دانتوں کا ٹارٹر صاف کریں

223

چند ٹوٹکے جن سے دانتوں سے ٹارٹر کے داغ مٹانا بہت آسان ہو جائے گا۔ دانتوں پر جما میل یا ٹارٹر کس کو پسند ہوسکتا ہے بلکہ اس کا نظر آنا خوف زدہ کردیتا ہے۔ یہ پلاک کی بدترین قسم ہے اور یہ اس وقت دانتوں پر نظر آتی ہے جب خلال اور صفائی نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
جب آپ اس ٹارٹر کو دانتوں سے ہٹاتے نہیں تو یہ وقت کے ساتھ سخت ہوتا جاتا ہے جب کہ مسوڑھوں کے امراض کا باعث بنتا ہے اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ایسے داغ منہ کھولنے پر شخصیت کو کتنا بدنما بناتے ہیں۔
اگر ایسا ہے تو ہمارے ارگرد موجود چند عام چیزیں آپ کی مسکراہٹ کو روشن کرسکتی ہیں یا یوں کہہ لیں آپ کے دانتوں کو جگمگا سکتی ہیں۔
بیکنگ سوڈا اور نمک:
یہ بہت سادہ مگر ٹارٹر کو ہٹانے کا مؤثر ٹوٹکا ہے، ایک کھانے کے چمچ بیکنگ سوڈا میں ایک چٹکی نمک کو ملائیں اور اس مکسچر کی کچھ مقدار ٹوتھ برش پر چھڑک دیں یا ٹوتھ پیسٹ میں شامل کردیں۔ اس ٹوٹکے کو ہفتے میں ایک بار سے زیادہ نہ آزمائیں۔
امرود:
یہ پھل اور اس کے پتے بھی قدرتی طور پر پلاک اور ٹارٹر کو ختم کرنے میں مدد دیتے ہیں، ان دونوں میں اینٹی پلاک ایجنٹ موجود ہیں اور یہ مسوڑوں کی سوجن میں بھی کمی لاتے ہیں۔ بس امرود کے صاف پتوں کی کچھ مقدار کو روز چبا کر تھوک دیں، جس سے دانتوں پر میل جمنے کا خطرہ کم ہوتا ہے، جب کہ ایک کچے امرود پر نمک چھڑک کر دن میں ایک یا دو بار چبانا بھی مدد دیتا ہے۔
سفید سرکہ:
سفید سرکہ جراثیم کش خصوصیات رکھتا ہے جو کہ دانتوں پر داغ اور ٹارٹر کو ہٹانے کے ساتھ دوبارہ نمودار ہونے سے روکنے میں مدد دیتا ہے۔ سرکے میں موجود تیزابیت دانتوں کی سطح کو نقصان پہنچاسکتی ہے تو اس کے لیے آدھے کپ پانی میں دو چائے کے چمچ سفید سرکہ اور آدھا چائے کا چمچ نمک ملائیں کر دن میں دو بار اس محلول سے کلیاں کریں۔
ایلوویرا جیل:
یہ کچھ کڑوا ضرور ہوسکتا ہے مگر ٹارٹر کو ہٹانے کے لیے جادو اثر ثابت ہوسکتا ہے، ایک چائے کا چمچ ایلو ویرا جیل، چار چائے کے چمچ گلیسرین، پانچ کھانے کے چمچ بیکنگ سوڈا، لیموں کا تیل اور ایک کپ پانی لیں، ان سب کو اچھی طرح مکس کریں اور اس محلول سے دانتوں کو صاف کریں۔ یہ عمل روزانہ اس وقت تک دہرائیں جب تک ٹارٹر ختم نہیں ہوجاتا۔ اس کے بعد ہر تین یا چار روز بعد اس عمل کو دہرائیں۔
بیکنگ سوڈا اور لیموں کا عرق:
چٹکی بھر بیکنگ سوڈا ٹوتھ برش پر چھڑکیں اور اس پر چند قطرے لموں کا عرق ٹپکا دیں اور برش کرلیں۔ واضح رہے کہ یہ عمل ہفتے میں ایک بار سے زیادہ نہ کریں۔

حصہ