پھلوں کی وادی

پھلوں کی وادی ’’کوئٹہ‘‘ دنیا بھر میں مشہور ہے۔ یہاں ہر موسم میں پھل ملتے ہیں، جو ذائقے اور لذت میں اپنی مثال آپ ہیں۔ خشک میوے یہاں کی خاص سوغات ہیں۔ ان میں بادام، پستے، چلغوزے اور اخروٹ شامل ہیں۔ کوئٹہ شہر سے باہر نکلیں تو چھوٹے چھوٹے بہت سے باغات نظر آتے ہیں جن میں سیب، آڑو، بادام، خوبانی، چیری اور انگور کے باغات خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ موسم بہار میں پھل دار اور پھول دار پودے عجیب دلفریب منظر پیش کرتے ہیں اور قدرتی مناظر اور بھی نکھر کر سامنے آتے ہیں۔
کوئٹہ انگوروں کا گھر ہے اور آس پاس کے علاقوں کے انگور بھی یہاں آکر بکتے ہیں۔ انگوروں کی یوں تو بہت سی قسمیں ہیں، لیکن صاحبی اور سُندر خانی انگور خاص طور پر مشہور ہیں۔ صاحبی انگور تو اتنا نازک ہوتا ہے کہ یہ کوئٹہ سے باہر کم ہی بھیجا جاتا ہے۔ اس کا رنگ عموماً گلابی ہوتا ہے اور اس کے گچھوں کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ کسی نے گل دستہ بنادیا ہے۔ سُندرخانی انگور بہت ہی خوش ذائقہ ہوتا ہے۔ یہ انگلی کی پور کی طرح لمبا ہوتا ہے اور دوسرے انگوروں کے مقابلے میں مہنگا ہوتا ہے۔
کوئٹہ سے چند میل کے فاصلے پر ’’اُڑک وادی‘‘ ہے۔ اس وادی کو کوئٹہ کا ثمرستان کہتے ہیں۔ اس وادی میں ہر طرف پھلوں کے باغات نظر آتے ہیں جہاں ہر سال ہزاروں من پھل پیدا ہوتا ہے۔ خوبانی، آلوچہ، خربوزہ اور تربوز اس وادی کے مشہور پھل ہیں۔
موسم بہار میں مارچ کے آخر سے لے کر اپریل کے وسط تک درختوں پر پھل نکل آتے ہیں۔ مئی کے مہینے میں درخت شہتوت سے لد جاتے ہیں۔ اس کے بعد شاہ دانہ کی باری آتی ہے۔ ابھی شہتوت اور شاہ دانہ ختم نہیں ہوتے کہ خوبانی پکنے لگتی ہے۔ ساتھ ہی آڑو اور آلوچے بھی بازار میں آنا شروع ہوجاتے ہیں اور انگور تو ستمبر تک چلتے ہیں۔ کوئٹہ کے پھل پاکستان کے بڑے شہروں سے لے کر دوسرے چھوٹے شہروں اور قصبوں تک بھیجے جاتے ہیں۔ یہ پھل دوسرے ملکوں کو بھی بھیجے جاتے ہیں اور ان سے پاکستان کو اچھی آمدنی ہوتی ہے۔
nn

حصہ