ترکی جو میں نے دیکھا

قسط نمبر 16
کعبہ کا دروازہ اور حجرِاسود کا ٹکڑا:
یہ بھی روایت ہے کہ اس مسجد میں کعبہ شریف کا پانچ سو سال قدیم دروازہ بھی موجود ہے جو سلیم اوّل نے تحفتاً پیش کیا، اور کعبہ مقدسہ میں نصب حجرِاسود کا ایک ٹکڑا بھی موجود ہے جو کعبہ سے چوری ہونے والے حجراسود کا ایک ٹکڑا ہے۔ افسوس کہ ہم ان دونوں تبرکات کی زیارت نہ کرسکے۔ اس مسجد کے بیس گنبد اور دو طویل مینار بھی اس کی پہچان ہیں۔ ہمیں اپنے سفرِ ترکی مں دیکھی جانے والی مساجد میں سے یہ واحد مسجد نظر آئی جس میں ’’چندہ بکس‘‘ بھی موجود تھا۔ اپنا حصہ ڈالنے کی سعادت بھی ہمارا مقدر ٹھیری۔
گرین مسجد:
ایک اور خوب صورت اور بڑی مسجد شہر کی بلند ترین پہاڑی پر واقع ہے، جسے سلطان مہمت نے 1419ء میں تعمیر کیا۔ یہ مسجد سبز رنگ کے دل کش ٹائلز اور خوب صورت کیلی گرافی سے مزین ہے۔ تقریباً ہر بڑی مسجد کے باہر وسیع احاطے میں سبزہ، پھول اور درخت نظر آئے اور باہر شاپنگ مالز۔ یہاں سرکاری امام و مؤذن سے مختصر ملاقات ہوئی۔ عربی کے چند جملوں میں مختصر تبادلۂ خیال ہی ہوسکا۔ مؤذن صاحب کورونا کے خطرات کے کچھ زیادہ ہی شکار تھے اور محتاط بھی۔ اس مسجد کے باہر بہت اونچی جگہ پر ایک اور خوب صورت، پُرشکوہ مقبرہ تھا، جہاں کسی بڑے عالم دین اور دیگر افراد کی قبریں موجود تھیں۔ ہم ان کی شناخت نہ جان سکے کہ سیڑھیاں چڑھ کر بے حال ہوچکے تھے۔ بہرحال دعا کی اور تصویر بنائی۔
آئی برڈ ویو:
ایک اور پہاڑی پر ایک خوب صورت منظر بھی ہمارا حاصلِ سفر تھا۔ ایک وسیع، خوب صورت احاطہ جو چند سال پہلے 2010ء میں تعمیر کیا گیا، جہاں سے استنبول کے مشتاقانِ دید کو ’’بورصا‘‘ سے استنبول کا طائرانہ نظارہ کرایا جاتا ہے۔ جنگلے کے ساتھ کھڑے ہوکر نظر جھکائیں تو بورصا کا خوب صورت شہر، اور نظر دوڑائیں تو دور سمندر پار استنبول کے دل فریب مناظر۔ بلاشبہ ہمارا اشتیاق بھی دوچند ہوگیا اور استنبول کی جانب کھنچنے لگے۔
استنبول کے مسافر:
ایک آنکھ سے ’’بورصا‘‘ شہر اور دوسری سے ’’استنبول‘‘ شہر دیکھنے کے بعد استنبول کا اشتیاق فزوں تر تھا۔ مگر ابھی استنبول کے وصل میں دو منزلیں حائل تھیں، ایک ’’منیرہ‘‘ اور دوسرا 600 سال پرانا گائوں Cumalikiziki۔
’’منیرہ‘‘ ایک جدید شاپنگ مال ہے جہاں سے ہمیں ’’ٹرکش ڈیلائٹس‘‘ اور دیگر اشیا کی خریداری کی ترغیب دی گئی تھی۔ یہاں مختلف اقسام کی روایتی اور غیر روایتی مٹھائیاں موجود تھیں جو ترکی کی مشہور و مقبول سوغات ہیں، ہمیں دو سوئٹس زیادہ پسند آئیں، ایک مختلف ذائقوں، رنگت اور فلیورز کی جیلی نما مٹھائی، اور دوسری مختلف پھلوں کو خشک کرکے محفوظ کی گئی۔ عربین ڈیلائٹس بھی موجود تھیں جنہیں ترکی ذائقہ اور انداز دیا گیا تھا، اور بے شمار اقسام کی۔ یہ مٹھائیاں خاصی مہنگی تھیں۔ ان کے علاوہ زعفران کی اقسام، مختلف جڑی بوٹیاں مختلف امراض کے لیے۔ کافی کے ثابت دانے اور تازہ پسی ہوئی کافی، کاسمیٹکس کا سامان، سووینیرز، خوشبویات وغیرہ سب کچھ موجود تھا۔ پیکنگ پُرکشش اور محفوظ مگر وزن میں شامل۔ ایک خاص چیز وہاں مختلف قسم کے ’’صابن‘‘ تھے۔ ترکی صابن خاصی اچھی کوالٹی اور اقسام کے دنیا بھر میں مقبول ہیں۔ پیک شدہ اور پیکنگ کے بغیر۔ ہمیں ان کے فضائل کا علم نہ تھا اور نہ ہی ضرورت، البتہ بس میں بیٹھنے کے بعد معلوم ہوا کہ گائیڈ مسٹر والکن نے ’’ڈونکی سوپ‘‘ کی خاصی مقدار خریدی جو آئلی اسکن کے لیے مفید ہے۔ پاکستانیوں نے ڈونکی سوپ جو گدھی کے دودھ سے بنایا جاتا ہے، کے حوالے سے مسٹر والکن کو خوب زِچ کیا۔
’’منیرہ‘‘ نے ہمارے تیس ہزار روپے خرچ کروا دیے، جو ہم نے لیرا اور ڈالرز میں ادا کیے۔ یورو کی کرنسی ڈالر سے زیادہ مقبول ہے اور سیاحوں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ آتے ہوئے ’’یورو‘‘ ساتھ لائیں کہ اس کا اچھا ریٹ ’’لیرا‘‘ میں مل جاتا ہے، اور واپس جاتے ہوئے لیرے ساتھ لائیں جو پاکستان میں منافع بخش قیمت میں فروخت ہوسکیں گے۔ ’’منیرہ‘‘ والوں سے ہم ’’ترکی نمی دانم‘‘ اور وہ انگریزی سے الرجک ہونے کے باعث کوئی بارگیننگ نہ کرسکے اور منہ مانگی قیمت ادا کرنے پر مجبور رہے۔ ’’ظالموں‘‘ نے رسید بھی نہ دی کہ استنبول میں موازنہ کرکے اپنے ’’لٹنے‘‘ کا جائزہ لے سکتے۔ اچھا ہی ہوا، ہم لٹے تو سہی، مگر اس کے ’’بوجھ‘‘ اور ’’درد‘‘ سے پاک ہی رہے۔
600 سال پرانا گائوں:
راستے کی دوسری ’’منزل‘‘ چودھویں صدی عیسوی میں قائم کیا جانے والا چھ سو سال پرانا گائوں تھا۔ برسرِ شاہراہ ایک اونچی پہاڑی پر قائم… اور گلیاں، مکانات اور دیگر اماکن اپنی اصل حالت میں موجود۔ یہ گاؤں عالمی ادارے یونیسکو کے ورلڈ ہیرٹیج (آثارِ قدیمہ) میں شامل ہے، جس کے گھروں میں تیار ہونے والا پاستا، خشک مٹھائیاں اور تازہ پھل جو مقامی باغات اور فارمز سے حاصل کیے جاتے ہیں، بہت مقبول ہیں۔
صاف، سرسبز و شاداب، پھل دار درختوں سے بھرا ہوا یہ گائوں جدت و قدامت کا حسین امتزاج تھا۔ ہم سے اونچائی پر تو نہ چڑھا گیا، مگر جو دیکھا اور سنا اس گائوں کو خاصے کی چیز سمجھا۔ گائوں کے شروع میں قدیم انداز کا بازار، چھوٹی کھوکھے نما مگر ترتیب سے بنائی گئی دکانیں اور ان میں قدیم روایات و ثقافت کی عکاس چیزیں اور سووینیر برائے فروخت موجود تھے۔ ترکی کے قدیم روایتی لباس کھلے گھیر والی شلواریں اور رنگ برنگی روایتی کھلی قمیصیں اور سروں پر مخصوص انداز سے اسکارف لپیٹے بوڑھی خواتین ان دکانوں پر بہت معمولی قیمت پر یہ چیزیں بیچتی نظر آئیں۔ گائوں میں جدید دکانیں بھی نظر آئیں۔ آنے والے گاڑیوں پر سوار ہو کر آتے، گاڑی کا چکر لگاتے اور قدامت کے انداز میں جدت کو تلاش کرتے، مناظر و ماحول سے لطف اٹھاتے۔ راستے میں مختلف مقامی پھلوں سے پانی ملے جوس بیچنے والے بھی جابجا نظر آئے۔ اونچائی کی بیزاری اور رکاوٹ نے ہمیں نہ کچھ خریدنے دیا نہ جوس سے لطف اٹھانے دیا۔
جانبِ منزل:
بورصا کے اندر اور باہر خاصا وقت گزر گیا، منتظمین نے اعلان کر رکھا تھا کہ ہم ’’بورصا‘‘ سے اپنی بسوں سمیت بحری جہاز کے ذریعے شام ڈھلے استنبول کا سفر کریں گے۔ یہ یقیناً ایک یادگار اور خوش گوار انوکھا سفر ہوتا۔ مگر ہم بورصا اور ’’منیرہ‘‘ کے ایسے اسیر ہوئے کہ استنبول کی جانب زمینی راستے کا انتخاب کرنا پڑا جو یقیناً طویل بھی تھا اور قدرے بور بھی۔
رات کے اندھیروں میں استنبول پہنچے۔ بس اس کی روشنیوں میں اس کی جدت اور قدامت کے ساتھ حسنِ تمام کی جھلک ہی دیکھ سکے۔ رات کا کھانا مقامی ریستوران میں کھایا اور ہوٹل Clarion Golden Norn میں جا ٹھیرے، جو ایک اونچی پہاڑی پر تھا، مگر اس کے فضائل اور اردگرد کے سحر سے اگلی صبح باخبر ہوئے۔
9 نومبر 2020ء۔ ترکی میں ہمارے سفر کا ساتواں اور بقایا دوسرا دن تھا۔ آج کا دن خاصا مصروف اور شیڈول طویل تھا۔ حسب معمول اپنی بسوں میں سوار ہوکر دنیا کے سب سے بڑے شاپنگ سینٹر ’’گرینڈ بازار‘‘ کے بائیس دروازوں میں سے گیٹ نمبر 7 (سات) کے باہر پہنچے۔
گرینڈ بازار۔ استنبول
تقریباً ساڑھے چھ سو سال قبل 1455ء میں سلطان محمد فاتح نے اس عظیم بازار کی بنیاد ڈالی۔ اُس وقت نجانے اس کی دکانوں کی ہیئت اور تعداد کیا ہوگی، مگر آج کے اس قدامت و جدت کے امتزاج والی بلاشبہ یکتائے زمانہ 61 گلیوں میں تقریباً پانچ ہزار دکانیں ہیں، جبکہ باقاعدہ دکانوں سے باہر بیٹھنے والوں کی تعداد یقیناً کہیں زیادہ ہوگی۔ اس کا مجموعی رقبہ پینتالیس ہزار مربع میٹر ہے، اور سب کا سب گول قوسی چھتوں سے ڈھکا ہوا۔ اور خاصا چوڑا بازار ہے، جہاں دنیا کی ہر چیز بشمول سونے چاندی کے زیورات، دستکاری، چمڑے کی اشیاء، لباس، خواتین کے دستی بیگ، موسیقی کے آلات، جوتے، کپڑے، ظروف، شیشے کے نوادرات، لیمپ، فانوس، ترکی کی مخصوص و مقبول مٹھائیاں، قیمتی پتھر اور مصالحہ جات وغیرہ دستیاب ہیں۔ اس بازار سے بالعموم روزانہ کم و بیش تین لاکھ افراد جن میں اکثریت غیر ملکیوں کی ہے، خریداری کرتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ تعداد پانچ لاکھ تک جا پہنچتی ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ یہاں بعض دکانیں وہی سامان فروخت کرتی ہیں جہاں 600 سال پہلے جو سامان برائے فروخت رکھا گیا۔ گویا چھ سات نسلوں سے ایک ہی کاروبار جاری ہے۔ اگرچہ اکثر دکانیں جدید سازوسامان، سہولیات اور کاروباری اسلوب و انداز و تکنیک سے آراستہ ہیں۔
