مطالبہ

162

’’ابو! کیا کررہے ہیں؟‘‘
’’بیٹا روزے تو پَر لگا کر اُڑ رہے ہیں جیسے مجھے زکوٰۃ کا حساب کرنا ہے۔ ارے ہاں بلکہ… اب تو اِن شاء اللہ تمہیں بھی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی۔‘‘
یہ سن کر اشعر چونک سا گیا۔ ’’زکوٰۃ تو ابو ہمیشہ آپ ہی ادا کرتے ہیں۔‘‘
ابو مسکرا دیے۔ ’’کیوں میاں! اب تم فیملی والے ہو، اپنا کھاتے کماتے ہو، شادی کو سال سے زیادہ وقت گزر گیا ہے۔ ماشاء اللہ بہو کے زیورات بھی ہیں۔ کیا زکوٰۃ نہ ہوگی اس پر؟‘‘ ابو کی بات سن کر اسے بھی اپنی ذمے داری کا احساس ہوا۔
’’اوہ ہاں… یہ تو ہے۔ ہاں ابو ضرور دوں گا اِن شاء اللہ۔‘‘ اس نے اٹھتے ہوئے کہا اور تیار ہونے چل دیا۔
اشعر کی ملازمت جیسے ہی مستحکم ہوئی اُس کے والدین نے اپنے ہی جیسے ایک خوش حال گھرانے کی بیٹی کرن کو بہو بنا لیا۔ کرن کے والد ایک کاروباری آدمی تھے، ان کا بیڈ شیٹس کا بڑا بزنس تھا۔ اشعر کے والدین نے بصد اصرار جہیز کے لین دین کو منع کردیا۔ سو کرن کے والدین اور قریبی عزیزو اقارب نے کرن کو طلائی زیورات کی شکل میں تحائف دیے، ساتھ ہی اشعر کے والدین نے بھی دلہن کو سونے کا بھاری اور خوب صورت سیٹ تحفے میں دیا۔ یوں اب زیورات کا ایک چھوٹا سا ذخیرہ کرن کی ملکیت میں تھا جس پر زکوٰۃ کی ادائیگی لازم تھی۔
شادی کا ابتدائی زمانہ ایک دوسرے کو سمجھنے میں گزر گیا۔ اب زندگی میں رفتہ رفتہ ٹھیراؤ آگیا تھا۔ ابو کے کہنے پر اشعر کو اس فرض کی ادائیگی کا احساس ہوا۔ اُس نے نظامِ زکوٰۃ پر باقاعدہ دینی کتب اور دیگر ذرائع سے علم حاصل کیا اور کرن کو بھی اس بارے میں معلومات دیں۔
اب یہ مرحلہ درپیش ہوا کہ تمام زیورات کا وزن کرایا جائے تاکہ نصاب کے مطابق زکوٰۃ کا تعین کیا جائے۔ کسی جیولر شاپ تک لے جانے سے بہتر یہ سمجھا گیا کہ ان زیورات کی خریداری کی رسیدوں کے ذریعے وزن کا تعین کرلیا جائے، لہٰذا اب یہ کرن کی ذمے داری ٹھیری کہ خالہ، ماموں، تایا کے گھروں سے زیورات کی رسیدیں حاصل کرے۔ اور یہ اسے ایک بڑا کام لگ رہا تھا۔
جمعہ کے دن کرن کے والدین نے بیٹی داماد کو افطار پر بلا رکھا تھا۔ موقع اچھا تھا۔ مغرب کے بعد کرن نے اپنے ابو سے اس مسئلے کا ذکر کیا کہ اسے زیورات کی رسیدیں لینے سب کے گھر جانا پڑے گا۔ ابو کاروباری اونچ نیچ سمجھنے والے زیرک آدمی تھے، انھوں نے کچھ دیر سوچا، پھر اٹھ کر اپنی الماری کھولی اور دراز سے ایک لفافہ نکال کر کرن کی طرف بڑھایا اور کہا ’’یہ لو بیٹا! تمھاری شادی کے وقت آپا، بھائی جان اور جس نے بھی تمھیں زیورات دیے تھے، میں نے اُسی وقت رسیدیں بھی ان سے لے کر جمع کرلی تھیںکہ تمہیں دے دوں گا۔ پھر یہ میرے پاس ہی پڑی رہ گئیں۔ اصل میں یہ بڑی اہم چیزیں ہوتی ہیں۔ کبھی ضرورتاً بیچنا پڑ جائے تو اس وقت کام آتی ہیں۔‘‘
اس دور اندیشی پر کرن نے بڑے رشک سے ابو کو دیکھا اور ہلکی پھلکی ہوگئی۔
