سوشل میڈیا تلخ حقائق

280

سماجی معاملات یا تعلقات کو طویل عرصے سے انسانی بقا کا ایک اہم عنصر سمجھا جاتا ہے۔ کئی دہائیوں سے اس حقیقت کی تصدیق کئی مغربی مطالعات کے ذریعے کی گئی ہے۔ اس کے مطابق معاشرتی تعلقات صحت پرمتعدد اثرات مرتب کرتے ہیں جن میں دماغی صحت ، جسمانی صحت ، صحت کی عادات اور اموات (خودکشی) کا بھی خطرہ ہوتا ہے ۔اس لیے اس معاملے میںبطور والدین ہمیں خود بھی اور اپنے بچوں کو بچانے کے لیے بے حد محتاط اور ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنا ہوگا۔یہی واحد حل ہے ہر قسم کے کنٹرول کا ۔بحیثیت مجموعی دنیا بھر میں سوشل میڈیا صارفین کی اکثریت صرف تفریحی مقاصد کی تکمیل کر رہی ہوتی ہے ۔اسنیپ چیٹ کے اشتہارات کی بھرمار یقینا ًآپ کے سامنے گزری ہوگی ۔ یہ کیا ہے ؟ یہ ٹک ٹاک جیسی ایک اور ایپلی کیشن ہے جو مزید نوجوانوں کو تفریح کے نام پر تباہی کے رستے پر ڈال رہی ہے ۔بظاہر ہمیں اپنی وال پر آئے دن مختلف ویبی نار، آن لائن سیمینار و کانفرنسز، آن لائن کلاسز، کے علاوہ کئی دینی محافل ، دروس و دیگر لیکچرز ہوتی دکھائی دیتی ہیں ، مگر اُن کے شرکا کی تعداد دیگر کے مقابلے میں نا قابل بیان ہوتی ہے بنسبت کسی ایک ہالی ووڈ اداکار کی ایک تصویری پوسٹ کے ۔ٹوئٹر ٹرینڈ لسٹ عالمی دیکھیں یا مقامی سب سے زیادہ زو ر کھیل، کھلاڑیوں، اداکاروں، ڈراموں یا فلموں کے گرد ہوتا ہے ۔بھارتی سیریز بگ باس کے کرداروں کو تو مستقل ٹاپ ٹرینڈ میں رہنے کی عادت سی پڑ گئی ہے ،وہاں بھارت سے چل کر پاکستان تک پہنچ جاتے ہیں۔ ویسے اسی ہفتہ ایک بڑے ادارے نے جو سروے کیا اُس میں ایک بات یہ سامنے آئی ہےکہ اس وقت دُنیا میں سب سے زیادہ سوشل میڈیا ایڈیکٹ یعنی ایک ’لت‘ کی مانند شکار ملک ’ فلپائن‘ ہے۔مبینہ طور پر فلپائن اپنی زندگی کے اوسطاایک لاکھ دو ہزار چون گھنٹے سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں۔ یہ انکی زندگی کے تقریبا 4252دن یا12 سال ہیں جو وہ اسکرین پر چپک کر گزاررہے ہیں۔حیرت یہ بھی ہے کہ فلپائن زندگی کی کم ترین امید رکھنے والے دس ممالک میں سب سے نیچے شامل ہے ۔ جاپان میں ، جہاں سب سے کم تعداد سوشل میڈیا کا شکار ہیں وہاں متوقع اوسط عمر 85 سال ہے۔ فلپائن کے بعد ، اگلے اعلی درجے کی سوشل میڈیا ’عادی‘ ممالک میں کولمبیا ، برازیل ، کینیا ، انڈونیشیا ، میکسیکو ، متحدہ عرب امارات اور تھائی لینڈ جیسی ابھرتی ہوئی مارکیٹیں شامل ہیں۔ اب آپ سمجھ گئے ہونگے کہ اس میں زور ’ ابھرتی ہوئی مارکیٹ‘ پر ہے،بات مارکیٹ کی ہے، جس کا تعلق سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی بڑھوتری و استحکام سے ہے ۔ اس لیے پریشان نہ ہوں، پاکستان چونکہ ابھرتی یا گرتی ہوئی مارکیٹ کا درجہ ہی نہیں رکھتا اس لیے اُن کو اس سے کوئی غرض بھی نہیں کہ وہاں یہ زہر کتنا پھیلا ہے ۔ہمیں خود اپنے اطراف میں دیکھ کر فکر مند ہونا ہوگا کہ ہمارے اطراف انسان کتنا تیزی سے اسکرینوں میں گم ہوتے جا رہے ہیں ۔
