کراچی دل کھول کر عطیہ دینے والوں کا شہر ہے

724

الخدمت فائونڈیشن ایک غیر سرکاری تنظیم ہے جس کے زیر انتظام پاکستان کے تمام صوبوں میں فلاحی کام کیے جاتے ہیں۔ الخدمت فائونڈیشن کا قیام 1990ء میں عمل میں آیا اس وقت الخدمت فائونڈیشن سات شعبوں میں کام کر رہی ہے۔ تعلیم‘ صحت‘ کفالت یتامیٰ‘ صاف پانی‘ مواخات (بلا سودی قرضوں کی فراہمی)‘ سماجی خدمات اور آفات سے بچائو کے شعبہ جات شامل ہیں۔ ہم نے پچھلے دنوں الخدمت خواتین کراچی کی صدر محترمہ منور اخلاص صاحبہ سے ملاقات کی اور الخدمت کے بارے میں معلومات حاصل کیں جسے ہم اپنے قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش کر رہے ہیں۔

جسارت میگزین: ضرورت مند تک پہنچنے کے لیے آپ کیا طریقہ اختیار کرتی ہیں؟
منور اخلاص: ہماری کوششیں ضرورت مند کو اس کی دہلیز پر امداد پہنچانا ہوتی ہے اسی لیے آپ نے دیکھا ہوگا کہ الخدمت کے کسی سینٹر پر ضرورت مندوں کی قطاریں نظر نہیں آتیں نہ ہی خواتین اور بچوں کے گروہ موجود ہوتیہیں۔ ہمارا طریقہ کار یہ ہے کہ جو درخواست ہمیں ملتی ہے (درخواست ضرورت مند خود بھی دے سکتا ہے اور اس کی طرف سے کوئی اور بھی دے سکتا ہے یوں کسی کی عزت نفس متاثر نہیں ہوتی ہے۔) اس درخواست کی ہم چھان بین کرواتے ہیں کہ یہ واقعی مستحق ہے اس کے ہم جماعت اسلامی کے نیٹ ورک کو استعمال کرتے ہیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ جماعت اسلامی تنظیمی لحاظ سے نچلی سطح تک موجود ہے مثال کے طور پر کراچی کے گیارہ اضلاع ہیں ہر ضلع میں یونٹ کی سطح تک ناظمات موجود ہوتی ہیں۔ چیک اینڈ بیلنس کے لیے افراد جاکر ضرورت مند سے مل کر ان کا گھر دیکھ لیتے ہیں اور اطمینان کرتے ہیں کہ یہ لوگ ضرورت مند ہیں یا یونہی مدد کے لیے درخواست دے دی ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگ خوددار ہوتے ہیں وہ مستحق ہونے کے باوجود نہ درخواست دیتے ہیں اور نہ ہی کسی سے کہتے ہیں۔ جماعت کے افراد ایسے لوگوں تک بھی پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔آپ کو بتائوں کہ کورونا کی پہلی لہر کے دوران جماعت کی ایک خاتون کے ذریعے ہمیں پتا چلا کہ فلاں گھر میں ایک خاتون اپنے بچوں کے ساتھ رہتی ہے‘ تنگ دست تو پہلے ہی سے تھیں اب کھانے پینے کا یہ عالم ہو گیا ہے کہ رات کو اخبار بھگو دیتی ہیں اور صبح بچوںکو اسی سے ناشتا کراتی ہیں۔
ہم نے ان کے لیے امداد کا جو سامان ہوسکتا تھا دیا لیکن ساتھ خاتون کے روزگار کے لیے بھی کوشش کی۔ ہماری اس سال کوشش یہ ہے کہ لوگوں کو راشن دیں لیکن ساتھ ان کے روزگار کے لیے بندوبست بھی کریں جیسے کہ کسی کو ٹھیلا لگانا یا سلائی مشین خرید کر دینا یا چھوٹے کیبن میں سامان ڈال دینا تاکہ وہ اپنے پائوں پر کھڑے ہوں۔ یہ کام ہم بہت پہلے سے کر رہے ہیں لیکن 2021ء کا خاص ہدف ہی یہ ہے کہ لوگوں کو کھانا کھلانا بھی ہے لیکن ساتھ ان کے لیے باعزت روزگار بھی فراہم کرنا ہے۔
