ترکی جو میں نے دیکھا

قسط نمبر(12)
پاکستان دوستیم
فرصت اور انتظار کے اِن لمحات میں جو خلاف ِمعمول و روایت میرے مشاہدات کا بہانہ بن گئے، میں نے رومی شہنشاہ کی آمد کی یادگار ہارڈن گیٹ کے باہر ایک بینچ پر بیٹھے خاموش اور بے ’’کار‘‘ ٹوپی پہنے اور بڑھی ہوئی شیو جیسی داڑھی والے بزرگ سے بات کرنے کا ارادہ کیا۔ خیال تھا کہ اپنی بی اے کی سطح کی انگریزی سے کام چلالوں گا، مگر وہ بزرگ شاید ’’بی اے‘‘ بھی نہ کرسکے تھے اور انہیں انگریزی کی اے بی سی بھی شاید نہ آتی تھی۔ انگریزی دانی کے اس زعمِ تفاخر کے ساتھ بہرحال میں نے سلام کیا، اشاروں میں حال چال پوچھا۔ ارادہ تو طویل انٹرویو کرکے معاشرتی و عائلی امور سے آگاہی کا تھا، اور اُن کے بے سبب انطالیہ کی سڑکوں پر ’’لُور لُور‘‘ پھرنے کا مقصد و محرک جاننا تھا۔ مگر اے بسا آرزو کہ خاک شد… ہماری ساری انگریزی صلاحیتوں پر پانی پھر گیا۔ بزرگ خاصے خوش مزاج تھے۔ انہوں نے گرچہ گرم جوشی سے سلام لیا، تاہم تبادلہ خیال نہ کرسکے۔ بس اشاروں میں پوچھا کہ کہاں سے آئے ہیں؟ جواب دیا: پاکستان سے۔ بزرگ نے مسکرا کر کہاً پاکستان دوستیم زندہ باد۔ اب نہیں معلوم یہ فارسی تھی، یا ترکی۔ بہرحال محبت بھرے جذبات ضرور تھے، اور جذبوں کی واقعی کوئی زبان نہیں ہوتی۔
پاکستان سے روانہ ہوتے ہوئے میرا دل چاہ رہا تھا کہ کوئی ایسا سووینیر جس پر پاکستان کی کوئی علامت اور وجۂ شہرت و اختصاص موجود ہو، مناسب تعداد میں ساتھ لیتا جائوں اور جہاں مناسب ہو، گفٹ کردوں۔ مگر ایسا ممکن نہ ہوا۔ پاکستانی پرچم والے KEY RING موزوں لگے، مگر مل نہ سکے۔ اگر میرے پاس ہوتے تو پاکستان کی محبت سے سرشار اس ترک بزرگ کو ضرور پیش کرتا جس نے ہماری پاکستانیت کی لاج رکھ لی۔
ڈوڈن فال
انطالیہ کا دوسرا قابلِ دید مقام ڈوڈن فال، یعنی قدرتی آبشار ہے، جو قریبی پہاڑی سلسلوں سے آنے والے پانی کے بحرِ روم میں گرنے کا سحر انگیز منظر ہے۔ یہاں باہر ایک وسیع پارک ہے، جس میں پاکستانی خوانچہ فروشوں کی طرح آئس کریم، بھٹے، روغنی نمکین اور میٹھے دانے، اور اسی نوع کی دیگر کئی اقسام کی ایک دو لیرا میں بکنے والی اشیاء ہیں، جو ہم نے واپسی پر خریدیں بھی اور لطف بھی اُٹھایا۔
آبشار سے پہلے سرکنڈوں اور بانسوں کا ایک جھنڈ دیکھا۔ خیال ہوا، بلکہ ایسا ہی تھا کہ پانی انہی بانسوں کے وسیع جھنڈ سے گزر کر سمندر میں گررہا ہے۔ بعد میں واپسی پر ان چشموں کا نظارہ بھی کیا اور ان کے پھسلنے، بہنے اور سمندر میں گرنے کے مناظر بھی دیکھے۔ یہاں ایک وسیع جگہ پر جنگلے لگا کر آبشار کے سمندر میں گرنے کے مناظر سے لطف اندوز ہونے کے مواقع پیدا کیے گئے ہیں۔ بلاشبہ کئی جگہوں پر صاف و شفاف پانی کے نیلے شفاف سمندر میں گرنے کا یہ منظر بڑا دلفریب تھا۔ اس میں اضافہ سمندر کا تاحدِّ نظر منظر بھی کررہا تھا اور مسلسل بننے والی ’’قوس قزح‘‘ بھی، جسے ہم نے کیمرے کی آنکھ میں بھی محفوظ کیا اور جسم کی آنکھوں میں بھی سمویا۔ یہاں بھی گولائی میں ایک وسیع پارک سمندر کا ہر منظر دیکھنے کا موقع فراہم کررہا تھا، اور آرام کے مطمئن و پُرسکون لمحے بھی فراہم کررہا تھا۔ یہاں بھی کھانے پینے کی اشیاء کے ساتھ بڑے سائز کے رنگ برنگے طوطوں کے ساتھ تصویر بنانے کا موقع دینے والے بھی موجود تھے۔ مگر اس تصویری شوق کی قیمت تقریباً چالیس لیرا یعنی پاکستانی آٹھ سو روپے تھی۔ اکثر لوگ اسے دیکھنے پر ہی اکتفا کرچکے تھے۔
بتایا گیا کہ اس آبشار کے مقام پر تقریباً سو فٹ نیچے قدیم طرز کا ایک مصنوعی غار ہے، جو ہوا دار بھی ہے اور محفوظ و پوشیدہ بھی۔ کئی سیڑھیاں اُتر کر اس تک پہنچا جاسکتا ہے۔ گرمیوں میں ٹھنڈا اور سردیوں میں قدرتی طور پر گرم۔ سمندر کا نظارہ بھی اور آبشار کے قرب اور آوازوں کا لطف بھی۔ ہم اسے نہیں دیکھ سکے۔ آبشار کے حسن، اُس کے شفاف جھرنوں، دلکش موسیقی بھری آوازوں اور قوسِ قزح کے رنگوں میں کھوئے اور انہیں قید کرنے میں مشغول رہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ایسی ہی ایک اور آبشار انطالیہ میں موجود ہے، مگر ہم اور ہمارے ٹور آپریٹرز نے ’’مُشتے نمونہ از خروارے‘‘ اسی آبشار کی سیر پر اکتفا کیا۔
انطالیہ کے دیگر مقامات