پاکستان جنوبی افریقہ سیریز میں قومی ٹیم کے کپتان بابراعظم اور نائب کپتان محمد رضوان نے پاکستان کی جانب سے ٹی ٹوئنٹی میچ میں شراکت کا ریکارڈ قائم ہوا۔ محمد رضوان کو وزڈن نے سال کے 5 بہترین کھلاڑیوں میں شامل کر لیا۔یہ سب عوامل کافی تھے شائقین کو اپنی محبت کی بھڑاس سوشل میڈیا پر نکالنے کے لیے اور انہوں نے خوب نکالے۔ اہل تشیع کی جانب سے کئی روز سے ’مسنگ پرسن‘ پر دھرنا جاری تھا، اس پر بھی کچھ گھنٹوں ٹوئٹر پر بات ہوئی ۔ڈسکہ الیکشن میں شکست پر خاصی سبکی رہی ، کیونکہ سوشل میڈیا پرجو جو ٹرینڈ بنے ان میں ٭ایک _واری _فیر _شیر٭بلےپرلگاؤٹھپہ٭ڈسکہ کپتان ودیگر سے تو کچھ اور ہی تاثر بنا مگر نتیجہ الٹ آیا۔
امریکی صدر جو بائیڈن کے 11 ستمبر کو فوجی انخلاء کے اعلان نے بھی جگہ بنائی اور وہ ٹرینڈ بن کر ابھر آئے۔ افغانستان کا معرکہ بہرحال سب کے لیے بڑا سبق ہے۔
عمران خان کی حکومت نے بہر حال کئی حوالوں سے منوایا ہے کہ وہ اپنے سے پچھلوں کا ہی تسلسل ہیں۔
سوشل میڈیا پر بھی یہ ہفتہ اس کی ایک بار پھر اہم مثال بن کر سامنے آیا۔ ہم نے دیکھا کہ اس بارسوشل میڈیا و دیگر میڈیا پر بڑی حد تک قابو رکھا گیا اور مرضی کی خبریں، فوٹیجز، تجزیہ و تبصرہ اندھا دھند نشر کیے جاتے رہے۔
سب کا سوال اپنی جگہ درست تھا کہ اگر معاہدہ پر عمل نہیں کرنا تھا تو وعدہ کیا ہی کیوں اور اگر عمل کرنا تھا تو ایسا ایکشن کیوں لیا گیا؟
اگر ایم کیو ایم بلدیہ فیکٹری میں سیکڑوں خاندان جلا دے تو پابندی نہ لگے ، 27دسمبر کو پیپلز پارٹی ملک جلا کر بھی پابندی کی زد میں نہ آئے تو صرف احتجاجی دھرنا کرنے پر اور پولیس کے ڈنڈوں کے جواب میں پتھراؤ کرنا کیونکر دہشت گردی ہوگیا۔
یہ اور اس جیسے کئی سوالات و ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر ہوتے رہے کیونکہ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا مخصوص یکطرفہ رپورٹنگ میں لگا ہوا تھا۔
یہ سب شروع ہوا جب حافظ سعد نے ایک ویڈیو کانفرنس میں اعلان کیا کہ حکومت نے اگر اپنے 20اپریل کے معاہدے پر عمل نہیں کیا تو 21اپریل کولاہور سے ’ناموس رسالت مارچ‘کا آغازکیا جائیگا۔اس کو بنیاد بنا کر بات شروع ہوئی ٹوئٹر سے ۔جی ہاں۔ ٹوئٹر پر 11اپریل کی شام 4-5کے درمیان ایک ٹاپ ٹرینڈ ابھرا ’ ناموس رسالت مارچ‘۔یہ ٹرینڈ رات بھر ٹاپ لسٹ میں کھڑا رہا۔اس ٹرینڈ کے ذیل میں ’ ناموس رسالت مارچ‘ میں شرکت کرنے کی دعوت دی گئی تھی ۔یہ شور کافی تھا بہت کچھ بتانے ، سمجھانے کے لیے ۔اگلے دن یہ ٹرینڈ فجر کے قریب غائب ہوا تو کچھ ہی دیر بعد مطلب صبح 8بجے ٹرینڈ لسٹ پر ’آفتاب اقبال صحابہ کا گستاخ‘ ٹرینڈ ٹاپ پر پہنچ گیا تھا ۔ایک جانب ٹوئٹر پر رسول اللہ ﷺ کے ناموس کے دفاع کی تحریک جاری تھی تو اب ایک اور گستاخ صحابہ برآمد ہوگیا ۔ ٹی وی اینکر زمیں یہ اسٹائل ہمیشہ سے غیر مقبول رہا ہے ۔ جنید جمشید تو بہر حال ایک مدرس بھی تھے ، آفتاب اقبال کا تو کوئی درجہ نہیں اُس نے اپنے پروگرام کے جگت بازوں کی ایک پلانڈ حرکت پر اتنا خطرناک تبصرہ کر دیا کہ کسی کو ایک لمحہ نہ بھایا۔ شدید ترین رد عمل پر اُس نے تو معافی نما چیز مانگ کرجان چھڑائی۔مگر لاہور میں حکومت تحریک لبیک کے سربراہ کو گرفتار کر کے ایکشن شروع کر چکی تھی ۔صبح 10بجے ’یہ غداری پڑے گی بھاری‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ ٹرینڈ ٹاپ پر جا چکا تھا۔