بگاڑ کا سبب نہ بنیں

152

معاشرے کی تعمیر و ترقی اور سوچ کی تعمیر میں میڈیا ہمیشہ سے سرفہرست رہا ہے۔ جس طرح میڈیا مثبت اثرات تیزی سے مرتب کرتا ہے اسی طرح معاشرے پر اس کے منفی اثرات بھی فوری اور نمایاں ہوتے ہیں، خاص کر بچے تو فوراً ہی اثر قبول کرتے ہیں۔ ٹی وی اسکرین پر چلنے والے مختلف اشتہارات بہ خوبی اشیاء کی مارکیٹنگ کرتے نظر آتے ہیں اور مختلف برانڈز کامیابی سے بزنس کررہے ہیں جو کہ ایک عام سی بات ہے۔ مگر یہ بات خاص اُس وقت ہوجاتی ہے جب کسی اشتہار کی وجہ سے معاشرتی اقدار اور رویوں پر منفی اثرات پڑنے اور کوئی غلط راہ و رسم پڑنے کا اندیشہ ہو۔ ایسے میں ایک صحت مند معاشرہ ایسے رویوں کو مسترد کردیتا ہے۔
آج کل ایک اشتہار جو چاکلیٹ کا ہے، ٹی وی اسکرین کی زینت بنا ہوا ہے۔ اس اشتہار میں دکھایا جارہا ہے کہ ماں کی سالگرہ ہے، بچی کے پاس پیسے نہیں تو بچی دکان دار کو اپنے ذاتی استعمال کی اشیاء ہیئر بینڈ، کلپ وغیرہ بیچ کر ایک چاکلیٹ خریدتی ہے اور ماں کو سالگرہ کا تحفہ دیتی ہے۔ ماں خوشی سے نہال ہوجاتی ہے بلکہ آبدیدہ بھی نظر آتی ہے۔
چیزیں بیچنا اور تحفہ خریدنا وہ عمل ہے جو کہ بچے فوراً قبول کریں گے، اور بات صرف ماں کے تحفے تک محدود نہیں رہے گی، کیوں کہ اس اشتہار میں یہ تحریک دی جارہی ہے کہ اگر تحفہ دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں تو چیزیں بیچ کر خرید لو۔ جب کہ کوئی ماں یہ نہیں چاہے گی کہ اس کے بچے ایسا کریں۔ چیزیں بیچنے کی سوچ بچوں کو چوری تک لے جا سکتی ہے، جب کہ ابتدائی عمر ہی سے اس طرح کی سوچ کا فروغ بچوں کے اخلاقی بگاڑ کا سبب بن سکتا ہے، کیوں کہ اگر بچپن ہی میں خواہشات کی تکمیل کے لیے چیزیں بیچنا سکھایا جائے گا تو اس کے اثرات بہت منفی ہوں گے۔
امید ہے کہ میڈیا ایسے معاملات میں اپنا روّیہ محتاط اور ذمہ دارانہ رکھے گا، اور اس طرح کے اشتہارات دکھانے سے اجتناب برتے گا۔

حصہ