انطالیہ کی بندرگاہ اور ساحلِ سمندر کا تو کئی بار ذکر کیا جاچکا۔ یہاں کی بندرگاہ فوجی اور تجارتی لحاظ سے ترکی کی اہم بندرگاہ ہے۔ رومیوں نے اسی وجہ سے اسے اس خطے میں اپنی داخلہ بنایا، اسی کے ذریعے اپنے لشکر اور اُس کی رسد کا اہتمام و سامان کیا۔ آج بھی یہ تجارتی مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ کبھی یہ بندرگاہ، سرزمین اور ساحل توپوں کی گھن گرج، تلواروں کے شور اور بارود کی بُو سے جنگ کی آگ بھڑکاتے تھے… آج یہ امن، سکون، ترقی، جسمانی راحت کا پیغام دیتے اور خوشگوار ہوائوں، معطر فضائوں اور دل موہ لینے والے سمندری مناظر اور لذیذ کھانوں سے آباد، اور مزے لوٹنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔
اِس کے ساحل یعنی BEACH پر وہ سب کچھ ہے جو یورپی کلچر کا حصہ، تہذیبِ جدید کا نشان اور ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کا ایک عنوان ہے۔ ہم نہ یہاں جاسکے، نہ جانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ غالباً انہی محرکات کی وجہ سے ہمارے ٹور آرگنائزرز نے اسے شاملِ سفر نہیں کیا، اور شرکائے سفر کو اختیار دیا کہ چاہیں تو خود سے ساحلِ سمندر کے نظارے کرنے جاسکتے ہیں۔ مگر ہم سب شرکائے قافلہ ہم ذوق تھے کہ کوئی بھی ان فضولیات کا متمنی و مشتاق تھا اور نہ کسی حسرت میں مبتلا… اور کچھ اپنی ایمانی اور اخلاقی قدروں کا پاس بھی تھا کہ ایسے نظاروں سے دور ہی رہتے۔
انطالیہ میں ایک قابلِ دید مقام ’’جمہوریت میدان‘‘ ہے، جہاں لائٹ موڈ میں چہل قدمی، سیر و تفریح، خریداری کی جاسکتی ہے۔ اس کی پہاڑی پر بنی ایک قدیم گیلری تصاویر و نوادرات کی بھی موجود ہے۔ اور ایک آبشار بھی KAPUZKALDIRAN نامی، جس کا پانی بھی دریائے روم میں گم ہوکر اپنی شناخت کھو بیٹھتا ہے۔
’’بہار میرے لیے اور میں تہی دامن‘‘
دوپہر کا کھانا ہم نے ایک مقامی ریستوران کے وسیع و عریض اوپن اور سبزے سے آراستہ، درختوں سے پیراستہ اور اُن کے پتوں کے بیچ سے گزرکر آنے والی دھوپ اور ٹھنڈی مگر خوشگوار ہوائوں کے درمیان کیا۔ کھانے کے پہلے مرحلے پر سلادوں اور چٹنیوں کو حرفِ آخر سمجھ کر اپنی بھوک مٹائی اور لالچ کو تسلی دی۔ بعد میں جب باربی کیو اور دیگر لوازماتِ اصلی حاضر کیے گئے تو ہم ’’بہار میرے لیے اور میں تہی دامن‘‘ کا عنوان بنے سارا کھانا موٹی تازی بلیوں اور بلوں کو ’’دان‘‘ کرتے رہے۔ ہماری بے صبری، ناقدری اور بے خبری نے اُن کی موج کرادی، کیا یاد رکھیں گی ترکی بلیاں ہم پاکستانیوں کو، کہ ہم کتنے مہربان و ’’دیالو‘‘ ہیں، اور جانوروں کے کتنے بڑے محافظ و ہمدرد۔ نظریں بچا کر اِدھر اُدھر دیکھا تو سب ہی پاکستانی ہماری طرح کھانے کے مینو سے بے خبری کا شکار ہوکر بلیوں کی موجیں کرارہے تھے۔
اقرار الحسن کی معیت میں محفلِ شب
معروف اینکر اور اے آر وائی ٹی وی چینل کے میزبان اقرارالحسن بھی ہمارے شریکِ سفر تھے۔ اِن کی معیت سے سفر کا لطف دوبالا بھی ہوا اور معلومات افزاء بھی رہا۔ سبھی مرد و خواتین، بچے، بڑے اقرارالحسن کے ساتھ تصویریں بھی بنوا رہے تھے اور گفتگو میں باہمی تعارف کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ ایک روز ہم نے بھی انہیں پکڑ لیا اور باہمی تعارف کے بعد کیمرے کی زد میں لے لیا۔ ایک سیلفی خود انہوں نے اپنے ہاتھوں سے بنائی۔ اقرار الحسن وجیہ نوجوان، خوش اخلاق اور ہنستے مسکراتے چہرے اور بے پناہ علمی و معلوماتی ذخیرے کے مالک ہیں۔ انسان کے پاس علم ہو تو اُس کی جھلک کردار و عمل اور گفتگو میں ضرور جھلکتی ہے۔
انطالیہ میں بھرپور اور مصروف دن گزارنے کے بعد دوسری اور آخری شب رات کے کھانے کے بعد تیز ٹھنڈی ہوائوں کے ماحول میں ہوٹل کے باہر ’’محفلِ شب‘‘ سجی۔ باہمی تعارف ہوا، کچھ اقرارالحسن کے خیالات و نظریات اور تعلیمات سے استفادہ۔ اِسی طرح ایک موقع پر اُن کے مشہور پروگرام ’’سرِعام‘‘ کے تمام تحقیقی اور تشکیلی مراحل کی تفصیلات پر تبادلہ خیال اور آگاہی کا سیشن بھی ہوا۔
صاحبو! ’’انطالیہ‘‘ کا سحر انگیز دوراتوں اور ایک دن پر مشتمل یادگار سفر 5 نومبر کی صبح مکمل ہوا، اور ہم نہا دھو کر اور اپنے بالوں سے محروم سر کے چند باقی بال ’’بنا‘‘ کر اپنی ’’حسینہ‘‘ کا ہاتھ تھام خالص مشرقی انداز میں اگلی منزل کی جانب روانہ ہوگئے۔ ہماری اگلی منزل جلال الدین رومیؒ، حضرت مولانا کا شہر، تصوف کا مرکز قونیہ (KONYA) تھی۔
آرزو، اور آرزو کے بعد خونِ آرزو
