قمر جمیل اور ن۔م۔راشد کے بعد نثری نظم کا ہنگام دم توڑ چکا ہے

547

جسارت میگزین: مزاحمتی ادب کے بارے میں آپ کے کیا تاثرات ہیں؟
اقبال خاور: شعرائے کرام اپنے زمانے کے نباض ہوتے ہیں وہ اپنے اردگرد ہونے والے مظالم پر خاموش تماشائی نہیں رہتے بلکہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔ بہت سے شعرائے کرام نظریاتی شاعری کرتے ہیں‘ وہ ایک مخصوص نظریے کی حمایت میں اشعار کہتے ہیں لیکن نظریاتی شاعری ایک طبقے کے نمائندگی کرتی ہے جب کہ مزاحمتی شاعری سب کے لیے ہوتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ معروف استاد شاعر ولی دکنی کے زمانے سے مزاحمتی ادب کا آغاز ہو چکا تھا میر تقی میر اور غالب کے اشعار میں بھی ایسے بہت سے اشعار ملتے ہیں جن میں انہوں نے اس وقت کے مروجہ معاشی نظام پر احتجاج کیا ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز سے اب تک مزاحمتی ادب جاری ہے۔ علامہ اقبال سب سے بڑے مزاحمتی شاعر کے طور پر ہمارے سامنے موجود ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جوش ملیح آبادی اور مولانا ظفر علی خان بھی مزاحمتی شعرا کی صف کے نمایاں نام ہیں۔ مزاحمتی شاعری کی دو اقسام ہیں ایک وہ شاعری جو کسی خاص موضوع پر کسی خاص زمانے کے لیے لکھی جائے۔ دوسری وہ قسم ہے جو صدیوں سے ہونے والے استحصالی نظام کے خلاف کی جاتی ہے۔ یہ شاعری ہر زمانے میں زندہ رہتی ہے۔ ہر دور میں دو طبقے ہوتے ہیں ایک ظالم اور دوسرا مظلوم۔ شعرا کے غیر تحریری آئین شاعری میں لکھا ہوا ہے کہ وہ مظلوموں کی حمایت کریں یہ عمل ایک نیک عمل ہوگا اور اس کے تناظر میں لکھے گئے اشعار مزاحمتی شاعری کے زمرے میں آئیں گے۔
جسارت میگزین: نثری نظم کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
اقبال خاور: نظم کی شاعری ایک بڑی شاعری ہے‘ غزل کے مقابلے میں نظم کہنا مشکل کام ہے‘ غزل کے ایک شعر میں پورا مضمون سمویا جاسکتا ہے لیکن نظم کے تمام اشعار ایک ہی عنوان سے جڑے ہوتے ہیں۔ غزل میں ہر زمانے میں تجربات ہوئے نثری نظم کو شہرت بخشنے والوں میں قمر جمیل اور ن۔م۔راشد شامل ہیں۔ احمد ہمیش اور مبارک بھی نثری نظم کے اہم شعرا ہیں‘ سجاد ظہیر‘ رئیس فروغ‘ ثروت حسین‘ محمود کنور‘ عذرا عباس‘ فاطمہ حسن‘ سیما خان اورکزئی‘ عبدالرشید‘ سید ساجد‘ انور سن رائے‘ اقبال فریدی‘ نسرین انجم بھٹی‘ شائستہ حبیب‘ سارہ شگفتہ‘ اقبال سید‘ شوکت عابد‘ انوپا حیدر‘ ضمیر علی بدایونی اور احسن سلیم نے نثری نظمیں کہیں کچھ عرصے رسا چغتائی بھی نثری نظموں سے وابستہ رہے لیکن کامیاب نہ ہوئے۔ شاعری میں نثری نظم کہاں کھڑی ہے اس کا فیصلہ ہونا باقی ہے لیکن نثری نظم اب بہت کم ہو گئی ہے‘ ممکن ہے کہ نثری نظم کا کوئی بڑا شاعر پیدا ہو جائے اس نظم میں جب تک کوئی نیا خیال‘ نیا پن نہیں لکھیں گے تب تک آپ نثری نظم میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ نثری نظموں کے نئے دیوان شائع ہوئے ہیں۔ بہت سے شعرا نثری نظم کے قائل نہیں وہ کہتے ہیں کہ نثری نظم میں ردیف‘ قافیہ اور غنائیت نہیں ہوتی یہ سب کچھ مان لیا جائے تو بہت سے شعرا کے اشعار بحر میں ہوتے ہیں لیکن کوئی انوکھا اور نیا پن نہیں ہوتا۔ بات یہ ہے کہ آپ اپنی بہترین صلاحیتیں نثری نظم میں لگائیں گے تو آپ اچھے مضامین نکال سکتے ہیں۔ ایقان اور شعری وجدان کے ساتھ نثری نظم کہی جائے تو قارئین اور سامعین آپ کو داد و تحسین سے نوازیں گے نثری نظم کا بانی کون ہے اس سلسلے میں کئی نام سامنے ہیں لیکن اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ قمر جمیل کے زمانے میں نثری نظم کا ہنگامہ جاری تھا۔