جسارت میگزین: ضرورت مند طالب علموں کی تعلیم کے سلسلے میں آپ کی کیا خدمات ہیں؟
منور اخلاص: ہم بچوں کی فیس اور ایڈمیشن فیس کے لیے کوشش کرتے ہیں اس کے علاوہ ضرورت مند طالب علموں کو یونیفارم‘ اسکول بیگ‘ درسی کتابیں اور اسٹیشنری وغیرہ بھی فراہم کرتے ہیں خاص طور سے یتیموں کے لیے ’’بیداری‘‘ پروگرام شروع کیا ہے۔ پھر ہم ان کو یتیم نہیں باہمت بچے اور مائوں کو باہمت مائیں کہتے ہیں۔ ’’آغوش‘‘ کے نام سے ان بچوں کے لیے رہائش کا انتظام کیا گیا ہے جہاں ان کی تعلیم‘ کھانے پینے اور دیگر ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے۔ کچھ یتیم اپنے گھروں میں ہوتے ہیں انہیں اور ان کی مائوں کو خرچ دیا جاتا ہے عید گفٹ بھی الخدمت لوگوں کی مدد سے مستحق افراد تک پہنچاتی ہے۔
جسارت میگزین: کیا لوگ آپ پر اعتماد کرتے ہیں یعنی آپ کو ڈونیشن دیتے ہیں؟
منور اخلاص: جی ہاں یہ اللہ کا بڑا کرم ہے کہ لوگ ہم پر اور الخدمت پر اعتماد کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ الخدمت کسی فرد کی شہرت کے لیے نہیں صرف پاکستان کے عوام کے لیے بے غرض کام طویل عرصے سے کر رہی ہے پھر یہ اجتماعیت کی برکت ہے کہ کام خود بخود ہوتا ہے‘ ایک سسٹمِ ہے‘ کسی فرد کے آنے جانے سے الخدمت کا کام رکتا نہیں ہے۔
کووڈ کے دوران میں پاکستان میں نہیں تھی اور نہ آسکتی تھی‘ لیکن اس عرصے کے دوران الخدمت کا کوئی کام نہیں رکا سارے کام سسٹم کے تحت ہوتے رہے بلکہ میں بتائوں کہ اس دوران لوگوں نے اس قدر سامان دیا کہ ہم کو ایک بڑی جگہ کرائے پر لینی پڑی پھر انہیں چھانٹنے کا کام کرنے کے لیے خواتین والنٹیئر آئیں انہوں نے دن رات کام کیا۔ پیکٹ بنائے‘ مختلف چیزوں کی پیکنگ کی ڈیفنس‘ کلفٹن کی خواتین جو اے سے سے نکلتی نہیں‘ وہ پورے پورے دن گرمی میں کاموں میں مصروف رہیں۔
گزشتہ سال بارش نے کراچی میں تباہی مچائی تو ان لوگوں نے بھی امداد دی جو ساٹھ ساٹھ گز کے گھروں میں رہنے والے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ کراچی کے لوگ بہت ایثار کرنے والے ہیں‘ ان کے دل بہت بڑے ہیں۔ زلزلہ ہو‘ بارش ہو یا کورونا… ہر مشکل میں وہ کھڑے ہوتے ہیں۔ اگرچہ خود وہ متاثرین میں ہوتے ہیں لیکن پھر بھی وہ مدد کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک موقع پر ایک ادھیڑ عمر عورت جو حلیے سے خود ضرورت مند لگ رہی تھیں‘ ایک سلائی مشین لے کر آئیں کہ آپ یہ رکھ لیں میرے پاس اس وقت بس یہی ہے اور دے کر چلی گئیں۔