چار گھنٹے میں کوئی لاکھ سے زائد ٹوئیٹس ہو چکی تھیں۔دوپہر 3بجے #WeStandWithSaadRizviکا ٹرینڈ بھی بن چکا تھا ۔ شام 6بجے تیسرا ہیش ٹیگ ٹرینڈ بن کر سامنے آیا ’TLPNationwideProtest‘ جو بتا رہا تھا کہ اب ملک گیر احتجاج شروع ہو چکا ہے ۔واضح رہے کہ جس تیزی سے عملی گرفتاریاں جاری تھیں ، سوشل میڈیا کے متحرک افراد کوئی لمحہ جانے نہیں دے رہے تھے اور تینوں ٹرینڈز لسٹ میں بدستور کھڑے رہے ۔علی الصبح شروع ہونے والے ٹرینڈز کا رات 12بجے عالم یہ تھا کہ لسٹ پر پہلا ٹرینڈ سوا دو لاکھ ٹوئیٹس کے ساتھ ’ یہ غداری پڑے گی بھاری ‘ تھا جبکہ دوسرا ’رمضان مبارک‘ ، پھر تیسرا WeStandWithSaadRizvi ، چوتھا ’TLPNationwideProtest‘ اور پانچواں ٹرینڈ ’pakvssa‘ تھا۔اس دوران آفتاب اقبال بھی پیچھے جا چکا تھا اور کچھ دل جلوں کو مشال خان کی یاد بھی ستائی، جسے عوامی نیشنل پارٹی و تحریک انصاف کے کارکنان نے ہجوم کے ساتھ 13اپریل ہی کو توہین مذہب و رسالت کے جرم میں4سال قبل سرعام قتل کر دیا تھا۔ملزمان نے اقبال جرم کیا سزا بھی ہوئی مگر ’نامعلوم ایجنڈے‘کے تحت ایسے افراد کو کیوں لانچ کیا گیا یہ آپ صورتحال دیکھ کر اندازہ کر سکتے ہیں۔بہر حال واپس چلتے ہیں ٹرینڈ لسٹ پر جہاں اگلی صبح 13اپریل کوسوشل میڈیا پر معرکہ مزید دلچسپ ہو گیا جب جوابی بریگیڈ میدان میں آئی ۔غداری والے کی جگہ ’سفیرنکالوسعدرضوی کورہاکرو‘ کا نیا ٹرینڈ آچکا تھا، باقی تین ٹرینڈ اپنی جگہ کھڑے تھے ۔ صبح8بجے ’ فیض آباد کا فیض بھگتو‘ کا ٹرینڈ اچانک سے اُبھرا ، جسے عمومی بھی کہہ سکتے ہیںکہ اس کے ذیل میں موجودہ وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کے سابقہ بیانات بھی شامل تھے جو وہ ماضی میں فیض آباد دھرنوں کے حق میں دیتے رہے ۔اسی طرح شہر بند کرانے والا موجودہ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کا کلپ ، موجودہ وزیر اعظم عمران خان کا کئی شہر بند کرانے کے اعلان کا ویڈیو کلپ، سپریم کورٹ حملہ، پی ٹی وی حملہ کے علاوہ پولیس پرتشدد اور پولیس کے تشدد کےکئی دلچسپ چشم کشا حقائق شیئر ہوتے رہے ۔اب حکومت کی جانب سے جوبات پیش کی گئی اسکاان ہیش ٹیگ سے اندازہ ہو ہی جائیگاکہ ’ناموس رسالت کی محافظ ریاست‘ ، TLPGoons۔ اب ان کے سامنے کھڑا تھا ’ فرانس کا یار عمران غدار‘۔ یہ جنگ شام کو ’محافظ نہیں قاتل حکومت‘ کے ٹرینڈ تک جا پہنچی ۔اس دوران ملک کے اہم حصوں میں سب کچھ تلپٹ ہو چکا تھا ،چھانٹ چھانٹ کر ویڈیوز اور خبریں شیئر کی جا رہی تھیں ۔ تحریک لبیک کا نام لکھنے پر ہی از خود پابندی لگ چکی تھی ۔ مذہبی تنظیم کا لفظ لگا کر انہیں دہشت گرد ثابت کرنے پر تلے تھے اور وہ جوان بھی اپنی ویڈیوز میں سر کٹانے کے عزم کو تازہ کر رہے تھے ۔اگلا دن یکم رمضان کا تھا ۔#TLPNationWideProtestTLP،#tlp_terrorist، #گستاخوں کی ضامن حکومت، #Terrorist_PTI_Gov، #FranceLeavePakistan، #TTPSupportsTLP، کے ٹرینڈ جاری رہے ۔
تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے تحریک لبیک پر پابندی وحکومتی ایکشن کے خلاف بھی بیان آیا جو سارادن ٹرینڈ لسٹ میں جگہ بنائے رہا۔

حصہ