انطالیہ میں جب سے بحرِ روم کے پانیوں کو چھوا، شدید تمنا پیدا ہوئی کہ کوئی ایسا لمحہ آئے اور موقع ملے جب ہم سمندر کے کنارے بیٹھ کر چائے کی چسکیاں لیں، اور اس سے کچھ راز و نیاز کریں، اور اپنی ذاتی حسینہ کو ساتھ بٹھاکر کچھ لُطفِ حیات کی گھڑیوں کو اَمر بنادیں۔ مگر ایسا ہوتا دکھائی نہ دیا۔ 5 نومبر کی صبح ہمیں ناشتے کے فوراً بعد انطالیہ ریجن کے صوبہ قونیہ کے دارالحکومت ’’قونیہ‘‘ کی جانب سفر کرنا تھا، جو انقرہ کے جنوب میں تین سو تین کلومیٹر اور سوا چار گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ ہمیں یہ سفر اپنی بسوں پر ہی کرنا تھا اور قونیہ پہنچ کر عالمِ اسلام کے بڑے مفکر، دانشور، شاعر اور روحانی پیشوا مولانا جلال الدین رومیؒ کی بارگاہ میں سلامِ عقیدت پیش کرکے پاکستان میں کھوئے ہوئے اور بھلائے گئے قومی و فکری ہیرو کی علامتی قبر کو تلاش کرکے دعا کا نذرانہ پیش کرنا تھا۔
اس روز جب ہم ڈائننگ ہال ناشتے کے لیے پہنچے تو نظر ڈائننگ ہال کے آخر میں شیشوں سے جھانکتے نیلگوں آسمان کا منظر بہت دلکش لگا۔ ناشتہ ہم کرچکے تھے، اپنی ترکی چائے کی پیالی اُٹھائی اور کشاں کشاں ٹیرس کی طرف بڑھے۔ شیشہ پار کرکے مبہوت کردینے والا منظر سامنے تھا۔ رمادہ پلازہ ہوٹل کا ڈائننگ ہال ساحلِ سمندر کے اُسی کنارے پر تھا جسے گزشتہ رات ہم نے چھوا تھا۔ یہاں سے بحرِ روم کا شفاف نیلگوں پانی سمندر اور آسمان کو باہم ملا رہا تھا۔ اپنی آرزو کی اس قدر اچانک اور فوری تکمیل وہم و گمان میں نہ تھی۔ ہم نے اس شاندار منظر کو کچھ دیر انجوائے کیا، پھر احساس ہوا کہ محبوب سے ملاقات مختصر کرنا پڑے گی کہ قافلے کو اذنِ سفر ہوچکا ہے۔ سو ہم اپنی آرزو کے خون کے تلخ و شیریں گھونٹ پیتے اس منظر سے جدا ہوگئے، اس افسوس کے ساتھ کہ پہلے اس کا علم کیوں نہ ہوسکا؟ اگر علم ہوتا تو دو صبحیں اور شامیں اس منظر کے ساتھ گزار لیتے۔
جانبِ منزل
کمرے میں سامان پیک کرنا یقیناً مشکل مرحلہ تھا، جو اس سفر میں تقریباً ہر صبح بار بار طے کیا۔ سامان لے کر لفٹوں کے ذریعے ہانپتے کانپتے نیچے لابی اور بسوں تک پہنچے۔ بس کے ترک ڈرائیور نے ہماری خوشگوار مدد کی اور اسے بس میں منتقل کرنے کا ذمہ اُٹھایا۔ ہمیں رات کو ہی مطلع کردیا گیا تھا کہ ’’قونیہ‘‘ اور ملحقہ علاقوں کا موسم بہت سرد ہوگا۔ ہم نے اسی کے مطابق گرم کپڑے پہن بھی لیے اور بس میں بھی رکھ لیے۔ انطالیہ سے نکلے تو خوبصورت دیہی مناظر کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ دو رویہ وسیع اور جدید سڑک، ساتھ ساتھ چلتی فاسٹ ٹرین کی پٹری اور تاحدِّ نظر آباد وسیع زرعی قطعات۔ انطالیہ کی طرح یکساں شفاف اور معطر فضا گرد و غبار اور ہر قسم کی آلودگی سے پاک… جدید طریقوں سے کاشت کی ہوئی فصلیں جابجا پلاسٹک سے ڈھکی ہوئی۔ یقیناً یہ کوئی قیمتی فصلیں ہوں گی اور اس حفاظتی انتظامات کی متقاضی۔ اس کے بارے میں ہم نہ جان سکے، البتہ یہ ضرور معلوم ہوا کہ ترکی کی بیشتر صنعتیں شہروں سے باہر کھلی فضائوں میں منتقل کی جاچکی ہیں، اور شہر میں ہوٹلوں اور سیاحتی معاون اداروں کی کثرت ہے۔
ترکی کے اِن ارضی قطعات میں ڈیری فارمنگ، دودھ، پنیر وغیرہ اور اس سے منسلک مصنوعات کا کام بہت ہوتا ہے۔ خالص، عمدہ اور تازہ دودھ یورپی طرز کے مطابق بوتلوں اور ڈسپوزایبل کنٹینرز میں محفوظ کرکے گھر گھر پہنچایا جاتا ہے۔ بادی النظر میں لگا کہ جینز پہنے، کانوں میں ہینڈز فری لگائے خوبصورت نوجوان دودھ اور اس کی مصنوعات کو گھر گھر پہنچانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ تین سو میل کے اس سفر میں خوبصورت زرعی مناظر اور لمحہ بہ لمحہ سرد ہوتے موسم کے ساتھ پہاڑی سلسلوں کے آغاز نے چار گھنٹے تک آنکھ جھپکنے نہ دی۔ کئی جگہوں پر درختوں کے ایسے قطعے نظر آئے جہاں شجرکاری کی غرض سے سیکڑوں درخت ابتدائی مراحل سے گزر کر زمین پر نمودار ہوکر اپنے سرسبز و شاداب وجود اور ترکی کے مزید دلکش مستقبل کی نوید دے رہے تھے۔ میری بڑی خواہش تھی کہ کسی موڑ پر یا سفر کے کسی ملن کے وقت ٹرین کا ساتھ میسر آجائے، اور کچھ لمحے ہی سہی اس کے پہلو میں بھی بسر ہوجائیں، مگر پورے سفرِ ترکی میں ایسا حسین اتفاق نہ ہوسکا۔ ہم دل میں بس یہی حسرت لیے سفر کرتے رہے ’’آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ‘‘۔ لہٰذا ترکی کی فاسٹ ٹرین نے ہمیں باعثِ التفات بھی نہ سمجھا۔ ترکی میں سب کچھ ہی دیکھا۔ بس یہی داغِ حسرتِ دید باقی رہ گیا۔

