قانون انسداد توہین رسالتﷺ,ایک تاریخی اور تجزیاتی مطالعہ

237

(دوسرا حصہ)
دفعہ ۲۹۵ (ج)
نبی اکرمؐ کے بارے میں توہین آمیز بات کرنا وغیرہ، جو کوئی بھی زبانی یا تحریری الفاظ کے ذریعے یا واضح انداز میں بذریعہ بہتان طرازی یا بذریعہ طعن آمیز اشارہ، کنایہ، براہ راست یا بالواسطہ طور پر نبی پاک محمدؐ کے اسم مبارک کی بے حرمتی کرتا ہے، سزائے موت کا مستوجب ہوگا یا اسے تاحیات سزائے قید دی جائے گی اور اسے جرمانہ بھی کیا جاسکے گا۔
اس قانون میں بہرحال دوسزائیں دی گئی ہیں، سزائے موت یا تاحیات سزائے قید۔ اس قانون کو ملک کے بعض سینئر وکلا اور ماہرین قانون نے وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کیا۔ عدالت نے خاصے عرصے تک اس درخواست کی سماعت کی اور متعدد اسکالروں (علماء) اور قانون دانوں کو بھی طلب کیا تا کہ وہ اس موضوع پر اپنی آراء پیش کرکے عدالت کی مدد کریں۔
۳۰ اکتوبر ۱۹۹۰ء کو عدالت نے اس درخواست کا متفقہ فیصلہ سنایا۔ عدالت نے قرار دیا کہ پیغمبر اسلامؐ کی توہین یا ان کے اسم مبارک کی بے حرمتی کے جرم کی متبادل سزا، تاحیات قید، اسلام کی واضح فصوص (احکام) کے منافی ہے۔ چنانچہ یہ شریعت کے بھی منافی ہے۔ حکومت نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں پیش کیا، اس فیصلے کو چیلنج نہیں کیا گیا تھا بلکہ اس کا مقصد فیصلہ کے بعض تلخ پہلوئوں کی وضاحت حاصل کرنا تھا۔
اسی اثناء میں ایک نئی حکومت نے ملک میں اقتدار سنبھال لیا، جس نے سپریم کورٹ سے یہ اپیل ہی واپس لے لی۔ بعض لوگوں نے حکومت کے اس اقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اس سنگین جرم کے لیے صرف موت کی سزا قائم رکھنے پر اپنی ذہنی تحفظات کا اظہار کیا۔ لیکن ان لوگوں کے یہ ذہنی تحفظات عوامی سطح پر کوئی پذیرائی حاصل نہ کرسکے۔ نہ صرف رائے عامہ کے رہنمائوں نے بلکہ منتخب اداروں اور قانون ساز اسمبلیوں نے بھی عوام جذبات کو زبان دی۔
۲ جون ۱۹۹۲ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے ایک قرار داد متفقہ طور پر منظور کی، جس میں حکومت سے کہا گیا کہ پیغمبر اسلامؐ کی توہین پر صرف اور صرف سزائے موت ہی دی جانی چاہیے۔ سینیٹ نے بھی یہی راہ عمل اختیار کی۔
۸ جولائی ۱۹۹۲ء کو سینیٹ میں ترمیمی قانون متفقہ طور پر منظور کیا گیا جس میں اس جرم کے لیے صرف موت کی سزا دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ اگر عوام کی مرضی پر عمل کرنے کے اصول کا کچھ مقصد ہے، اگر مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے دونوں ایوانوں کا متفقہ فیصلہ پاکستان کے عوام کا اجتماعی ضمیر کا اظہار ہے تو یہ قانون ہماری قومی تاریخ میں ایک سب سے زیادہ عوامی قانون تسلیم کیا جانا چاہیے۔
دفعہ ۲۹۶
کسی مذہبی اجتماع کو درہم برہم کرنا، کوئی شخص جو کسی ایسے اجتماع میں بالا رادہ درہم برہم کرے گا، جو قانونی طور پر عبادت کی غرض سے ہو رہا ہو، یا مذہبی رسوم ادا کرانا ہو، اسے ایک سال تک قید کی سزا دی جاسکے گی یا جرمانہ کیا جاسکے گا یا دونوں سزائیں دی جاسکیں گی۔