اس بازار کی تین چار باتیں خاص ہیں۔ ایک تو اکثر دکاندار کئی زبانیں جانتے اور ضرورت کا کام نکال لیتے ہیں۔ دوسری یہاں کی صفائی بہت قابل توجہ ہے۔ تیسری بات سارے بازار میں لاتعداد اور ہر دکان میں کم و بیش ضرور ترکی پرچم آویزاں ہیں۔ چوتھی بات یہاں چھ صدی پرانے پانی کے نل تاحال درست حالت میں ہیں، جو آغاز میں یہاں نصب کیے گئے تھے۔ آج بھی ان میں پینے کا صاف پانی موجود ہے۔
دو مزید حقیقتیں بھی قابلِ ذکر ہیں۔ ایک تو یہ کہ اکثر سامان بڑے بڑے برانڈز کا موجود ہے، مگر نقل۔ اور دلچسپ بات یہ کہ نقل اصل سے زیادہ پائیدار، دلکش اور جاذبِ نظر ہے۔ ہمارے ترک گائیڈ نے ہمیں بتایا کہ اگر زیورات کی خریداری مقصود ہو یا لیدر کی مصنوعات، تو دکاندار سے سرکاری تصدیق نامہ ضرور طلب کریں۔ اس احتیاطی اطلاع نے مجھے تو خوش کردیا کہ غیر ضروری شاپنگ سے اسی شک کا سہارا لے کر بچت کا راستہ نکل آئے گا، اور میں نے اسی مضبوط ہتھیار کو استعمال کیا۔ دوسرا یہ بھی پیش نظر تھا کہ گولڈ یا سلور تو ہمیں خریدنا ہی نہیں تھا، نہ ضرورت تھی، تاہم اگر ہمیں دکاندار کوئی کاغذ دکھا بھی دیتا تو ہمیں کیا سمجھ آنی تھی!
دوسری حقیقت یہ کہ چیزوں کے نرخ خاصے بھی تھے اور سادہ لوح سیاحوں کو لوٹنے کا بھی سامان تھا۔ لیڈیز کوٹ کی ایک دکان پر دکاندار نے ’’پاکستان‘‘ کا جان کر ہمیں جذباتی طور پر ایکسپلائٹ کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان سے عقیدت کے کچھ لفظ بھی ادا کیے، مگر صاف لگ رہا تھا کہ یہ محض کاروباری ہتھکنڈہ ہے۔ ہمارا یہ یقین و تاثر اس لیے قائم ہوا کہ گزشتہ سات دنوں میں پورے ترکی میں جہاں ہمیں جانے کا اتفاق ہوا پاکستان کا نہ کہیں پرچم دیکھا، نہ نام۔ سوائے انطالیہ کے اُس ہوٹل کے جہاں لابی میں موجود خواتین کے سامان کی ایک دکان پر مالک نے اتنی بڑی تعداد میں پاکستانیوں کو دیکھ کر ایک کارڈ بورڈ پر بے ڈھنگے انداز سے ’’I LOVE PAKISTAN‘‘ کا کاروباری ترغیبی نعرہ آویزاں کردیا۔ یقیناً ہمارے دو دن کے قیام کے بعد اس نے اُتار کر کسی دوسرے ملک سے محبت کا اظہار کرکے ’’ہرجائی‘‘ ہونے کا ثبوت دیا ہوگا، اور شاید اس غصے کے باعث بھی کہ شاید ہی کوئی پاکستانی خاتون اس کے جھانسے میں آئی ہوگی۔
پسینے چھوٹ گئے
