عید کا تحفہ

280

اس نے ایک نظر کمرے کی رنگ اُڑی دیواروں کو دیکھا اور پھر حسرت سے ہاتھ میں پکڑی اس قیمتی قمیص کو‘ جس کے دامن پر وہ دیدہ زیب بیل ٹانک رہی تھی‘ ٹپ… ٹپ آنسوکے قطرے، چہرے پر پھسلے، اس سے پہلے کہ وہ قمیص پر گر کر اس کو داغ دار کرتے، شانو نے بے دردی سے انہیں رگڑا۔
’’واہ ری قسمت…! جو نہ روزے رکھیں، نہ نماز پڑھیں، لیکن عید کے جوڑے ایسے قیمتی پہنیں… اور ایک ہم ہیں…‘‘شانو بلند آواز میں بڑبڑائی۔
’’کیا کہہ رہی ہو؟ میں نے منع کیا ہے ناں قسمت کو برا کہنے سے… اور روزے کون نہیں رکھتا…؟‘‘ اماں کی تنبیہی آواز پر اس نے سر اٹھا کر اماں کو خفگی سے دیکھا۔ اماں اس کی آنکھوں میں بسے شکوے محسوس کرکے نظر چرا گئیں۔
’’وہی آپ کے مرزا صاحب کے گھر والے…‘‘ لہجے میں شکایت تھی۔
’’ہونہہ… ہوں، تم کو کیسے پتا؟ اور کیا معلوم کس وجہ سے۔‘‘
’’پچھلے ہفتے جب میں کپڑے دینے گئی تھی تو خود دیکھا تھا۔ بچوں کو کھانا کھلا رہی تھیں اورساتھ خود بھی…‘‘
’’ارے اس کا بچہ چند ماہ کا…‘‘ اماں نے جلدی سے وضاحت دینی چاہی تھی۔
’’اماں!‘‘ شانو کے بیل ٹانکتے ہاتھ لمحہ بھر کو رکے‘ ’’وہ سال کا ہو چکا ہے۔‘‘ اُس نے ماں کی بات کاٹ کر تصحیح کی۔‘‘
’’اچھا… اچھا، تم جلدی سے یہ ٹانک دو، ابھی، باجی صاحبہ آتی ہوں گی۔‘‘
’’کر تو رہی ہوں۔‘‘ وہ جھنجلائی پھر توقف کرکے بولی ’’اماں! آج چاند ہو جائے گا؟‘‘
’’میں کیا جانوں، اللہ کو خبر ہے۔‘‘ اماں سلائی مشین پر جھکی بولیں۔
’’رات تک یہ جوڑا مکمل کرنا تھا اور ابھی خاصا کام تھا۔ تم یہ مکمل کرکے افطاری کی تیاری کرلو۔‘‘
’’تیاری… ہونہہ کیا تیاری؟ صرف کھانا ہی تو گرم کرنا ہے۔‘‘ وہ چٹخ کر بولی۔
’’میں نے بیسن گھول دیا ہے، پکوڑے تل لینا۔‘‘ اماں دھیمے سے بولیں۔ حالات کو سدھارنا ان کے بس سے باہر ہوتا جارہا تھا۔
’’کیوں؟ وہ لاڈلا آرہا ہے؟‘‘ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کا لہجہ طنزیہ ہوا تھا۔ دوسری طرف خاموشی رہی، شانو کو اپنے جملے پر چند لمحوں کے لیے شرمندگی محسوس ہوئی لیکن پھر اس کے خودغرض رویے کو سوچ کر وہ تنفر سے سر جھٹک کر رہ گئی۔
ٹک ٹک ٹک…کتنے ہی پل گزر گئے۔ ’’اماں…‘‘ اک خیال نے اس کو خوش امید کیا تھا۔ ’’باجی اس جوڑے کے پیسے دیں گی نا تو میں…‘‘
’’وہ دے چکیں… راشن والے کا حساب چکانا تھا تو اس کے آئے پیسے وہاں دے دیے۔‘‘ اماں کا لہجہ سپاٹ تھا۔
