سوشل میڈیا پر سستے ناڑے و بنیان کی گونج

254

اس ہفتے سوشل میڈیا پوری آب و تاب کے ساتھ چھایا رہا۔ پنجاب کی مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان کے دورہ سیالکوٹ کی بات کی جائے یا پھر اسسٹنٹ کمشنر کے حق میں اور مشیر صاحبہ کے حق میں چلنے والی لفظی جنگ پر۔ اس کے بعد رمضان میں وزیر اعظم عمران خان کا اسلام آباد کی ایک مارکیٹ کا دورہ، جس پر سب گھڑی اور سموسے ہی دیکھتے رہے۔ اسی طرح کراچی کے ایک نوجوان اسید زاہد کی دوستوں کے ہمراہ ایک نعت پڑھنے کی وڈیو جو وائرل ہو کر اُس کو مقبولیت کی کئی سیڑھیاں چڑھا گئی۔
رمضان کا ماحول تھا، ایسی دل آویز کوشش بہرحال اثر دکھاتی ہے۔ قومی اسمبلی کے حلقہ 249 کے نتائج اور دھاندلی کا روایتی شور بھی سوشل میڈیا پر چھایا رہا۔ بھارت، کورونا اور آکسیجن بھی کہیں نہ کہیں موضوع بنے رہے۔ شہادت حضرت علی ، اس پر جلوس اور کورونا کی پابندیاں بھی سوشل میڈیا پر زیر بحث رہیں۔ یورپی یونین کی جانب سے پاکستان کے خلاف پیش کردہ قرارداد نے بھی سب کو سوشل میڈیا پر جھنجھوڑا کہ جس یورپ کو خوش کرنے کے لیے اپنوں پر گولیاں برسائیں اُس نے تو اپنا اصل چہرہ دکھا دیا۔ ایک اور ضمنی انتخاب خوشاب کی صوبائی سیٹ پر ہوا جس میں مسلم لیگ ن کامیاب ہوئی تو جشن بھی ویسا ہی رہا۔ اس دوران کسی کو 4 مئی شیر میسور سلطان ٹیپو شہید کی یاد بھی آئی۔ ساتھ ساتھ شب قدر کی بھی یاد دہانی ہوتی رہی کہ رمضان کا آخری عشرہ شروع ہو رہا تھا۔ ان سب میں سب سے اہم اور کئی جہتیں رکھنے والا موضوع ایم ٹی جے تھا۔
مولانا طارق جمیل کی کپڑوں کی دکان جو ’برانڈ‘ کی شکل اختیار کر گئی ہے، وہاں کے بارے میں کسی من چلے نے پوسٹ ڈال دی کہ وہاں 550 روپے کا ازار بند اور 1100روپے کی بنیان فروخت ہو رہے ہیں۔ بس پھر کیا تھا سب کو جھنجھنا مل گیا بجانے کے لیے۔ ایسا شور برپا ہوا کہ کیا بتائیں۔ ویسے وضاحت تو ان کی جانب سے آگئی لیکن اس کے ساتھ وہی ہوا جو ساری وضاحتوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ مولانا کی حمایت، اسلام میں منافع کمانے کی حد، مہنگے کھانے و دیگر اشیا کا استعمال ہر طرح کے دلائل کی بھرمار جاری رہی۔ اس سب میں اصل بات کسی نے بھی نہیں پکڑی، بلکہ اس پر تو واہ واہ جاری رہی۔
ممتاز عالم دین و مبلغ اسلام مولانا طارق جمیل خود فرماتے ہیں کہ میں نے اس عمر میں یہ کاروبار اپنے لیے نہیں بلکہ دینی مدارس کی مالی معاونت کے لیے کیا ہے- انہوں نے واضح کہا ہے کہ مسجد میں علما کا آنا، چندہ مانگنا، زکوۃ کی اپیل کرنا اُنہیں معیوب لگتا تھا۔ اس لیے وہ ہمیشہ یہ چاہتے تھے کہ دینی مدارس کی ایسی مالی معاونت ہو کہ اُن کو کسی کے آگےہاتھ پھیلانا نہ پڑے اور مدارس بغیر صدقہ زکوۃ کے چل سکیں- چوں کہ خود ان کا اپنا مدرسہ بھی زکوۃ و عطیات سے ہی چلتا تھا اس لیے مولانا نے چند دوستوں کے ساتھ مل کر یہ کام شروع کیا کہ اس کا منافع صرف مدارس کی خدمت میں جائے گا اور ایسا نظام بن جائے کہ لوگ کہہ سکیں کہ مدارس بغیر زکوۃ کے چل سکتے ہیں۔ یہ الفاظ میرے نہیں ہیں، مولانا طارق جمیل کے ہیں۔ گو کہ انہوں نے سال 2020ء میں کورونا کے حالات کو بھی ایک وجہ بتائی تھی جس نے انہیں احساس دلایا کہ ذریعہ آمدن کچھ اور بھی ہونا چاہیے۔
