نَصْرٌ مِّن اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ

985

کئی مرتبہ کوشش کی کہ بیت المقدس، فلسطین اور وہاں کے مظلوم مسلمانوں کے لیے کچھ تحریر کروں، لیکن جب بھی قلم اٹھایا، ہاتھ کانپنے لگے۔ آخر کیوں نہ کانپیں! ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر درد محسوس کریں۔ مسلمان تو ایک جسم کی مانند ہیں، جسم کے ایک حصے میں درد ہو تو پورے جسم کو اس درد کا احساس ہوتا ہے۔ آج کوشش کرکے ’’قلم‘‘ اٹھایا کہ اس ’’قلم‘‘ کا ’’حق‘‘ تو ادا کروں، تو ساری تصویریں ایک ایک کرکے میرے سامنے آتی گئیں جنہوں نے نہ صرف دل کو مزید دُکھی کردیا بلکہ آنکھیں بھی اشک بار ہوگئیں اُن نہتے مسلمانوں کی وجہ سے جو ’’قبلہ اوّل‘‘ میں اپنے رب کی بارگاہ میں سربسجود تھے کہ ’’ظالموں‘‘ نے اللہ کے گھر کی حرمت کو پامال کیا اور بے گناہ، بے تیغ نہتے مسلمانوں کو بے دردی سے شہید کردیا۔ ان معصوم شہریوں کا کیا قصور تھا؟ وہ تو رب کی بارگاہ میں سجدہ ریز تھے۔
وہ معصوم سہما سسکتا بچہ جو ہتھیاروں سے لیس ان دہشت گردوں کے ڈر سے دیوار میں پناہ لے رہا تھا، واللہ یہ ظلم نہیں…؟ بچے تو سب کے سانجھے ہوتے ہیں۔ انسانیت سے کورے ان دہشت گردوں نے نہ جانے کتنی مائوں کی گودیں اجاڑ دیں، کتنے معصوموں کو یتیم اور بے گھر کردیا۔ ان کی آہ وبکا سے فلسطین کے ارض و سما گونج رہے ہیں۔ وہ عظیم مائیں جن کے سامنے ان کے جگرگوشوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، وہ کس سے فریاد کریں…! وہ سسکتی عورت جو کسی کی ماں ہے،بہن ہے ،بیٹی ہے، بیوی ہے اور معاشرے کے لیے عزت و ناموس اور وقار ہے وہ دیواروں سے سر پٹخ پٹخ کر دہائیاں دے رہی ہے، اس کے آنسو پونچھنے والا کوئی نہیں۔ وہ چیخ چیخ کر آہ و بکا کر رہی ہے: مسلم امہ، میرے مسلمان بھائیو! کہاں ہو تم؟ ہم آپ کے منتظر ہیں، کیا ہمارا درد آپ کو محسوس نہیں ہو رہا؟ ہماری جانوں کے لیے نہیں، اس قبلہ اول کی حرمت و بقا کے لیے آگے بڑھو… کہاں ہیں چالیس عرب ممالک کی وہ متحدہ افواج… کیا ان کے دل تک ہماری سسکیاں و آہ وبکا نہیں پہنچ رہی؟ درمیان میں وہ کون سی دیوار ہے، کون سی رکاوٹ ہے جو تمہیں ہم تک نہیں پہنچنے دے رہی ہے؟ کیا خاموش تماشائی بن کر ہماری بربادی دیکھتے رہو گے…؟ دنیا میں اپنی بقا و سلامتی کے ڈر سے خاموش ہو، آگے بڑھنے سے قاصر ہو، لیکن اے مسلمانو! سوچو، یہودو نصاریٰ جو مسلمانوں کے دوست نہیں بلکہ دشمن ہیں اُن کے ہاتھ تمہاری جانب بھی بڑھ سکتے ہیں، تمہاری آج کی کمزوری اُن کے لیے مضبوط ہتھیار ثابت ہوگی۔ لہٰذا مسلم امہ اپنے ایمان کو تازہ و مضبوط کرے۔ مسلمانوں نے ہمیشہ اپنے ایمان کی بدولت اللہ کی راہ میں بڑی بڑی طاقتوں سے مقابلہ کرکے انہیں شکستِ فاش دی۔ وہ 313 مسلمان جن کے پاس صرف ایمان کی طاقت تھی اور اللہ پر کامل بھروسا تھا، انہوں نے معمولی ہتھیاروں کے ساتھ کافروں کی ایک بڑی طاقت کا مقابلہ کرکے انہیں بدترین شکست دی (سبحان اللہ)۔ گنتی کے ان مسلمانوں نے ماضی میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ خیبر کی جنگ میں یہودیوں کا وہ غرور و تکبر، طاقتور ہتھیار مسلمانوں کے سامنے ریزہ ریزہ ہوگئے اور یہودی بھاگنے پر مجبور ہوگئے… افسوس، بے حد افسوس… آج مسلمان تعداد میں تو زیادہ ہیں لیکن…؟ اور وہ عالمگیر ادارہ اقوام متحدہ جو دنیا کی اقوام کی آواز سمجھا جاتا ہے، انسانیت کے علَم بردار اس ادارے کی خاموشی سب کے لیے سوال ہے۔ یہ مسلمانوں سے کھلی دشمنی ہے۔ یہود کی غلامی نے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھی ہوئی ہے۔ دنیا کی بڑی طاقتیں ان یہودیوں کی پشت پناہی کررہی ہیں… یہ گھروں میں پلنے والے کتوں، بلیوں کی تکلیف پر تو بلبلا اٹھتے ہیں لیکن انسانیت سے کورے ان کے دل انسانوں کو تکلیف میں دیکھ کر، نہتوں کو سرعام دہشت گرد یہودیوں کا نشانہ بنتے دیکھ کر، سسکتے بلکتے بچوں کی آہ و بکا سن کر، خواتین کی سسکیاں سن کر، ان کے رہائشی علاقوں پر گولہ باری دیکھ کر، دہشت گردوں کے ناپاک جوتوں تلے قبلہ اول کی پاکیزہ دھرتی اور مسلمانوں کو روندتے دیکھ کر ان کے دل میں کوئی ٹیس نہیں اٹھ رہی۔ ایک جانور کے پائوں میں کانٹا چبھنے پر تلملانے والے یہ منافق یہود و نصاریٰ خاموش کیوں ہیں آج؟ ایک انسان کا قتل تو ساری انسانیت کا قتل ہے۔ یہ جو اپنے آپ کو ترقی یافتہ اور انسانیت کے درد میں ڈوبے ہوئے تصور کرتے ہیں ان کی منافقت، ان کے دلوں میں چھپا تعصب آج سب کے سامنے عیاں ہے۔ لہٰذا ان سے کسی بھلائی کی امید رکھنا سراسر غلطی ہے۔ یہودیوں کی سیاہ کاریاں، وعدہ خلافیاں ہم سب مسلمانوں پر عیاں ہیں۔ قرآن پاک نے بار بار ان کے سیاہ کرتوت بیان کیے ہیں۔ اسی لیے مسلمانوں کو ان کی دوستی سے روکا گیا ہے۔ یہ مسلمانوں سے تعصب کی وجہ سے کبھی دوست نہ رہے، نہ ہی ان سے دوستی کی امید رکھنی چاہیے۔ بلکہ تمام مسلمانوں کو متحد ہوکر ان کے سامنے ڈٹ جانا چاہیے۔ الحمدللہ پاکستان اور کچھ اسلامی ممالک مثلاً ترکی اور ایران وغیرہ نے مثبت سوچ و عمل کی طرف قدم اٹھایا ہے۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے۔ باقی تمام اسلامی ممالک خصوصاً عرب ممالک کو بھی مثبت اقدامات اٹھا کر یکجا ہونا چاہیے، تاکہ یہ بزدل یہود جو دوسروں کی امداد پر گھمنڈ اور اکڑ میں ہیں، نسیت و نابود ہوجائیں۔
ان کی معیشت کو کمزور کرنے کے لیے ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے سے انہیں ضرور دھچکا پہنچے گا۔ اس کام میں تمام اسلامی ممالک کے عوام کو حصہ لینا ہو گا۔
قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے۔ جب تمام مسلم امہ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر یہود کے خلاف اقدامات پر عمل پیرا ہوگی تو اِن شاء اللہ ضرور کامیابی کے راستے کھلیں گے۔ الحمدللہ پاکستان کے علمائے کرام اور بہت سی تنظیمیں اور جماعتیں اس سلسلے میں سرگرم عمل ہیں اور لوگوں کو بیدار کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ حکومت کی طرف سے بھی کوششیں جاری ہیں۔ آج آزمائش کی اس گھڑی میں تمام سیاست دانوں کو بھی اپنی اپنی نفرتیں، شکایتیں ایک طرف رکھ کر اور مل کر کام کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر ہی دشمنانِ اسلام سے نمٹا جا سکتا ہے۔ آج امتِ مسلمہ کے لیے انتہائی نازک اور آزمائشی وقت ہے، جس کے لیے متحد ہونا لازمی امر ہے۔ تاریخ اسلام کا روشن ماضی اس بات کی دلیل ہے کہ ایمان سے لبریز مسلم امہ کبھی کمزور نہ رہی… آج بھی اسی جذبہ ایمانی کی اشد ضرورت ہے جہاں ’’مَیں‘‘ نہیں ’’ہم‘‘ کا نعرہ بلند ہو۔ یہود کے ناپاک ارادوں کو ناکام بنانے کی لیے ہر ایک کو اپنی وسعت، طاقت و صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے اس ’’جہادِ عظیم‘‘ میں حصہ ڈالنا ضروری ہے۔
بے شک مسلم امہ ایک قوت ہے۔ جاگ جائے تو بے تیغ و تلوار بھی جھنڈے گاڑ دے۔ یہی وقتِ جہاد ہے۔ کلمہ طیبہ ہی ہماری طاقت و تلوار ہے۔ اس ایمان کے سائے تلے ہر مشکل آسان ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ مسلمانوں کو اس مشن میں بھی ضرور فاتح کرے گا، ان شااللہ۔
نصرمن اللہ وفتح قریب (آمین)
حدیث ِمبارکہ ہے کہ ’’ایک وقت آئے گا جب تم یہودیوں سے جنگ کرو گے (اور وہ شکست کھا کر بھاگتے پھریں گے)، کوئی یہودی اگر پتھر کے پیچھے چھپ جائے گا تو وہ پتھر ہی بول اٹھے گا کہ اے اللہ کے بندے یہ یہودی میرے پیچھے چھپا بیٹھا ہے اسے قتل کر ڈال‘‘۔ اسی طرح سورہ آلِ عمران میں میرا رب فرماتا ہے کہ ’’یہ تمہیں ایذا پہنچانے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے، اگر تم ان سے قتال کرو تو یہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے، پھر ان کی مدد بھی نہیں ہو گی‘‘۔ احادیثِ مبارکہ اور قرآنی آیات میں ان کی ’’اصلیت‘‘ کو واضح کیا گیا ہے اور ان سے جہاد کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ لہٰذا ان اسلام دشمن اور امت ِمسلمہ کے دشمنوں سے جہاد کے لیے ہر ایک کو کمر کس لینی چاہیے، پھر اِن شاء اللہ، اللہ کی مدد ہمارے ساتھ ہوگی۔ (آمین ثم آمین یارب العالمین)

حصہ