دفعہ ۲۹۷
قبرستان وغیرہ میں مداخلت بے جا کرنا، کوئی شخص جو کسی شخص کے مذہب کی توہین کی نیت سے یا یہ جانتے ہوئے کہ اس طرح کسی شخص کے جذبات مجروح ہوسکتے ہیں یا کسی کے مذہب کی توہین ہوسکتی ہے، کسی عبادت گاہ، بت خانہ یا آخر رسوم کی ادائیگی کے مخصوص مقامات، یا میت (لاش) کو رکھنے کی مخصوص جگہ میں مداخلت بے جا کا مرتکب ہوگا، یا کسی انسانی لاش کی بے حرمتی کرے گا یا مرنے والے کی آخری رسوم کی ادائیگی کے اجتماع میں مداخلت کرے گا، اسے سزائے قید دی جاسکے گی، جو ایک سال تک ہوسکتی ہے یا جرمانہ کا مستوجب ہوگا یا دونوں سزائیں دی جاسکیں گی۔
دفعہ ۲۹۸
دوسروں کے مذہبی جذبات مجروح کرنے کی نیت سے، منہ سے الفاظ وغیرہ ادا کرنا، کوئی شخص جو عمداً کسی شخص کے مذہبی جذبات مجروح کرنے کی نیت سے، کوئی الفاظ منہ سے نکالتا ہو، یا اسے سنا کر ایسی آواز خارج کرتا ہو، یا اس کے سامنے ایسی حرکت کا مرتکب ہوتا ہو، یا اس شخص کی نظر کے سامنے کوئی ایسی چیز رکھ دیتا ہو، ایک سال تک سزائے قید کا مستوجب ہوسکتا ہے یا اسے جرمانہ کیا جاسکتا ہے یا دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں۔
ہر چند کے مندرجہ بالا دفعات طویل اور بلند آہنگ محسوس ہوتی ہیں، مگر بنیادی طور پر یہ امن وامان قائم رکھنے کے قوانین ہیں جو ایک نوآبادیاتی لادینی حکومت نے وضع کیے تھے جن کا مقصد کسی مذہب یا نظریہ کے تحفظ کے بجائے برطانوی شہنشاہیت میں امن قائم رکھنا تھا۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ ان قانونی دفعات میں وہ تمام بنیادی عناصر شامل ہیں جو دفعہ ۲۹۵ سی میں شامل کیے جانے کے بعد آج کسی نہ کسی بہانے تنقید کا نشانہ بنائے جارہے ہیں۔ یہ کہا جارہا ہے کہ ’’اہانت‘‘ (Insult) اور ’’بے حرمتی‘‘ (Defile) مبہم اصطلاحات ہیں، ان کی غلط تعبیر و تشریح کے لامحدود امکانات ہیں اور ان کا غلط اطلاق بھی ہوسکتا ہے۔ یہ بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ’’کسی مذہبی شخصیت کی اہانت یا بے حرمتی کے سلسلے میں جو حدود و قیود عائد کی گئی ہیں وہ ان انسانی حقوق کے منافی ہیں کہ جن کی ضمانت آئین میں دی گئی ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس نوع کی ’’مبہم‘‘ اور غیر واضح‘‘ اصطلاحات سمیت یہ قانونی دفعات گزشتہ ۱۳۲ سالوں سے قانون کی کتب میں موجود ہیں اور ان کے باعث ایسی کوئی مشکل پیدا نہیں ہوئی جو آج محسوس کرنے کا عذر تراشا جارہا ہے۔ چنانچہ یہی حقیقت یہ نتیجہ اخذ کرنے کے لیے کافی ہے کہ ان اصطلاحات کی نہ تو غلط تعبیر و تشریح ہوسکتی ہے اور نہ ان کا کوئی غلط اطلاق ممکن ہے۔
برطانوی دور حکومت میں بھی تعزیرات کے اس باب کے دائرہ اطلاق میں توسیع کی ضرورت محسوس کی گئی۔ چنانچہ ۱۹۲۷ء میں ایک ترمیم کے ذریعے یہ ضرورت پوری کی گئی۔ یہ ترمیمی دفعہ (۲۹۵ الف) ہے۔
دفعہ ۲۹۸ (الف)
