القدس ہمارا ہے

184

میں نے جب اردو رسالے پڑھنا شروع کیے تو ’’ساتھی‘‘ میرا پسندیدہ رسالہ ٹھہرا، اس پسندیدگی کی اور بھی وجوہات تھیں لیکن سب سے بڑی وجہ غزہ اور کشمیر کے مجاہدین کی داستانیں تھیں۔ یہ رسالہ بچوں اور جوانوں کو جگائے رکھنے کا سامان رکھتا تھا۔ امت کا درد، غاصبوں کی پہچان کرواتا تھا۔ نتیجتاً ’’ساتھی‘‘ کے قاری اپنی عمر کے دیگر بچوں کی نسبت ان معاملات میں زیادہ حساس تھے۔ گوریلا فائٹرز کی کارروائیاں پڑھتے لہو آگ بن کر کنپٹیوں میں جوش مارتا تھا۔
مجھے یاد ہے ایک مرتبہ مسجد اقصیٰ کی حفاظت کے لیے پتھر ہاتھ میں پکڑے شہید ہونے والے بچے کو سوچتے ہوئے میری رات روتے ہوئے گزری تھی، میں تب خود سے عہد کیا کرتی تھی کہ میں اپنے قبلۂ اوّل کے لیے جو ممکن ہوا وہ کروں گی۔ لیکن وقت گزرتا گیا اور میں بڑی ہوگئی۔
وقت بدلا تو تفریح کے ذرائع بھی بدلے، مجاہدین کی داستانوں پر اصلاحی کہانیاں غالب آنے لگیں، نت نئے مشغلوں میں لگتے لگتے وہ جنون، مجاہدین کی محبت، قبلۂ اوّل کے لیے تڑپ… سب کی آگ ماند ہوگئی۔ اب الاقصیٰ سے تعارف بس اتنا رہ گیا تھا کہ جب خبروں میں کبھی اسرائیلی فوج کی دست درازی کا بتایا جاتا تو افسوس ہوتا، ماتھے پر بل پڑتے، ایک مذمتی پوسٹ شیئر ہوتی اور پھر… آل سیٹ۔ القدس، جو ہمارا قبلۂ اوّل ہے، محترم مسجد، جہاں انبیا کی امامت میرے نبیؐ نے کروائی… قائد اعظم کی رہائش گاہ کو بطور نشانی محفوظ رکھا ہے ہم نے، اس جگہ سے عقیدت ہے کہ یہاں قائد نے وقت گزارا تھا، یہاں وہ اٹھے، یہاں بیٹھے تھے۔ پھر اس جگہ سے کیوں کر ہماری عقیدت نہیں جہاں ہمارے انبیا کے قدم پڑے تھے؟ جہاں انبیائے کرام مدفون ہیں، جس زمین کے بابرکت ہونے کو اللہ نے قرآن میں بیان فرما دیا ہے؟ جہاں حضرت عیسیؑ ٰ جائیں گے۔ وہ جگہ جو ہماری سجدہ گاہ ہے، وہاں بہتے خون، اس کی حفاظت کے لیے جان دیتے لوگوں سے محبت، یہ سب مسلسل کیوں نہیں کرتے ہم؟
جب کوئی ’’بڑا‘‘ واقعہ ہو کہ چھوٹے موٹے واقعات کو تو ہم گھانس ہی نہیں ڈالتے… تو جب کوئی بڑا واقعہ ہو تو ہم چیختے چلاتے اور اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کی مہم چلاتے ہیں۔ ذرا میڈیا کا شور ٹھنڈا پڑا اور پھر ہم واپس اپنی ڈگر پر پلٹے۔ مسجد اقصیٰ؟ کون؟ کیا؟… برسوں سے یہی چلتا آرہا ہے، اور شاید چلتا ہی چلا جائے۔
آج سوچنے بیٹھی کہ میں کر کیا سکتی ہوں القدس کے لیے تو دعا کے سوا کوئی راستہ سمجھ نہ آیا۔ ابراہیم مجھ سے پوچھ رہا تھا ان ’’اچھے لوگوں‘‘ کی کوئی آرمی نہیں جو ان کو بچا لے؟ جو ان گندے لوگوں کو مسجد سے نکال دے؟ اور میں سوچ رہی تھی کہ امت اگر عملی طور پر جسم واحد ہوتی تو آج کتنی فوج القدس کی حفاظت پر مامور ہوتی، وہ مسجد جو انبیا کا مصلّہ تھی‘ اس کی حفاظت و عظمت ویسے کی جاتی جیسا حق تھا۔ لیکن شاید ابھی امت سوئی ہوئی ہے… لیکن پھر سوچا اس سانحے پر ہی سہی، ہمارا تڑپ جانا، کچھ کا رونا، اکثریت کی دعائیں، دل کا فلسطینیوں کے لیے محبت کا جذبہ، یہ سب بھی کچھ کم تو نہیں۔ کم از کم کے طور پر ہم جو کر سکتے ہیں وہ ہم کر رہے ہیں، زیادہ سے زیادہ کے لیے اللہ ہمیں ایمان و توفیق دے۔ پھر اسی آگ میں جلتے ہم کہ القدس ہمارا ہے اب اسی آگ میں رہیں۔ یہ شوق ماند نہ پڑنے دیں۔ ان محافظین مسجد کے لیے اپنی دعاؤں کو کہیں رکنے نہ دیں اور ہمارے حکمران جاگ جائیں۔ اگر یہ ہوجائے تو شاید ہم قیامت کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا سکیں کہ آپؐ کے امتی نے آپؐ کی امت کو تکلیف میں دیکھ کر کیا کیا تھا۔ آج پھر وہی بچپن کی مریم میرے اندر جاگ رہی ہے، پھر آج اس کے اندر وہی تڑپ ہے کہ القدس میرا ہے اور مجھے کچھ کرنا ہے۔ اب بس اسے رکنے نہیں دینا۔ اب بس اسے بڑھاتے جانا ہے۔ خدا القدس کی خیر کرے‘ آمین۔

حصہ