شانو نے کچھ لمحے ماں کو دیکھا اور پھر سر جھکایا لیکن پھر فوراً ہی دوسرا خیال چمکا تھا ’’اور اس کے، اس کی رقم تو ملے گی نا؟‘‘ اس نے مشین کی سوئی کے نیچی دبی سبز پھولوں والے ریشمی کپڑے کو دیکھا۔ ’’اب یہ نہ کہنا کہ اس کی رقم بھی…‘‘
’’پڑوس کی منور باجی سے پانچ سو ادھار کیے ہوئے تھے، پیسے آئیں گے تو انہیں لوٹانے ہیں۔ وہ صبح یاد دہانی کرواکر گئی ہیں۔‘‘ اماں نے نظریں جھکائے کہا۔ شانو کا اترا بے بس چہرہ انہیں اندر تک کاٹ دیتا تھا۔ چند لمحے شانو نے ماں کو ڈبڈبائی نظروں سے دیکھا پھر قمیص وہیں پٹخ کر اٹھ گئی۔
’’کہتی ہیں کہ قسمت کو کچھ نہ کہو، تو پھر کس کو کہوں، نصیب اچھے ہوتے تو کیا میں آج کے دن بھی اس آس پر کاٹوں کہ کاش میرا بھی نیا نکور عید کا جوڑا سلا ہوتا‘ چوڑیاں، بندے، کلپ…‘‘ وہ روہانسی ہو کر صحن میں کپڑے سمیٹتے کہہ رہی تھی اور اماں کا دل ٹکڑے ٹکڑے کر رہی تھی۔ ’’ہم دوسروں کے کپڑے سیے لیکن ہم کو نیا جوڑا نہ ملا۔‘‘
’’خدا سمجھے تم سے افضل‘ کس کس طرح رولاتا ہے۔‘‘ اماں نے آنکھوں کے کناروں کو دوپٹہ سے صاف کیا۔ ’’بہن کا جوڑا تو کیا لاتا ، الٹا گھر میں رکھے پیسے بھی لے کر چلا گیا، دوستوں میں اڑانے۔‘‘ اماں بڑبڑا رہی تھیں، شانو غلط نہیں کہہ رہی تھی، اب شاید وہ باورچی خانے میں چلی گئی تھی کہ اس کی آواز نہیں آرہی تھی، لیکن اماں کے سلائی کرتے ہاتھ رک گئے تھے۔ دل آزردہ ہورہا تھا۔
چند سال قبل میاں کے انتقال نے ان کے گھریلو حالات کو مزید دگرگوں کر دیا تھا۔ میاں کی زندگی میں ہی کون سے حالات اچھے تھے؟ ان کے جانے کے بعد تو چکی چل پڑی تھی۔ مشقت ہی مشقت، شانو آٹھویں میں تھی اور بیٹا افضل کالج میں۔ ماں بیٹی نے تو حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے سلائی مشین سنبھال لی تھی۔ اماں نے افضل کو بھی مختلف جگہوں پر کام کے لیے لگایا لیکن وہ اپنے اوباش دوستوں کی صحبت کی وجہ سے قابو ہی نہ آتا۔ باپ کے بعد پڑھائی تو چھوڑ ہی دی تھی۔ ویسے بھی وہ کالج باپ کی خواہش کی وجہ سے جاتا تھا کہ وہ اسے پڑھانا چاہتے تھے۔ خود اسے ان موٹی کتابوں میں کوئی کشش محسوس نہ ہو تی۔ البتہ شانو نے اسکول جانا ترک نہ کیا تھا‘ وہ پڑھائی کے ساتھ ماں سے سلائی بھی سیکھ گئی تھی۔ اب دونوں کی محنت سے ہی گھر چل رہا تھا۔ افضل‘ جسے شانو طنزیہ لاڈلا کہتی، گھر صرف کھانے اور سونے ہی آتا ورنہ اس کا وقت دوستوں کے ساتھ ہی گزرتا۔
