سود

میں یہ بھی عرض کر چکا ہوں کہ قریش اور ثقیف اور یہود کا سارا کاروبار تھوک فروشی کی حد تک تھا۔ اندرون ملک میں خوردہ فروشی دوسرے لوگ کرتے تھے اور وہ ان تھوک فروشوں سے مال خرید کر لے جایا کرتے تھے۔ میں یہ بھی بتا چکا ہوں کہ تھوک فروشوں اور خوردہ فروشوں کے درمیان بالکل نقدانقد کی شرط پر کاروبارِ دنیا کبھی نہیں رہا ہے اور عرب میں بھی نہیں تھا۔ اس کے بعد ذراان روایات کو ملاحظہ فرمایئے جو آیت ربوٰ کی تفسیر میں عہدِ رسالت سے قریب زمانے کے مفسرین سے منقول ہوئی ہیں۔ صحاک ذورامابقی من الربوٰ کی تفسیر کرتے ہوئے کہتے ہیں (ترجمہ) ’’یہ وہ سود تھا جس کے ساتھ جاہلیت میں لوگ خریدوفروخت کرتے تھے۔‘‘
قتادہ کہتے ہیں ’’اہل جاہلیت کا ربا یہ تھا کہ ایک شخص دوسرے شخص کے ہاتھ مال فروخت کرتا اور قیمت ادا کرنے کے لیے ایک مدت طے ہو جاتی۔ اب اگر وہ مدت پوری ہو گئی اور خریدار کے پاس اتنا مال نہ ہوا کہ قیمت ادا کرے تو بیچنے والا اس پر زائد رقم عائد کر دیتا اور مہلت بڑھا دیتا۔‘‘
سدی کہتے ہیں ’’آیت وذرواہا مقی من الربا عباس بن عبدالمطلب اور بنی المغیرہ کے ایک شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ یہ دونوں جاہلیت کے زمانے میں شریک تھے اور انہوں نے ثقیف کے بنی عمرو میں لوگوں کو سودی قرض پر مال دے رکھے تھے۔ جب اسلام آیا تو ان دونوں کا بڑا سرمایہ سود میں لگا ہوا تھا۔‘‘
یہ سب روایات خوردہ فروشوں کے ہاتھ ادھار پر مال فروخت کرنے اور اس پر سود لگانے کی خبر دیتی ہیں اور یہ بھی بتاتی ہیں کہ اس تجارتی سود کے لیے بھی الربا کی اصطلاح ہی استعمال ہوتی تھی‘ کوئی دوسرا لفظ ایسانہ تھا جو تجارتی قرضوں کے سود پر بولا جاتا ہو جو خالص شخصی حاجات کے لیے حاصل کیے جاتے تھے۔
پھر بخاری میں سات مقامات پر اور نسائی میں ایک مقام پر صحیح سندوںکے ساتھ یہ روایت نقل ہوئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ’’بنی اسرائیل میں سے ایک شخص نے دوسرے شخص سے تجارت کے لیے ایک ہزار دینار قرض لیے اور کہا کہ میرے اور تیرے درمیان اللہ گواہ اور اللہ ہی کفیل ہے۔ پھر وہ بحری سفر پر چلا گیا۔وہاںجب وہ اپنے کاروبار سے فارغ ہوا تو واپسی کے لیے اسے کوئی جہاز نہ ملا اور وہ مدت پوری ہوگئی جس کی قرارداد کرکے اس نے قرض لیا تھا۔ آخر اس نے یہ کیا کہ ایک لکڑی کے اندر سوراخ کرکے ایک ہزار دینار اس میں رکھ دیے اور قرض خواہ کے نام ایک خط بھی لکھ کر ساتھ رکھا اور سوراخ بند کرکے لکڑی سمندر میں چھوڑ دی اور اللہ سے دعا کی کہ میں نے تجھ ہی کو گواہ اور کفیل بنا کر یہ رقم اس سے شخص سے قرض لی تھی اب تو ہی اسے اس تک پہنچا دے۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ قرض خواہ ایک روز اپنے ملک میں سمندر کے کنارے کھڑا تھا۔ یکایک لکڑی کا ایک لٹھا اس کے سامنے آکر رکا اس نے لکڑی کو اٹھا کر دیکھا تو قرض دار کا خط بھی اسے ملا اور ایک ہزار دینا بھی مل گئے۔ بعد میں جب یہ شخص اپنے وطن واپس پہنچا تو ایک ہزار دینار لے کر اپنا قرض ادا کرنے کے لیے دان کے پاس گیا مگر اس نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کر دیا کہ مجھے میری رقم مل گئی ہے۔