قونیہ سے سوگوت کی جانب:
سوگوت‘ سوغوط دونوں طرح اس کا نام لکھا جاتا ہے۔ ترکی میں Sogut ترکی طرزِ تحریر کئی اعتبار سے منفرد بھی ہے اور مشکل بھی۔ بظاہر انگریزی یا فرانسیسی طرز تحریرمگر اس میں اوپر‘ نیچے نقطوں اور مدّ ( ٓ) کے ذریعے مختلف مفاہیم پیدا کیے جاتے ہیں۔ ہم تو کچھ نہ سمجھ سکے‘ البتہ یہ ضرور جان لیا کہ کبھی ترکی رسم الخط عربی و فارسی کے اندازِ تحریر کا تابع تھا۔ تقریباً سو سال پہلے کمال اتاترک کے انقلاِ قومیت نے اس خط کو ایک نئی شناخت دی اور آفرین ہے ترک قوم پر کہ ان کا سارا تمدنی‘ معاشرتی اور قومی کاروبارِ حیات دیگر زبانوں سے بے اعتناعی اور ترکی زبان کے ہمہ جہت اختیار و نفاذ کے گرد گھومتا ہے۔ ان کی ہر پراڈکٹ پر خواہ وہ بسکت ہو‘ چاکلیٹ کا ڈبہ یا جوس کا پیکت۔ شاہراہوں کے علامتی نشان ہوں یا دکانوں کے سائن بورڈز ہر جگہ ترکی غالب بلکہ حاوی ہے۔ کہیں کہیں بہت دبے دبے انداز میں انگریزی کے الفاظ بھی دکھائی دیتے ہیں جیسے استنبول ائرپورٹ کے داخلی و خارجی راستوں پر اِکا دکا انگریزی الفاظ‘ ترکش ائر لائن‘ ہوٹلز یا مینو کارڈز۔ ترکی ہی ترکی۔ انہیں ’’بے زبانی‘‘ کا کچھ ذکر آگے چل کر آئے گا۔
سوگوت کی واحد پہچان:
سوگوت ترکی کے ’’مرمرہ‘‘ ریجن کے صوبہ ’’بلیجک‘‘ کا ایک ضلع ہے جو شمال مغرب میں واقع ہے۔ آبادی کے لحاظ سے انتہائی کم‘ مگر اہمیت کے اعتبار سے سارے ترکی کے مقامات پر فائق۔ یہاں سلطنتِ عثمانیہ کے بانیٔ عثمان اوّل کے والد ارطغرل غازی کا مدن ہے۔ اسی شہر کو عثمان سلطنت کا پہلا دارالخلافہ قرار دیا جاتا ہے۔ ارطغرل غازی کو ترکی کا بڑا ہیرو سمجھا جاتا ہے اور وہ زعیمِ ملت جس نے رومی اقتدار و تسلط کے بعد ترکی تاریخ اور تہذیب کو نئی شناخت دی اور تاریخ کا پہیہ پلٹ کر عثمانیوں کے زیر اثر کر دکھایا‘ انقلاب کے اسی سفر میں ترکی قوم اسلام سے مربوط ہوئی کہ مرکزِ خلافت اسلامی سے اس کے سیاسی‘ ثقافتی‘ تمدنی‘ تہذیبی اور فکری روابط مستحکم ہوئے اور بالآخر خلافتِ عثمانیہ کی صورت امت کی وحدت و سرپرستی کا نشان بنی۔
ترک قوم کے ہیرو۔ ارطغرل غازی کا مزار:
ارطغرل غازیؒ کا مزر ایک وسیع احاطے میں پورے جاہ و جلال کے ساتھ موجود ہے۔ اس کے دروازے زائرین کے لیے بند ہیں۔ ایک کھڑکی سے انر کے پُر جلال و جمال مناظر دیکھنے کا موقع مل سکتا ہے۔ اس مزار کے اندر حسبِ روایت ایک خوب صورت مرقد گہرے سبز رنگ کے سنہری کڑھائی سے سجے ہوئے کپڑے سے ڈکھی ہوئی ہے جس کے اطراف میں ترکی کا قومی اور کاٹی قبیلے کا روایتی جھنڈا دیگر چھ پرچموں کے ساتھ موجود ہے اور قبر کے پہلو میں گیارہ ڈبیوں میں محفوظ مگر کھلی ہوئی اور دکھائی دیتی ان گیارہ علاقوں کی مٹی ہے جو ارطغرل نے فتح کیے۔ قبر کے سرہانے ایک بڑی کلاہ سفید رنگ کی صاحبِ قبر کی عظمت کی دلیل کے طور پر موجود ہے۔ بہ قول نامور محقق پروفیسر ڈاکٹر خالد ظفراللہ دائودی‘ جنہوں نے ترکی کی یونیورسٹی سے علمِ حدیث میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی‘ ترکی میں صاحبِ مزار کی علمی وجاہت اور شخصی ثقاہت ووقعت کے مطابق دستار قبر کے سرہانے رکھی جاتی ہے۔
اس احاطے میں ارطغرل اور سلیمان اوّل کے امرائے مملکت‘ اعزا و اقربا‘ شہزادوں‘ بیٹوں اور خواتین کی قبریں بھی موجود ہیں۔ ارطغرل غازی کے مزار کے بالکل باہر اس کی ملکہ حلیمہ سلطان اور والدہ کی قبریں بھی موجود ہیں اور یہ سب اس مخصوص انداز اور طرزِ تعمیر کی حامل ہیں جن کا ذکر قونیہ کے مزارات کی تفصیل کے موقع پر ہو چکا۔ یہاں حلیمہ خاتون کے نام سے منسوب ایک مسجد بھی موجود ہے جہاں مرد و خواتین کے لیے الگ الگ نماز پڑھنے کی سہولت موجود ہے البتہ مسجد کے واش روم استعمال کرنے کے دو لیرا ادا کرنا پڑتے ہیں‘ ایسا اس سفر میں بورما کی قدیم تاریخی نیلی مسجد کے غسل خانوں میں بھی دکھائی دیا۔ وہاں تو صاف لگتا تھا کہ شاید حکام کی نظروں سے بچتے ہوئے ایسا کیا گیا تھا۔ ہم پاکستانی یہاں متعلقہ شخص کو چکر دینے میں کامیاب ہو گئے۔ اس وسیع احاطے میں ارطغرل کی روحانی اور فکری رہنما شیخ ایوب علی (Eoeb Ali) کا مزار بھی تھا۔