اسی طرح ایک خاتون میرے پاس آئیں ان کی بیٹی کی شادی تھی‘ اسی رات کسی نے خاص طور سے رقم بھیجی کہ یہ کسی بچی کی شادی کے لیے لگائیں اور یوں اس بچی کی شادی کا انتظام ہو گیا۔ ایک خاص بات یہاں یہ کہنا چاہوں گی کہ شادی کے لیے دیا جانے والا سامان پہلے ہم ’’جہیز بکس‘‘ کے نام سے دیتے تھے لیکن اب ہم نے اس کا نام ’’شادی بکس‘‘ رکھ دیا ہے بلکہ اس کی ساتھ پورا پیکج ہے جس کو آسان نکاح کا نام دیا گیا ہے۔
یہ شادی بکس بھی کم از کم پندرہ لوگوں کے روزگار کا سبب ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک مصنوعی زیورات (جیولری) بنانے والے ہنر مند ہیں جن سے ہم دلہن کے لیے سیٹ خریدتے ہیں کچھ خواتین چوڑیاں بنا کر دیتی ہیں‘ یہ ان کا روزگار ہے۔ کئی خاندان کام بنا کر کپڑوں میں دیتے ہیں۔ ستارہ وغیرہ وہ یہ کام گھر میں کرتی ہیں۔ اسی طرح کچھ خواتین چادروں کے سیٹ بنا کر ہمیں دیتی ہیں‘ جزدان وغیرہ کے لیے بھی ایک خاتون ہیں جو سی کر دیتی ہیں۔
شادی بکس میں ہم ترجمان القرآن ضرور رکھتے ہیں کہ دلہن آج نہیں تو کل پڑھے گی ورنہ دو سال بعد ضرور پڑھے گی۔ اس کی ساس اور سسر پڑھیں گے۔ آپ نے اعتماد کی بات کی ہے تو میں کہوں گی کہ پاکستان کے عوام یقینا ہم پر اعتماد کرتے ہیں اور ہم بھی اپنے سارے دفاعی کاموں کے لیے ان پر اعتماد کرتے ہیں۔
ایک واقعہ بتاتی ہوں کہ ابھی کورونا کے دوران ایک صاحب ہمارے پاس آئے انہیں بزرگ مریض کے لیے بیڈ اور آکسیجن سیلنڈر چاہیے تھا۔ ضمانت کے لیے ان کے پاس کچھ بھی رقم نہیں تھی کیوں کہ وہ جلدی اور گھبراہٹ میں آئے تھے۔ہم نے انہیں بغیر کسی ضمانت کے تمام چیزیں فراہم کر دیں۔ پندرہ دن بعد وہ واپس آئے ساری چیزیں واپس کیں کیوں کہ ان کی ضرورت ختم ہو گئی تھی ساتھ انہوں نے لاکھوں کا چیک بھی دیا۔ لیکن انہوں نے اپنا نام پھر بھی نہیں بتایا کہ کیوں کہ ان کی سیاسی وابستگی مخالف جماعت کے ساتھ تھی اور وہ اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے۔
جسارت میگزین: الخدمت کے لیے اگر کوئی کام کرنا چاہے تو اس کو کیا کرنا چاہیے؟
منور اخلاص: الخدمت کے لیے ہر ایک اپنی خدمات فراہم کر سکتا ہے۔ ہمارے پورے شہر میں سینٹر موجودہیں وہاں کچھ وقت دے سکتا ہے۔ اگر کوئی رقم‘ اجناس یا تیار کپڑے یا کسی بھی شکل میں امداد دینا چاہتا ہے تو دے سکتا ہے۔ ہمارا فون نمبر اور ای میل ایڈریس موجود ہیں اس کے ذریعے گھر بیٹھے بھیج سکتا ہے۔ ایزی پیسہ کے ذریعے بھی بھیج سکتے ہیں۔ طالب علم ہمیں عام طور پر اس کے ذریعے بھیجتے ہیں۔
