بڑوں کا کہنا مانو

364

بنٹی اور مانی محلے کے سب سے شرارتی بچے تھے۔ اسکول سے گھر آتے پھر گھر والوں سے چھپ کر گلی کے سب سے پرانے برگد کے پیڑ کے نیچے بیٹھ جاتے اور آس پاس کی سن گن لے کر ایک دوسرے کو قصے کہانی سنایا کرتے۔
ایک دن جب بنٹی اسکول سے گھر آیا تو محلے کی خالہ خیرن آئی ہوئی تھیں۔ خالہ خیرن پورے محلے کی خالہ تھیں اور آئے دن کبھی بنٹی تو کبھی مانی کے گھر آیا جایا کرتی۔ جب بنٹی اپنے کمرے کی طرف جانے لگا تو خالہ کی باتوں نے بنٹی کے قدم روک دئیے۔ خالہ بڑی راز داری سے امی کو کچھ بتاتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ یہ بات کسی کو بتانا نہیں اور امی جان نے بھی قسم دے دی کہ یہ بات دونوں کے درمیان راز رہے گی۔ بنٹی دونوں کی باتیں سننے کے لیے کمرے کے باہر پردے کے پیچھے چھپ گیا۔
’’ہائے رجو! وہ ندی کے پار جو درخت کا جھرمٹ ہے نا۔ سنا ہے وہاں پر بھوتوں کا بسیرا ہے۔‘‘خالہ گال پر ہاتھ رکھ کر دھیرے سے بولی۔’’اچھا تبھی وہاں کوئی نہیں آتاجاتا۔ ‘‘امی نے حیرت کا اظہار کیا۔’’ہاں اسی ڈر کی وجہ سے سوچا تم کو خبردار کردوں۔‘‘ خالہ نے رازداری سے کہا اور چلی گئیں۔بنٹی کو خالہ کی بات سن کر بڑی ہنسی آئی اور وہ اپنے اسکول کا بستہ رکھ کر مانی کو یہ خبر دینے نکل پڑا۔ برگد کے نیچے بیٹھ کر دونوں نے اس جگہ جانے کا منصوبہ بنایا۔
’’مانی خالہ بھی کتنی بھولی ہیں۔ کیا بھوت بھی ہوتے ہیں۔ ‘‘یہ کہہ کر بنٹی زور سے ہنسا۔’’اور تو کیا! اگر وہاں کوئی نہیں جاتا تو ہم جاکر دکھائیں گے۔ کیسا؟‘‘ مانی نے حامی بھری اور طے پایا کہ اتوار والے دن بڑے میدان کا بہانا کرکے وہ دونوں ندی کے پیچھے جائیں گے۔
رات کے کھانے پر امی نے ابو اور بھائی کو وہاں سے گزرنے سے منع کردیا کہ خدا نخواستہ کوئی مصیبت گلے نہ پڑ جائے پر بنٹی من ہی من میں مسکرا تا رہا۔پلان کے مطابق بنٹی اور مانی اتوار کی صبح 11 بجے گھر سے بڑے میدان میں کرکٹ میچ کھیلنے کا بہانہ کرکے نکل پڑے۔ سب سے نظریں بچا کر دونوں ندی کے پار گھنے درختوں کے پیچھے جا پہنچے۔ وہاں مکمل خاموشی تھی اور سخت گرمی سے برا حال ہورہا تھا ۔ دور دور تک سناٹا چھایا ہوا ہے۔ دونوں کوپیاس بھی لگ رہی تھی۔ بنٹی اور مانی نے ندی کے کنارے درخت کے پاس بیٹھ کرندی سے سیر ہوکر پانی پیا اور بنٹی نے جیسے ہی مڑ کر پیچھے دیکھا تو وہاں مانی کے پیچھے ایک بوڑھا آدمی کھڑا نظر آیا جس کی پیٹھ بنٹی کی جانب تھی۔ بنٹی کو پہلے بڑی حیرت ہوئی کہ ابھی تو یہاں کوئی موجود نہ تھا پر یہ آدمی کہاں سے نمودار ہوگیا۔ اس نے وہیں بیٹھے بیٹھے اس بوڑھے شخص کو پکار کر کہا:
’’بابا جی !آپ اس وقت یہاں کیا کر رہے ہیں؟‘‘ بوڑھے آدمی نے اپنا رخ بنٹی کی طرف کیا اور نقاہت سے کہا کہ’’ میں تو یہاں سامنے والی بستی میں رہتا ہوں اور کبھی کبھی یہاں آجاتا ہوں۔‘‘یہ سن کر بنٹی نے ادھر ادھر دیکھا پر آس پاس اس کو پرانے درختوں کے علاوہ کچھ دکھائی نہ دیا۔ بنٹی نے موقع پاکر پوچھا :’’ کیا آپ نے یہاں کہیں جن یا بھوت دیکھے ہیں؟‘‘ بوڑھا شخص زور سے ہنسا اور کہا :’’نہیں تو۔ کیا تم نے کبھی بھوت یا جن کودیکھا ہے؟‘‘یہ سن کر بنٹی اور مانی نے زوردار قہقہہ لگایا اور کہا :’’نہیں! ہم نے بھی کبھی نہیں دیکھا پر کل امی بتا رہی تھی کہ یہاں بھوتوں کا بسیرا ہے۔ کیا امی سچ کہہ رہی تھی؟‘‘بنٹی نے اپنی امی کی باتوں کا مذاق اڑانا شروع کردیاا ور جیسے ہی نظر اٹھا کر دیکھا تو بوڑھا آدمی خطرناک روپ دھار چکا تھا۔ اس نے اپنی لال آنکھوں سے بنٹی اور مانی کو غورتے ہوئے کہا کہ’’ تمہاری امی سچ کہہ رہی تھی ۔‘‘وہ دونوں کی طرف بڑھنے ہی والا تھا کہ بنٹی نے ڈر کے مارے چیخ ماری اور وہ دونوں سرپٹ سڑک کی جانب دوڑنے لگے۔ یہاں تک کہ ان کو کچھ ہوش نہ رہا۔ جب آنکھ کھلی تو بنٹی نے خود کو گھر کے بستر پر پایا۔ بھائی نے بتایا کہ وہ اور مانی بڑے میدان کے آخری دروازے پر پڑے ملے ۔ وہ دن تھا اور آج کادن بنٹی اور مانی نے توبہ کی اور وعدہ کیا کہ وہ ہمیشہ بڑوں کا کہنا مانیں گے اور اکیلے کہیں نہیں جائیں گے۔

حصہ