جسارت میگزین: آپ کے خیال میں ترقی پسند تحریک نے اردو ادب پر کیا اثرات مرتب کیے؟
اقبال خاور: ترقی پسند تحریک کو ہم ادب کی سب سے بڑی تحریک کہہ سکتے ہیں جب ہندوستان پر برطانوی انگریزوں کی حکومت تھی اور زندگی کے تمام شعبوں پر وہ قابض تھے۔ ادب میں وہی لگے بندھے گل و بلبل کے قصے لکھے جارہے تھے‘ 1936ء میں ترقی پسند تحریک نے ہندوستان میں داخل ہوئی جس نے ادب میں زمینی حقائق لکھنے پر زور دیا۔ اس تحریک نے شعرائے کرام میں نظم کی تحریک پیدا کی اور تحریک کے مقاصد میں یہ بات شامل تھی کہ انسان کے فطری رجحانات کو لکھا جائے معاشرے میں تبدیلیاں لائی جائیں۔ 1944ء میں ترقی پسند تحریک اپنے پورے عروج پر تھی‘ ہر شاعر و ادیب‘ سامراج کے خلاف لکھ رہا تھا۔ اس کے اشعار میں تحریک آزادی بھی شامل تھی۔ شاعری میں ترقی پسندی کے حوالے سے اہم موضوعات بھی سامنے آئے۔ میرے خیال میں ترقی پسند شعرا میں ایک خاص قسم کی کلت پسندی بھی تھی جو آگے چل کر زوال پزیر ہوئی۔ 1936ء میں ترقی پسند تحریک کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ 1943ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی تنقیدی نشستوں نے افسانوی ادب کو معاشرتی زندگی کی سچائیوں کا اظہار بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان کے قیام کے بعد 1952ء تک ترقی پسند تحریک کے خدوخال موجود تھے فی زمانہ انجمن ترقی پسند مصنفین میں کئی دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔
جسارت میگزین: الیکٹرانک میڈیا کی یلغار نے ادب کو کس حد تک فائدہ یا نقصان پہنچایا؟
اقبال خاور: الیکٹرانک میڈیا سے نقصان زیادہ ہوا ہے اور فائدہ کم۔ ادب کا پہلا دشمن ریڈیو‘ اخبار اور ٹی وی ہیں لیکن اس کے باوجود ادب کی اہمیت کم نہیں ہوئی۔ مغربی ممالک میں الیکٹرانک میڈیا 24 گھنٹے تفریح طبع کا سامان مہیا کر رہا ہے لیکن وہاں کتب بینی کا شعبہ زندہ ہے‘ کتابوں کی اشاعت و طلب میں کوئی کمی نہیں ہوئی اس کا مطلب یہ ہے کہ قاری کو کتاب سے جو تسکین ملتی ہے وہ ٹی وی کے ذریعے ممکن نہیں۔ ہمارے ملک میں تو ویسے ہی تعلیمی معیار روبۂ زوال ہے الیکٹرانک میڈیا نے ہماری نوجوان نسل کو کتابوں سے دور کر دیا ہے۔ بہت سے ٹی وی اینکرز اردو کے الفاظ کو صحیح طور پر ادا نہیں کرتے اس وجہ سے بھی اردو کے تلفظ بگڑتے جارہے ہیں اردو کو رومن انگریزی میں لکھنے سے اردو قتل ہو رہی ہے۔
جسارت میگزین: موجودہ تنقیدی معیارات پر آپ کے کیا تاثرات ہیں؟
اقبال خاور: اس وقت جو تنقید لکھی جارہی ہے اس میں تنقید کے معروضی اصولوں سے انحراف کیا جا رہا ہے۔ آج کا تنقید نگار سچائی سے گریزاں ہے جب کہ تنقید نگار کا معاشرے میں اہم مقام ہے اس کا کام یہ ہے کہ وہ صحیح راستہ دکھائے‘ اس کا کام فن پارے پر اظہار کرنا ہے‘ اس کی خوبیاں اور خامیاں بیان کرنا ہے‘ آج کل کتابوں کی تقریبات میں جو اظہار خیال ہو رہا ہے وہ تنقید نہیں ہے بلکہ تعریف ہے۔ کتابوں پر جو تبصرے لکھے جارہے ہیں ان میں دوستی نبھائی جا رہی ہے۔ موجودہ تنقیدی معیارات سے اردو ادب میں تنزلی کے اثرات بڑھ رہے ہیں‘ ہمیں اس طرف توجہ دینا چاہیے ورنہ اردو ادب تباہ ہو جائے اچھی تنقید نگاری سے اچھا ادب تخلیق ہوتا ہے۔
جسارت میگزین: کراچی کی ادبی فضا کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ نیز یہ بھی بتایئے کہ ادب میں معاشروں کا کیا کردار ہوتا ہے؟