اس کام کے بعد دونوں وقت نکال کر رسیدیں، نوٹ بک اور کیلکولیٹر لے کر بیٹھ گئے۔ اکاؤنٹس میں ماہر اشعر نے جھٹ پٹ قیمتیں جوڑ کر سونے کی موجودہ قیمت کے حساب سے زکوٰۃ کی رقم کرن کو بتادی جو کہ اچھی خاصی بن رہی تھی۔
’’لاؤ اب اتنی رقم مجھے دو۔ میرے آفس میں ایک دو مستحق افراد ہیں میری نظر میں۔‘‘
یہ سن کر کرن اشعر کا منہ تکنے لگی، پھر بولی ’’میں کہاں سے دوں؟ ظاہر ہے یہ تو آپ کو ہی دینے ہیں۔‘‘
بے ساختہ اشعر نے کہا ’’کیا تم نے کبھی مجھے یہ زیورات پہنے دیکھا ہے؟ دیکھو یہ تمھاری ملکیت ہیں، میری نہیں۔ تم ہی انتظام کروگی ان پیسوں کا۔‘‘
ترکی بہ ترکی جواب آیا ’’اور میں کیا ہوں، آپ کی ملکیت نہیں ہوں کیا؟ میرے سارے خرچ آپ اٹھاتے ہیں تو یہ بھی آپ کو ہی ادا کرنا چاہیے۔‘‘ کرن کے لہجے میں ناز و انداز جھلک آیا تھا۔
اشعر ہنس پڑا ’’بڑی سمجھ دار ہوگئی ہو، یعنی گیند میرے ہی کورٹ میں پھینک دی‘‘۔ پھر سنجیدگی سے کہنے لگا ’’نظام زکوٰۃ کا مطالعہ اب میں نے ہوش میں آ کر کیا ہے۔ دیکھو! اللہ نے ہمارے مال کو پاک کرنے کے لیے ہم سے ڈھائی فیصد کا مطالبہ کیا ہے۔ اصل میں ہم نے کبھی اس پر دھیان ہی نہیں دیا۔ بس اسلامی آئیڈیالوجی کا پیپر دیا اور آگے بڑھ گئے۔ نماز اور زکوٰۃ تو اہم اعمال ہیں۔ اب میں نے اصول و شرائط وغیرہ قاعدے سے پڑھے ہیں۔ بہرحال اس کا طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ جو پیسے میں تمھیں روزمرہ اخراجات کے علاوہ دیتا ہوں کہ تم اپنی مرضی سے خرچ کرلو اُس میں سے زکوٰۃ کے خیال سے تمھیں ہر ماہ کچھ بچانا چاہیے تھا۔ ورنہ دوسری صورت یہ ہے کہ اپنے زیورات میں سے کوئی زیور بیچ کر زکوٰۃ ادا کی جائے، مثلاً ٹاپس، انگوٹھی یا گلے کی زنجیر۔‘‘
کرن حیرانی سے یہ ساری باتیں سن رہی تھی۔ ایک خیال کے تحت اس نے اشعر سے پوچھا ’’ضروری تو نہیں کہ میں رمضان میں ہی زکوٰۃ ادا کروں، کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ کچھ بچت کرلوں پھر ادا کردوں؟‘‘
’’جب بھی بچت اور سونے چاندی پر سال پورا ہوجائے زکوٰۃ واجب ہوجاتی ہے اور دورانِ سال کسی وقت بھی ادا کی جاسکتی ہے، لیکن چوں کہ رمضان میں ایک فرض کا ثواب ستّر فرض کے برابر ہوجاتا ہے تو اکثر مسلمان رمضان میں ادا کرنا پسند کرتے ہیں۔‘‘ اشعر سے تفصیل سننے کے بعد کرن کے چہرے پر سنجیدگی نے ڈیرے ڈال دیے اور وہ سوچ میں پڑ گئی۔
اشعر اس کا پریشان چہرہ بھلا کہاں دیکھ سکتا تھا! مسکراتے ہوئے کہنے لگا ’’چلو اِس سال میں تمھاری طرف سے ادا کردیتا ہوں، اگلے سال سے تم اپنے انتظام سے ادا کیا کرنا۔‘‘
یہ سن کر کرن کا چہرہ کھل اٹھا۔ ممنون ہوکر شوہر کی طرف دیکھا۔ ایک خیال بجلی کی طرح چمکا، شرارت آمیز مسکراہٹ کے ساتھ ایک مطالبہ اشعر کے سامنے رکھ دیا ’’تو اب آپ کو میرے ذاتی خرچ کے پیسے بڑھانے ہوں گے تاکہ میں زکوٰۃ کے لیے بچت کرسکوں۔‘‘
’’بڑی استاد نکلیں تم تو…‘‘یہ کہتے ہوئے اشعر نے سر پکڑا اور بستر پر ڈھیرہوگیا۔

حصہ