ماہ رمضان اور سکون دل

411

رمضان المبارک کا چاند نظر آگیا اس نے اپنی ساس اور سامنے بیٹھی نند کو بتایا۔ آپ سب کو بہت بہت مبارک ہو…
ساس: آپ کو بھی مبارک ہو… بیٹا…
…٭…
یہ سسرال میں اس کا پہلا رمضان تھا شادی کو مشکل سے ایک مہینہ ہوا تھا پورا مہینہ تو ملنے ملانے اور دعوتوں میں گزر گیا تھا اس لیے ابھی اسے اپنے سسرال والوں کے طور طریقے نہیں معلوم تھے لیکن رمضان المبارک تو تمام مسلمانوں کے لیے اہم مہینہ ہے اس کے میکے میں رمضان شروع ہوتے ہی روحانی ماحول بن جاتا تھا لہٰذا اسے یہی یقین تھا کہ یہاں بھی وہی طریقہ کار ہو گا۔
…٭…
ارم: امی رات کا کھانا تو آج جلدی کھانا ہو گا پھر تراویح بھی پڑھنی ہے ابو اور عاقب کو بھی تراویح پڑھنے جانا ہو گا…
ارم کی ساس نے صرف ’’ہوں‘‘ کہا۔ رات کے کھانے کے بعد اس نے جلدی جلدی کام نمٹائے تاکہ سکون سے عشاء اور تراویح پڑھ سکے۔
ارم: (شوہر کو ٹی وی کے سامنے بیٹھے دیکھ کر) عاقب جماعت نکل جائے گی اذان ہو گئی ہے۔
وہ وضو کرکے واپس آئی تو عاقب کو وہیں بیٹھے دیکھا تو اسے بہت افسوس ہوا… وہ نند کے کمرے دستک دے کر داخل ہوئی شازمین موبائل پر کوئی ویڈیو دیکھ رہی تھی۔ شازمین آپ نے عشاء کی نماز پڑھ لی؟ تراویح ہم دونوں ساتھ پڑھیں گے۔
نند: بھابھی آپ پڑھ لیں میں بعد میں پڑھ لوں گی۔
ارم میکے میں اپنی امی، بہن اور دونوں بھابھیوں کے ساتھ مل کر عشاء و تراویح پڑھتی تھی اسے بڑا سکون ملتا تھا۔ مجبوراً وہ اپنے کمرے میں آئی اور نماز پڑھنے لگی۔
نماز سے فارغ ہو کر وہ لاؤنچ میں آئی سب لوگ اب بھی ٹی وی پر کوئی ڈرامہ دیکھ رہے تھے۔
ارم: امی سحری میں کیا بنے گا؟
ساس: بیٹا تم جو چاہو بنا لو۔ مجھے تو جوڑوں کی تکلیف ہے روزہ کہاں رکھ سکتی ہوں…
ارم: تو پھر میں، ابو، ہانیہ اور عاقب ہوں گے میں قیمہ فرائی کر لوں؟
ساس: بھئی تمہارے ابو کو تو شوگر ہے عاقب سے پوچھ لو چھٹی کے دن رکھ لیتا ہے ہانیہ کی اپنی مرضی ہے اٹھ گئی تو رکھ لیتی ہے۔
ارم: ہانیہ کو میں اٹھا لوں گی (ہانیہ نے بے بسی سے بھابھی کو دیکھا) ارم کو اپنے سسرال پر بڑا افسوس ہو رہا تھا کہ یہ ماہ مقدس برکتوں، رحمتوں کا مہینہ ہے مغفرت اور بخشش کا مہینہ جس کا ہر پل رضائے الٰہی کے مطابق گزارنا افضل ہے بڑا بد نصیب ہے جو اس کی برکتوں اور رحمتوں سے اپنے آپ کو محروم رکھے وہ ان چند دنوں میں یہ بات تو نوٹ کر چکی تھی کہ نماز بھی پانچ وقت کی کوئی مشکل سے ہی پڑھتا ہے۔
ہانیہ نے زبردستی ارم کے کہنے پر روزہ تو رکھ لیا تھا لیکن وہ تمام دن سست پڑی رہی سارا دن ٹی وی پر ڈرامے دیکھتی رہی یا دوستوں سے گپ شپ میں مصروف رہی دوپہر میں چھوٹے دیور، امی ابو سب نے اپنی پسند کے کھانے کھائے…
…٭…
ساس (رقیہ بیگم) اری کم بخت صحیح طرح برتن دھو حرام کے پیسے نہیں ہے جو تو یوں بے دلی سے کام کر رہی ہے… ذرا تیزی سے ہاتھ چلا۔