مقدس ہستیوں کے خلاف توہین آمیز الفاظ (ریمارکس) وغیرہ ادا کرنا، کوئی شخص جو بولے گئے یا تحریر الفاظ یا کسی بھی واضح انداز میں یا بذریعہ بہتان طرازی، یا اشارہ کنایہ میں ازالہ حیثیت عرفی، براہ راست یابالواسطہ طور پر کسی ام المومنینؓ کے اسم پاک کی توہین کرے گا یا حضور پاکؐ کے اہل بیتؓ یا کسی خلیفہ راشدؓ یا صحابہ کرامؓ میں سے کسی کی توہین کا مرتکب ہوگا ۳ سال تک سزائے قید کا مستوجب ہوگا یا اسے جرمانہ کیا جاسکے گا یا دونوں سزائیں دی جاسکیں گی۔
دفعہ ۲۹۸ (ب)
بعض خاص مقدس ہستیوں کے لیے مخصوص خطابات، القابات وغیرہ کا غلط استعمال۔
۱۔ قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ کا کوئی فرد (جو خود کو ’’احمدی‘‘ کہتے ہیں، یا کسی اور نام سے خود کو موسوم کرتے ہیں) بولے گئے یا تحریری الفاظ کے ذریعے یا کسی بھی واضح انداز میں۔
(الف) پیغمبر محمدؐ کے خلیفہؓ یا ان کے صحابیؓ کے سوا کسی اور شخص کو ’’امیر المومنین‘‘ ’’خلیفتہ المسلمین‘‘ ’’صحابی‘‘ یا ’’رضی اللہ عنہ‘‘ کہہ کر پکارتا یا اس کا ذکر کرتا ہے۔
(ب) حضور پاکؐ کی ازواج مطہراتؓ کے سوا کسی اور فرد کو ’’ام المومنین‘‘ کہہ کر پکارتا یا اس کا ذکر کرتا ہے۔
(ج) نبی پاکؐ کے اہل بیت کے سوا کسی اور شخص کو ’’اہل بیت‘‘ کہہ کر پکارتا ہے یا اس کا ذکر کرتا ہے۔
(د) یا اپنی عبادت کی جگہ کو ’’مسجد‘‘ کا نام دیتا ہے، ’’مسجد‘‘ کہہ کر پکارتا یا اس کا ذکر کرتا ہے، تین سال تک سزائے قید کا مستوجب ہوگا اور اسے جرمانہ بھی کیا جاسکے گا۔
۲۔ قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ کا کوئی فرد (جو خود کو ’’احمدی‘‘ کہتے یا کسی اور نام سے موسوم کرتے ہیں) اپنے عقیدہ کے لوگوں کو عبادت کے لیے بلانے کے طریقہ کو اذان قرار دیتا ہے یا اس طرح اذان دیتا ہے جس طرح مسلمان اذان دیتے ہیں، تین سال تک سزائے قید کا مستوجب ہوسکتا ہے اور اسے جرمانہ بھی کیا جاسکتا ہے۔
دفعہ ۲۹۸ (ج)
قادیانی گروپ وغیرہ کے کسی فرد کا خود کو مسلمان کہلانا یا اپنے عقیدہ کی تبلیغ یا نشرواشاعت کرنا، قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ کا کوئی فرد (جو خود کو احمدی کہتے یا کسی اور نام سے موسوم کرتے ہیں) براہ راست یا بالواسطہ طور پر خود کو مسلمان ظاہر کرے گا یا خود کو مسلمان قرار دے گا، اپنے مذہب کو ’’اسلام‘‘ قرار دے گا یا اپنے عقیدہ کی تبلیغ یا نشرواشاعت کرے گا یا دوسروں کو اپنا مذہب اختیار کرنے کی دعوت دے گا یا بولے گئے یا تحریری الفاظ کے ذریعے یا کسی بھی واضح انداز میں یا کسی بھی طرح مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو اشتعال دلائے گا، تین سال تک سزائے قید کا مستوجب ہوگا اور اسے جرمانہ بھی کیا جاسکے گا۔
آخر کار ۱۹۸۶ء میں مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) نے متفقہ طور پر ’’ضابطہ فوجداری کا (ترمیمی) قانون ۳ مجریہ ۱۹۸۶ء‘‘ منظور کیا۔ جس کے تحت قبل ازیں مذہب، مذہبی معتقدات، عبادت گاہوں، پیغمبر اسلامؐ کے صحابہ کرامؓ اور ازواج مطہراتؓ کو دیا گیا تحفظ ان تمام مقدس ہستیوں تک وسیع کردیا گیا جن کا ذکر اسی عزت و توقیر کے ساتھ کیا جاتا ہے، جو ان (مندرجہ بالا) ہستیوں کو حاصل ہے۔ چنانچہ دفعہ ۲۹۵ (ج) کو تعزیرات پاکستان کا حصہ بنادیا گیا۔
