ظفر قریشی نے تنہائی کے کنویں سے کہانیاں نکالی ہیں،زاہدہ حنا

212

ظفر قریشی نے تنہائی کے کنویں سے کہانیاں نکالی ہیں اور عالمی ادب کی کچھ کہانیوں کا اس طرح ترجمہ کیا ہے کہ وہ اب ہمارے معاشرے کی کہانیاں لگتی ہیں۔ ان خیالات کا اظہار زاہدہ حنا نے انجمن ترقیٔ اردو پاکستان کے زیر اہتمام نیویارک سے تشریف لائے معروف صحافی‘ ادیب اور مترجم ظفر قریشی کے ساتھ ’’تقریب ملاقات‘‘ کے موقع پر اپنے خطاب میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ آج کے پروگرام میں بڑی تعداد میں ارباب علم و دانش کے ساتھ یاور مہدی‘ غلام محی الدین‘ جہانگیر خان‘ ڈاکٹر شمع افروز‘ نسیم شاہ‘ عبدالصمد تاجی‘ عبدالباسط اور حمیرا راحت نے شرکت کی آپ لوگوں کی آمد بھی اس بات کی گواہی ہے کہ آپ کو ظفر قریشی سے محبت ہے۔ ایک اور مترجم مولوی عنایت اللہ دہلوی نے بھی بہترین تراجم کیے اور اب ظفر قریشی بھی تراجم کے میدان میں نمایاں کارکردگی کے حامل بن گئے ہیں انہوں نے عالمی ادب سے منتخب کہانیاں کے تراجم ہمارے سامنے پیش کیے۔ ظفر قریشی نے کہ اکہ وہ اس لیے لکھ رہے ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ معاشرے سے ظلم و تشدد ختم ہو۔ میں انسان دوستی کا پیغام دینا چاہتا ہوں انسانیت کی تذلیل نہ کی جائے تمام انسانوں کو حقوق دیے جائیں۔ آغا مسعود حسین نے کہا کہ ظفر قریشی میرے محسن ہیں‘ وہ بہت بڑے قلم کار ہیں اور پاکستان سے باہر رہتے ہوئے بھی علم و ادب کی خدمت کر رہے ہیں۔ ان کی کتاب کا ہر لفظ پُرمعنی اور دل کش ہے کتاب کا ٹائٹل بھی خوب صورت ہے۔ پروفیسر انیس زیدی نے کہ اکہ اگر کتابیں نہ ہوتیں تو ہم کہاں کھڑے ہوتے ہماری ترقی میں کتابوں کا اہم کردار ہے ہمیں چاہیے کہ ہم کتب بینی کو فروغ دیں۔ سید عابد رضوی نے کہا کہ ظفر قریشی کی ترجمہ کی ہوئی کہانیاں طبع زاد لگتی ہیں انہوں نے بڑی فکر انگیز کہانیوں کا ترجمہ کیا ہے۔ ڈاکٹر شاداب احسانی نے کہا کہ ظفر قریشی نے معاشرے کے ان مسائل کا ذکر کیا ہے جو آگ کے شعلے کی طرح ہمیں جھلسا رہے ہیں۔ ان کا کمال یہ بھی ہے کہ ان کے الفاظ‘ لب و لہجے میں شائستگی اور شگفتی ہے ان کا انداز بیاں دلوں میں جگہ بنا رہا ہے۔ اخلاق احمد نے کہا کہ ظفر قریشی ہمارے رہنما ہیں ان کی تحریریں اردو ادب کا سرمایہ ہیں انہوں نے تین سال میں پانچ مجموعے اردو ادب میں شامل کیے جو کہ قابل ستائش اقدام ہے۔ تقریب کے نظامت کار ندیم ہاشمی نے کہا کہ ظفر قریشی صرف ترجمہ نگار یا کہانی کار اور صحافی نہیں بلکہ وہ ایک عمدہ خطاط اور مصور بھی ہیں‘ ان کی تصاویر کی نمائش کئی ممالک میں ہوچکی ہے۔

حصہ