اسلام اور سوشل ازم

1096

موجودہ زمانے کے مسائل کو حل کرنے کے لیے جو نظام پیش کیے گئے ہیں ان میں ایک سوشل ازم بھی ہے۔ سوشل ازم کی مختلف شکلیں ہیں ان میں سے جس کو مارکس اور اینجلز نے مشترک طور پر پیش کیا‘ سائنٹفک سوشل ازم کہلاتا ہے۔ سائنٹفک سوشل ازم ہی کا دوسرا نام مارکس ازم بھی ہے۔ مارکس ازم کو بنیاد بنا کر لینن نے روس میں انقلاب برپا کیا اور اصل نظریے کو برقرار رکھتے ہوئے عملی ضروریات کے تحت اس کو ایک مخصوص تاریخی اور عملی شکل دی‘ اسے مارکس ازم یا لینن ازم کہا جاتا ہے۔ چین میں اس نظریے نے ایک اور شکل اختیار کی اور عملی ضروریات کے تحت روس سے مختلف نظام وجود میں آیا‘ اسے مائوازم کہتے ہیں۔ مارکس ازم اور اس کی تمام شکلوں میں تین چیزیں مشترک ہیں -1 فلسفہ‘ -2 نظریہ تاریخ اور -3 ایک مخصوص معاشی نظام۔ مارکس ازم کا فلسفہ تاریخ مادیت اور جدلیاتی مادیت کہلاتا ہے۔ اس کا بنیادی تصور یہ ہے کہ کائنات میں متحرک مادّے کے سوا اور کوئی چیز موجود نہیں ہے اور متحرک مادّہ خود اپنے قانونِ تضاد کے تحت حرکت کرتا ہے۔ اس سے مارکس ازم کا مخصوص نظریۂ تاریخ پیدا ہوتا ہے جس کے تحت معاشرہ ایک حرکی چیز ہے جس کی بنیاد اس کے معاشی نظام پر ہوتی ہے۔ یہ معاشی نظام اپنے وقت کے مخصوص ذرائع پیداوار اور تقسیمِ پیداوار کے تابع ہوتا ہے۔ ہر معاشی نظام میں اس کی ضد موجود ہوتی ہے۔ ایک مخصوص معاشی نظام اپنی ضد کے بروئے کار آنے کے بعد ختم ہو جاتا ہے اور دوسرا معاشی نظام پیدا ہوجاتا ہے۔ مارکس ازم کے ان دو تصورات سے اس کا معاشی نظام وجود میں آتا ہے۔ مارکسیوں کے نزدیک انسان پہلے ابتدائی کمیونزم کے تحت زندگی بسر کرتا تھا جب پیداوار اور ذرائع پیداوار معاشرے کی مشترکہ ملکیت ہوا کرتے تھے‘ لیکن اس کے بعد انفرادی ملکیت کا تصور پیدا ہوا اور اس نے تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف معاشی نظام پیدا کیے‘ لیکن اب انفرادی ملکیت پر مبنی نظامِ سرمایہ داری اپنے عروج پر پہنچ کر اپنے تضاد کا شکار ہورہا ہے اس لیے اس نظام کی جو ضد پیدا ہوگئی وہ کمیونزم کا نظام ہے جس میں پیداوار اور ذرائع پیداوار سب معاشرے کی مشترک ملکیت ہوں گے‘ لیکن اس نظام کے ظہور میںآنے سے پہلے تاریخ ایک عبوری دور سے گزرے گی جس میں مزدوروں کی حاکمیت قائم ہوگی۔ یہ عبوری دور سوشلسٹ نظام کا دور ہے‘ بھٹو صاحب نے پاکستان میں جب اسلامی سوشل ازم کا نعرہ لگایا تو اس کا مطلب یہ بتایا گیا کہ پیپلزپارٹی سوشلسٹ معاشی نظام کو تو قبول کرتی ہے لیکن اس کے فلسفے اور نظریۂ تاریخ کو قبول نہیں کرتی۔ اس کی وجہ ظاہر ہے یہ تھی کہ مارکس ازم کے فلسفے اور نظریۂ تاریخ کا اسلام سے براہ راست تصادم ہے۔ اسلام کےنزدیک کائنات کی حقیقت مادّی نہیں روحانی ہے۔ اس کے علاوہ وہ یہ تسلیم نہیں کرتا کہ ہر معاشرہ اور اس کی اقدار اس کے معاشی نظام پر قائم ہوتی ہیں‘ اس لیے پیپلزپارٹی کا کہنا تھا کہ سوشل ازم ہماری معیشت ہے‘ لیکن ہمارا دین اسلام ہے۔ سوشل ازم کے فلسفے اور نظریۂ تاریخ کو مسترد کر کے اس کے معاشی نظام کو قبول کر لینے کا یہ تصور ہماری تاریخ میں نیا نہیں ہے۔ اس سے پہلے بہت سے لوگ جن میں ہماری بعض اہم شخصیتیں شامل ہیں اس تصور کی قائل رہی ہیں۔ ان میں حسرت موہانی‘ مولانا عبیداللہ سندھی اور علامہ اقبال کے نام سرِفہرست ہیں۔ مولانا حسرت موہانی کا کہنا تھا کہ سوویت روس میںانقلاب کا جو تجربہ ہوا ہے وہ اسلامی انقلاب ہی کی ایک شکل ہے۔ خود ’’سوویت‘‘ کے بارے میں وہ کہتے تھے کہ یہ عربی لفظ ’’سویّہ‘‘ کی ایک شکل ہے جس کے معنی ہیں برابر برابر۔ چنانچہ مولانا نے اپنے اشعار میں بھی یہ تصور پیش کیا کہ دنیا میں سوشلسٹ نظام کا قیام جلد یا بہ دیر ہو کر رہے گا کیوں کہ مساوات اور عدلِ عمرانی کے بغیر انسانوں کے مسائل حل نہیں ہوسکتے اور یہی اسلام کی تعلیم ہے۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے روس کے انقلاب کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور اس سے شدت سے متاثر ہوئے تھے۔ ان کا کہنا بھی یہی تھا کہ الحاد اور مادّیت کو چھوڑ کر سوشلسٹ نظام کو قبول کر لینے ہی میں مسلمانوں کی نجات ہے۔ علامہ اقبال کے نزدیک سوشل ازم اسلام کے مساوی ہے۔ ان کا کہنا تھا اگر سوشل ازم سے خدا کا انکار اور تاریخ کی مادّی تعبیر کو منہا کر دیا جائے تو وہ اسلام کے بہت قریب آجاتا ہے۔ مسلمانوں کے جدید مفکروں میں شاید مولانا مودودی ہی وہ تنہا آدمی ہیں جنہوں نے سوشل ازم کے فلسفے اور نظریۂ تاریخ کے ساتھ اس کے معاشی نظام کو بھی رد کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سوشل ازم ایک کُل ہے اور اسلام بھی ایک کُل ہے۔ سوشل ازم کے معاشی نظام کو اس کے فلسفے اور تاریخی نظریے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ اسلام اور سوشل ازم میں کوئی چیز بھی مشترک نہیں ہے۔ ایک ایسے وقت میںجب ہم عہدِ جدید کے تقاضوں کے مطابق اسلام کے نفاذ کا تجربہ کر رہے ہیں‘ ہمارے لیے یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ ہم اپنے دور کے تاریخی‘ تمدنی‘ سیاسی اور معاشی حالات کا جائزہ لیں اور ان کے پیش نظر ان تمام افکار کو سنجیدگی سے دیکھنے کی کوشش کریں جو ہمارے زمانے میں مختلف اہلِ فکر نے پیش کیے ہیں اور تنقیدی نظر سے ان کا مطالعہ کرکے اپنے لیے ایک ایسی راہ نکالیں جو ہمارے دین کے مطابق بھی ہو اور ہماری دنیا کو بھی بہتر بناسکے۔
ہمیں مولانا مودودی کی اس بات سے پورا اتفاق ہے کہ اسلام ایک کُل ہے جس کے عقائد‘ عبادات‘ اصولِ اخلاق‘ رسوم اور سیاسی اور معاشی اصولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا اسی طرح مارکسی نقطۂ نظر کے ماننے والوں کے نزدیک بھی مارکسیت کے معاشی نظام کو اس کے فلسفے اور نظریہ تاریخ سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے علاوہ ہمیں مولانا حسرت موہانی اور عبیداللہ سندھی جیسے بزرگوں سے یہ اختلاف ہے کہ ہمیں اپنی ضروریات اور مسائل کو دین کے اندر رہ کر حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اس کے لیے اسلام میں کسی اور نظریے یا نظام کی پیوند کاری سے پرہیز کرنا چاہیے‘ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ سرمایہ داری ایک ’’اجنبی‘‘ اور غیر نظام ہے جو بعض تاریخی اسباب کی بنا پر ہماری مرضی کے خلاف ہمارے اوپر مسلط کر دیا گیا ہے۔ یہ ہماری تاریخ اور معاشرت کے اندر سے نہیں اُگا‘ خارج سے ہم پر تھوپا گیا ہے۔ یہ نظام ہم سے اتنا الگ ہے کہ ہم اسے پوری طرح سمجھتے بھی نہیں ہیں۔ اس لیے اس نظام کی تفہیم اور تجزیہ کاری ایک ایسی ذمہ داری ہے جسے بادلِ نخواستہ ہمیں قبول ہی کرنا پڑے گا۔ اب اس نظام کا جو تجزیہ مارکسیوں نے کیا ہے وہ ہمیں اپنے کام میں بہت مدد دے سکتا ہے‘ کمیونسٹوں اور ترقی پسندوں سے ہمارا جو جھگڑا رہا ہے وہ تو خیر ایک اجنبی فکر سے لڑائی کی بات ہے‘ لیکن آپس میں بات کرتے ہوئے اور اپنی ضروریات کو دیکھتے ہوئے ہمیں سرمایہ داری کے اس سائنٹفک تجزیے سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہیے جو مارکسی ہمیں فراہم کرتے ہیں‘ بلکہ اسی طرح جس طرح ہم طبیعات کے کسی مسئلے کو سائنس دانوں کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سرمایہ داری کے درست تجزیے اور تفہیم ہی کے بعد ہم اس بات کو سمجھ سکیں گے کہ یہ نظام ہمارے لیے کیا معنی رکھتا ہے اور اسلام سے اس کا تصادم کس نوعیت کا ہے۔ اس سلسلے کی ایک اہم بات اور بھی ہے کہ ہم نے ابھی تک اس پر پورا غور نہیں کیا ہے کہ اسلام کے مرکزی عقائد اور احکام کی روشنی میں ہمارے سیاسی اور معاشی مسائل کے لیے ہر وہ چیز موجود ہے جو کسی مکمل نظام میں ہوتی ہے۔ ہمارے تصورات ابھی تک ابہام کا شکار ہیں اور ان کا کوئی واضح خاکہ ہمارے ذہنوں میں موجود نہیں ہیں۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہم ایک طرف سرمایہ داری کی تفہیم اور تجزیے سے عاری ہیں اور دوسری طرف ہمیں خود اسلام کے معاشی اصولوں کے بارے میں چند ابتدائی باتوں کے علاوہ اور کچھ معلوم نہیں مثلاـ مزدوروں کے بارے میں صرف یہ کہہ دینے سے کہ مزدور کی مزدوری پسینہ خشک ہوجانے سے پہلے اد اکرو‘ بیسویں صدی کے تقاضے پورے نہیں ہو سکتے‘ اس لیے اب اسلامی نظام کے نفاذ کے موجودہ مرحلے پر ہماری ذمہ داری دہری ہے‘ ہمیں ایک طرف جاگیرداری اور سرمایہ داری کے اس پورے نظام کو سمجھنا ہے جو ہماری مرضی کے خلاف اور ہمارے دین سے الگ ہم پر مسلط کر دیا گیا ہے اور دوسری طرف اسلام کے سیاسی‘ معاشی نظام کے بنیادی اصولوں کو ابہام کے بغیر سمجھ کر ان کا پورا خاکہ تیار کرتا ہے۔ ان دونوں ذمہ داریوں کو پورا کیے بغیر جذباتی باتیں تو ہو سکتی ہیں۔ کسی مسئلے کا کوئی صحیح حل نہیں ڈھونڈا جاسکتا۔ اس سلسلے میں ہمیں جن لوگوں سے مدد مل سکتی ہے ہمارے نزدیک ان میں شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کا نام سرِفہرست ہے جنہوں نے مارکس سے نوے سال پہلے کئی ایسے خیالات کا اظہار کیا جو اسلامی انقلاب کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ اس کے بعد عہدِ جدید میں اقبال اور مولانا مودودی سے استفادہ کر کے بہت سی چیزیں سیکھی جاسکتی ہیں۔ ہم تو اس کے لیے یہ بھی غیر مناسب نہیں سمجھتے کہ بعض مسائل کی تفہیم کے لیے ایسے لوگوں سے فائدہ اٹھایا جائے جن سے ہمیں بعض بنیادی عقائد کے سلسلے میں اختلاف ہے۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ موجودہ دور میں اسلام کو جو مسائل درپیش ہیں ان کے حل کے لیے ہمیں اپنے سرمایۂ افکار کی بڑی چھان پھٹک کرنے کی ضرورت پڑے گی اور اگر پورا اور بنا بنایا سچ ہمیں کہیں نہ مل سکے تو ریزہ ریزہ اسے جمع کرنا پڑے گا۔
سرمایہ داری کی بنیاد لامحدود اور بے قید انفرادی ملکیت پر ہے۔ آزادی کا خوش نما نعرہ جس پر نام نہاد ’’آزاد دنیا‘‘ میں اتنا زور دیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے پیشے کی آزادی کا نعرہ ہے جس کے معنی ہیں پیسہ کمانے کی آزادی۔ کچھ لوگوں کو سرمایہ داری کی یہ بات اتنی پسند ہے کہ وہ سوشل ازم کے مقابلے پر سرمایہ داری کو مذہب کے زیادہ قریب سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مذہب بھی انفرادی ملکیت کے اصول کو تسلیم کرتا ہے اور چونکہ سرمایہ بھی اس اصول کو مانتی ہے اس لیے سرمایہ داری کا مذہب سے کوئی تصادم نہیں ہے‘ جب کہ سوشل ازم جو انفرادی ملکیت کو تسلیم نہیں کرتا یا اسے محدود سے محدود تر کرنا چاہتا ہے‘ مذہب سے براہِ راست متصادم ہے۔ سائنٹفک سوشل ازم کی لادینیت اور مادیت پرستی نے اس نقطۂ نظر کو بہت تقویت پہنچائی ہے۔ اب ہمارے دیکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ نقطۂ نظر مذہبی نقطۂ نظر سے کتنا درست ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ مذہب (یہاں مذہب سے ہماری مراد اسلام ہے) انفرادی ملکیت کو تسلیم کرتا ہے۔ وہ فرد کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنی محنت سے جو کمائے اس کی ملکیت سے فائدہ اٹھائے‘ لیکن اسلام فرد کو انفرادی ملکیت دینے کے بعد اسے آزاد نہیں چھوڑ دیتا۔ سرمایہ داری کا ’’فرد‘‘ جن معنوں میں آزاد ہے اسلام کا فرد ان معنوںمیں آزاد نہیں ہے۔ یہ فرد عقائد‘ عبادات‘ اخلاق و احکام اور رسوم کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ وہ پیشے کے انتخاب میں بھی مطلق آزادی کا حامل نہیں ہے۔ یہاں بھی اس پر حرام و حلال کی پابندیاں لگی ہوئی ہیں۔ سرمایہ دار کو پیسے کمانے کا جو حق حاصل ہے اسلام اس پر اپنی شرطیں عائد کرتا ہے او رمال کمانے کے ہر طریقے کو جائز قرار نہیں دیتا اور نہ ہر مال کو جائز تسلیم کرتا ہے۔ مذہب کا پابند یہ فرد اپنی پابندیوں کے درمیان انفرادی ملکیت کا حق رکھتا ہے۔ اسلام کا اوّلین اصول یہ ہے کہ دنیا کی ہر چیز خدا کی ملکیت ہے اور بندہ صرف ’’امانت‘‘ کے طور پر اپنے رزق اور مال کا حق دار ہے جس کو وہ صرف احکام خداوندی کی اطاعت اور پابندی کی حدود میں رہتے ہوئے ہی اپنی تصرف میں لا سکتا ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ہم نے مومنوں کے جان و مال ان سے جنت کے بدلے میں خرید لیے ہیں۔ ان معنوں میں اسلام کا ’’فرد‘‘ سرمایہ داری کے فرد کی طرح آزاد ہے نہ کسی ایسی بے قید انفرادی ملکیت کا حق دار ہے جو اسلام کی پابندیوں سے باہر وجود رکھتی ہو۔ اسلام فرد کو انفرادی ملکیت کا حق دیتا ہے‘ مگر یہ حق اسے ’’انفاق‘‘ کے حکم کی پابندی کے ساتھ حاصل ہوتا ہے۔ قرآن نے انفاق کو ان تین بنیادی اصولوں میں سے ایک قرار دیا ہے جن پر ایمان کا انحصار ہے۔ یہ تین اصول ایمان بالغیب‘ اقامت الصلوٰۃ اور انفاق ہیں۔ اب انفاق کی کم سے کم حد زکوٰۃ کی ادائی ہے جس سے انحراف کے بعد ایمان ساقط ہو جاتا ہے‘ لیکن اس کی ایک زیادہ سے زیادہ حد بھی اور وہ ’’العفو‘‘ ہے یعنی جو کچھ ضرورت سے زیادہ بچ رہے وہ اللہ کی راہ میںخرچ کر دیا جائے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام میں زکوٰۃ کی ادائیگی انفرادی معاملہ نہیں ہے بلکہ ریاست کا حق ہے‘ جس کے معنی یہ ہوئے کہ انفاق کی پہلی حد یعنی زکوٰۃ کی وصولی کی طرح اس کی آخری حد یعنی ’’عفو‘‘ بھی ریاستی امور سے تعلق رکھتی ہے۔ جس طرح ریاست کو یہ حق ہے کہ وہ زکوٰۃ وصول کرے اسی طرح ریاست یہ بھی حق ہے کہ وہ جب مصلحتِ وقت کا تقاضا سمجھے اصولِ ’’عفو‘‘ کو بھی لازمی قرار دے جس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ ریاست کو انفرادی ملکیت میں اس تصرف کا حق حاصل ہے کہ وہ فرد کی ضرورت سے بچے ہوئے مال کو عامۃ المسلمین کی فلاح کے لیے استعمال کرسکے۔ جہاں تک اصولِ ’’عفو‘‘ کا تعلق ہے قرآن کا نصِ قطعی کی موجودگی میں کوئی مسلمان اس سے انکار نہیں کرسکتا‘ لیکن اس میں اختلاف ضرور پایا جاتا ہے کہ فرد کو ’’عفو‘‘ کے لیے مجبور کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اسلام نے فرد کو حکم دیا ہے کہ عفو پر عمل کرے‘ مگر عمل کرنے یا نہ کرنے میں اسے آزاد چھوڑ دیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں فرد اس پر عمل کرے گا تو ثواب کا مستحق ہوگا اور عمل نہیں کرے گا تو گناہ گار ہوگا۔ (جاری ہے)
لیکن ریاست کو اس میں مداخلت کا حق نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک یہ پورا استدلال باطل ہے اور عذرِ گناہ بد تر از گناہ کے مصداق ہے۔ قرآن کے حکم پر عمل نہ کرنے کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ عمل نہ کرنے والا آخرت میں گناہ اور ثواب کے بہانے صرف اسلام کے حکمِ صریح سے انحراف کا راستہ ڈھونڈ رہا ہے‘ پھرجب زکوٰۃ اور اقامت وِ صلوٰۃ دونوں ریاست کی ذمہ داریوں میں شامل ہیں تو عفو پر عمل درآمد میں ریاست کی ذمہ داری کیوں نہیں ہے؟ اس کا کوئی جواب عقلاـ اور مذہباـ ممکن نہیں ہے‘ تاہم کچھ لوگ یہ ضرور کہتے ہیں۔
