سوشل میڈیا فحاشی اور اخلاقیات کی تعریف

318

سوشل میڈیا پر فحاشی کی درست تعریف پر ایک بار پھر دلچسپ بحث ہوتی دکھائی دی۔ مطلب یہ کہ جو جانتے ہیں کہ ہمارے محترم وزیر اعظم صاحب اب تک صرف ’اچھی باتیں ‘ ہی کرتے آئے ہیں وہ بھی سیخ پا ہیں۔اہم بات وزیر اعظم کی سوشل میڈیا سپاہ کی تھی جو’’ بے حیائی ۔معاشرے کی تباہی ‘‘کا ٹرینڈ سیٹ کیے رہی ۔اس کے ساتھ ہی بین الاقوامی میڈیا نے بھی خوب اس موقع پر ہاتھ صاف کیے ۔ ڈان نے تو چار چار کالم لکھ ڈالے۔ سب کو مرچیں لگیں۔ اس ہفتہ کراچی کے ایک اخبار میں ایک ذیلی سرخی کا لفظ بھی خاصا گردش کرتا رہا ۔لوگوں کو ’ادب‘ ، ’اخلاقیات ‘ ، ’ تمیز‘ یاد آنا شروع ہو گئی۔ عورت کی تذلیل کا خیال آنے لگا۔مگر یہ سارے تبصرے کرتے وقت لوگ یہ بھول گئے کہ جن کے لیے یہ لفظ لکھا گیا اُن کی اپنی ’اخلاقیات ‘ کیا ہیں ؟ یہ بات ٹھیک ہے کہ اُن کے بارے میں اشارہ کرنے کے لیے اس سے سخت ترین لفظ ہونا چاہیے تھا وگرنہ اصطلاحات کے اس دور میں تو اُن کو کوئی ’سیلیبرٹی‘ بنا کر پیش کردے تو کوئی ’ماڈل‘ تو کوئی اورنئی ’اصطلاح‘ کے ساتھ تعارف کرا دے۔ایک مسلمان کے لیے پسند اور قدر کا معیار جب تک اللہ اور اس کے رسول ﷺ نہیں ہو گا تب تک اُس کو کوئی بات سمجھ نہیں آئے گی۔ اُس کے پیمانے سیٹ نہیں ہونگے وہ ایسے ہی الل ٹپ ، اخلاقیات کے درس دے گا۔زبان و بیان کا معاملہ تو یہ ہے کہ خود قرآن نے کئی لوگوں کی حرکات کی روشنی میں اُن کے لیے سخت ترین الفاظ استعمال کیے ہیں۔واضح رہے کہ حرکات کا تعلق باطل کے ساتھ تعلق ، اللہ و اسکے رسول ﷺ سے نفرت پر مبنی ہونے پر تھا۔مولانا مودودی ؒ نے مغرب کو ’تخم خبیث‘ لکھا ہے اس کے معنی بہت واضح ہیں ۔ پھر یہی نہیں ایک دوست نے تبصرہ کیا کہ ، ’ منٹو‘ کے افسانوں میں جو کچھ لکھا جائے یا’عصمت چغتائی‘ اپنے ناول ’لحاف‘ میں جو کچھ لکھے وہ تو ادب ٹھہرے لیکن یہاں گستاخوں سے اظہار نفرت کے یے استعمال کیا جانے والا ایک کم تر درجہ کا لفظ سب کو سیخ پا کردے۔ اس عمل میں مجھے ایسے ایسے افراد کے تبصرے ملے کہ یقین آگیا کہ کس طرح باطل نظریات نے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ’امر جلیل‘ کیس بھی سوشل میڈیا پر خاص طور پر سامنے آیا۔ کوئی کہتا رہا کہ پرانا کلپ ہے مگر کیا پرانا کلپ ہونے سے مواد بے اثر کیسے ہو سکتا ہے ؟ امر جلیل کے حق میں لوگ علامہ اقبال کے شکوہ کو لانے کی کوشش کرتے رہے مگر دونوں شخصیات کا کوئی مقابلہ نہیں ۔امرجلیل کے مخالف گروپ کے صارفین انہیں توہین مذہب کا مرتکب قرار دے کر ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر تے رہے جب کہ ان کے حمایتی سوشل میڈیا صارفین ایسے مطالبے کو سندھ کی صوفی روایت میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہاپسندی قرار دے کر امرجلیل کی حمایت میں پوسٹ کر تے رہے۔ ویڈیو 2017 میں منعقدہ ’سندھ لٹریچر فیسٹیول‘ کی تھی ، جس میں امرجلیل سٹیج پر بیٹھ کر ایک افسانہ پڑھ رہے ہیں اور سننے والے تالیاں بجا رہے ہیں۔اس قسم کے لٹریچر فیسٹیول بلا شبہ ایک خاص ایجنڈے کا حصہ ہیں ، یہاں آنے والی جنٹری ہی اس بات کا بین ثبوت ہوتی ہے جسے آپ خود جا کر دیکھ سکتے ہیں۔ایک صاحب کہتے ہیں کہ معاشرے میں تقسیم ہے، یہی تقسیم معاشرے کی خوبصورتی ہے، سیکولر، لبرل، مذہبی، سوشلسٹ، فیمنزم اور بہت ساری فکری و نظریاتی تقسیم موجود ہے۔یہ تقسیم ازل سے ہے، ابد تک رہے گی، ہم اس تقسیم کو ختم نہیں کر سکتے ہیں۔ دنیا کے تمام انسانوں کی سوچ کو ایک سمت پر مرکوز نہیں کیا جاسکتا ہے، اور نہ یہ ممکن ہے، ہم مختلف سوچوں کے درمیان خوبصورتی سے گفتگو کر سکتے ہیں، ایک دوسرے کو سن سکتے ہیں، دلائل پر بات کر سکتے ہیں۔ برداشت اور تحمل سے جینے کا فن سیکھ سکتے ہیں۔ ‘ اب سمجھنے کی بات یہی ہے کہ مذکورہ برداشت و تحمل کا سارا درس صرف اللہ ، رسول ﷺ ، وحی، کتاب اِلہی ، شعائر اسلام پر ہی کیوں ؟ دلائل کا یہ طریقہ ہے ؟اس کا جواب ہر ایمان رکھنے والا شخص نفی میں دے گا۔ جو بات ہمارے اسلاف کی تاریخ سے کبھی بھی ثابت نہیں ہم کیسے اور کیونکر جدیدیت کے نام پر قبول کریں۔ ہماری تاریخ کوئی شرمندگی کی تاریخ نہیں ہے ۔ آدھی دنیا پر حکمرانی رہی ہے ، اس برصغیر پر 1000سالہ مسلم حکمرانوں کا دور ہے ، کسی کی ایسی کبھی جرأت نہیں ہوئی ، ہاں جس جس نے کوشش کی اُس کا حشر بھی تاریخ میں رقم ہوا۔
اب فحاشی والے کیس میں ایسی ہی کیفیت وزیر اعظم کے بیان پر دیکھنے میںآئی ۔ یہ بیان بلکہ حقیقت ہے ایک عرصے سے سب ہی چلا چلا کرکہہ رہے ہیں مگر اس کو بند کرنے کا اصل کام تو حکمران کا ہی ہے ۔ اب جب وقت کا حکمران بھی یہ بات صرف کہنے پر اکتفا کرے تو کیا کریں۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ وزیر اعظم پاکستان نے قومی ٹی وی پر ارتغرل؛ یونس ایمرے کی صورت ایک مثبت قدم اٹھایا مگر اب تک یعنی تین سالوں میں یہی قدم ہے ۔اس کے علاوہ کوئی اورقدم ملک سے فحش کو ختم کرنے کے لیے نہیں اٹھایا گیا۔ مغرب پرستوں کو تکلیف ہوئی کہ کم کپڑے پہننا کیوں معیوب ہے ، کسی کو مرد کی نظروں کا مسئلہ نظر آیا تو کسی نے جمائما کی ٹوئیٹ دکھائی ۔ بہر حال یہ ایسا ایشو تھا جس پر اکثریت وزیر اعظم کے بیان کی حمایت میں کھڑی نظر آئی۔