رمضان المبارک کے آغاز سے دونوں ماں بیٹی نے بڑے خشوع و خضوع سے عبادت شروع کر دی تھی۔ ساتھ سلائی بھی چل رہی تھی۔ عید میں دس دن باقی تھے، شانو نے اپنے سلائی کے پیسوں سے اتنے جمع کرلیے تھے کہ ایک لان کا جوڑا خرید لے۔ وہ پڑوس کی خالہ کے ساتھ بازار بھی گئی تھی، لیکن پیسے کم پڑگئے تھے۔ لہٰذا منہ بسور کر واپس آگئی۔
’’اتنے شوق سے گئی لیکن دکان دار نے کہا اس ڈیزائن کے تو ختم ہوگئے، آپ دوسرا والا لے لو۔‘‘
’’تو لے لیتیں…‘‘ جواباً اماں نے کہا۔
’’کیسے لیتی، پورے تین سو زیادہ تھے۔ پڑوسن خالہ کے پاس بھی پیسے نہیں تھے۔‘‘ وہ افسردگی سے کہہ رہی تھی۔
’’تو کہیں اور سے لے لیتیں۔ اتنی ساری دکانیں ہیں۔ ‘‘
’’پر اماں میرا دل اسی سنہری جوڑے پر آگیا تھا، دکان دار کہہ رہا تھا، دو دن بعد آنا میں منگوا دوں گا۔‘‘ وہ ساری تفصیل ماں کو سنا رہی تھی، اس سے قطع نظر کہ صحن میں بچھے تخت پر افضل لیٹا سب سن رہا ہے اور اگلے دن وہ پرس سے رقم نکال کر رفو چکر ہو چکا تھا۔ دوست سے شرط لگی تھی،جو وہ ہار چکا تھا۔ اب بدلے میں پیسے تو دینے تھے۔ سو اس نے بہن کے عید کے جوڑے کے پیسے چرائے اور خاموشی سے نکل گیا۔
افضل کی اس حرکت پر جہاں شانو نے رو رو کر آنکھیں سجائیں وہیں اما ں نے بھی اسے دل میں برا بھلا کہا تھا۔ لیکن اب کیا ہو سکتا تھا؟ چار دن پہلے گھر آیا تو شانو نے اسے بہت باتیں سنائی تھیں۔ اس کے بعد سے اس کا پتا نہ تھا۔ اماں کا دل پریشان تھا، جیسا بھی ہے، ہے تو اولاد، ایک طرف شانو کا رونا، تو دوسری طرف افضل کی آوارگیاں اور گھر سے غیر حاضری۔
’’عارفہ کہہ رہی تھی کہ محلے میں نئی مٹھائی کی دکان بھی کھلی ہے، پرسوں سفید بنگلہ والوں کے کپڑے دینے گئی تھی تو میں نے بھی دیکھی تھی‘ سوچا تھا عید پر وہاں سے مٹھائی منگوالیں گے، لیکن…‘‘ افطاری کرتے ہوئے شانو نے پھر حسرت سے کہا۔
’’تم اللہ سے دعا کرو، وہ سب کی سنتا ہے، کپڑے، مٹھائی، چوڑیاں…‘‘
’’تو کیا فرشتے دینے آئیں گے…؟ وہ تڑخ کر گویا ہوئی۔
’’ہو بھی سکتا ہے۔ کبھی کبھی فرشتے انسانی روپ میں آجاتے ہیں۔ چلو اٹھو مغرب کی نماز پڑھو، اگر چاند ہوگیا تو صبح کے لیے میں سویاں بنادوں گی۔‘‘
’’ہونہہ…!‘‘ وہ ناراضی سے اٹھ گئی تھی۔ ’’اب فرشتے ہی تو آئیں گے اس گھر میں۔‘‘ وہ بڑبڑاتی وضو کرنے چل دی۔