یہ روایت اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ تجارت کے لیے قرض لینے کا تخیل اس وقت عربوں میں غیر معروف نہ تھا۔
ابن ماجہ اور نسائی میں روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ حنین کے موقع پر عبداللہ بن ربیعہ مخزومی سے 30 یا 40 ہزار درہم قرض لیے تھے اور جنگ سے واپسی پر قرض آپؐ نے ادا فرمایا۔ یہ ریاستی اغراض کے لیے قرض کی صریح مثال ہے۔
ایک دوست نے دو اور واقعات کی طرف بھی مجھے توجہ دلائی ہے جس کے لیے میں ان کا شکر گزار ہوں۔ پہلا واقعہ ہندبنست عتبہ کا ہے کہ اس نے حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے بیت المال کا چار ہزارروپیہ (غالباً درہم) تجارت کے لیے قرض حاصل کیا تھا۔
دوسرا واقعہ بھی حضرت عمرؓ ہی کے عہد کا ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری (بصرہ کے گورنر) نے بیت المال کا روپیہ حضرت عمرؓ کے دو صاحبزادوں عبداللہ اورعبیداللہ کو تجارت کے لیے قرض دیا۔ مگر بعد میں حضرت عمرؓ نے اس قرض کو قابلِ اعتراض قرار دے کر اصل کے علاوہ پورے منافع کا بھی صاحبزادوں سے مطالبہ کیا اور آخر کار لوگوں کے مشورے سے اس کو قرض کے بجائے قراض (مضاربت) قرار دے کر آدھا منافع وصول کیا۔
یہ دونوں مثالیں زمانہ جاہلیت سے بہت قریب کے دور کی ہیں۔ عرب میں 9 ہجری تک سودی کاروباری چلتا رہا۔ یہ واقعات اس کی آخری بندش سے صرف دس بارہ سال بعد کے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اتنی قلیل مدت میں تصورات نہیں بدل جاتے ہیں اس لیے ان واقعات سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ قرض پر سرمایہ لے کر تجارت کرنے کا تصور عہد جاہلیت میں بھی موجود تھا۔
رہی یہ بات کہ اسلامی عہد کے مؤرخین اور محدثین و مفسرین نے شخصی حاجات اور تجارت و کاروباری قرضوں کا واضح طور پر الگ الگ کیوں ذکر نہ کیا‘ تو اس کا ظاہر سبب یہ ہے کہ ان کے ہاں قرض‘ خواہ جس غرض کے لیے بھی ہوں‘ قرض ہی سمجھا جاتا تھا اوراس پر سود کی حیثیت بھی ان کی نگاہ میں یکساں تھی۔ انہوں نے نہ اس تصریح کی کوئی خاص ضرورت محسوس کی کہ بھوکے مرتے ہوئے لوگ پیٹ بھرنے کے لیے قرض لیتے تھے اور نہ خاص طور پر اس بات کو تفصیل سے بیان کرنا ضروری سمجھا کہ کاروبار کے لیے لوگ قرض لیا کرتے تھے۔ ان امور کی تفصیلات خال خال ہی کہیں ملتی ہیں جن سے صحیح صورت حال سمجھنے کے لیے عرب کے حالات کو اس وقت کی دنیا کے مجموعی حالات میں رکھ کر دیکھنا ناگزیر ہے۔ مختلف قرضوں کے درمیان ان کی اغراض کے لحاظ سے فرق و امتیازکرکے ایک مقصد کے قرض پر سود کو جائز اور دوسرے مقصد کے قرض پر اس کو ناجائز ٹھہرانے کا تخیل غالباًچودھویں صدی عیسوی سے پہلے دنیا میں پایا جاتا تھا۔ اس وقت تک یہودیت‘ مسیحیت اور اسلام کے تمام اہل دین اور اسی طرح اخلاقیات کے ائمہ بھی اس بات پر مفق تھے کہ ہر قسم کے قرضوں پر سود ناجائز ہے۔
ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ زمانۂ قبل اسلام میں یہ ممکن ہی نہ تھا کہ لوگ قرض کے سرمایہ سے تجارت کرسکیں کیوں کہ ملک میں کوئی باقاعدہ حکومت نہ تھی‘ ہر طرف بدامنی پھیلی ہوئی تھی‘ تجارتی قافلوں کو بہت بھاری ٹیکس دے دے کر مختلف قبائل کے علاقوں سے گزرنا پڑتا تھا اور اُن پُر خطر حالات کی وجہ سے شرح سود تین چار سو فیصد تک پہنچی ہوئی تھی جس پر قرض لے کر کاروبار میں لگانا کسی طرح نفع بخش نہ ہو سکتا تھا۔ لیکن یہ قیاس آرائی اصل تاریخی حالات سے کوئی مطابقت نہیں رکھتی۔ یہ محض ایک مفروضہ ہے جو تاریخ سے بے نیاز ہوکر صرف اس گمان پر قائم کر لیا گیا ہے کہ عرب میں جب کوئی باقاعدہ حکومت نہ تھی اور عام بدامنی پھیلی ہوئی تھی تو ضرور اس کے نتائج یہی ہوںگے۔ حالانکہ تاریخی واقعات یہ بتاتے ہیں کہ اسلام سے قریب عہد میں ایران و روم کی پیہم لڑائیوں اور سیاسی کشمکش کی بدولت چین‘ انڈونیشیا‘ ہندوستان اور مشرقی افریقہ کے ساتھ رومی دنیا کے جتنے بھی تجارتی تعلقات تھے ان کا واسطہ مکہ کے عرب تاجر ہی تھے۔ خصوصاً یمن پر ایران کا قبضہ ہو جانے کے بعد تو رومیوں کے لیے مشرقی تجارت کے سارے راستے بند ہو چکے تھے۔ ان حالات میں مشرق کا سارا مالِ تجارت خلیج فارس اور بحرِ عرب کی عربی بندرگاہوں پر اترتا اور وہاں سے مکہ پہنچ کر رومی دنیا میں جاتا تھا اور اسی طرح رومی دنیا کے سارے اموالِ تجارت قریش ہی کے قافلے مکے لاتے اور پھر ان بندرگاہوں تک پہنچاتے تھے جن پر مشرق کے تاجر آیا کرتے تھے۔ اولیاری لکھتا ہے کہ اس زمانے میں ’’مکہ‘‘ بینک کاری کا مرکز بن گیا تھا جہاں دور دراز علاقوں کے لیے ادائیگیاں کی جاسکتی تھیں اور وہ بین الاقوامی تجارت کا گھر بنا ہوا تھا۔
یہ چمکتی ہوئی تجارت آخر کیسے چل سکتی تھی اگر حالات وہ ہوتے جو فرض کر لیے گئے ہیں۔ معاشی قوانین کی سرسری واقفیت بھی یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ جہاں بدامنی کی وجہ سے کاروبار اس قدر کثیر المصارف اور پُر خطر ہو کہ تجارتی سود کی شرح تین‘ چار سو فیصد تک پہنچ جائے وہاں لازماً مالِ تجارت کی لاگت بھی اس حد تک بڑھ جانی چاہیے کہ بیرونی منڈیوں میں لے جا کر انہیں منافع کے ساتھ فروخت کرنا غیر ممکن ہو جائے۔ آخر اتنی چڑھی ہوئی قیمتوں پر یہ مال مصر و شام کے بازاروں میں کیسے بِک جاتا تھا؟ دراصل عرب میں اس ساری بدامنی و بدنظمی کے باوجود جس کا ذکر کیا جاتا ہے‘ بڑے پیمانے کی تجارت وہ قبیلے کرتے تھے جو بجائے خود طاقت ور ہوتے تھے‘ بڑے بڑے قبیلوں سے جنہوں نے حلیفانہ معاہدات بھی کر رہے تھے‘ سود پر لاکھوں روپے کا مال قبیلوں میں پھیلا کر بھی جنہوں نے بہ کثرت لوگوں کو اپنے کاروبار کی گرفت میں لے لیا تھا اور سردارانِ قبائل کو ہر طرح کے سامانِ تعیش بہم پہنچا کر بھی جنہوں نے اپنے وسیع اثرات قائم کر لیے تھے۔ اس کے علاوہ خود قبائل کا اپنا مفاد بھی اس کا متقاضی تھا کہ ان کو وہ ناگزیر ضروریاتِ زندگی غلّہ‘ کپڑا وغیرہ بہم پہنچائیں جو باہر سے درآمد ہوتی تھیں۔ اس وجہ سے ان طاقت ور قبیلوں کو بڑے بڑے تجارتی قافلے لے کر‘ جن میں بسا اوقات ڈھائی ڈھائی ہزار اونٹ ہوتے تھے‘ عرب کے راستوں سے گزرنے کے لیے اس قدر بھاری ٹیکس نہیں دینے پڑتے تھے اور نہ خطرات سے محفوظ رہنے کے لیے اس قدر خطیر مصارف اٹھانے پڑتے تھے کہ اموالِ تجارت کی قیمتیں ناقابل فروخت حد تک چڑھ جائیں بیرونی تجارت کے علاوہ خود عرب کے مختلف حصوں میں سال کے سال تقریباً 20 مرکزی مقامات پر باقاعدہ ہاٹ (سوق) لگتے تھے جن کا ذکر ہمیں تاریخوں سے ملتا ہے۔ ان ہاٹوں میں عرب کے ہر ہر حصے سے قافلے آکر خریدوفروخت کرتے اور ان میں سے بعض میں روم و ایران اور چین و ہندوستان تک کے تاجر آیا کرتے تھے۔ یہ پیہم تجارتی نقل و حرکت کیسے جاری رہ سکتی تھی اگر عرب کے حالات اتنے ہی خراب ہوتے جتنے فرض کر لیے گئے ہیں۔ مؤرخین نے قریش کے تجارتی کاروبار کے متعلق یہ تصریح کی ہے کہ وہ سو فیصد منافع کمایا کرتے تھے۔ ایسے منافع کے کاروبار کے لیے سودی قرض پر سرمایہ نہ مل سکنا اور شرح سود تین چار سو فیصد تک ہونا قطعاً خارج از فہم ہے اور اس دعوے کے لیے کوئی تاریخی سند موجود نہیں ہے کہ عرب میں شرح سود اس قدر چڑھی ہوئی تھی۔
دوسرا سوال:
لفظ ربوٰ کے معنی لغت عرب میں تو زیادتی‘ اضافے اور بڑھوتری کے ہیں‘ لیکن ’’ربوٰ‘‘ سے اصطلاحاً جو چیز مرادہے وہ خود قرآن ہی کے ان الفاظ سے صاف ظاہر ہو جاتی ہے۔
’’سود میں سے جو کچھ باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو… اگر تم توبہ کر لو تو تمہیں اپنے راس مال لینے کا حق ہے… اور اگر تمہارا دین دار تنگ دست ہو تو ہاتھ کھلنے تک اسے مہلت دو۔‘‘ (280-278 :2) (جاری ہے)

یہ الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ ربوٰ کا یہ حکم قرض کے معاملے سے متعلق ہے اور قرض میں اصل سے زائد جو کچھ طلب کیا جائے وہ الربوٰ ہے جسے چھوڑ دینے کا حکم دیا گیا ہے اس کے علاوہ قرآن یہ کہہ کر بھی ربوٰ کا مفہوم واضح کرتا ہے ’’اللہ نے بیع کو حلال اور ربوٰ کو حرام کیا ہے۔‘‘ ان الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ربوٰ میں راس المال قرض دے کر جو کچھ اس سے زیادہ لیا جاتا ہے وہ اس منافع سے مختلف ہے جو بیع کے معاملے میں لاگت سے زائد حاصل ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ربوٰ مال کی وہ زیادتی ہے جو بیع کے طریقے سے نہ ہو۔ اسی بنا پر محدثین‘ فقہا اور مفسرین کا پورا اتفاق ہے کہ قرآن میں وہ ربوٰ عام کیا گیا ہے جو قرض کے معاملے میں اصل سے زائد طلب کیا جائے۔