ہماری کمیونٹی سینٹر کے ذریعے ضرورت مند خواتین روزگار اور تعلیم دونوں حاصل کرتی ہیں۔ کسی نے اگر انہیں بنانے کے لیے رقم ڈالی تو وہاں ہونے والی نیکی کے ہر کام میں اس کا حصہ ہوگا۔ یہاں میں یہ واضح کر دوں کہ الخدمت کے تمام ذمہ دار تنخواہ کے بغیر بے غرض کام کرتے ہیں اسی طرح والنٹیئر بھی سوائے ان لوگوں کے جو ضرورت مند ہیں یا باقاعدہ ملازمت پر رکھے جاتے ہیں۔
جسارت میگزین: آپ ہمیں تیمارداری پروگرام کے بارے میں بتائیں۔
منور اخلاص: ہمارا ایک پروگرام ہے ’’کیئر ٹیکر پروگرام‘‘ اس کے ذریعے ہم مریضوں کی تیمارداری کرنا سکھاتے ہیں۔ اس کی کئی کلاسیں ہوتی ہیں جن کے ذریعے مریضوں کی صفائی ستھرائی‘ ورزش‘ بنیادی صحت مثلاً بخار‘ بلڈ پریشر وغیرہ دیکھنا سکھایا جاتا ہے اور خاص طور سے امانت اور دیانت پر زور ہوتا ہے یہ کورس کرکے وہ خواتین جو ضرورت مند ہوں‘ روزگار حاصل کرلیتی ہیں ورنہ یہ اپنے گھر کے بزرگوں کی خدمت کے لیے بھی کیا جاسکتا ہے۔
جسارت میگزین: آپ لوگ گھروں سے پرانا سامان جو جمع کرتے ہیں‘ اس سے کیسے امداد میں دیتے ہیں؟
منور اخلاص: ہمارے پاس نیا پرانا ہر طرح کا سامان لگ دیتے ہیں‘ انہیں ہم چھانٹتے ہیں‘ جو سامان شادی بکس میں رکھنے کے قابل ہوتا ہے اسے وہاں رکھتے ہیں جیسے پچھلے دنوں کسی نے نئے پریس بھیجے تھے تو ہم نے انہیں شادی بکس میں رکھا۔ پھر ہرکچھ دنوں میں بچت بازار لگا کر اسے فروخت کر دیتے ہیں اگر کچی آبادی میں لگتا ہے تو قیمت معمولی رکھی جاتی ہے تاکہ وہ خرید سکیں اور اس کی قدر بھی ہو آپ کو پتا ہے کہ مفت میں ملنے والی چیز تو اپنی ضرورت سے زیادہ لینے کی کوشش ہوتی ہے لیکن اگر قیمت دینا ہوتی ہے تو اپنی ضرورت کے مطابق لوگ خریدتے ہیں۔
ویسے ہم نے الخدمت کے دو سینٹروں میں مستقل دکانیں بنا دی ہیں کہ عام لوگ بھی وہاں آکر اپنی ضرورت کی چیزیں خرید سکتے ہیں۔
ہمارے کمیونٹی سینٹر میں خواتین سلائی سیکھتی بھی ہیں ہم ان سے سلواتے بھی ہیں تاکہ انہیں روزگار فراہم کیا جا سکے‘ ہمارے سلائی سینٹر سے سیکھ کر وہ اپنے گھروں میں سلائی اسکول بھی کھولتی ہیں ساتھ ساتھ لوگوں کو کپڑے سی کر بھی دیتی ہیں اسی طرح ان کا باقاعدہ روزگار ہو جاتا ہے۔
کچھ خواتین خود مشین نہیں خرید سکتیں توانہیں ہم خرید کر دیتے ہیں بعض خواتین کو تو جوکی مشین بھی خرید کر دی گئی ایک مقررہ وقت کے اندر یہ خواتین مشین کے پیسوں کی ادائیگی بھی کر دیتی ہیں اور ساتھ ساتھ اپنے گھر کا خرچ بھی نکالتی ہیں۔
جسارت میگزین: لوگ آپ کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں اپنے بارے میں بتایئے‘ خاص طور سے یہ کہ آپ جماعت سے کیسے متعارف ہوئیں؟
