کچھ حاصل نہیں ہوتا

151

’’ٹوں ٹوں ٹوں!‘‘ سحری کا الارم ہوا تو ناصر اٹھ گیا۔ جلدی سے وضو کیا۔ ہر طرف خاموشی تھی ۔ ٹھنڈی سی ہوا چل رہی تھی۔ ناصر نے کھڑکی کے ساتھ جائے نماز بچھائی۔ پھر اس نے ایک نظر آسمان پر ڈالی۔ تارے چمک رہے تھے۔ ہر سو خاموشی کا عالم تھا۔ ناصر کو ایسے ماحول میں تہجد پڑھنے میں بہت مزہ آتا تھا۔ اس نے بہت سکون اور شوق کے ساتھ تہجد ادا کی۔
اس کی فیملی گاؤں میں ہوتی تھی۔ وہ شہرِ کراچی میں جاب کے سلسلے میں رہائش پذیر تھا۔ ا س نے اپنے دوست اظہر کے ساتھ مل کر یہ فلیٹ کرائے پر لے رکھا تھا۔
تہجد پڑھ کر اس نے سحری بنائی۔
پھراظہر کو اٹھایا جو ساری رات موبائل پر مصروف رہا تھا۔ اس کی آنکھ سحری سے کچھ دیر پہلے ہی لگی تھی۔ سو اٹھنے میں بھی دیر ہو گئی۔
جب تک اظہر ٹیبل پر آیا سحری ختم ہونے میں دس منٹ رہ گئے تھے۔ ناصر اپنی پلیٹ اور کپ دھو کر بھی رکھ چکا تھا اور اب تلاوت کر رہا تھا۔
’’یار! اذا ن ہو رہی ہے ۔ اب تو کھانا چھوڑ دو۔‘‘ ناصر نے اذان کے دوران بھی اظہر کو پراٹھے کے بڑے بڑے نوالے کھاتے دیکھا تو اس سے رہا نہ گیا۔
’’ام م م !! ‘‘ اظہر نے بھرے منہ کے ساتھ بمشکل آواز نکالی۔ اذان کے اختتامی الفاظ کے ساتھ اظہر پانی کی بوتل منہ کے ساتھ لگائے کھڑا تھا۔ ادھر اذان ختم ہوئی ادھر اظہر نے بھی پانی کی بوتل خالی کر دی۔
اب اس سے چلا بھی نہیں جا رہا تھا۔ سو بستر پر نیم دراز ہو گیا۔
’’میں نماز کے لیے جارہا ہوں۔ چلنا ہے؟ ‘‘ ہمیشہ کی طرح ناصر نے دروازہ کھولتے ہوئے پوچھا۔ اسے معلوم تھاہمیشہ کی طرح آج بھی اظہر نہیں جا سکے گا لیکن پھر وہ بھی عادتاً پوچھ لیتا تھا۔
’’نہیں یار!‘‘ اظہر نے نیند بھرے لہجے میں کہا اور آنکھیں موند لیں۔
…٭…
دونوں ایک ہی فرم میں ملازمت کرتے تھے اور رمضان کی وجہ سے باس نے اوقات کار میں کافی نرمی کر دی تھی۔پانچ بجے کی بجائے دو بجے ہی چھٹی ہو گئی اوردونوں گھر چلے آئے۔ ناصر نے تو آتے ساتھ ہی وضو کر کے نماز ادا کی لیکن اظہر حسب معمول جوتوں سمیت صوفے پر لیٹ گیا اور جیب سے موبائل نکال لیا۔
رات کو ناصر تراویح کے بعدمسجد سے لوٹاتو اظہر حسب معمول اس وقت بھی موبائل میں مصروف تھا۔
اس نے دو کپ چائے بنائی اور اظہر کے پاس آکر بیٹھ گیا۔
’’واہ! یار! جیتے رہو! مجھے چائے کی شدید طلب ہو رہی تھی!‘‘ اظہر نے نعرہ مارا اور چائے کا کپ اٹھا لیا۔
’’اچھا! تجھے پتا ہے کمپنی والے ریاض صاحب کو جاب سے فارغ کر رہے ہیں۔ وہی جو نئے آئے تھے۔ ‘‘ ناصر نے کہا۔
’’ہاں! معلوم ہے۔ ‘‘ اظہر نے کہا ۔ ’’ جناب! انہوں نےسارے پراجیکٹس خراب کر کے رکھ دیے حالانکہ ان کی سی وی میں پانچ سال کا تجربہ بھی لکھا ہوا تھا اور کوئی معقول وجہ بھی نہیں دے سکے۔ بس بہانے بناتے رہے۔ تو باس کو غصہ تو آنا ہی تھا۔‘‘ اظہر سوچتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