سوگوت کی ایک اور خاص بات قریب ہی KAI قبیلہ کا ایک مکمل سیٹ موجود تھا جہاں ارطغرل ڈراما کے مکمل کاسٹیومز‘ تلواریں‘ خنجر‘ ٹوپیاں‘ انگوٹھیاں اور دیگر جنگی ساز و سامان برائے استعمال و فروخت موجود تھا۔ ایک شخص مکمل شاہی لباس پہنے دعوتِ نظارہ دیتا پھر رہا تھا اور بلند آواز میں ارطغرل ڈرامے کا علامتی میوزک دل پر دستک دے رہا تھا۔ ہمارے شرکائے سفر خواتین اور نوجوانوں بلکہ بزرگوں نے بھی اپنے اپنے جثے کے مطابق لباس پہن کر‘ تلواریں سجا کر خود کو ارطغرل اور حلیمہ سلمان کے روپ میں بدلا اور تاریخ کا نہ سہی کیمرے کے صفحوں پر خود کو امر کر لیا۔ بیگم صاحبہ نے سیٹ پر کئی تصویریں بنوائیں اور میں نے اُدھار کی ایک کائی ٹوپی میں خود کو ارطغرل سے قریب کیا۔ جناب اقرارالحسن نے اپنے بیٹے ’’پہلاج‘‘ کے لیے اس کے سائز کا کائی لباس اور تلوار خریدے اور دیگر لوگوں نے بھی۔
سوگوت میں ایک لمبا وقفہ گزارنے کے بعد ہم قونیہ سے بورصا کے درمیان 520 کلو میٹر اور سات گھنٹے کے سفر کے دوسرے مرحلے کے لیے روانہ ہوئے۔ ’’بورصا‘‘ جہاں رات ہم نی قیام کرنا تھا اور اگلی صبح شہر کی دو بڑی مسجد ’’کلاک ٹاور‘ دور سمندر کے کنارے استنبول کے منظر سے لطف اندوز ہونا تھا۔
سوگوت سے نکلنے سے پہلے یہ تازہ ترین خبر بھی سماعت فرمائیں کہ ہم ’’سوگوت‘‘ میں نومبر 2020ء میں موجود تھے اور اُن دنوں اس مزار کے قرب و جوار میں ننانوے ٹن سونا مدفون تھا جس کی مالیت چھ ارب ڈالر سے زائد ہے اور یہ ہامرے وہاں سے واپس آنے کے بعد دریافت ہوا اور حکومتِ ترکی نے دسمبر 2020 میں اس کی دریافت کا سرکاری اعلان کیا۔ ہمیں امید واثق ہے کہ یہ ہماری ’’برکتوں‘‘ کا نتیجہ تھا‘ ترک قوم کو اس کی معیشت کے استحکام کی یہ منزل مبارک ہو۔ بزرگوں کا محض روحانی فیض ہی نہیں‘ مادّی فیوض و برکات کی تلاش کا سلسلہ بھی جاری رہنا چاہیے۔ ہمارے ملک میں تو ’’نذرانوں‘‘ کے ڈبوں سے ماہانہ کروڑوں روپے کے نقد مادّی فیوض و برکاتِ بزرگان سے کون ناواقف ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ہمارے ملک میں یہ بھاری رقوم کسی قومی و ملکی مفاد میں استعمال ہوتی نظر نہیں آتیں۔ اگر انہیں درست استعمال کر لیا جائے تو قوم معاشی الجھنوں اور بیرونی قرضوں سے با آسانی نجات پالے۔
نمازِ جمعہ:
سوگوت اور بورصا کی سفر کے دوران ایک خوب صورت قصبے کی مسجد میں نمازِ جمعہ کے لیے رکے۔ مسجد مناسب حد تک بڑی اور ترک مساجد کے مخصوص طرزِ تعمیر کی حامل تھی۔ ترکی کی تقریباً تمام قدیم و جدید مساجد ایک ہی انداز کی ہیں۔ گولائی مائل پہلودار ایک گنبد اور پتلے لمبے دو مینار اور ان پر سبز رنگ جب کہ اس کی نوکیلی چوٹی گولڈن یا سلور۔ جدید مساجد کے رنگ تازہ و چمک دار اور قدیم مساجد کے مدہم رنگ۔ جس مسجد کے میناروںکے رنگ جس قدر مدہم‘ اسی قدر وہ قدیم۔ جس دیہی مسجد میں ہم نے نماز پڑھی وہ زمین سے خاصی بلندی پر تھی جب کہ نیچے ایک وسیع قطعۂ ارضی مسجد کے ساتھ منسلک تھا مگر نہ وہاں فرش‘ نہ گھاس۔ کچھ لوگ وہاں بھی جائے نماز بچھائے بیٹھے تھے۔ شاید کورونا سے بچتے ہوئے۔ مسجد کے نچلے حصے میں خواتین کی جائے نماز تھی‘ مگر شائد وہاں سوائے ہمارے قافلے کی چند خواتین کے‘ قصبے کی کوئی خاتون نہیں تھی۔ پوری مسجد میں نمازیوں کی اندازاً تعداس پچاس کے لگ بھگ ہوگی۔ مسجد میں اور تقریباً ہر مسجد میں ترکی کا سرخ پرچم ضرور آویزاں تھا۔ پاکستان میں محراب میں خطبہ کا منبر رکھا جارتا ہے جب کہ ترکی کی ہر مسجد میں دائیں جانب دس بارہ قدم اوپر چڑھ کر منبر پر بنی ہوئی چھتری تلے امام صاحب نمازیوں کی طرف رُخ کرکے خطبہ ارشاد فرماتے ہیں۔ ہاتھ میں پکڑے ہوئے کاغذات سے لگتا ہے کہ یہ سرکاری خطبہ ہے جو پڑھا جارہا ہے۔ یہ بھی اندازہ ہوا کہ تمام ائمہ و خطباء اور مؤذنین حکومت کے ملازم ہیں اور کسی فرقے‘ مسلک کا نہ کوئی قبضہ ہے نہ خصوصیو امتیازی پہچان اور نہ مساجد میں اس کا اظہار۔
امام صاحب نے لکڑی کے بنے ہوئے ایک کم اونچائی والے چوبی پٹڑے پر‘ جو محراب میں رکھا ہوا تھا اور اس پر جائے نماز موجود تھی‘ کھڑے ہو کر یعنی تمام نمازیوں اور عمومی صفوں سے اونچا ہو کر جماعت کروائی اور جامعت سے پہلے تمام نمازیوں کو ماسک لگانے پر مجبور کیا اور اس وقت تک نماز نہ شروع کی جب تک سب لوگوں نے ماسک نہ پہن لیے۔ ایک اور قابلِ ذکر بات یہ ہوئی کہ عربی خطبہ کے دوران آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ اور فرشتوں کے درود بھیجنے اور اہل ایمان کو اس کے حکم کے کی آیت کے بعد مسجد میں موجود تمام نمازیوں نے باآواز بلند درود شریف پڑھا جب کہ ہمارے یہاں برصغیر اور پاکستان میں دورانخطب خاموش رہنے کی تلقین کی جاتی ہے اور اگر درود پڑھا بھی جاتا ہے تو دل میں۔ نماز کے بعد کچھ دیر مسجد میں بیٹھے رہنا بھی ترکوں کا معمول ہے۔