چاند ہو گیا تھا، شانو کے آنسو اماں کے دل پر گر رہے تھے۔ اماں نے مغرب پڑھ کر نغمانہ بیگم کا جوڑا بھی مکمل کردیا تھا۔ سوچا تھا جب کپڑے لینے آئیں گی تو چند سو ادھار لے لیں گی بطور ایڈوانس سلائی کی رقم۔ لیکن وائے قسمت، انہوں نے اپنے ڈرائیور سے ہی سوٹ منگوا لیا۔ اب ملازم سے کیا کہتیں۔ سو دل مسوس کر رہ گئیں۔ ایک اور باجی سے کوشش کی لیکن انہوں نے بھی معذرت کرلی۔ سوچا تھا جوڑا نہ سہی کم از کم شانو کے لیے مٹھائی، کچوری ہی لادوں گی لیکن…!شانو تو عشا پڑھ کر سسکیاں لیتی سو گئی تھی۔ مہندی بھی اصرار کے باوجود نہ لگائی لیکن اماں رب کی رحمت کی طلب میں جائے نماز بچھائے اللہ کے سامنے سوالی بنی ہوئی تھیں۔نہ جانے کب آنکھ لگی تھی۔ دروازے پر دستک کی آواز نے انہیں اٹھایا، صبح کا اجالا ہلکا ہلکا پھیلنا شروع ہو گیا تھا، باہر گلی میں عید کی چہل پہل کا بھی اندازہ ہو رہا تھا۔
’’یہ اس وقت کون آگیا؟‘‘ وہ سوچتے ہوئے پیروں میں چپل اڑستی دروازہ کھولنے لگی تھیں۔کون ہے؟‘‘
’’میں ہوں، افضل…‘‘ دھیمی آواز آئی۔ اماں نے دروازہ کھولا اور بغیر اس کو دیکھے پلٹ گئیں۔
’’سلام اماں!‘‘
’’وعلیکم السلام…‘‘ اماں نے زیر لب جواب دیا اور ہاتھ سے اشارہ کرتی آگے بڑھ گئیں۔
’’شانو کہاں ہے؟‘‘ آواز میں پشیمانی اور کچھ اشتیاق تھا۔
’’سو رہی ہے، اسے نہ اٹھانا۔ کیا کام ہے مجھے بتادو۔ساری رات روئی ہے میری بچی۔‘‘ اماں کی آواز بھرائی۔
’’اماں! مجھے معاف کر دو، اور ادھر تو دیکھو…‘‘ وہ تیزی سے بڑھ کر اماں کے برابر آیا۔ ’’دیکھو میں شانو کے لیے یہ سامان لایا ہوں۔‘‘ اس نے ہاتھ میں پکڑے تھیلے کی طرف اشارہ کیا۔
’’نہ نہ…چوری نہیں… اپنی محنت کی کمائی سے خریدا ہے، یہ دیکھو کیسا اچھا سلا ہوا جوڑا اور چوڑیاں اور… اور بالوں کا کلپ بھی…‘‘ وہ جلدی جلدی، تھیلے سے چیزیں نکال رہا تھا۔
’’اور یہ دیکھو، مٹھائی بھی لایا ہوں۔ شانو کو گلاب جامن پسند ہے ناں…‘‘
’’پر تم یہ سب کیسے…؟‘‘ اماں پر تو شادی مرگ کی کیفیت تھی۔
’’اماں میں بہت شرمندہ تھا، تین دن سے ایک نئے دوست کے ساتھ ہوں، اس نے مجھے سمجھایا اور اپنے ساتھ کام دلوایا، بس جو پیسے ملے، اس سے یہ لے لیا، کچھ ادھار بھی دوست نے دے دیا، اماں معاف کردو ناں۔‘‘ وہ باقاعدہ ہاتھ جوڑے کھڑاتھا … اور اماں وہ تو شانو کو اٹھانے دوڑی تھیں، اسے خوش خبری دینے کہ اللہ نے عید کا تحفہ بھیج دیا ہے۔

حصہ