سود (قسط 28)

آپ کا خیال یہ ہے کہ سود کے معاملات میں ضرر رساں صفت مشترک صرف یہ ہو سکتی ہے کہ حاجت مندوں کی شخصی ضروریات کے لیے قرض دے کر ان سے ظالمانہ شرح سود طے کی جائے۔ لیکن ہمارے نزدیک صرف یہ ہی ایک ضرر رساں صفت اس میں نہیں ہے۔ یہ صفت بھی ضرر رساں ہے کہ ایک شخص یا ادارہ صرف روپیہ دے کر اپنے لیے ایک متعین منافع کی ضمانت حاصل کرے اور وہ سب لوگ جو اس روپے کے ذریعے سے اپنی محنت‘ قابلیت اور دماغ سوزی کرکے منافع حاصل کرنے کی کوشش کریں ان کے لیے متعین منافع تو درکنار‘ خود منافع تک کی کوئی ضمانت نہ ہو‘ قرآن مجید جو قاعدہ تجویز کرتا ہے وہ یہ ہے کہ قرض کی صورت میں کسی کو مال دو تو تم اصل سے زائد کچھ لینے کے حق دار نہیں ہو اور ربیع یعنی تجارت کا منافع حاصل کرنا چاہو تو پھر سیدھی طرح یا تو خود براہِ راست تجارت کرو یا پھر تجارت میں شریک بن جائو۔ قرآن کے اسی منشا کو سمجھ کر اسلام میں مضاربت کو جائز اور سودی قرض کو ناجائز قرار دیا گیا ہے۔
وَذَروامَابَِقیَ مِنَ الِرّبوٰ سے آپ نے جواستدلال کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے یہ محض اسی زمانے کے لیے ایک وقتی حکم نہ تھا بلکہ قرآن کے دوسرے احکام کی طرح ایک ابدی حکم تھا۔ جب اور جہاں بھی کوئی آدمی ایمان لائے وہ اس حکم کا مخاطب ہے۔ اسے اگر کسی سے اپنے دیے ہوئے قرض پر سود لینا ہو تو اس کو سود کا مطالبہ چھوڑنا ہوگا اور صرف اپنے دیے ہوئے راس المال کی واپسی پر اکتفا کرنا پڑے گا۔ علاوہ ازیں اس آیت سے آپ کا استدلال اس دعوے پر مبنی ہے کہ اس وقت کی اقسام قرض کافروکاروباری نوعیت کے سود سے خالی تھیں۔ یہ دعوی خود محتاجِ ثبوت ہے‘ اسے دلیل کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ جن اقسامِ قرض کا آپ بار بار حوالہ دیتے ہیں کہ یہ صرف ذاتی نوعیت کے قرض ہی ہوسکتے تھے‘ خود ان میں یہ احتمال موجود ہے کہ ایک چھوٹا تاجر کسی بڑے تاجر سے قرض پر مال لے کر جاتا ہو اور بڑا تاجر اس پر اصل قیمت کے علاوہ سود بھی عائد کرتا ہو‘ پھر جب وہ مدتِ مقررہ کے اندر پوری قیمت ادا نہ کرتا ہو تو وہ مزید مہلت دے کر سود میں اور اضافہ کر دیتا ہو۔ا س طرح کے سود کے بقایا بھی تو حکم ذرو مابقی من الربوٰ کی زد میں آجاتے ہیں۔ آپ کے پاس اس کا کیا ثبوت ہے کہ ان بقایا میں اس نوعیت کے بقایا شامل نہ ہوتے تھے۔
