جائزہ

165

گھنٹی کی آواز سن کر ارفع دروازے کی طرف بڑھی تو علی اور سعد بھی اُس کے پیچھے بھاگے۔
انعم آپی کو دیکھ کر اس کا موڈ خوش گوار ہوگیا… ورنہ صبح سے جو شور، ہنگامہ اور بے ترتیبی پھیلی تھی اس سے ارفع چڑچڑاہٹ کا شکار تھی۔ انعم آپی کے گھر میں داخل ہوتے ہی ارفع نے جلدی جلدی لاؤنج سمیٹنا شروع کردیا۔ انعم نے مسکراتے ہوئے بچوں کو پیار کیا اور سالن کی چھوٹی سی ڈش جو وہ تحفتاً لائی تھی، کچن میں رکھتے ہوئے ننھی زینب کو گود میں لے کر بیٹھ گئی۔ اتنے میں ارفع بھی صوفے پر آبیٹھی۔
انعم ارفع کی بڑی بہن تھی اور اتفاق ہے کہ شادی کے بعد بھی ان کے گھر قریب ہی تھے۔ یوں تو ان کی عمروں میں آٹھ سال کا فرق تھا، مگر ان میں ذہنی ہم آہنگی بہت تھی۔
’’کیا ہوا ارفع!آج بہت تھکی تھکی سی لگ رہی ہو؟‘‘انعم نے شفقت بھرے انداز میں پوچھا۔
’’کیا کروں آپی! بچے ہر وقت مجھے تنگ کرتے رہتے ہیں۔ کوئی کام بھی ڈھنگ سے نہیں ہوپاتا۔ آج تو زینب کے بابا کو اپنے کپڑے بھی خود استری کرنے پڑے… مجھے بہت افسوس ہورہا ہے۔‘‘
انعم خود بھی ارفع کو بہت دن سے الجھا الجھا محسوس کررہی تھی۔ اب ارفع سے بات کرنے کا یہ موقع مناسب تھا۔
’’دیکھو ارفع! تمھارے بچے بہت چھوٹے ہیں۔ ابھی تمھیں کچھ وقت لگے گا… پھر چیزیں ٹھیک ہوتی چلی جائیں گی۔ اپنے روزمرہ کے کاموں کا جائزہ لو اور دیکھو کہ تمھارا وقت کہاں کہاں ضائع ہورہا ہے؟‘‘
’’مجھ سے کہاں غلطی ہورہی ہے؟‘‘ ارفع روہانسی سی ہوگئی۔
انعم نے اسے پیار سے گلے لگاتے ہوئے کہا ’’میری اچھی بہن! اگر تم واقعی یہ احساس رکھتی ہو کہ کہیں کچھ غلط ہے اور تم اس کا حل بھی چاہتی ہو تو سب سے پہلے نمازوں کی پابندی شروع کرو۔‘‘
’’آپی! بچوں کے ساتھ کاموں میں اتنی مصروف ہوجاتی ہوں کہ نماز کا وقت ہی نکل جاتا ہے۔‘‘ ارفع نے جواب دیا۔
’’ایسا کرو کہ فرائض سے شروع کرو… سنتوں کا وقت بھی نکل آئے گا۔ اور آج کل میں یہ بھی محسوس کررہی ہوں کہ تم اپنے کھانے پینے کا بالکل خیال نہیں رکھ رہی ہو۔ بے توجہی سے کھانا کھاتی ہو۔‘‘ اب انعم نے اسے ہلکے انداز میں سرزنش کی۔
’’لیکن آپی! پھر وہی بات کہ بچوں کے ساتھ جلدی جلدی کھانا پڑتا ہے‘‘۔ انعم نے ارفع کے ہاتھوں کو پیار سے تھاما اور سمجھانے لگی ’’جب ہم حاضر دماغی سے کھانا نہیں کھاتے تو ہمارے دماغ کو سگنل ہی نہیں ملتا کہ ہمارا پیٹ بھرا یا نہیں، اور ہم بسیار خوری کرتے چلے جاتے ہیں۔ اسی لیے کھانا اطمینان سے کھایا کرو۔ ہاں ایک ضروری بات اور کہ اپنا موبائل کا استعمال محدود کرلو۔‘‘
’’اِن شاء اللہ آپی! میں کوشش کروں گی۔‘‘
’’اصل میں کام کرنے کی ضرورت ہمیں سب سے پہلے اپنے اوپر ہے۔ اللہ رب العزت کا ہمارے اوپر یہ بہت بڑا احسان ہے کہ جب ہم اپنی اصلاح کرتے ہیں تو اس کا نتیجہ ہم سے قریب تر لوگوں میں بھی نظر آنا شروع ہوجاتا ہے۔‘‘
ارفع کو ہمیشہ سے یہ لگتا کہ انعم آپی بات کو مختلف زاویوں سے دیکھنے کی حکمت رکھتی ہیں، اور اسے نئے انداز سے سوچنے کا موقع دیتیں۔
’’اوہ! باتوں میں آپ سے چائے کا تو پوچھا ہی نہیں۔ آپ چائے پئیں گی نا؟‘‘
’’ہاں ہاں بالکل۔اچھا ایسا کرو کہ زینب کو تیار کردو۔میں اس کو اپنے ساتھ لے جاتی ہوں۔جب کاموں سے فارغ ہو جاؤ تو مجھے کال کردیناُ میں اسے واپس چھوڑ جاؤں گی۔‘‘
’’جزاک اللہ‘‘ کہتے ہوئے ارفع چائے بنانے باورچی خانے کی طرف بڑھ گئی۔

حصہ