اب اہم بات یہ ہے کہ برصغیر میں دینی مدارس کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے، یہ تمام مدارس اب تک صاحب خیر، کاروباری اور اہل ثروت افراد کے ذریعہ ہی چل رہے ہیں۔ پھر مزید اہم بات یہ ہے کہ زکوۃ کی مدات اللہ اور اس کے رسولﷺ کی جانب سے مقرر کردہ ہیں، اب جس کام کے چلانے کے لیے اللہ نے نظام بنا دیا ہے کوئی اِس پر تنقید اور متبادل نظام کھڑا کرنے کا اراداہ کیسے کرسکتا ہے۔ کاروبار کرنا بالکل حلال ہے ، اس مال میں سے اللہ کے راستے میں دینا بھی بالکل جائز ہے، اس نیت سے بھی کوئی کام کرنا عظیم ہے لیکن زکوۃ کے نظام پر (نادانی میں ہی کیوں نہ ہو) شرم محسوس کرنا اور یہ کہنا کہ زکوۃ دینے والے کی گھٹیا نظریں ہوتی ہیں اس لیے زکوۃ مانگنے سے روکتے ہوئے اِس کے بدلے کوئی متبادل سسٹم کی بات کرنا نکتہ تنقید ہونا چاہیے تھا۔ مگر ایسا نہیں ہو سکا، لوگوں نے اِزاربند کی قیمت اور مولانا طارق جمیل کی مہنگائی پر تقاریر کو ہی موضوع بنائے کہ لوگ اتنے مہنگی مصنوعات کی توقع نہیں کر رہے تھے۔ اس پہلو کو عوام نے دو طرف سے لیا- اسماعیل کوڈواوی لکھتے ہیں کہ ’اس برینڈ کو پبلک ہونے میں شاید برسوں لگ جاتے، لیکن حسد اور اختلاف نے MTJ کی برینڈنگ اس طرح سے کی ہے کہ آج تقریبا ہر پاکستانی کو اس برینڈ کا پتا ہے۔ طارق جمیل کیا ہے کیا نہیں یہ تو اللہ بہتر جانتا ہے لیکن یہ واقعی سچ ہے کے اللہ جب کامیابی دینا چاہے تو وہ آپ کے بدترین دشمنوں کو بھی آپ کی کامیابی کا ذریعہ بنا دیتا ہے۔ کاروبار سنت ہے، اللہ تمام جائز کاروبار کرنے والوں کے رزق میں برکت عطا فرمائے۔ آمین۔
اسی طرح ایک صاحب لکھتے ہیں کہ ’اعتراض کرنے والوں کو ہزار پندرہ سو روپے کا برگر نظر نہیں آتا، پانچ سو کا برانڈڈ زیریں جامہ نگاہوں سے اوجھل کیوں ہو جاتا ہے، ادھر اعتراض اس لیے آسانی کے ساتھ جڑ دیا جاتا ہے کہ مولوی کا برانڈ ہے جس طرح چاہے چڑھائی کر دو، کون سا کسی نے ہمیں لگام ڈالنی ہے، ایک زوال ہے جس کی طرف مسلسل ہم گامزن ہیں، معلوم نہیں یہ سفر کب اور کہاں تھمے گا، جو لوگ ذرا لکھ سکتے ہیں، رہنمائی کر سکتے ہیں وہ بھی ٹھٹھے اُڑا رہے ہیں، ہزاروں برانڈ اس وقت پاکستان میں ہیں، ہر کوئی اپنی مرضی سے قیمت کا تعین کرتا ہے، لیکن مولانا چوں کہ شریف جاتی سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے مرضی سے قیمت کا تعین کرنے کا حق انہیں نہیں دیا جا سکتا‘۔ ایک اور اہم پہلو سے اس پر بات ہوئی کہ ’جہاں شہرت ملنے کا ذرا سا بھی موقع ہو مولانا ادھر نظر آئیں گے، 70 ہزار مسلمان شہید ہو گئے طالبانی دہشت گردی میں مگر ان کے منہ سے کبھی ایک لفظ ان کے خلاف نہ نکل سکا‘۔ اس کے علاوہ کئی اور اہم ایشوز پر مولانا کی خاموشی زیر بحث آتی رہی۔ ایک اور پہلو سے بھی بات ہوئی کہ اب دُنیا پرستی پھر کس کو کہیں گے، ایک صاحب لکھتے ہیں کہ ’مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ جب مسجد میں تبلیغی جماعت آتی تھی تو دو چیزیں خاص طور پر سننے کو ملتی تھیں۔ ایک دنیا کی نہیں دین کی فکر کرو۔ دنیا کی مثال ایک مکھی کے پر کے برابر بھی نہیں، اتنی بار سنا تھا کہ مکھی ہی دنیا نظر آتی تھی۔ یہی سبب ہے کہ جب بھی دنیا میں نام بنانے اور ڈھیر ساری دولت کمانے کا خیال آتا تھا تو دنیا سے نفرت دلانے والا یہ لٹریچر شرمندہ کر دیتا تھا۔ دوم یہ واقعہ تقریباً ہر تبلیغی سناتا تھا کہ مولانا طارق جمیل اصل میں میڈیکل کے طالب علم تھے پھر انہیں لگا یہ سب تو دنیاوی علم ہے پھر آپ دین کے کام میں لگ گئے اور دیکھیں اللہ نے ان کے بیان میں کتنی تاثیر رکھی ہے، خدا نے انہیں اپنے دین کی خدمت کے لیے چن لیا ہے۔ یقین کریں اس وقت لگتا تھا کہ ہم جو میٹرک ایف ایس سی، بی ایس سی کر رہے ہیں فضول ہی کر رہے ہیں اصل کام تو مولانا کر رہے ہیں۔ اب اعتراض اس پر ہے کہ آپ کہتے کیا ہیں اور کرتے کیا ہیں؟ کیا وہ دنیا جس کی حیثیت مکھی کے پر کے برابر نہیں اس کے لیے تو آپ برینڈ بنا رہے ہیں مگر عام آدمی کو اسی دنیا کے مال و اسباب سے نفرت دلا رہے ہیں؟ کیا یہ ظلم نہیں کہ ایک شخص اپنا کاروبار بھی کر رہا ہے مگر ساتھ ساتھ اس احساس گناہ میں بھی گھلا جا رہا ہے کہ یہ تو لاحاصل سرگرمی ہے، یہ تو زندگی کا مقصد نہیں اس کے لیے کیوں محنت کی جائے؟ ہمارے معاشرے میں منافقت کا بڑا سبب ہی یہی ہے کہ ہم مانتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں-
یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ جس سرمایہ دارانہ نظام کے پنجوں میں ہم پھنسے ہوئے ہیں، جس جدیدیت کا ہم شکار ہیں، اس کے پیدا کردہ علوم کی ایک ظالمانہ شاخ ’مارکیٹنگ ‘ہے۔ اس میں ہی برانڈ بنانا پڑھایا جاتا ہے، برانڈ ایک جھوٹی تخیلاتی دنیا تعمیر کرتا ہے اور آپ کو اس جانب آنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ پوری شعوری کوشش کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ جس کمپنی کے پاس جتنا سرمایہ ہو وہ اتنا زور لگاتا ہے یہ باور کرانے میں کہ تمہارے تمام دُکھوں کا مداوا بس ہماری شے میں ہے،اس شے کے بغیر تمہاری زندگی ادھوری ہے، تم فیصلے میں آزاد ہو، آگے بڑھو اور اِسے خرید لو یہی معیار ہے، یہی عزت ہے اور امن چین خوشیوں کو پا لو-