ترکی کے سارے سفر کے دوران ہمیں گداگر کہیں نظر نہ آئے سوائے اس مسجد کے باہر۔ یہاں ایک بچہ رومال پھیلائے پاکستانی بھکاریوں کی طرح نمازیوں سے بھیک اکٹھا کرنے میں مصروف تھا۔ کسی پاکستانی ’’حاتم طائی‘‘ نے پاکستانی پچاس روپے کے نوٹ کے ذریعے احسانِ عظیم کر رکھا تھا۔ آگے چلے تو ایک بوڑھی خاتون فارسی ملی ترکی میں طالبِ خیرات ہوئی۔ ہم نے اسے حسب توفیق ’’لیرا‘‘ پیش کرکے دعائیں سمیٹیں جس مین اس بڑھیا نے پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے اچھے اور ممنونیت بھرے جذبات کا اظہار کیا۔ اس کا یہ ردعمل یقینا پاکستان سے محبت کا عکاس بھی ہوگا مگر ہمین اس میں ’’لیرا‘‘ کے بڑے اور خاتون کے خلافِ توقع نوٹ کا دخل محسوس ہوا۔ بورصا کی گرینڈ مسجد کے باہر ایک بچے نے جوتے پالش کروانے پر اصرار کیا‘ ہم نے اسے چند لیرا پیش کیے تو اس نے بڑی خودداری سے انکار کر دیا۔
ترکی مساجد میں مخصوص جگہ:
ترکی کی بڑی مساجد گرینڈ مسجد بورصا اور ایاصوفیہ۔ استنبول میں ایک خاص بات یہ نظر آئی کہ اس میں کم و بیش چاپس افراد کے لیے مرکزی محراب کے سامنے دو ایک صفیں چھوڑ کر ایک ڈیڑھ فٹ لکڑی کی جالی کے ذریعے جگہ مخصوص کی گئی تھی۔ حتماً یہ معلوم نہ ہو سکا کہ یہ جگہ اعیانِ سلطنت کے لیے ہے یا قدیم حکمرانوں کے لیے یا پھر امرا و روسائے قوم کے لیے۔

باغات کا شہر بورصا:
عثمانی خلفاء‘ مجاہدوں اور غازیوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہم 6 نومبر کی شب بورصا پہنچے اور گولڈ میجسٹی ہوٹل میں ٹھہرے۔ ترکی کا چوتھا بڑا شہر اور شمال مغربی صوبے ’’بورصا‘‘ کا دارالخلافہ ’’اولوداغ‘‘ نامی پہاڑ کے درمیان میں ایک انتہائی برفانی مقام جہاں کی تفریحی گاہیں‘ کیبل کار‘ بوٹافیکلی گارڈن اور کئی زرخیز میدان سیاحوں کی کشش کا باعث ہیں۔ بارہ‘ تیرہ لاکھ آبادی کے اس شہر کو YESIL BORSA یعنی ’’سبز بورسہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں کا ایک چھوٹا سا کلاک ٹاور بھی مشہور اور قابل دید سمجھا جاتا ہے۔ اگر ترک فیصل آباد کا گھنٹہ گھر اور اس کے اردگرد آٹھ بازاروں کی چہل پہل دیکھ لیں تو اس کلاک ٹاور کو ممکن ہے کوئی اور نام دے دیں۔ یہ کلاک ٹاور فیصل آباد کے کلاک ٹاور کے سیاسی استعارے ’’گھنٹہ گھر‘‘ کا مصداق ہرگز نہیں۔ یہ شہر جہاں اپنی شدید برف باری کے حوالے سے معروف ہے وہیں اس کی برفانی تفریحی گاہیں دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ یہ شہر دنیا کے مختلف ممالک کے بیس شہرون کا ’’جڑواں‘‘ قرار دیا گیا ہے جن میں سے ایک پاکستان کا شہر ’’ملتان‘‘ بھی ہے۔ نہجانے ان دونوں میں کیا مماثلت ہے جس کی بنا پر اسے ’’جڑواں‘‘قرار دیا گیا۔ بورصا میں برف ختم نہیں ہوتی اور ملتان میں گرمیوں میں پانی ٹھنڈا کرنے کے لیے برف ملتی نہیں۔ پھر پڑھتا معتدل آب و ہوا‘ سرسبز و پُر بہار ’’بورصا‘‘ کہاں اور ملتان کے گرد گور کہاں۔ یہ شہر 1326ء میں سلطنتِ عثمانیہ کا دارالحکومت بھی رہا۔
بورصا: عثمان غازی‘ الجزائری اور امام خمینی:
بورصا شہر کو سلطنت عثمانیہ غازی نے اپنی زندگی میں فتح کرنے کا خواب دکھا‘ مگر بوجوہ یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا اس کے بیٹے ’’اورحان غازی‘‘ نے اپنے باپ کے خواب کو تعبیر آشنا بنایا اس کی تاریخی اہمیت میں اضافہ الجزائر کے حریت پسند رہنما عبدالقادر الجزائری کے اس شہر میں 1852 تا 1855 تین سالہ قیام نے کیا اور اسے مزید معتبر و وقیع بنایا۔ عصرِ حاضر کے عظیم اسلامی ایرانی انقلاب کے سرخیل امام خمینی کے قیام نے جنہوں نے اپنی پہلی جلا وطنی کے دور میں 1963 میں ’’بورصا‘‘ کو اپنے قیام کے لیے منتخب کیا۔ اگرچہ بورصا میں ان دونوں حریت پسند راہنمائوں کی آمد اور قیام کا کوئی نشان نہ ملا سوائے تاریخی صفحات کے۔
بورصا شہر کا باعثِ دید:
’’بورصا‘‘ شہر میں ہم نے ایک تو ’’کلاک ٹاور‘‘ دیکھا‘ دوسرا ترکی کا سب سے بڑا سلک بازار Kzakhan اور یہ دونوں سرِراہ دیکھنے کو ملے جب ہم ’’بورصا‘‘ میں اپنی اصل منزل ’’عثمان غازی‘‘ اور اس کے بیٹے ’’اورحان غازی‘‘ کے مزارات کی زیارت اور بلندیٔ درجات کی دعا اور ان کی جرأت‘ بہادری اور اسلام دوستی کو سلام کرنے پہنچے۔ پاکستان سے ترکی کے طویل سفر کا یہی مقصود و مدعا تھا ہمارا۔
