اے جذبہ دل گر میں چاہوں

188

گل رعنا نسیم بارہ سال سے مونٹیسوری چلا رہی ہیں۔ یوں تو ایک گھریلو خاتون ہیں لیکن گھر کے ساتھ ساتھ کامیابی سے چھوٹے بچوں کو تعلیم دینا، وہ بھی اس طرح کہ گھر اور گھر والے بھی متاثر نہیں ہوئے اور جو بچے ان کی مونٹیسوری میں آ رہے ہیں اُن کے والدین بھی مطمئن ہیں۔ اس شعبے میں بارہ سال ان کی کامیابی کے گواہ ہیں۔
میٹرک کے فوراً بعد ہی سولہ سال کی عمر میں شادی ہوگئی۔ کالج لائف کیا ہوتی ہے، دیکھنے کی شدید آرزو تھی جو اُس وقت پوری نہ ہوسکی۔ زندگی میں ہمیشہ سے کچھ اچھا کرنے کا عزم تھا مگر یہ نہیں پتا تھا کہ کیا کرنا ہے؟ لیکن یہ طے تھا کہ بے مقصد زندگی نہیں گزارنی۔
گفتگو کے دوران اُن کا کہنا تھا کہ شادی کے بعد ایک نئی زندگی کا آغاز ہوا تو بہت سی باتیں عجیب عجیب لگتی تھیں، خاص کر جب بھی خواتین کی کسی محفل میں بیٹھنے کا موقع ملتا تو گفتگو سن کر شدید ذہنی کوفت ہوتی۔ کبھی گھر کی ماسیوں کا موضوع، کبھی کپڑوں اور جیولری پر تبصرہ، تو کبھی موضوعِ گفتگو سسرال والے ہوتے۔ تب یہ ارادہ اور زور پکڑتا گیا کہ کوئی کام ایسا کرنا ہے جو اس روزمرہ کی زندگی سے ہٹ کر ہو، اور ہماری ذات سے دوسروں کو بھی نفع پہنچے۔
وقت گزرتا گیا، بچے بڑے ہوگئے تو قرآن کی تفسیر کی کلاس جوائن کرلی۔ قرآن کی کلاس سے بہت کچھ سیکھا ، ایک سوچ یہ ملی کہ بے شک عورت کا دائرۂ کار گھر ہی ہے مگر حدود کے اندر رہ کر عورت اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرسکتی ہے۔
اسی دوران اپنے استاد کی ایک بات دل کو لگی کہ ’’اپنی زندگی کا کوئی گول سیٹ کرلیں، ورنہ آپ ساری زندگی گول گول ہی گھومتے چلے جائیں گے۔‘‘
زندگی کا فلسفہ مزید واضح ہوگیا اور پختہ عہد کرلیا کہ بس اب زندگی ضائع نہیں کرنی۔ اپنے مزاج کے مطابق درس و تدریس کا شعبہ اپنانے کا سوچا، اور ایک سال کا مونٹیسوری ڈپلومہ کورس کیا۔
یادگاری لمحہ بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ 2008ء میں کورس کے اختتام پر جسٹس وجیہ الدین سے بہترین کارکردگی کا ایوارڈ حاصل کیا، اور یہ ان کے لیے اعزاز سے کم نہ تھا۔ بعد ازاں انہوں نے اپنے ہی گھر کے ایک کمرے سے مونٹیسوری کا آغاز کیا۔ محض تین بچوں سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ بڑھتا گیا، یہاں تک کہ گھر میں جگہ کم پڑ گئی۔ پھر کراچی کے ایک علاقے امیر خسرو روڈ پر اپنا ادارہLittle Genius Academy کے نام سے قائم کیا۔ یہاں پر بھی بہت اچھا رسپانس ملا، لیکن بدقسمتی سے اُس وقت کراچی کے حالات اچھے نہ تھے، مشکل صورتِ حال پیدا ہوگئی۔ پھر شوہر کے مشورے سے دوبارہ گھر میں منتقل کرنا پڑا، اور گھر میں ہی گنجائش نکال کر بچوں کو دو شفٹ میں تقسیم کرلیا۔
انہوں نے گھر والوں کے تعاون کو بھی سراہا اور کہا کہ اس معاملے میں وہ خوش قسمت رہیں۔ خاندان کا تعاون ہی تھا جس کی وجہ سے وہ نہ صرف اکیڈمی چلانے میں کامیاب رہیں بلکہ کالج نہ جانے کی خلش بھی ختم ہوئی جب انہوں نے اپنی بیٹی کے ساتھ انٹر کا امتحان دیا۔
اس شعبے میں آنے کے بعد ایک قابلِ ذکر بات بتائی کہ انہوں نے اسپیشل بچوں کے ساتھ بھی کام کیا اور حیرت انگیز نتائج حاصل کیے۔ وہ والدین جو اسپیشل بچوں کو عام بچوں کے ساتھ پڑھانا ناممکن سمجھتے تھے اور اسکول بھیجتے ہوئے تذبذب کا شکار رہتے تھے، اُن کی سرپرستی میں نہ صرف بچوں نے پڑھائی میں حیران کیا بلکہ اسپورٹس میں بھی حصہ لے کر عام بچوں کی طرح آگے بڑھے۔
’’میری ایک سوچ تھی کہ میری ذات کسی کے لیے نفع کا باعث بنے۔ اب میری کوشش ہوتی ہے کہ میرے ہر بیج میں ایک اسپیشل بچہ ہو، جسے میں مکمل طور پر نہ سہی مگر کافی حد تک دوسروں کے مقابل لا سکوں۔ یوں ہر گزرتا دن مجھے اپنے مقصد کے اور قریب کررہا ہے’’۔
ان کے الفاظ کی پختگی اور چہرے کی چمک ان کے یقین کی غماز تھی۔

حصہ