بی بی سی نے زبردستی اس بیان کو متنازعہ لکھا اور صحافتی اقدار کی دھجیاں بکھیر دیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ خود کے پاس جواب ہے نہیں کہ کیوں جنسی جرائم بڑھ رہے ہیں اور جو بتا رہا ہے اُس پر سخت تنقید ۔قرآن مجیدمیں اللہ نے واضح الفاظ میں ’فحاشی ، بے شرمی، بے حیائی‘ کو شیطان کا ہتھیار اور شیطانی حکم قرار دیا ہے اب اسکے بعد کیا رہ گیا کسی اور جرم کی دلیل سمجھانے کے لیے ۔ مگر افسوس کہ مسلمانوں جیسے نام رکھنے والے افراد اس قرآنی نص پر بھی جز بز دکھائی دیئے۔مغرب کے سب سے موثر ہتھیار ’ہیومن رائٹس کمیشن ‘ کے بیان نے تو اور مہر ثبت کردی۔باطل پرستوں نے اپنے ایجنڈے کو بچانے کے لیے معصوم بچیوں کو ہدف تنقید قرار دے دیا جبکہ وہ یہ بتانے سے گریز کرتے رہے کہ میڈیا پر پھیلتی فحاشی سے پیدا ہونے والے جنسی ہیجان کی تکمیل کے لیے یہ درندے آسان ترین شکار ڈھونڈتے ہیں۔ فحاشی ایک زہریلا محرک ہے ، جو کہ ان نوجوانوں کے ہاتھوں پر وائی فائی سگنل کے رستے رگوں میں داخل ہو رہا ہے ۔ پاکیزہ معاشرہ، حیا دار معاشرہ بھی جنسی جرائم کا شکار ہو سکتا ہے لیکن وہاں ایسی بہتات نہیں ہوسکتی۔یہ بات سمجھنی ہوگی اور سمجھانی بھی ہوگی۔ انسانی حقوق کے نام نہاد باطل چارٹر نے جو آزادی کا نعرہ لگایا ہے وہ درحقیقت اللہ کے قوانین سے آزادی کا نعرہ ہے اور انسان کی اپنی خواہشات کو خدا بنانے کا ہے۔ کیوں حالیہ ریسرچ میں فن لینڈ کو سب سے زیادہ خوش ہونے والے افراد کا ملک قرار دیا گیا؟ ذرا جائزہ تولیں تو معلوم ہوگا کہ جس معاشرے کو ہر قسم کی انسانی خواہشات کی تکمیل کا مرکز بنا دیا جائے تو وہاں ظاہری طور پر خوشی ہی کا رنگ محسوس ہوگا۔جب زندگی سے وحی کا تعلق ختم ہوگا تو انسان اپنی خواہشات کے بل بوتے پر ایساہی اڑے گا ۔ہیومن رائٹس کمیشن کو پردے سے اتنی ہی تکلیف ہے جیسی فرانس و دیگر کو ہے کہ وہ مذمت کر رہے ہیں وزیر اعظم کے بیان کی کہ ’پردے سے جنسی زیادتی رُک جائے گی‘۔اب بتائیے کہ پردہ کس کا حکم ہے؟ بتائیے کہ کس طرح خالق کے احکامات کو تنقید کا نشانہ بنا کر پیش کیاجاتا ہے۔یہ بھی ٹھیک ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں پردہ کرنا ، کاسمیٹکس کی انڈسٹری کے لیے بھاری پڑ سکتا ہے مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اس سے کپڑے کی صنعت کو بھی تو فائدہ ہوگا جب پوری آستین کے کپڑے بنیں گے، بچیوں اور لڑکیوں کے ۔ برقعہ و عبایہ و اسکارف کی صنعت کو بھی تو دھکا لگتا ہے ، مگر اُن کو یہ بھی قبول نہیں ۔ وجہ اس کی صرف سرمایہ نہیں ہے اس کے پیچھے وحی اِلٰہی پر مبنی احکامات کا رد ہے ۔باطل کے ساتھ ہمیں اُس درجہ کی نفرت کرنی ہوگی جیسا کہ اس کا حق ہے ۔احسن اقبال کوچپل کس کی محبت میں کھانی پڑی؟

حصہ