جرأتوں کے امین عثمان و روحانی غازی:
عثمان غازی کے بانی عثمان غازی اور ان کے بیٹے اورحان غازی کی پہلو بہ پہلو مگر الگ الگ قبور ’’بورصا‘‘ کی اصل یادگار اور پہچان ہیں۔ دنیا بھر کے سیاح بڑی عقیدت‘ احترام اور اشتیاق سے ایک خوب صورت اور وسیع باغ اور شہر کے مرکزی مقام پر موجود ان زعمائے امت کو سلام پیش کرتے اور ان کی جرأت‘ ہمت اور شجاعت کی داستانوں سے آگاہ ہوتے اور بلندیٔ درجات کی دعا کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ چند قبریں اور بھی موجود ہیں۔ یہاں باہر دو پہرے دار مخصوص کائی لباس میں موجود ہمہ وقت چوکس و ہوشیار کھڑے رہتے ہیں۔ یہاں بھی اپنے نظام الاوقات کے مطابق مخصوص فوجی انداز میں گارڈ کی تبدیلی عمل میں لائی جاتی ہے۔ ایک خاص بات یہ کہ مزار میں ایک مخصوص چبوترے پر چوبیس گھنٹے تلاوت قرآنِ مجید کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یہاں کی جانے والی تلاوت ارطغرل غازی کے مزر بھی گونجتی سنائی دی۔ یہ منظر کچھ اور مزاراتِ مقدسہ میں بھی دکھائی دیا۔
بورصا کی سمجد آیا صوفیہ:
بورصا میں ایک گرینڈ مسجد‘ جسے ترکی میں ’’اولو جامع‘‘ (ULU CAMI) کہتے ہیں۔ اولین عثمانی طرز کی شاہ کار مسجد طویل عرصے تک مکہ کی ’’المسجد الحرام‘‘ کے بعد دنیا کی بڑی مسجد شمار کی جاتی رہی۔ ایسے سلطان بایذیر بلورم نے 1399ء میں جنگ نکلوپولیس میں فتح کی یادگار کے طور پر تعمیر کیا۔ بلاشبہ ایک خوب صورت‘ مضبوط‘ مخصوص طرز تعمیر کا شاہکار ہے۔ اسے بورصا کی ’’آیا صوفیہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی دوسری اور بڑی پہچان اور وہ شہرت اپنے وقت کے عظیم کیلی گرافرز کے 192 شہرہ آفاق اور بے مثل و منفرد خطاطی کے شہ پارے ہیں جو اس مسجد کی دیواروں پر جا بجا نصب ہیں جن میں الاسماء الحسنی اور اسمائے رسولؐ تقریباً سب ہی مختلف انداز‘ خط اور سائز میں لکھے گئے ہیں۔ روایت ہے کہ اس مسجد میںایک ایسا متبرک مقام بھی ہے جہاں حصرت خضر علیہ السلام نے نماز ادا کی تھی۔ ہم نے بھیاس جگہ دو نوافل ادا کیے اور بارگاہِ ایزدی مین دعائوں کا شرف حاصل کیا۔
کعبہ کا دروازہ اور حجرِاسود کا ٹکڑا:
یہ بھی روایت ہے کہ اس مسجد میں کعبہ مشرفہ کا پانچ سو سالہ قدیم دروازہ بھی موجود ہے جو سلیم اوّل نے تحفتاً پیش کیا اور کعبہ مقدسہ میں نصب حجرِاسود کا ایک ٹکڑا بھی موجود ہے جو کعبہ سے چوری ہونے والے حجراسود کا ایک ٹکڑا ہے۔ افسوس کہ ہم ان دونوں تبرکات کی زیارت نہ کرسکے۔ اس مسجد کے بیس گنبد اور دو طویل مینار بھی اس کی پہچان ہین۔ ہمیں اپنے سفرِ ترکی مں دیکھی جانے والی مساجد مین سے یہ واحد مسجد نظر آئی جس میں ’’چندہ بکس‘‘ بھی موجود تھا۔ اپنا حصہ ڈالنے کی سعادت بھی ہمارا مقدر ٹھہری۔
گرین مسجد:
ایک اور خوب صورت اور بڑی مسجد شہر کی بلند ترین پہاڑی پر واقع ہے‘ جسے سلطان مہمت نے 1419ء میں تعمیر کیا۔ یہ مسجد سبز رنگ کی دل کش ٹائلز اور خوب صورت کیلی گرافی سے مزین ہے۔ تقریباً ہر بری مسجد کے باہر وسیع احاطے میں سبزہ‘ پھول اور درخت نظر آئے اور باہر شاپنگ مالز۔ یہاں سرکاری امامو مؤذن سے مختصر ملاقات ہوئی۔ عربی کے چند جملوں میں مختصر تبادلۂ خیال ہی ہو سکا‘ مؤذن صاحب کورونا کے خطرات کے کچھ زیادہ ہی شکار تھے اور محتاط بھی۔ اس مسجد کے باہر بہت اونچی جگہ پر ایک اور خوب صورت‘ پُر شکوہ مقبرہ تھا‘ جہاں کسی بڑے عالم دین اور دیگر افراد کی قبریں موجود تھیں۔ ہم ان کی شناخت نہ جان سکے کہ سیڑھیاں چڑھ کر بے حال ہو چکے تھے‘ بہرحال دعا کی اور تصویر بنائی۔
آئی برڈ ویو:
ایک اور پہاڑی پر ایک خوب صورت منظر بھی ہمارا حاصلِ سفر تھا‘ ایک وسیع‘ خوب صورت احاطہ جو چند سال پہلے 2010ء میں تعمیر کیا گیا‘ جہاں سے استنبول کے مشاقانِ دید کو ’’بورصا‘‘ سے استنبول کا طائرانہ نظارہ کرایا جاتا ہے۔ جنگلے کے ساتھ کھڑے ہو کر نظر جھکائیں تو بورصا کا خوب صورت شہر اور نظر دوڑائیں تو دور سمندر پار استنبول کے دل فریب مناظر۔ بلاشبہ ہمارا اشتیاق بھی دو چند ہوگیا اور استنبول کی جانب کھنچنے لگے۔
استنبول کے مسافر:
ایک آنکھ سے ’’بورصا‘‘ شہر اور دوسری سے ’’استنبول‘‘ شہر دیکھنے کے بعد استنبول کا اشتیاق فزوں تر تھا۔ مگر ابھی استنبول کے وصل میں دو منزلیں حائل تھیں ایک ’’منیرہ‘‘ اور دوسرا 600 سال پرانا گائوں Cumalikiziki۔