نوکرانی: جی باجی کوشش تو کر رہی ہوں۔ وہ … وہ آپ کی دیورانی کے گھر کام کرنے گئی تھی تو وہ کچھ پریشان لگ رہی تھی شاید کوئی مسئلہ تھا طبیعت بھی اس کی خراب لگ رہی تھی رقیہ بیگم نوکرانی کی بات سنی ان سنی کرکے دوسرے کمرے میں چلی گئی… ارم کو ساس کے رویے پر بڑا تعجب ہوا۔
ارم: ماسی یہ کھانا لے جانا اور یہ لو کچھ پھل بھی خرید لینا تمہارا روزہ ہے ( اس نے چند روپیے ماسی کے ہاتھ میں رکھ دیے) تم بتا رہی تھیں آنٹی کی طبیعت خراب ہے کیا ہوا آنٹی کو؟
ماسی: وہ بہت بیمار لگ رہیں تھیں آپ کی ساس اور ان کی دیوارنی کا آپس میں کافی عرصہ سے ملنا جلنا بند ہے۔ شاید لڑائی ہوئی ہے آپس میں۔
ارم: اچھا اچھا صحیح ہے یہ لو کھانا…
…٭…
ظہر کی نماز پڑھ کر ارم اپنے گھر والوں کے لیے دعا مانگنے لگی اللہ رب العزت ہم سب کو راہ ہدایت پر چلا رمضان کی برکتوں سے فیضیاب فرما۔ اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے شادی کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا اس لیے وہ کسی معاملے میں مداخلت کرنا نہیں چاہتی تھی۔ لیکن سب کو ان کے حال پر چھوڑنا بھی درست نہ تھا۔ اسی لیے ہر نماز کے بعد وہ انے گھر والوں کے لیے ضرور دعا کرتی گرچہ یہ لوگ برے نہ تھے لیکن بہت سی کوتاہیاں ان میں تھیں۔
…٭…
ارم: امی (ساس سے) آپ سے ایک بات پوچھنی ہے میں اپنا ہر مسئلہ امی سے ڈسکس کرتی تھی اب آپ بھی میری امی ہیں اس لیے میں آپ سے شیئر کر سکتی ہوں۔
ساس (رقیہ) خوشی سے ہاں ہاں بیٹا بولو! آپ میرے لیے ہانیہ اور ثانیہ جیسی ہی ہو بولو بیٹا کوئی پریشانی ہے۔
ارم: میری ایک دوست ہے ہم دونوں کی کسی بات پر لڑائی ہو گئی تھی ایک سال سے ہم دونوں کی بات جیت بند ہے اب رمضان شروع ہو گیا تو کل اس کا فون آگیا میں نے تو رسیو نہیں کیا شاید اسے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے میرا دل نہیں چاہ رہا کہ اس سے بات کروں لیکن میں یہ بھی جانتی ہوں کہ قطع تعلق گناہ ہے اور رمضان المبارک تو ہے ہی مغفرت کا مہینہ، رحمتوں کا مہینہ… آپ مجھے بتائیں میں اس سے بات کر سکتی ہوں؟ رمضان تو نیکیاں کمانے اور گناہوں سے بچنے کا مہینہ ہے حالانکہ اس نے مجھے بہت تکلیف پہنچائی تھی… ارم کی ساس بہو کی بات پر چونک گئی اسے یاد آگیا کہ اس نے بھی تو دو تین برسوں سے دیورانی کے ساتھ قطع تعلق کیا ہوا ہے۔ اگر میں بھی اس ماہ رمضان میں اس کی غلطیوں کو فراموش کرکے اسے گلے لگا لوں تو میرا رب مجھ سے راضی ہو جائے گا۔
رقیہ بیگم: اچھی بات ہے بیٹا آپ فون پر بات کرکے صلح صفائی کر سکتے ہو۔
ارم: تھینک یو… شکریہ امی آپ نے میرا بڑا مسئلہ حل کر دیا … اور… اور امی آپ نے بھی اس موقع پر ایک نیکی کما لی۔ (ساس کی سوالیہ نظروں کو دیکھ کر اس نے کہا) امی دو بندوں میں صلح کروانا بہت بڑی نیکی ہے۔ جس کا بڑا اجر ہے… ساس ارم کی بات پر مسکرا دی۔
…٭…
رقیہ بیگم (فون پر) ہاں ساجدہ مجھے ماسی نے بتایا تھا اب کیسی طبیعت ہے تمہاری… اور سب تو ٹھیک ہے نا…؟
ساجدہ (حیرانی سے) الحمدللہ اب کافی بہتر ہے بس اسلم کو دل کا دورہ پڑا تھا اس کی وجہ سے میری طبیعت بھی خراب ہو گئی۔
