اللہ کے مال میں دوسروں کا حصہ

439

عائشہ: (دکاندار سے) ٹھیک ہے کچھ کم کردیں، رنگ تو یہی مناسب ہے۔
بہو: (جو عائشہ کے ساتھ بازار آئی تھی) امی یہ اتنا پیارا سوٹ کس کے لیے لے رہی ہیں؟
عائشہ: بیٹا یہ سوٹ ماسی کے لیے لے رہی ہوں، اسے عید پر دوں گی۔
دکاندار: باجی اگر ماسی کے لیے لے رہی ہیں تو میں ہلکی کوالٹی میں دکھا دوں، وہ سستا پڑے گا آپ کو…
عائشہ: (ناراضی سے) جی نہیں، مجھے اپنی ماسی کے لیے یہی چاہیے، کسی کو تحفہ دیں تو اچھا دیں۔
٭…٭
ایمن: پلیز ریحانہ، یہ راشن کے لیے بنائے پیکٹ نہ لیں، اس میں دکاندار ناقص مال بھی شامل کردیتے ہیں۔ تھوڑی محنت لگے گی، آپ لوگ جہاں سے گھر کے لیے راشن لیتے ہیں وہاں جا کر راشن کے باکس (ڈبے) دیکھ بھال کر بنوائیں۔ زکوٰۃ فرض ہے ہم پر، راشن زکوٰۃ میں غریبوں کو دیں گے اس میں صحیح مال ہونا ضروری ہے۔
٭…٭
امی: بیٹا وہ خاتون ضرورت مند ہے، سفید پوش ہے، مانگتے ہوئے شرماتی ہے، اس کے جو حالات ہیں وہ سب کو معلوم ہیں، پھر وہ ہماری رشتے دار بھی ہے، ہمیں اس کی مدد کرنی چاہیے۔ زکوٰۃ کی رقم ہے میرے پاس، میں اس میں سے اُسے دس ہزار بھجوا رہی ہوں۔ رمضان اور پھر عید بھی آرہی ہے، یقیناً اسے ضرورت ہو گی۔
اسد اللہ (بیٹا): امی پھر تو آپ اس کی مزید رقم سے مدد کریں، میرا مطلب ہے کچھ زیادہ اسے دیں۔
٭…٭
یہ چند مثالیں جو میں نے بیان کیں، میرے اردگرد کی ہیں۔ ہمارے اردگرد مثبت و منفی سوچ و عمل کے حامل افراد بستے ہیں جو اپنی اپنی منطق کے مطابق سوچتے ہیں۔ اور عمل کرتے ہوئے بھی ان کی وہ سوچ کارفرما رہتی ہے۔
دینِ اسلام حُسنِ معاشرت کی تعلیمات سے ہمیں سرفراز کررہا ہے۔ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کی تلقین فرمائی گئی ہے، جس میں اخلاص کا ہونا لازمی شرط ہے۔ اسلام نے معاشرتی ڈھانچے کو مستحکم کرنے پر زور دیا ہے۔ معاشرے میں رشتوں کی خوبصورتی کے لیے صبر و تحمل، اخلاق، اور نرمی کے ساتھ ساتھ ہدیہ اور تحفے بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ دوسری طرف دینِ اسلام نے معاشرے میں رہنے والے غریب، مفلس و یتیم کو معاشی طور پر استحکام بخشنے کے لیے زکوٰۃ و خیرات کا طریقہ کار بتایا ہے۔
دیگر معاشی نظاموں میں مال کمانے والا انسان ہی اس کا مالک سمجھا جاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنے مال کو اپنی مرضی سے خرچ کرتا ہے۔ جبکہ میرے دینِ اسلام کی تعلیمات کے مطابق ’’دولت‘‘ کا اصل مالک ’’اللہ‘‘ ہی ہے۔ یہ مال و دولت اللہ کے ہی عطا کردہ ہیں۔ اب اس مال کو اللہ کے احکامات کے مطابق خرچ کرنا لازمی ہے جیسا کہ میرے رب کا ’’سورۃ النور‘‘ میں ارشاد ہے ’’اور (غریبوں کو) دو اللہ کے اُس مال میں سے جو اس نے تمہیں عطا کیا۔‘‘