’’ہاں! آتے تو ہر روز تھے لیکن پراجیکٹ ایک بھی نہیں ہو پایا ان سے۔ ‘‘ ناصر نے کہا تو اظہر اچھل پڑا۔
’’جی ہاں! اس بات کو میرے سے زیادہ اور کون جانتا ہو گا۔ ان کے سارے چھوڑے ہوئے کام مجھے ہی کرنے پڑے ہیں۔ کیونکہ رمضان کی وجہ سے باس کو جلدی چاہیے تھے۔‘‘ وہ منہ بنا کر کہا تو ناصر کو ہنسی آگئی۔
’’بس ! تُو یہ بات مانتا ہے کہ باس ریاض صاحب کو بالکل صحیح نوکری سے نکال رہے ہیں؟‘‘
’’ہاں ! لیکن میں سمجھا نہیں۔۔ تو کیو ں پوچھ رہا ہے؟‘‘
’’یار! دیکھ! مجھے لگتا ہے کل قیامت والے دن اللہ میاں جب روزے کا ثواب بانٹیں گے تو تجھے بھی یونہی فارغ کر دیں گے ! ۔‘‘ ناصر نے مصنوعی وارننگ کے سے انداز میں کہا۔
اظہر اٹھ کر بیٹھ گیا۔ ’’ارے ارے! کیا مطلب؟ فضول بات نہ کر۔‘‘
’’بھئی! تو نہ نماز پڑھتا ہے۔ نہ تلاوت کرتا ہے۔ تراویح بھی کبھی کبھار۔ تو اللہ کو خالی بھوک پیاس تو نہیں چاہیے ! میں نے آج مولوی صاحب سے سنا ہے کہ ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: “بہت سے روزہ دار ایسے ہوتے ہیں، جنھیں ان کے روزےسے سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔‘‘ اور نماز تو بنیاد ہے دین کی ۔ بغیر نماز کے روزے کےکیا معنی۔‘‘
ناصر رک گیا اور پھر کہنے لگا۔
’’اچھا چل ۔ ناراض نہ ہو۔ میں تو یونہی بول گیا تھا۔‘‘
اظہر نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ گہر ی سوچ میں گم ہو گیا تھا۔ کافی دیر وہ یونہی چائے کاخالی کپ ہاتھ میں لیے بیٹھا رہا۔
ناصر چادر اورڑھ کر سونے کی تیاری کرنے لگا۔ اس نے سوچا شایداظہر ناراض ہو گیا ہے۔ لیکن نہیں۔ اس کے چہرے سے تو نہیں لگ رہا۔ ہیں یہ کیا!
اظہر نے پھر سے موبائل اٹھا لیا تھا۔
’’یہ نہیں سدھرنے والا۔‘‘ ناصر نے اپنے موبائل میں الارم سیٹ کرتے ہوئے تاسف سے سوچا اورکروٹ بدل کر سو گیا۔
’’ٹوں ٹوں ۔۔۔ ٹوں ٹوں۔۔۔‘‘ سحری کے وقت الارم بجنے لگا تو ناصر نے چادر میں سے ہاتھ نکال کر موبائل نکالا اور الارم بند کرناچاہا ۔ لیکن یہ کیا!
موبائل تو خاموش تھا۔
دراصل ناصر کی آنکھ، اظہر کے موبائل میں الارم بجنے سے کھلی تھی۔
…٭…
’’مطلب تو ناراض نہیں ہے؟‘‘
فجر کے بعد ناصر نے مسجد سے واپس آتے ہوئے اظہر سے پوچھا۔
’’میں ناراض ہوں۔ اور جب تک تو افطاری میں کچوریاں نہیں کھلائے گا میں بالکل راضی نہیں ہوں گا۔‘‘ یہ کہہ کر اظہر جلدی سے بھاگ کر لفٹ میں داخل ہو گیا اور بٹن دبا دیا۔ جب تک ناصر پہنچ پاتا اظہر کا ہنستا ہوا چہر ہ لفٹ کے دروازے کے پیچھے چھپ چکا تھا۔

حصہ