی غلطی قرار دیا۔بہرحال ایک متعلقہ فیلڈ کے ماہر کا یہ بیان بجلی بن کر گرا ، سب نے تصدیق کی اور بیان درست نکلا تو وائرل ہونا شروع ہو گیا ، سب کو انسانی جانوں کی فکر لاحق ہو گئی۔ساتھ ہی ساتھ متعلقہ سائنسدان کا پچھلا بیان کہ ’کورونا وائرس چینی لیبارٹری میں تجربات کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے،‘ بھی چل نکلا۔بس پھر کیا تھا ،واٹس ایپ پر ، سوشل میڈیا پر موصوف چھا گئے۔اس کے بعد جوابی کارروائی میں کئی مقامی ڈاکٹرز کی ویڈیوز آنا شروع ہو گئیں۔ اتفاق ایسا ہوا کہ سب نے یہی کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا پوری دنیا کے ڈاکٹرز اس پر کام کر رہے ہیں ، پھر ہم تو مسلمان ہیں اور ہمارا عقیدہ ہے کہ موت تو اللہ کے اختیارمیںہے، اسلیے ہمیں اس طرح کے بیانیوں کو رد کرنا چاہیے اور ویکسین لازمی لگوانی چاہیے۔
ملک میں طلبہ کے سالانہ امتحانات کے حوالے سے ایک بار پھروزیر تعلیم شفقت محمود موضوع بنے۔سوشل میڈیا پر امتحانات کینسل کرنے کا شور جاری رہا۔طلبہ کا کہنا یہی ہےکہ آن لائن کلاسز متبادل نہیں ہو سکی، ذہنی سکون نہ ہونے کے باعث امتحانات کی پوزیشن میں نہیں ۔ مونس اِلٰہی کی ٹوئیٹ بھی یہی بات کہتی نظرا ٓئی کہ ’جب کروڑوں پاکستانی طلبا میں صرف 15% طلبا کو آن لائن ایجوکیشن ملے، صرف 24% دیہات میں انٹرنیٹ اور صرف 17.2% گھروں میں کمپیوٹر/لیپ ٹاپ ہوں تو پھر ان سہولیات سے محروم 85% پاکستانی طلبا کیسے آن لائن پڑھیں اور امتحان بھی دیں ؟ طلبا اور اساتذہ کی ضرورت ، فوری اور فری انٹرنیٹ سہولت!وزارتِ تعلیم کو’وزارتِ ڈیٹ شیٹ‘ کانام دیناچاہیے۔طلبہ کو سنےبغیرامتحانات کی ڈیٹس آگےپیچھےکرنےکےسوا وہاں کیاہورہا ہے؟کوروناکےاثرسےتعلیم کےبچاؤ کی پالیسی نہ طلبہ کوتعلیمی بحران سےنکالنےکاپلان۔بغیرتیاری امتحان،طلبہ کی پریشانی کامزیدسبب ہوگی‘۔ وقار ذکا بھی اس موقع پر طلبہ کی حمایت میں سماجی میڈیا پر انتہائی متحرک نظر آئے۔ یہی صورتحال بھارت میں بھی تھی جہاں ’مودی جی کینسل 12ایگزام‘ کا ٹاپ ٹرینڈ جاری تھا۔ ایک اور پروپیگنڈا ٹرینڈ  #IndianArmyExposed بھارتی افواج میں خودکشیوں کی بڑھتی تعداد ، کرپشن، و دیگر حوالوں سے ظاہر ہوا ، جس کے ذیل میں بھارتی افواج کی ماضی کی تمام حرکات کا پوسٹ مارٹم بھارتی اخبارات کی شہ سرخیوں کی روشنی میں کیا گیا۔اس ٹرینڈ میں سب نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا-

حصہ