خود عہدِ رسالت اور عہدِ خلافتِ راشدہ میں لوگوں کو انفرادی ملکیت کی آزادی رہی ہے اور کبھی بھی ’’عفو‘‘ کے اصول کے مدنظر ان کی انفرادی ملکیت میں ریاست کی طرف سے تصرف نہیں کیاگیا تو اس کا سیدھا سادا جواب یہی ہے کہ وہ خود انفاق کے اصول پر عمل کرتے تھے اور بہ وقت ضرورت اصولِ عفو پر عمل کرتے ہوئے نہ صرف اپنے مال بلکہ اپنی جانوں کو بھی احکامِ خداوندی پر قربان کر دیتے تھے‘ صحابۂ کبار کا عمل اس پر شاہد ہے۔ اگر ہمارا موجودہ معاشرہ بھی ویسا ہی ہو اور لوگ انفاق کے اصول پر اپنے مال کو اللہ کی راہ میں حسبِ ضرورت خرچ کریں تو بے شک ان پر کوئی قدغن نہیں ہے‘ لیکن ایک ایسے معاشرے میں جو عملاً اسلام کے بنیادی احکام سے منحرف ہو گیا ہو یا سستی میں مبتلا ہو۔ یہ لازمی ہے کہ ریاست ایسے قوانین کا نفاذ کرے جو اسے اسلام کی دی ہوئی آزادیوں سے فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ اسے اسلام کی لگائی ہوئی پابندیوں کو بھی قبول کرنے پر مجبور کرسکیں۔ سود کے نظام پر سرمایہ داری کی بنیاد رکھنا اور قاس کی دلیل اسلام میں انفرادی ملکیت کی آزادی سے دینا اپنے خدا اور اپنے آپ کو فریب دینے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
قرآن حکیم میں مال جمع کرنے والوں کے خلاف بہت سی وعیدیں‘ ڈراوے اور دھمکیاں آئی ہیں‘ کہیں انہیں آخرت میں تپتے ہوئے لوہے سے داغنے کی بشارت دی گئی ہے‘ کہیں کہا گیا ہے کہ وہ عنقریب ’’حطمہ‘‘ میں داخل ہوں گے جو اللہ کی دہکائی ہوئی ایک آگ ہے۔ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے غضب کے اس صاف اور صریح اظہار سے خائف نہیں ہوتے‘ ہرگز ہرگز کسی رعایت کے مستحق انہیں ہیں۔ یقینا ان کے دل خدا کے خوف سے خالی ہیں اور اسلام کی دی ہوئی آزادی کو صرف اپنی حرص و ہوس کی پناہ بنانا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے بلاشبہ وہ سلوک ہونا چاہیے جو احکامِ الٰہی کے باغیوں سے کیا جاتا ہے۔ حضرت عثمانؓ کے دور خلافت میں بعض بہت بڑے بڑے صحابہؓ کی رائے تھی کہ آیات روشنی میں سونا چاندی اور مال جمع کرنا اور اس میں زیادتی کرتے رہنا حرام ہے۔ حضرت ابو ذر غفاریؓ اور ان کے ساتھیوں کا یہی مؤقف تھا۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ وہ زمانہ ہمارا آپ کا زمانہ نہیںتھا اور نہ وہ معاشرہ ہمارا اور آپ کا معاشرہ تھا۔ وہ صحابہ کرامؓ کا زمانہ تھا جو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ تھے اور خشیتِ الٰہی کا نمونہ تھے۔ ان کے زمانے میں اس سوال کا پیدا ہونا ہمارے زمانے کے لیے بہت معنی رکھتا ہے۔ اس وقت حضرت کعب بن احبارؓ نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ جو مال زکوٰۃ دے کر پاک کر لیا گیا اور جس پر انفاق کا حکم جاری ہو گیا اس کے جمع ہونے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ حضرت عثمانؓ نے اس دلیل کو قبول کیا۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اس وقت کی ریاست نے اپنے ماحول اور معاشرے کو دیکھتے ہوئے یہ ضرور ی نہیں سمجھا کہ اس پر عفو کے اصول کو جبراً نافذ کرے کیوں کہ صحابہؓ اپنی مرضی سے انفاق کے اصولوں کے عامل تھے‘ لیکن ہمارے زمانے میں جب ترغیب اور تخولیف کی راہ ہماری زر پرستی کے آگے بند ہو گئی ہے ریاست اگر عفوکے اصول کو نافذ کرنے میں اپنی قوت سے کام لے تو اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی۔ خود حضرت عمرؓ نے ایک مرتبہ اپنے کچھ گورنروں کا نصف مال وجہ بتائے بغیر ضبط کر لیا تھا اور اس دلیل کو قبول نہیں کیا تھا کہ اگر یہ مال ناجائز ہے تو کُل کا کُل ضبط ہونا چاہے اور جائز ہے تو اس کا کوئی جزو بھی ضبط نہیں ہونا چاہیے۔تواب اس تمام بحث کی روشنی میں ہم واضح اور مختصر طور پر کہہ سکتے ہیں کہ اسلام انفرادی ملکیت کا جو حق دیتا ہے وہ کسی طرح بھی سرمایہ داروں کا انفرادی حقِ ملکیت نہیں ہے‘ اورع اس کو کسی طرح بھی اس لامحدود اور بے قید ہوسِ زر کی آڑ نہیں بنایا جاسکتا جو ہمارے پورے معاشرے کو تہہ و بالا کر رہی ہے۔ ہماری یہ سوچی سمجھی رائے کہ اسلامی احکام کی روشنی میں تعلیم و تربیت کے اس مرحلے پر پہنچنے تک جب معاشرہ خود اسلامی احکام پر عامل ہو جائے تو انفاق کا اصول ہماری زندگیوں میں جگہ پکڑے‘ انفرادی ملکیت کو یا تو ساقط کر دیا جائے یا اس کو حدود میں رکھنے کی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔ اسلام کے نزدیک انفرادی ملکیت ان افراد کا حق ہے جو اپنی جان و مال کو اللہ کی دی ہوئی امانت سمجھتے ہوں اور اسے بروقت اللہ کے احکام کے مطابق اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرنے پر تیار ہوں‘ لیکن جب لوگ ایسے نہ ہوں تو انفرادی ملکیت پر سے پرہیز اسی طرح لازم ہے جس طرح ایک بیمار آدمی کو غذا سے پرہیز کا حکم دیا جاتا ہے حالانکہ صحت مندی کی حالت میں غذا اس کا بنیادی حق ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ اسلام میں اس تصرف کی گنجائش موجود ہے‘ بلکہ یہ اسلام کی روح کے عین مطابق ہے۔ معاشرے کو صحت مندی کی راہ پر چلانے کے بعد جب لوگ قلب و ذہن کی مکمل ہم آہنگی کے ساتھ اسلامی احکام پر ازخود عمل پیرا ہو جائیں گے‘ اس قدغن کی ضرورت باقی نہیںرہے گی اور اسلام کے احکام کو لوگ خود اپنی رضا و رغبت سے پورا کرنے پر عمل ہو جائیں گے۔ یہ ہمارے معاشرے میں نیشنلائزیشن پر آدھا یا تہائی عمل ہوا ہے یا عمل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے معاشرے کو اجتماعی ملکیت کی طرف بڑھنے کی شدید ضرورت ہے۔ بھٹو حکومت نے اس اصول کو سوشل ازم کے نام پر برتنے کی کوشش کی اور عملاً نیشنلائزیشن کے سارے فوائد کو اپنی بے تدبیری اور غاصبانہ عمل سے غارت کرکے رکھ دیا‘ لیکن ہمارے نزدیک اس مقصد کے حصول کے لیے سوشل ازم کے نعرے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسلام کے عدلِ حکمرانی میں ریاست ایسے اقدام کی مجاز ہے۔ شرط یہ ہے کہ اجتماعی ملکیت حقیقی معنوں میں اجتماعی ملکیت ہو۔ ذاتی یا جماعتی مفاد کے لیے عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی سازش نہ ہو۔

حصہ