اقبال خاور: ہندوستان کی تقسیم کے بعد سے کراچی اور پنجاب اردو ادب کے اہم مراکز ہیں ایک زمانے میں کراچی میں استاد شعرائے کرام کی خاصی تعداد موجود تھی جس کے سبب کراچی کے ہوٹلوں میں بھی ادبی محفلیں سجائی جاتی تھیں پھر دھیرے دھیرے سیاسی معاملات نے کراچی کو برباد کر دیا یہاں خون کی ہولی کھیلی گئی جس سے کراچی کا من برباد ہوگیا‘ کراچی اجڑ کر رہ گیا‘ ادبی تقریبات ختم ہوگئیں۔ اب خدا کا شکر ہے کہ کراچی میں امن وامان کی صورت حال بہتر ہے جس سے ادبی تقریبات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن کورونا نے ادبی تقریبات کو متاثر کیا ہے۔ اب آن لائن مشاعرے کا رواج پڑ گیا ہے۔ کراچی کی ادبی فضا کو متحرک کرنے والوں میں رئیس امروہوی‘ سلیم احمد‘ قمر جمیل اور محب عارفی کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ انجمن ستائش باہمی کی بنیادوں پر اپنے من پسند افراد کو آگے بڑھایا جا رہا ہے جو پرائیویٹ ادبی ادارے ہیں وہاں بھی من پسند افراد کو سامنے لایا جارہا ہے بہت سے متشاعر‘ مشاعروں میں ’’اِن‘‘ ہیں جب کہ وہ ایک مصرعہ بھی نہیں کہہ سکتے۔
جسارت میگزین: اردو زبان کی موجودہ صورت حال کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
اقبال خاور: اردو زبان اس وقت دنیا کی تیسری یا چوتھی زبان ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم انگریزوں کے غلام ہیں اگرچہ ہم آزاد ہیں۔ ہم انگریزی اسکولوں میں اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں اور اردو کے نفاذ کی بات کرتے ہیں‘ آپ کا جو دل چاہے کر لیجیے انگریزی زبان پاکستانی عوام کی زبان نہیں بن سکتی‘ یہ حکومتی زبان ہے اور بیورو کریسی نہیں چاہتی کہ اردو کو سرکاری طور پر نافذ کریں۔ اردو عوام والناس کی زبان ہے اردو شاعری نے اردو کو فروغ دیا ہے‘ ہمیں چاہیے کہ ہم اردو کی ترقی کے لیے ایک پلیٹ فارم پر آجائیں ورنہ اردو تباہ ہو جائے گی۔
جسارت میگزین: آپ کا نظریۂ ادب کیا ہے؟
اقبال خاور: وہ ادب جو لوگوں کو راحت و سکون فراہم کرے وہ ادب زندگی کا آئینہ دار ہے میں اسی ادب کا قائل ہوں کہ لوگوں کو اطمینان و سکون دیا جائے۔ ادب کی تمام اصناف میں وہ باتیں لکھی جائیں جن سے معاشرتی ترقی ممکن ہو۔ آگ لگانے والے جملے اور اشعار سے مجھے بہت چڑ ہے۔ مثبت رویے زندگی کو آگے بڑھاتے ہیں‘ منفی رویوں سے معاشرتی بگاڑ جنم لیتا ہے۔
جسارت میگزین: آپ نوجوان نسل کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
اقبال خاور: نوجوان نسل شعرا کو چاہیے کہ وہ مطالعہ کریں‘ اساتذہ کے کلام سے استفادہ کریں‘ چند غزلوں کی پزیرائی سے یہ نہ سمجھ لیں کہ آپ بڑے شاعر ہو گئے ہیں۔ نئے نئے مضامین کو شاعری کا حصہ بنائیں‘ اپنی شاعری کو معاشرے کی اصلاح کا ذریعہ بنائیں‘ اپنا اسلوب بنائیں‘ دوسروں کی زمین پر اشعار کہنے کے بجائیٔ اپنی زمینیں ایجاد کریں‘ غالب اور میر کو ضرور پڑھیں۔
جسارت میگزین: کچھ ادبی تنظیمیں اسٹیج پر ایسے لوگوں کو بھی جگہ دیتی ہیں جو شاعر و ادیب نہیں ہوتے‘ آپ اس سلسلے میں کیا کہتے ہیں؟
اقبال خاور: کسی بھی مشاعرے کی صدارت کے لیے ضروری ہے کہ کوئی شاعر صدارت کرے‘ مہمان خصوصی یا مہمان اعزازی کسی کو بھی بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے مشاعرے کے اخراجات کے لیے کوئی شخص آپ کی مدد کر رہا ہے تو آپ اسے اسٹیج پر بٹھا دیں گے تو کوئی قیامت نہیں آئے گی۔ ہر زمانے میں مخیر حضرات ادبی پروگراموں کی اعانت کرتے ہیں یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ورنہ مشاعرے بند ہو جائیں اس کے ساتھ ساتھ بہت سی ادبی تنظیمیں اپنی مدد آپ کے تحت مشاعرے کرا رہی ہیں یہ ایک قابل تحسین کام ہے ہے اس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے آرٹس کونسل کراچی‘ اکادمی ادبیات کراچی اور پریس کلب میں ہو نے والے ہر مشاعرے میں اعزازیہ دیا جانا چاہیے۔

حصہ