میری اہلیہ کو اور مجھے بھی اُن کے لیے ایک ’’لیڈیز کوٹ‘‘ پسند آگیا، بلکہ اس پر دل ہی آگیا۔ دونوں اطراف سے قابل استعمال۔ رنگ بھی اچھا تھا اور سائز بھی پورا۔ اور بیگم پر جچا بھی خوب۔ مگر جب قیمت پوچھی تو سن کر اور دل ہی دل میں سات سو ڈالرز کو پاکستانی روپوں میں تولنے اور تبدیل کرنے کے بعد یہ تقریباً سوا لاکھ پاکستانی روپے بنی، واقعتاً میرے تو پسینے چھوٹ گئے۔ اس نے رقم کم کرنے کی ترغیبات بھی دیں، مگر پسینے تو چھوٹ ہی چکے تھے۔ یہاں ایک بار پھر ’’مسٹر گائیڈ‘‘ کی نصیحت نے دستگیری کی اور اس کا سہارا لے کر اپنی پریشانی چھپاتے اور پسینہ صاف کرتے بیگم سے نظریں ملائے بغیر دکان سے نکل آیا، اگرچہ فیصل آبادی دکانداروں کی طرح حاجی صاحب، چودھری صاحب، میاں صاحب، خان صاحب کی آوازیں تو دور تک پیچھا کرتی رہیں مگر وہ اردو یا پنجابی میں نہیں، ترکی میں تھیں، اور ہم ’’ترکی نمی دانم‘‘ کے فیض اور برکت سے سرشار۔
اسی بازار میں خشک مٹھائیوں اور پھلوں کی ایک دکان پر ہم نے کچھ نہیں بلکہ خاصی خریداری کی۔ دکاندار نے سارا سامان ایک خوبصورت کاٹن بیگ میں بھر دیا۔ ہم نے سفر کے لیے ایک اور بیگ کی درخواست کی تو اس نے دس لیرا کا سنا دیا۔ ہم اپنا حق سمجھتے تھے کہ پانچ سات سو لیرا کی شاپنگ پر دس لیرا کا ایک معمولی کپڑے کا بیگ تو ملنا چاہیے تھا۔ ہماری ترک دوستی، خریداری اور استحقاق کے اصرار و انداز کے باوجود دکاندار نے آنکھیں ہی پھیر لیں بلکہ پنجابی محاورے کے مطابق ’’متھے تے رکھ‘‘ لیں۔
قطع نظر اس کے بازار کا ایک ہی حصہ جو ہم دیکھ سکے، خوبصورت، پُرکشش اور متنوع تھا۔ لگتا تھا جیسے کوئی میوزیم سجا ہو۔ اگر کوئی ترکی دوست ملے تو اُسے Kapalicarsi کے لفظ سے اس بازار کو پوچھیے۔ وہ ضرور خوش ہوگا اور آپ کی ترک دوستی کا معترف بھی، خواہ وہ خود اس بازار میں کبھی نہ گیا ہو، نہ لُٹا ہو۔ اس لفظ کے معنی ہیں ترکی کا چھت والا (مْسَقَّف۔ عربی لفظ) بازار۔ ایک مشورہ مسافرانِ ترکی کے لیے: اس بازار یا کسی بھی بازار میں جانے سے پہلے اپنی ضرورت اور مطلوب چیز کا تعین کیجیے، اس کے نرخ معلوم کیجیے اور پھر خریداری کریں، ورنہ ونڈو شاپنگ پر ہی انحصار کرلیجیے۔
ترکی کے سارے سفر میں ہمیں راستہ کھوجانے اور اپنی ترک زبان سے عدم واقفیت اور اُن کی انگریزی دشمنی کے خوف نے، اور کچھ اپنی عمر کے تقاضوں نے زیادہ چلنے پھرنے سے روکے رکھا۔ ہم گرینڈ بازار کو ہاتھ لگا کر اور چند منظر دیکھ کر گیٹ نمبر 7 سے حسبِ ہدایت مسٹر والکن واپس اپنی بسوں کے پاس آگئے اور جدید ترکی کے مختلف منظر آنکھوں میں سمونے لگے۔ یہاں بے مقصد بیٹھنے والے بزرگ، تیز رفتار نوجوان اور قدیم برقع والی ایک ہی خاتون نظر آئیں۔ اور کہیں کہیں خلاف ِتوقع گندگی کے کچھ آثار۔ نظر انداز کیے جانے کے قابل استنبول کی اس گندگی کو کراچی اور لاہور کے ڈھیروں اور کچرا کنڈی پر ہرگز محمول نہ کیجیے گا۔
(جاری ہے)