جیسا کہ پہلے سوال کے جواب میں تاریخ سے ثابت کیا جا چکا ہے‘ نزولِ قرآن کے وقت یہ امر عرب میںپوری طرح معلوم و معروف تھا کہ قرض کا معاملہ صرف شخصی حاجات ہی کے لیے نہیں ہوتا بلکہ کاروباری اور قومی اغراض کے لیے بھی ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود قرآن نے ربوٰ کی حرمت کا حکم صرف شخصی حاجات کے قرضوں کے لیے مخصوص ہے اور نفع آور اغراض کی لیے جو قرض دیا جائے اس پر سود لگانا حلال ہے۔ فقہا اسلام بھی پہلی صدی ہجری سے آج تک اس اصول پر متفق رہے ہیں کہ ’’ہر قرض جس کے ساتھ نفع حاصل کیا جائے ربا ہے۔‘‘ قریب کے زمانہ سے پہلے فقہا کی اس متفقہ رائے سے اختلاف کی کوئی ایک مثال بھی تاریخ فقہ سے نکال کر پیش نہیں کی جاسکتی۔
تیسرا سوال:
ربا اور ربح میں فرق یہ ہے کہ ربا قرض پر مال دے کر اصل سے زائد وصول کرنے کا نام ہے اور اس کے برعکس رَبح سے مراد بیع میں لاگت سے زائد قیمت فروخت حاصل کرنا ہے۔ اس کے مقابلے میں خسارہ کا لفظ بولا جاتا ہے جب کہ لاگت سے کم پر کسی شخص کا مال فروخت ہو۔ لسان العرب میں ربح کے معنی لکھے ہیں۔ ’’تجارت میں افزونی کو ربح اور رَبَح کہتے ہیں۔ عرب کہتے ہیں ربحت تجارتہ جب کہ تجارت کرنے والا نفع کمائے اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں فہمار ربحت تجارتھم۔‘‘
مفردات امام راغب میں ہے ’’ربح وہ زیادتی ہے جو خریدوفروخت کے معاملے میں حاصل ہو۔‘‘
قرآن مجید خود بھی ربوٰ اور تجارتی منافع کا فرق بیان کرتا ہے۔ کفارِ عرب حرمتِ سود کے خلاف جو اعتراض پیش کرتے تھے وہ یہ تھا بیع میں اصل لاگت سے زائد جو قیمت فروخت وصول کی جاتی ہے وہ بھی تو آخر اسی طرح ہے جس طرح قرض کے معاملے میں اصل راس المال سے زائد ایک رقم لی جاتی ہے۔ قرآن نے اس کے جواب میں صاف کہا کہ ’’اللہ نے بیع کو حلال کیا اور ربا کو حرام کیا ہے۔‘‘ یعنی دولت میں اضافہ خوب صورت بیع اور چیز ہے اور بصورتِ قرض اور چیز ایک کو خدا نے حلال کیا ہے اور دوسرے کو حرام۔ کوئی شخص منافع چاہتا ہو تو اس کے لیے یہ دروازہ کھلا ہے کہ خود بیع کا کاروبار کرے یا کسی دوسرے کے ساتھ اس میں شریک ہو جائے۔ لیکن قرض دے کر منافع طلب کرنے کا دروازہ بند ہے۔
چوتھا سوال:
ربا کی تعریف یہ ہے کہ ’’قرض کے معاملے میں اصل سے زائد جو کچھ بطور شرط معاملہ وصول کیا جائے وہ ربوٰ ہے۔‘‘ اس تعریف میں اس سوال کا قطعاً کوئی دخل نہیں ہے کہ یہ ربا قرض دینے والے نے طلب کیا یا قرض لینے والے نے ازخود پیش کیا۔ یہ سوال ربوٰ کی قانونی تعریف میں غیر مؤثر ہے اور قرآن سے یا کسی صحیح حدیث سے اس امر کا کوئی اشارہ تک نہیں نکلتا کہ اگر سود لینے والے کی طرف سے پیش کیا جائے تو اس سے اس کے سود ہونے اورحرام ہونے میں کوئی فرق واقع ہوگا۔ علاوہ بریں کوئی صاحبِ عقل دنیا میں ایسا موجود نہیںہے جو نہ کبھی پایا گیا ہے جسے اگر سود کے بغیر قرض مل سکتا ہو تب بھی وہ سود ادا کرنے کی شرط اپنے طور پر پیش کرے۔ قرض لینے والے کی طرف سے یہ شرط تو اسی صورت میں پیش ہو سکتی ہے جب کہ کہیں سے اس کو بلا سود قرض ملنے کی امید نہ ہو۔ اس لیے سود کی تعریف میں اس کو غیر مؤثر ہونا ہی چاہیے۔ مزید برآں بینکوں کی طرف سے قدیم زمانہ میں بھی اور آج بھی امانت رکھے ہوئے روپے پر سود اس لیے پیش کیا جاتا تھا اور کیا جاتا ہے کہ اس لالچ سے لوگ اپنی جمع شدہ دولت ان کے حوالے کریں اور پھر وہ کم شرح سود پر لی ہوئی دولت کو آگے زیادہ شرح سود پر قرض دے کر اس سے فائدہ اٹھائیں۔ اس طرح کی پیش کش اگر سود دینے والے کی طرف سے ہوتی ہے تو حرمتِ سود کے مسئلے میں اس کے قابلِ لحاظ ہونے کی آخر کیا معقول وجہ ہے۔ امانتوں پر جو سود دیا جاتا ہے اس کی نوعیت دراصل یہ ہے کہ وہ اس سود کا ایک حصہ ہے جو انہی امانتوں کو شخصی‘ کاروباری اور ریاستی قرضوں کی شکل میں دے کر وصول کیا جاتاہے۔ یہ تو اسی طرح کا حصہ ہے جیسے کوئی شخص نقب زنی کے آلات کسی سے لے اور کچھ چوری کا مال اسے حاصل ہوا اس کاایک حصہ اس شخص کو بھی دے دے جس نے اسے یہ آلات فراہم کر دیے تھے۔ یہ حصہ اس دلیل سے جائز نہیں ہو سکتا کہ حصہ دینے والے نے بہ خوشی اسے دیا ہے۔ لینے والے نے جبر سے نہیں لیا ہے۔
پانچواں سوال:
بیع سَلَّم دراصل پیشگی سودے کی ایک صورت ہے‘ یعنی ایک شخص دوسرے شخص سے آج ایک چیز خرید کر اس کی قیمت ادا کر دیتا ہے اور ایک وقت مقرر کر دیتا ہے کہ بائع وہ چیز اس وقت خاص پر اسے دے گا۔ مثلاً میں ایک شخص سے کپڑے کے سو تھان آج خریدتا ہوں اور ان کی قیمت ادا کر دیتا ہوں اس شرط کے ساتھ کہ یہ تھان میں چار مہینے کے بعد اس سے لوں گا۔اس سودے میں چار باتیں ضروری ہیں ایک یہ کہ مال کی قیمت سودا طے ہونے کے وقت ہی ادا کر دی جائے۔ دوسرے یہ کہ مال کی صفت (Quality) واضح طور پر متعین ہو تاکہ بائع اور مشتری کے درمیان اس کی صفت کے بارے میں کوئی چیز مبہم نہ رہے جو وجہ نزاع بن سکے۔ تیسرے یہ کہ مال کی مقدار بھی وزن یا ناپ یا تعداد وغیرہ کے لحاظ سے ٹھیک ٹھیک معین ہو۔ اور چوتھے یہ کہ مال خریدار کے حوالے کرنے کا وقت معین ہو اور اس میں بھی کوئی ابہام نہ ہو کہ وہ نزاع کا سبب بنے اس سودے سے میں جو پیشگی قیمت دی جاتی ہے اس کی نوعیت ہرگز قرض کی نہیں ہے بلکہ وہ ویسی ہی قیمت ہے جیسی دست بہ دست لین دین میں خریدار ایک چیز کی قیمت ادا کرتا ہے۔ فقہ میں اس کا نام بھی ثمن ہے نہ کہ قرض۔ وقت معین پرمال کی عدم تحویل یا کسی اور سبب سے اگر بیع فسخ ہو جائے تو مشتری کو صرف اصل قیمت واپس دی جاتی ہے۔ کسی شئے زائد کا وہ حق دار نہیں ہوتا۔ اس میں اور عام بیع میں اس کے سوا کوئی فرق نہیں ہے کہ عام بیع میں مشتری بائع سے اپنی خریدی ہوئی چیز دست بہ دست لے لیتا ہے اور بیع سلم میں وہ اس کا قبضہ لینے کے لیے آئندہ کی ایک تاریخ مقرر کر دیتا ہے۔ اس معاملے کو قرض اور سود کے مسئلے سے غلط ملط کرنے کی کوئی معقول وجہ میں نہیں سمجھ سکا۔
سوال میں بھینس کی جو مثال بیان کی گئی ہے وہ بیع سلم کی نہیں بلکہ شر کت کی شکل ہے‘ یعنی بھینس ایک شخص کی اور اس پر کام دوسرا شخص کرے اور دودھ دونوں کے درمیان تقسیم ہو جائے۔ (جاری ہے)

حصہ