اتنی سخت سزا کیوں؟
کسی پیغام بر (پیغمبر) کی توہین دراصل اس پیغام کی اور وہ پیغام بھیجنے والے کی توہین ہوتی ہے۔ پھر پیغام بھیجنے والا اگر مذہبی اعتبار سے نہ صرف مقدس ہے بلکہ آخری اتھارٹی بھی ہو اور اس کے پیروکاروں کو اس کے ساتھ شدید جذباتی وابستگی بھی ہو، بلکہ وہ اپنے فرستادہ (نظام) کی صداقت کا منبع بھی ہو تو توہین کا جرم اور زیادہ سنگین ہوا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ قرون اولیٰ کے مسلمان، خاص طور پر صحابہ کرامؓ توہین رسالت کو مسلمانوں اور دوسری مذہبی برادریوں کے درمیان طے پانے والے معاہدوں کی تنسیخ کے لیے کافی بنیاد تصور کرتے ہیں۔ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی شاہکار تصنیف ’’کتاب الامم‘‘ میں بعض معاہدوں کے مسودات تحریر کیے ہیں، جو غیر مسلموں سے طے کیے جاسکتے ہیں۔ ان ’’مسودات معاہدات‘‘ میں انہوں نے ایک دفعہ رکھی ہے، جس کے تحت تمام معاہدات، عہد نامے، کسی اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کی محبت اور رسول اللہؐ کی تکریم ہے۔ دوسرے مذہبی گروہ مثلاً اہل یہود بھی ہیں جو اہل اسلام کی طرح اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان رکھتے ہیں۔ بلاشبہ دونوں مذہبی گروہوں کے درمیان اللہ تعالیٰ کی بنیادی صفات کے بارے میں تصورات پر اختلاف ہے، لیکن اس کے باوجود دونوں کے درمیان توحید کے بنیادی نظریہ پر مکمل اتفاق ہے۔ اسی طرح اہل یہود اور نصاریٰ کے بعض گروہوں کے درمیان بھی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر یقین اور اتفاق رائے ہے۔ ان دونوں گروہوں کو ہمیشہ الگ الگ مذہبی برادری تصور کیا جاتا ہے، جو ایک دوسرے سے مختلف مذہبی نظریات کے حامل ہیں کیونکہ وہ دونوں مختلف شخصیات کو اپنا پیغمبر (نبی علیہ السلام) تسلیم کرتے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ کسی برادری (یا گروہ) میں کسی پیغمبر کو جو درجہ یا فوقیت حاصل ہوتی ہے وہ ان دوسری تمام تعظیمات سے بڑھ کر ہوتی ہے جو کسی سیکولر یا لادین معاشرے میں رائج ہوتی ہیں۔ مذہبی برادریاں اپنے پیغمبر کی حرمت و تقدس کے تحفظ میں اپنی ذمہ داریوں سے کبھی غافل نہیں ہوسکتیں۔
مسلم ماہرین فقہ (ماہرین قانون) کے اس فہم و ادراک کی تائید بہت سے مسیحی اسکالر اور ماہرین الہیات بھی کرتے ہیں۔ قرون وسطیٰ کے ایک عظیم مسیحی ماہر الہیات سینٹ آگسٹائن نے کہا ہے ’’چنانچہ جو وحی کی صداقت کو جانتے ہوئے بھی اس سے بے وفائی کی اجازت دیتا ہے، اسے برداشت کرتا ہے، ان لوگوں سے زیادہ برے جرم کا مرتکب ٹھہرتا ہے جو وحی کو تسلیم ہی نہیں کرتے‘‘۔ (۴) کئی دوسرے مسیحی ماہر الہیات بھی سینٹ آگسٹائن کی تقلید کرتے ہوئے اسی نظریہ پر یقین رکھتے ہیں۔ (جاری ہے)

حصہ