اس آیتِ کریمہ سے واضح ہے کہ بندے کے پاس جو مال و ملکیت ہے وہ اس کے رب کا ہے۔ اب یقیناً یہ اللہ رب العزت کا احسان ہے کہ اِس مال میں اس نے ہمیں غریبوں اور مستحقین کا حصہ بھی دیا ہے جو ہمیں اُن تک پہنچانا لازمی ہے، یعنی یہ ان کی امانت ہے۔ اس امانت کو خوبصورتی سے پہنچانا ہمارا فرض ہے، اور اس میں کوتاہی برتنا گناہ ہے۔ مثلاً میرے رب نے تو مجھے ضرورت مند کے لیے ’’10,000‘‘ روپے امانت رکھوائے ہیں اور میں اس میں اپنی طرف سے تخفیف کرکے 500 یا 700 دوں، یہ خیانت ہے۔ یہ حکمِ ربی کی خلاف ورزی ہے۔ جیسا کہ میرے رب نے دوسری جگہ فرمایا ہے کہ ’’اور ان کے اموال میں سائل اور محروم کا ایک معین حق ہے۔‘‘
اللہ نے یہاں واضح کردیا ہے کہ یہ ’’ایسے لوگوں‘‘ کا حق ہے۔ ہم ان پر احسان نہیں کررہے۔ میں اس بارے میں اکثر اپنے بچوں کو یہ جملہ کہتی ہوں کہ میرے رب کا ہم پر یہ احسان ہے کہ اس نے ہم پر اعتماد فرما کر ان غریبوں کی امانت ہمارے حوالے کی ہے۔ اب اس امانت کو ’’صحیح‘‘ حالت میں ان تک پہنچانا ہمارا فرض ہے۔ اور پھر اللہ کا یہ احسان بھی کہ وہ ہمیں اس کے بہترین اجر سے بھی نوازے گا، سبحان اللہ، مال بھی اس کا۔ غریب مستحقین کا حصہ ہمارے پاس جو امانت تھا اس کو پہنچانے پر بھی میرا رب اجر سے نواز رہا ہے، اور ایسے لوگوں کو پسند کررہا ہے۔
جیسا کہ سورۃ البقرہ میں میرے رب نے کامیاب و بامراد مومنوں کی جو تین بنیادی صفات بیان فرمائی ہیں ان میں مال خرچ کرنے والے بھی شامل ہیں۔
یعنی: 1۔ ایمان بالغیب (غیب کی باتوں پر ایمان لانے والے)۔
2۔ یقیمون الصلوٰۃ (نماز کو پورے آداب کے ساتھ ادا کرنے والے۔
3۔ ومما رزقنٰہم ینفقون (اللہ کے دیے ہوئے رزق میں سے خرچ کرنے والے (سبحان اللہ)
میرا رب جو ستّر مائوں سے زیادہ اپنے بندوں سے پیار کرتا ہے وہ چاہے تو تمام بندوں کو مال و دولت سے نواز کر برابر کرسکتا ہے، لیکن یہ اس کی مصلحتیں ہیں کہ اس نے کسی کو فقیر اور کسی کو امیر بنایا ہے۔ وہ مال دے کر بھی آزماتا ہے اور لے کر بھی…
جو بندے اس کی پیروی کرتے ہیں وہ اس کے احکامات پر مکمل طور پر عمل کرتے ہیں۔ اپنا مال خرچ کرنے میں بخل نہیں کرتے۔ میرے رب نے انہیں جہاں جہاں اور جس طریقے سے خرچ کرنے کا حکم دیا ہے وہ اس کی تعمیل میں کوتاہی نہیں برتتے… چاہے خیرات ہو، صدقات یا زکوٰۃ…
زکوٰۃ تو ہر صاحبِ حیثیت پر فرض ہے، اس میں کوتاہی اپنے رب کی ناراضی ہے۔ زکوٰۃ ارکانِ اسلام میں شامل ہے جس کی ادائیگی کی تاکید قرآن پاک میں بیاسی (82) مرتبہ کی گئی ہے۔ زکوٰۃ ادا نہ کرنے والوں کے لیے قرآن میں سخت عذاب کی خبر سنائی گئی ہے۔ (استغفراللہ)