میرے نزدیک اگر تجارتی سود کو حکم ربوٰ کے تحت لانے یا نہ لانے کی بنا محض گمان ہی پر ہو (اگرچہ واقعہ یہ نہیں ہے) تب بھی گمان پر ایک امکانی حرام کو حلال کر دینا اس سے زیادہ خطرناک ہے کہ اسے حرام مان کر اس سے اجتناب کیا جائے۔ حدیث کا یہ حکم صاف ہے کہ دعوا الربوا اور الربیہ سود کو بھی چھوڑو اور اس چیز کو بھی جس میں سود کا شک ہو۔ یہ بات میں برسبیل تذکرہ محض آپ کی اس بات کے جواب میں کہہ رہا ہوں کہ تجارتی سود کو حرام قرار دینے کی بنیاد محض گمان ہے ورنہ مجھے اس امر میں کوئی شک نہیں ہے کہ قطعاً حرمت کے تحت آتا ہے اور اس کے حرام ہونے کی بنا گمان نہیں ہے بلکہ قرآن و سنت کے محکمات ہیں۔
مجھے اس بات کی مسرت ہے کہ آپ نے خود اپنے پراویڈنٹ فنڈ کے سود کے معاملے میں میرا مشورہ قبول فرما لیا ہے آپ سے توقع یہی ہے کہ کم از کم اپنی ذات کو تو مالِ مشکوک کے فائدے سے محفوظ رکھیں گے۔ خدا کرے کہ آپ اسے دوسروں کے لیے حلال کرنے کی فکر بھی چھوڑ دیں اور مالیات کے مسائل پر جو تجربہ و بصیرت آپ کو حاصل ہے اسے ایک غیر سودی نظام مالیات مرتب کرنے میں استعمال کریں۔
آپ کے آخری سوال کا جواب یہ ہے کہ میں نے ’’اثم‘‘ کا ترجمہ نفع کے تقابل کی وجہ سے گناہ کے بجائے نقصان کیا ہے۔ ویسے یہ زبان کے اعتبار غلط بھی نہیں ہے کیوں کہ ’’اثم‘‘ کے اصل معنی خیر مطلوب کو پہنچنے میں قاصر رہ جانے کے ہیں۔ اسی معنی کے لحاظ عرب کہتے ہیں ’’اثمت الناقۃ‘‘ یعنی اونٹنی سست رفتار ہے۔ جو اس تیز رفتاری اس سے مطلوب ہے اس میں کوتاہی برتتی ہے۔‘‘ (ترجمان القرآن محرم صفر 1377 ہجری‘ اکتوبر‘ نومبر 1957ء)
ادارۂ ثقافت اسلامیہ کا سوال نامہ اور اس کا جواب
1960ء کے اوائل میں ادارۂ ثقافتِ اسلامیہ لاہور نے ایک مجلس مذاکرہ منعقد کی تھی جس میں سود کے متعلق چند اہم سوالات زیر بحث لائے گئے تھے۔ اس غرض کے لیے ادارہ نے ایک سوال نامہ مرتب کیا تھا جو زیر بحث مسائل پر مشتمل تھا۔ یہ سوال نامہ اور اس کا جو جواب مصنف نے دیا تھا وہ یہاں درج کیا جاتا ہے۔
سوال نامہ
-1 عرب میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں قرض لینے دینے کی شکل کیا تھی؟
-2 لفظ ’’ربوٰ‘‘ کے معنی۔
-3 ’’ربوٰ‘‘ اور ’’ربح‘‘ میں فرق۔
-4 ربوٰ میں قرض دینے والا شرائط مقرر کرتا ہے اور بینک انٹرسٹ میں قرض لینے والا پیش کرتا ہے۔
-5 بیع سلم اور کمرشل انٹرسٹ میں کیا فرق ہے۔ ایک شخص ایک بھینس جو روزانہ دس سیر دودھ دیتی ہے‘ دوسرے کو دیتا ہے اور کہتا ہے کہ بھئی اس کے دودھ میں سے پانچ سیر ہمیں دے دیا کرو۔ یہ جائز ہے تو پھر اس میں اور منافع پر روپیہ قرض دینے میں کیا فرق ہے؟
-6 ہم جنس کا تبادلہ ہم جنس سے تفاضل کے ساتھ کیوں ناجائز ہے جب کہ غیر ہم جنس کے ساتھ تفاضل جائز ہے؟