رقیہ بیگم: اب بھائی صاحب کیسے ہیں… ہم نے سنا تو بڑی فکر لگ گئی۔
ساجدہ: جی جی اب کافی بہتر ہیں آپ سب کو یاد کر رہے تھے۔
رقیہ بیگم: ساجدہ پریشان نہ ہو اللہ سب بہتر کرے گا میں آج ان شاء اللہ راشد کے ساتھ ضرور چکر لگائوں گی۔
…٭…
رقیہ بیگم کو ساجدہ سے بات کرکے نہ جانے کیوں بڑا سکون محسوس ہوا شاید اس چھوٹی سی نیکی کے بدولت ایسا محسوس ہوا ہو۔
دوسری طرف ارم بھی ساس کے اس مثبت رویے سے خوش ہو گئی اس واقعیہ کے بعد ارم کو یہ احساس بھی اور یقین ہو گیا کہ میں اپنے سسرال والوں میں مثبت طریقہ کار سے مثبت تبدیلی پیدا کر سکتی ہے۔
…٭…
بے شک اس ماہ مبارک میں ہر لمحہ سکوں، برکتیں اور نیکیاں سمیٹنے کا ہے۔ جس سے اپنا دامن جو بھر لے وہ خوش نصیب ہے رب کے حضور آپ کی چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی ضائع نہیں جائے گی صرف فرض عبادات کے علاوہ ان نیکیوں سے بھی اجر و ثواب کما لیں جو حقوق العباد سے تعلق رکھتے ہیں آپ کی چھوٹی سی نیکی سے دوسروں کو ہی نہ صرف راحت و سکون پہنچے گا بلکہ آپ کا دامن بھی ابدی سکون و خوشی سے بھر دے گا۔
اگر گھر کے افراد میں کسی کمی و پیشی کو یا کمزوری کو دیکھیں تو ارم کے طریقہ کا ر سے اس کی اصلاح کرنا ممکن ہے منفی رویہ و نکتہ چینی سے انسان خائف ہو جاتا ہے جس سے پرہیز کرنی لازمی ہے۔
بے شک ہر اچھی بات جو سیکھیں یا عمل کریں اسے دوسروں تک پہنچانا یا انہیں احساس دلانا ضروری ہے اس میں کوتاہی و کنجوسی نہ برتیں اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہماری بلا سے جو کریں اپنی عافیت خراب کررہے ہیں یہ سوچ غلط ہے امر بالمعروف نہیں عن المنکر کے ہم علمبردار ہیں اس میں کوتاہی کے ہم جواب دہ ہوں گے اپنی ذات کی بھلائی کے ساتھ دوسرے کی ذات کی بھلائی کو بھی مدنظر رکھا جائے اور سب سے بڑی بھلائی آخرت کی بھلائی ہے یعنی اس طریقہ کار سے نہ صرف اپنی آخرت بلکہ دوسرے کی آخرت بھی سنور سکتی ہے…
ان سطور کے ذریعے میں ایک معروف عالم دین کی بات ضرور شیئر کروں گی انہوں نے ایک موقع پر کہا کہ ہم روزہ نماز کی تو پابندی کرلیتے ہیں لیکن رمضان کی تیاری کے لیے سب سے اہم تیاری یہ ہے کہ اپنے دل کو کشادہ وسیع کر لیں دوسروں کے لیے اپنے دلوں کو صاف کر لیں بغض عداوت کو فراموش کر کے دوستی کا ہاتھ آگے بڑھا لیں۔
…٭…
بے شک اس مثبت سوچ و عمل سے انسان بہت سی اخلاقی برائیوں سے بچ سکتا ہے… یعنی جھوٹ، بدگمائی،حسد دھوکہ دہی، فریب جیسی برائیوں سے بچنے کے لیے دلوں کا کشادہ ہونا ضروری امر ہے یہ تمام ایسی برائیاں ہیں جو رمضان مبارک کی سعادتوں اور برکتوں سے نہ صرف ہمیں محروم کر دیتی ہیں بلکہ رب العزت کی ناراضگی کا سبب بھی بنتی ہیں… لہٰذا ماہ رمضان کی برکتوں کو سمیٹنے کے لیے اللہ رب العزت کو راضی کرنے کے لیے ان برائیوں سے خود بھی بچنے کی کوشش کریں بلکہ اپنے اہل خانہ کو بھی بچائیں۔

حصہ