اسی طرح احادیثِ مبارکہ میں بھی زکوٰۃ کی ادائیگی کی تاکید فرمائی گئی ہے، اور نہ دینے والوں کے لیے عذاب کی خبر دی گئی ہے، جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ روایت فرماتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: ’’کوئی شخص سونا چاندی رکھنے والا ایسا نہیں جو اس کا حق (زکوٰۃ) نہ دیتا ہو۔ مگر جب قیامت کا دن ہوگا تو اس شخص کے (عذاب کے) لیے اس سونے چاندی کی تختیاں بنائی جائیں گی (کاغذ کے نوٹ بھی سونے چاندی کے حکم میں ہیں)، پھر ان تختیوں کو دوزخ کی آگ میں تپایا جائے گا، پھر ان سے (تارکِ زکوٰۃ) کی کروٹ، پیشانی اور پیٹھ کو داغ دیا جائے گا۔ جب وہ تختیاں سرد ہونے لگیں گی، پھر ان کو تپایا جائے گا۔ یہ (عذاب) اس دن (قیامت) میں ہوگا جس کی مقدار پچاس ہزار برس ہوگی۔‘‘ (بخاری، مسلم)
حضرت ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: ’’جو شخص اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہے اس کو ضرور زکوٰۃ ادا کرنی چاہیے۔‘‘ (طبرانی)
زکوٰۃ کی ادائیگی کی اہمیت اس سے ہی ظاہر و واضح ہے کہ اسے ارکانِ اسلام میں شامل کیا گیا ہے، جس طرح کلمہ طیبہ کے اقرارکے ساتھ نماز، روزہ، حج فرض ہے، اسی طرح صاحبِ حیثیت مسلمان پر زکوٰۃ کا ادا کرنا بھی فرض ہے… اس میں کوتاہی برتنا ’’گناہ‘‘ ہے۔
پھر زکوٰۃ ادا کرنے کے لیے اللہ رب العالمین کی تعلیمات و احکامات کے مطابق جو ’’نصاب‘‘ مقرر کیا گیا ہے اس کے مطابق ادائیگی کرنا لازمی ہے۔ اکثر جگہ دیکھا گیا ہے کہ صرف ’’سرسری‘‘ طور پر زکوٰۃ ادا کی جاتی ہے۔ مال و اسباب کو حکم ربی کے مطابق گن کر اس کی زکوٰۃ ادا نہیں کی جاتی۔ یہ غلط روش ہے۔ علمائے کرام ہر سال رمضان المبارک سے پہلے ہی زکوٰۃ کی ادائیگی کے بارے میں ہدایات عوام الناس تک پہنچاتے ہیں۔ اگر کسی کو نہیں معلوم، تو اپنی مسجد کے امام سے بھی رابطہ کیا جا سکتا ہے، معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ آج کل تو میڈیا پر ایسی چیز مستند علمائے کرام کے ذریعے ہم تک آسانی سے پہنچ جاتی ہے۔ اپنی زکوٰۃ، خیرات، صدقات کی ادائیگی اس طرح کی جائے کہ نیت خالص ہو، نمود و نمائش نہ ہو ورنہ آپ کا تمام عمل اکارت جائے گا… اپنی اولاد کو بھی زکوٰۃ کی اہمیت احکاماتِ الٰہی اور احادیث کے مطابق واضح کریں، تاکہ وہ فراخ دلی سے اس فریضے کو انجام دیں۔ جس طرح باقی ارکانِ دین کی ادائیگی کے لیے اخلاص، خشوع و خضوع ضروری امر ہے، زکوٰۃ کی ادائیگی میں بھی اسی خوبی کا اہتمام کریں۔
اس کے علاوہ اپنے مال میں سے صدقات، خیرات کا سلسلہ بھی جاری رکھیں۔ بے شک میرا رب اپنے بندوں کی کوئی نیکی رائیگاں نہیں کرتا…
اور یہ ہم مسلمانوں کا ایمان ہے کہ کم آمدنی کے باوجود جو راہِ اللہ میں اپنا ہاتھ نہیں روکتے اللہ اُن کے لیے رزق کے دروازے کھول دیتا ہے۔ (سبحان اللہ)
اس لیے اس ماہِ رمضان کی برکتوں سے فیضیاب ہونے کے لیے تمام دوسری نیکیوں کی انجام دہی کے ساتھ اللہ رب العزت کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے اپنے ہاتھ کھلے رکھیں۔ اللہ ہم سب مسلمانوں کو اس ماہِ مبارک کی تمام گھڑیوں سے استفادہ اور فیض حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمین۔

حصہ