منور اخلاص: میری شادی ہو گئی تھی گھر میں دعوت تھی تو کسی نے باتوں میں ذکر کیا کہ رشیدہ آپا ترجمۂ قرآن پڑھاتی ہیں۔ یہ بات میرے ذہن میں رہ گئی کیوں کہ میری ایک عرصے سے خواہش تھی کہ ترجمہ قرآن پڑھوں۔ رشیدہ آپا ہمارے محلے میں رہتی تھیں‘ اب میں سوچ رہی تھی کہ ان سے کیسے بات کروں؟ ایک دن اپنے بیٹے ریحان کا ہاتھ پکڑ کر گھر آرہی تھی تو دیکھا رشیدہ آپا اپنے گیٹ کے سامنے کھڑی ہیں کیوں کہ ان کی بہو کہیں باہر تھیں اور گیٹ پر تالا لگا ہوا تھا‘ میں نے پوچھا آپ قرآن کا ترجمہ پڑھائی ہیں۔ کہنے لگیں ’’ہاں‘‘ میں نے کہا میں آنا چاہتی ہوں۔ انہوں نے مسکرا کر دن اور وقت بتا دیا۔ میں گاڑی میں جاتی تھی‘ پانچ منٹ کا فاصلہ تھا لیکن میں ساتھ میں کئی لوگوں کو لے کر جانے لگی۔ اب سوچتی کہ مجھے کچھ کرنا بھی چاہیے۔ انہوں نے کارکنان کے پروگرام میں بھیجا وہاں طلعت ظہیر صاحبہ تھیں وہ میری پہلی ناظمہ تھیں انہوں نے کچی آبادیوں میں درس کے لیے بھیجنا شروع کیا پہلے میں برقع نہیں پہنتی تھی‘ وہاں جانے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ پردہ کتنی بڑی نعمت ہے۔ پہلی دفعہ میں نے اپنی سہیلی رافعہ سے لے کر پہنا اور پھر مستقل پہن لیا۔ ضرورت مند لوگوں کے لیے میرے اپنے خاندان کے لوگ پاکستان سے اور باہر کے ملکوں سے رقم دیتے تھے میں جماعت اسلامی کے ذریعے لوگوں کو دے دیتی تھی۔ آہستہ آہستہ یہ ہوا کہ مجھے ذمہ داری دے دی گئی۔ میرے گھر کا نیچے کا حصہ خالی تھا تو وہاں الخدمت کا آفس اور سینٹر بنا دیا گیا اور پھر یوں آہستہ آہستہ معاملہ یہاں تک پہنچا۔
جسارت میگزین: آپ لوگوں کو کیا پیغام دینا چاہیں گی؟
منور اخلاص: سادگی اختیار کریں‘ دکھاوا‘ نمائش اور رسموں کو چھوڑ دیں‘ آج موت اور شادی دونوں پر طرح طرح کی رسموں سے پیسہ لٹایا جاتا ہے‘ شادی پر تو لوگ لاکھوں‘ کروڑوں روپے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے خرچ کر دیتے ہیں جس سے کوئی حقیقی خوشی حاصل نہیں ہوتی بلکہ لوگوں کی نظریں لگتی ہیں۔ نکتہ نکالنے والے خوب خوب تنقید کرتے ہیں کہ بریانی میں بوٹی نہیں تھی یا ہمیں تو پوچھا ہی نہیں… آسان نکاح اختیار کریں کہ پیارے رسولؐ کا فرمان ہے کہ ’’بہترین نکاح وہ ہے جس میں کم سے کم خرچ ہو۔‘‘
شادی سے پہلے صدقہ نکالیں‘ اللہ کو خوش کریں‘ خوشیاں خود بخود آنگن میں اتر آئیں گی۔دوسری بات ڈونیشن دینے والے لوگوں میں اضافے کے لیے عملی جدوجہد کریں کہ یہ ایک بہترین صدقہ جاریہ ہے۔اس کام کے لیے ہمیں آپ کا تعاون چاہیے۔ ایک شخص کم از کم دو ڈونر کا اضافہ کرے تو ہمارے لیے مزید فلاحی کاموں کے لیے راستے کھل جائیں گے اور یہ ہر ایک کے لیے بہترین صدقہ جاریہ ہوگا۔ الخدمت کے جتنے کام ہوں گے ان میں برابر کا حصہ ہوگا۔

حصہ