برانڈ کے نعروں میں آزادی کا تصور وہی ہوتا ہے جو مغرب کا پیش کردہ ہے کہ تم آزاد ہو۔ اس کی سب سے گھٹیا شکل celebrity endorsement کی ہے جس میں کوئی مشہور لالچی اپنی شہرت کو فروخت کرتا ہے۔ یہ انسانی تاریخ میں انسان کی تحقیر و تذلیل کی نئی قسم ہے۔ یہ مغربی زندگی میں خون کی طرح دوڑ رہی ہے۔ بس یہ ہے حقیقت کنزیومر برانڈ کی۔ اب یہ جو بنائے گا ظلم کرے گا، چاہے وہ نمک کی برانڈ بنائے، چاہے شربت کی،چاہے کپڑے کی،چاہے کھانے کی- برانڈ کا اصل فساد یہ ہوتا ہے کہ آپ مال کے علاوہ تشہیر میں پیسے لگاتے ہو، تشہیر میں لگا پیسہ مسابقتی عمل کو یرغمال بنا لیتا ہے اور جو جتنا بڑا سرمایہ دار ہو وہ بغیر اصل مال کی وجوہ کے دیگر وجوہ سے آگے نکل جاتا ہے۔ معروف اینکر عمران خان ٹوئیٹ کرتے ہیں کہ ’غیر ملکی اور ممی ڈیڈی برانڈز کی مہنگی ترین فضولیات پر چپ رہنے والے بھی طارق جمیل صاحب کے کاروبار پر طعنے کس رہے ہیں۔ پہلے چندے کھانے کے الزام۔ کام کیوں نہیں کرتے؟ اب کاروبار کیوں کیا؟ ان کا اصل مسئلہ کچھ اور نہیں صرف علماء سے بغض ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس کی آڑ میں وہ تمام طبقات بھی الرٹ ہوئے جنہیں علمائے کرام سے بغض ہے اور ہر طرح کی اسلامی شناخت اُن کو چبھتی ہے۔ یاسر پیرزادہ نے اسی جانب ایک اور اشارہ دیا ہے کہ ’مولانا طارق جمیل اگر کوئی پٹرول پمپ کھولتے یا ٹائروں کی دکان کھولتے یا کسی میڈیکل اسٹور میں اپنا حصہ ڈالتے تو کسی کو کوئی اعتراض نہ ہوتا مگر جو کاروبار مولانا نے شروع کیا ہے اْس کا تعلق براہ راست فیشن انڈسٹری سے ہے اور یہ پورا ایک لائف اسٹائل ہے جو دین کی اُس تعبیر سے بالکل مختلف ہے جس کی تبلیغ مولانا اپنی تقاریر میں کرتے ہیں۔ اکیسویں صدی کی فیشن انڈسٹری ایک خاص فلسفے پر کھڑی ہے اور یہ فلسفہ شخصی آزادی، صارفیت ، ذات کی تشہیر، خود نمائی کی ترویج کرتا ہے۔ اِس میں سادگی، تقویٰ اور قناعت جیسے اعلیٰ تصورات کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ فرد کی خود نمائی کا ایک پورا پیکیج ہے جو مذہب سے متصادم ہے، جس میں چیزیں ضرورت کے تحت نہیں بلکہ بلا ضرورت خریدی جاتی ہیں۔ یہ درست ہے کہ کپڑا انسان کی ضرورت ہے، اچھا لباس پہننا چاہیے، اسلام میں اِس کی ممانعت نہیں مگر جس کاروبار میں مولانا نے ہاتھ ڈالا ہے وہ کپڑوں کا نہیں، بنیادی طور پر فیشن کا کاروبار ہے جو اصراف کے ماڈل پر کھڑا ہے ورنہ اچھے کپڑے تو لوگ ہر زمانے میں پہنتے تھے۔ اس کی گواہی ان کی ویب سائٹ پرموجود ہے۔ مولانا کی یہ بات قابلِ ستائش ہے کہ وہ اپنے کاروبار کی آمدن کو مدارس کے طلبا کے لیے وقف کریں گے مگر اِس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ’ہمدرد فاؤنڈیشن‘ کی طرز پر قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے ایک ٹرسٹ بنائیں اور ہر سال تمام کھاتے اپنی ویب سائٹ پر ظاہر کریں۔ مولانا کی دیانت میں کوئی شبہ نہیں مگر وقف کرنے کا درست طریقہ یہی ہے۔ بصورت دیگر آمدنی وقف کرنے کا یہ دعویٰ اْن کمپنیوں سے مختلف نہیں ہوگا جو سارا سال نفع کمانے کے بعد ایک آدھ فیصد Corporate Social Responsibilityکے نام پر خرچ کرتی ہیں جو اصل میں کمپنی کا مثبت تاثر قائم رکھنے کا خرچا ہوتا ہے۔

حصہ