-7 تجارت میں طرفین کی رضامندی لازمی ہے یا نہیں؟ بعض کے نزدیک تراضئی طرفین کی عدم موجودگی ہی ربوٰ کو پیدا کرتی ہے۔ نقصان کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیا حرمتِ ربوٰ کی یہی بنیاد تھی کہ اس میں ایک پارٹی پر ظلم ہوتا ہے؟ کمرشل انٹرسٹ میں کسی پارٹی پر بھی ظلم نہیں ہوتا۔ اگر یہ درست ہے کہ کسی پارٹی پر ظلم نہیں ہوتا تو بینک انٹرسٹ ربوٰ کے تحت کیسے آسکتا ہے؟
-8 (الف): صنعتی اداروں کے معمولی حصے۔
(ب): ان کے ترجیحی حصے۔
(ج): بینکوں کا فکسڈ ڈپازٹ
(د) بینکوں سے لیٹر آف کریڈٹ کھولنا اس کے مختلف پہلو۔ اگر لیٹر آف کریڈٹ کی بنا پر تجارت کے لیے قرض لینا ناجائز ہے تو اس کے لیے جائز صورت کیا ہوگی جس سے نظامِ تجارت میں خلل نہ پڑے؟
(ہ): ہائوس بلڈنگ‘ فنانس کارپوریشن اور انڈسٹریل فنانس کارپوریشن۔
(و): گورنمنٹ کے قرضے (i) اپنے ملک سے (ii) غیر ملکوں سے۔ اگر یہ تمام قرضے ناجائز ہیں تو پھر گورنمنٹ کی مشینری چلانے کے لیے کیا تجاویز ہو سکتی ہیں؟
جواب
پہلا سوال:
پہلے سوال میں دراصل تنقیح طلب امور یہ ہیں:
(i) نزولِ قرآن کے زمانے میں تجارتی‘ صنعتی‘ زراعتی اور ریاستی اغراض کے لیے قرض کے لین دین کا دنیا میں رواج تھا یا نہیں؟
(ii) ان قرضوں پر سود لگایا جاتا تھا یا نہیں؟
(iii) اہلِ عرب میں یہ بات پوری طرح معروف تھی یا نہیں کہ ان اغراض کے لیے بھی قرض کا لین دین ہوتا ہے اور:
(iv) اس نوعیت کے قرضوں پر اصل سے زائد جو کچھ وصول کیا جاتا تھا اس کے لیے ربوٰ ہی کی اصطلاح استعمال ہوتی تھی یا لغت عرب میں اس کے لیے کوئی دوسرا لفظ مستعمل تھا؟
ان تنقیحات پرکلام کرنے سے پہلے ہمیں قبل اسلام کے عرب کی معاشی تاریخ اور بیرونی دنیا سے اس کے تعلقات پر ایک نگاہ ڈال لینی چاہیے تاکہ یہ غلط فہمی نہ رہے کہ عرب دنیا سے الگ تھلگ پڑا ہوا ایک ملک تھا جس کے باشندے اپنی وادیوں اور صحرائوں سے باہر کی دنیا کو کچھ نہ جانتے تھے۔
زمانہ قدیم کی تاریخ سے متعلق جو مواد آج دنیا میں موجود ہے اس سے یہ بات پوری طرح ثابت ہے کہ اس زمانے میں چین‘ ہندوستان اور دوسرے مشرقی ممالک کی اور اسی طرح مشرقی افریقہ کی جتنی تجارت بھی مصر‘ شام‘ ایشیائے کچک‘ یونان اور روم کے ساتھ ہوتی تھی‘ وہ سب عرب کے واسطے سے ہوتی تھی۔ اس تجارت کے تین بڑے راستے تھے۔ ایک ایران سے خشکی کاراستہ جو عراق اور شام ہوتا ہوا جاتا تھا۔ دوسرا خلیج فارس کا بحری راستہ جس سے تمام تجارتی سامان عرب کے مشرقی ساحل پر اترتا اور دَومۃُ الجندل یا تدمُر ہوتا ہوا آگے جاتا تھا۔ تیسرا بحر ہند کا راستہ جس سے آنے جانے والے تمام اموالِ تجارت حضرموت اور یمن سے گزرتے تھے۔ یہ تینوں راستے وہ تھے جن پر عرب آباد تھے۔ عرب خود بھی ایک طرف سے مال خرید کر لے جاتے اور دوسری طرف اسے فروخت کرتے تھے حمل و نقل کا کاروبار (Carrying trade) بھی کرتے تھے اور اپنے علاقے سے گزرنے والے قافلوں سے بھاری ٹیکس لے کر انہیں بحفاظت گزارنے کا ذمہ بھی لیتے تھے۔ ان تینوں صورتوں سے ہمیشہ بین الاقوامی تجارت کے ساتھ ان کا گہرا تعلق رہا۔ 2700 قبل مسیح میں بنی اسماعیل کے تجارتی قافلوں کی سرگرمیوں پر توراۃ شہادت دیتی ہے۔ شمالی حجاز میں مدین (مدیان) اور دِوان کی تجارت ڈیڑھ ہزار قبل مسیح اور اس کے بعد کئی صدی تک چلتی نظر آتی ہے۔ حضرت سلیماؑن کے زمانے (ایک ہزار سال قبل مسیح) سے یمن کے سبائی قبائل اور ان کے بعد حَمیری قبیلے ابتدائی مسیحی صدیوں تک مسلسل تجارتی نقل و حرکت رہے ہیں۔ مسیح علیہ السلام کے قریبی زمانے میں فلسطین کے یہودی عرب آکر یثرب‘ خیب‘ وادی‘ القُریٰ (موجودہ العُلاء) تیمار اور تبوک میں آباد ہوئے اور ان کے دائمی تعلقات‘ مذہبی بھی اور ثقاتی بھی شام و فلسطین اور مصر کے یہودیں کے ساتھ برقرار رہے۔ عرب میں شام اور مصر سے غلّہ اور شراب درآمد کرنے کا کام زیادہ تر یہی یہودی کرتے تھے۔ پانچویں صدی سے قریش نے عرب کی بیرونی تجارت میں غالب حصہ لینا شروع کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد تک ایک طرف یمن اور حبش سے دوسری طرف عراق سے اور تیسری طرف مصر و شام سے ان کے نہایت وسیع تجارتی تعلقات تھے۔ مشرقی عرب میں ایران کی جتنی تجارت یمن کے ساتھ تھی اس کا بہت بڑا حصہ حیرہ سے یمامہ (موجودہ ریاض) اور پھر بنی تمیم کے علاقے سے گزرتا ہوا نجران اور یمن جاتا تھا۔ صدہا برس کے ان وسیع تجارت روابط کی موجودگی میں یہ فرض کرنا بالکل خلافِ عقل ہے کہ بیرونی دنیا کے ان ممالک میں جو مالی معاملات اور کاروباری طریقے مروج تھے ان کی عرب کے لوگوں کو خبر نہ ہو۔
ان تجارتی تعلقات کے علاوہ سیاسی اور ثقافتی اعتبار سے عرب کے لوگوں کا اپنے گردوپیش کی مہذب دنیا سے گہرا رابطہ تھا۔ چھٹی صدی قبل مسیح میں شمالی حجاز کی مقام تیمار کو بابل کے بادشاہ نیبونیدوس (Nabonidus) نے اپنا گرمائی دارالسلطنت بنایا تھا۔ کیسے ممکن تھا کہ بابل میں جو معاشی قوانین اور طریقے رائج تھے ان سے حجاز کے لوگ بے خبر رہ گئے ہوں تیسری صدی قبل مسیح سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد تک پہلے پطرا (Petra) کی نبطی ریاست پھر تڈمر کی شامی ریاست اور اس کے بعد حیرہ اور غسان کی عربی ریاستیں عراق سے مصر کی حدود تک اور حجاز نسجد کے حدود سے الجزیرہ اور شام کے حدود تک مسلسل قائم رہیں۔ ان ریاستوں کا ایک طرف یونان و روم سے اور دوسری طرف ایران سے نہایت گہرا سیاسی‘ تمدنی‘ تہذیبی اور معاشی تعلق رہا ہے پھر نسلی رشتوں کی بنا پر اندرون عرب کے قبائل بھی ان کے ساتھ وسیع تعلقات رکھتے تھے۔ مدینہ کے انصار اور شام کے غسانی فرماں روا ایک ہی نسل سے تھے اور ان کے درمیان پیہم تعلقات قائم رہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں خود آپ کے خاص شاعر حضرت حسانؓ بن ثابت غسانی امراء کے ہاں آتے جاتے تھے۔ حیرہ کے امرا سے قریش والوں کا بہت میل جل تھا حتیٰ کہ قریش کے لوگوں نے لکھنا پڑھنا بھی انہی سے سیکھا اور حیرہ ہی سے وہ رسم الخط انہیں ملا جو بعد میں ’’خط کوفی‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ کس طرح باور کیا جاسکتا ہے کہ ان تعلقات کے ہوتے یہ لوگ یونان و روم اور مصر و شام اور عراق و ایران کے مالی و معاشی معاملات سے بالکل ناواقف رہ گئے ہوں۔ (جاری ہے)
مزید برآں عرب کے ہر حصے میں شیوخ‘ اشراف اور بڑے بڑے تاجروںکے پاس رومی‘ یونانی اور ایرانی لونڈیوں اور غلاموں کی ایک بڑی تعداد موجود تھے۔ ایران و روم کی لڑائیوں میں دونوں طرف کے جو جنگی قیدی غلام بنائے جاتے تھے‘ ان میں سے زائد از ضرورت تعداد کو کھلے بازار میں فروخت کر دیا جاتا تھا اور عرب اس مال کی بڑی منڈیوں میں سے ایک تھا۔ ان غلاموں میں اچھے خاصے پڑھے لکھے مہذب لوگ بھی ہوتے تھے اور صنعت پیشہ اور تجارت پیشہ لوگ بھی۔ عرب کے شیوخ اور تجار ان سے بہت کام لیتے تھی۔ مکہ‘ طائف‘ یثرب اور دوسرے مرکزوں میں ان کی ایک بڑی تعداد موجود تھی اور یہ کاریگروں کی حیثیت سے یا تجارتی کارکنوں کی حیثیت سے اپنے آقائوں کی قیمتی خدمات بجا لاتے تھے۔ آخر یہ کس طرح ممکن تھا کہ اپنے ان مددگاروں کے ذریعے سے کسی عرب تاجر کے کان میں کبھی یہ بات نہ پڑی ہو کہ گردوپیش کی دنیا میں مالی و کاروباری معاملات کے کیا طریقے رائج ہیں۔
اس کے ساتھ عرب کی معاشی تاریخ کاایک اور پہلو بھی نگاہ میں رہنا چاہیے۔ عرب کسی زمانے میں نہ تو خوراک کے معاملے میں خود کفیل رہا ہے اور نہ وہاں ایسی صنعتوں کو فروغ نصیب ہوا ہے جن سے تمام ضروریات کے سامان ملک ہی میں فراہم ہو جاتے ہوں۔ اس ملک میں ہمیشہ اشیائے خوردنی بھی باہر سے درآمد ہوتی رہی ہیں اور ہر طرح کی مصنوعات بھی‘ حتیٰ کہ پہننے کے کپڑے تک زیادہ تر باہر ہی سے آتے رہے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب کے عہد میں یہ درآمدی تجارت زیادہ تر دو گروہوں کے ہاتھ میں تھی۔ ایک قریش اور ثقیف دوسرے یہود لیکن یہ لوگ مال درآمد کرکے صرف تھوک فروشی ہی کرتے تھے۔ اندرونِ ملک کی چھوٹی چھوٹی بستیوں اورقبائلی ٹھکانوں میں خردہ فروشی کرنا ان کا کام نہ تھا‘ نہ ہو سکتا تھا اور نہ قبائل اس بات کو بھی کبھی گوارا کر سکتے تھے کہ سارے تجارتی فائدے یہی لوگ لوٹ لے جائیں اور ان کے اپنے آدمیوں کو اس اجارہ داری میں گھسنے کا کسی طرف سے راستہ نہ ملے۔ اس لیے تھوک فروش کی حیثیت سے یہ لوگ اندرون ملک کے خردہ فروش تاجروں کے ہاتھ لاکھوں روپے کا مال فروخت تھے اور اس کا ایک معتدبہ حصہ ادھار فروخت ہوتا تھا۔ شاید دنیا میں تھوک فروش اور خوردہ فروش کے درمیان کبھی اور کہیں خالص نقد لین دین کا طریقہ رائج نہیں رہا ہے اس لین دین میں ادھار بالکل ناگزیر ہے جس سے کبھی مفر نہ تھا۔ اگر یہ دعویٰ کیا جائے کہ صرف عرب ہی میں اس وقت یہ لین دین بالکل نقدا نقد کی شرط پر ہوتا تھا اور قرض کا اس میں کوئی دخل نہ تھا تو عقلاً بھی یہ قابل قبول نہیں ہے‘ اور تاریخی طور پر بھی یہ غلط ہے۔
اب میں تنقیحات کو لیتا ہوں۔ یہ امر کہ قدیم زمانے میں قرض صرف ذاتی و شخصی ضرورتوں ہی کے لیے نہیں لیا جاتاتھا بلکہ تجارتی‘ صنعتی اور زراعتی اغراض کے لیے بھی اس کا عام رواج تھا اور حکومتیں بھی اپنی ریاستی اغراض کے لیے قرض لیتی تھیں‘ تاریخ سے بالکل ثابت ہے اور یہ دعویٰ کرنے کے لیے کوئی بنیاد نہیں ہے کہ پرانی دنیا میں قرض کا لین صرف شخصی حاجتوں کے لیے ہوتا تھا۔ اسی طرح یہ بھی ثابت ہے کہ قرض پر اصل سے زائد ایک طے شدہ مقدارِمال لینے کا طریقہ‘ شخصی اور کاروباری معاملات کے درمیان کسی قسم کا امتیاز کیے بغیر ہر قسم کے قرضوں کی صورت میں رائج تھا۔
انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا (1946ء) کے مضمون Banks میں بیان کیا گیا ہے کہ بابل او مصر کے مندر صرف عبادت گاہ ہی نہ تھے بلکہ بینک بھی تھے۔ بابل کے آثار قدیمہ میں جو گلی تختیاں (Clay Tablets) ملی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ زمیندار فصل سے پہلے اپنی زرعی ضروریات کے لیے مندروں سے قرضے لیتے تھے اور فصل کاٹنے کے بعد مع سود یہ قرض ادا کرتے تھے۔ یہ ساہوکاری نظام دو ہزار برس قبل مسیح میں پایا جاتا تھا۔ چھٹی صدی قبل مسیح کے لگ بھگ زمانے میں پرائیویٹ بینک بھی بابل کے (Lgibi Bank) کا وجود ملتا ہے جو زمین داروں کو زرعی اغراض کے لیے قرض دیتا تھا۔ نیز یہ بینک لوگوں کے ڈپازٹ اپنے پاس رکھ کر ان پر سود ادا بھی ادا تھا۔ یاد رہے کہ یہ وہی زمانہ تھا جب شمالی حجاز کا شہر تیما بابل کی سلطنت کا گرمائی دارالسلطنت تھا۔ (جاری ہے)

حصہ