’’منیرہ‘‘ ایک جدید شاپنگ مال ہے جہاں سے ہمیں ’’ٹرکش ڈیلائٹس‘‘ اور دیگر اشیا کی خریداری کی ترغیب دی گئی تھی‘ یہاں مختلف اقسام کی روایتی اور غیر روایتی مٹھائیاں جو ترکی کی مشہور و مقبول سوغات ہیں‘ ہمیں دو سوئٹس زیادہ پسند آئیں ایک مختلف ذائقوں‘ رنگت ار فلیورز کی جیلی نما مٹھائی اور دوسری مختلف پھلوں کو خشک کرکے محفوظ کی گئی۔ عربین ڈیلائٹس جنہیں ترکی ذائقہ اور انداز دیا گیا تھا‘ بھی موجود تھیں اور بے شمار اقسام۔ یہ مٹھائیاں خاصی مہنگی تھیں۔ ان کے علاوہ زعفران کی اقسام‘مختلف جڑی بوٹیاں‘ مختلف امراض کے لیے۔ کافی کے ثابت دانے اور تازہ پسنی ہوئی کافی‘ کاسمیٹکس کا سامان‘ سوونیئرز‘ خوشبوئیات وغیرہ سب کچھ موجود تھا۔ پیکنگ پرکشش اور محفوظ مگر زون میں شامل۔ ایک خاص چیز وہاںمختلف قسم کے ’’صابن‘‘ تھے۔ ترکی صابن خاصے اچھی کوالٹی اور اقسام کے دنیا بھر میں مقبول ہیں۔ پیک شدہ اور پیکنگ کے بغیر۔ ہمیں ان کے فضائل کا علم نہ تھا اور نہ ہی ضرورت البتہ بس میں بیٹھنے کے بعد معلوم ہوا کہ گائیڈ مسٹر والکن نے ’’ڈونکی سوپ‘‘ کی خاصی مقدار خریدی جو آئلی اسکن کے لیے مفید ہے۔ پاکستانیوں نے ڈونکی سوپ جو گدھی کے دودھ سے بنایا جاتا ہے‘ کے حوالے سے مسٹر والکن کو خوب زِچ کیا۔
’’منیرہ‘‘ نے ہمارے تیس ہزار روپے خرچ کروا دیے۔ جو ہم نے لیرا اور ڈالرز میں ادا کیے۔ یورو کی کرنسی ڈالر سے زیادہ مقبول ہے اور سیاحوںکو مشورہ دیا جاتا ہے کہ آتے ہوئے ’’یورو‘‘ ساتھ لائیں کہ اس کا اچھا ریٹ ’’لیرا‘‘ میں مل جاتا ہے اور واپس جاتے ہوئے لیرے ساتھ لائیں‘ جو پاکستان میں منافع بخش قیمت میں فروخت ہوسکیں گے۔ ’’منیرہ‘‘ والوں سے ہم ’’ترکی نمی دانم‘‘ اور وہ انگریزی سے الرجک ہونے کے باعث کوئی بارگینگ نہ کرسکے اور نہ مانگی قیمت ادا کرنے پر مجبور رہے۔ ’’ظالموں‘‘ نے رسید بھی نہ تھی کہ استنبول میں موازانہ کرکے اپنے ’’لٹنے‘‘ کا جائزہ لے سکتے۔اچھا ہی ہوا‘ ہم لٹے تو سہی‘ مگر اس کے ’’بوجھ‘‘ اور ’’درد‘‘ سے پاک ہی رہے۔
600 سال پرانا گائوں:
راستے کی دوسری ’’منزل‘‘ چودھویں صدی عیسوی میں قائم کیا جانے والا چھ سو سال پرانا گائوں تھا۔ برسرِ شارہ ایک اونچی پہاڑی پر قائم اور گلیاں‘ مکانات اور دیگر اماکن اپنی اصل حالت میں موجود عالمی ادارے یونیسکو کے ورلڈ ہیرٹیج (آثارِ قدیمہ) میں شامل ہے جس کے گھروں میں تیار ہونے والا پاستا‘ خشک مٹھائیاں اور تازہ پھل جو مقامی باغات اور فارمز سے حاصل کیے جاتے ہیں‘ بہت مقبول ہیں۔
صاف‘ سرسبز و شاداب‘ پھل دار درختوں سے بھرا ہوا یہ گائوں جدت و قدامت کا حسین امتزاج تھا۔ ہم سے اونچائی پر تو نہ چڑھا گیا‘ مگر جو دیکھا اور سنا اس گائوں کو خاصے کی چیز سمجھا۔ گائوں کے شروع میں قدیم انداز کا بازار‘ چھوٹی کھوکھے نما مگر ترتیب سے بنائی گئی دکانیں اور ان میں قدیم روایات و ثقافت کی عکاس چیزیں‘ سوونیئر اور یادگاری کے لیے برائے فروخت موجود تھیں۔ ترکی کے قدیم روایتی لباس کھلی گھیرے والی شلواریں اور رنگ برنگی روایتی کھلی قمیضمیں اور سروں پر مخصوص انداز سے اسکارف لپیٹے بوڑھی خوارتین ان دکانوں پر بہت معمولی قیمت پر یہ چیزیں بیچتی نظر آئیں۔ گائوں میں جدید دکانیں بھی نظر آئیں۔ آنے والے گاڑیوں پر سوار ہو کر آتے‘ گاڑی کا چکر لگاتے اور قدامت کے انداز میں جدت کو تلاش کرتے‘ مناظر و ماحول سے لطف اٹھاتے۔ راستے میں مختلف مقامی پھلوں سے پانی ملے جوس بیچنے والے بھی بجابجا نظر آئے۔ اونچائی کی بیزاری اور رکاوٹ نیہمیں نہ کچھ خریدنے دیا نہ جوس سے لطف اٹھانے دیا۔
جانبِ منزل:
بورصا کے اندر اور باہر خاصا وقت گزر گیا‘ منتظمین نے اعلان کر رکھا تھا کہ ہم ’’بورصا‘‘ سے اپنی بسوں سمیت بحری جہاز کے ذریعے شام ڈھلے استنبول کا سفر کریں گے۔ یقینا ایک یادگار اور خوش گوار انوکھا سفر ہوتا۔ مگر ہم بورصا اور ’’منیرہ‘‘ کے ایسے اسیر ہوئے کہ استنبول کی جانب زمین راستے کا انتخاب کرنا پڑا جویقینا طویل بھی تھا اور قدرے بور بھی۔
رات کے اندھیروں میں استنبول پہنچے‘ بس اس کی روشنیوں میں اس کی جدت اور قدامت کے ساتھ حسنِ تمام کی جھلک ہی دیکھ سکے۔ رات کا کھانا مقامی ریستوران میں کھایا اور ہوٹل Clarion Golden Norn میں جا ٹھہرے‘ جو اجک اونچی پہاڑی پر تھا‘ مگر اس کے فضائل و اردگرد کے سحر سے اگلی صبح باخبر ہوئے۔

(جار ی ہے)