سود

-5 جناب نے درست فرمایا کہ میرے پاس اس امر کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے کہ اُس زمانے میں کوئی شخص قرض لے کر تجارت نہیں کرتا تھا‘ نہ اس امر کا کوئی ثبوت ہے کہ دوران تجارت میں بھی کوئی تاجر کبھی دوسرے تاجر یا ساہوکار سے قرض نہ لیتا تھا۔ لیکن ان قرائن سے جن کا ذکر میں نے اپنے پہلے خطوط میں کیا ہے‘ یہ اغلب معلوم ہوتا ہے کہ ان دنوں کے عربوں میں اس قسم کے قرض رائج نہ تھے۔ میرا نظریہ یہ ہے کہ ’’ربوٰ‘‘ والے کے لیے جس قدر سخت سزا مقرر کی گئی ہے اس کے پیش نظر بڑھوتری کی کسی قسم ’’ربوٰ‘‘ میں شامل نہ کرنا چاہیے جب تک کہ یقین نہ ہو جائے کہ دراصل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بھی وہ ربوٰ میں شامل تھی۔ اس کے برخلاف جناب کا نظریہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ گمان کی بنا پر ہی اس کو ’’ربوٰ‘‘ میں شامل تصور کر لینا چاہیے اور جب تک پورا ثبوت اس بات کا نہ مل جائے کہ اس قسم کی بڑھوتری کا ان دنوں رواج نہ تھا‘ اس کو ’’ربوٰ‘‘ کی حدود سے خارج نہ سمجھنا چاہیے۔ جناب کا نظریہ احتیاط و زہد پر مبنی ہے۔ لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ احتیاط کہیں دنیوی نقصان کی علاوہ اخروی نقصان کا باعث بھی نہ ہو۔ آج کل کی دنیا میں بغیر تجارتی سود کے گزارہ نہیں۔ جو قوم اس سے پرہیز کرتی ہے وہ دوسری قوموں کے مقابلے میں معاشی لحاظ سے پست اور کمزور رہ جاتی ہے اور ایسی کمزوری کا جو اثر اس قوم کی آزادی پر پڑ سکتا ہے‘ وہ جناب سورۂ مائدہ کی آیت’’ لَا تُحَرِّ ھُوا طَیِبٰتِ مَا اَحَلَ اﷲ وَلَا تَعتدُوا۔‘‘ کی تشریح میں جناب نے تفہیم القرآن میں لکھا ہے ’’اس آیت میں دو باتیں ارشاد ہوئی ہیں۔ ایک یہ کہ خود حلال حرام کے مختار نہ بن جائو‘ حلال وہی ہے جو اللہ نے حلال کیا اور حرام وہی ہے جو اللہ نے حرام کیا۔‘‘ مزید نوٹ نمبر 4 میں جناب نے ارشاد فرمایا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر مسلمان کو اپنے اوپر سختی کرنے سے روکا ہے اس لیے کیا یہ درست نہ ہوگا کہ جب تک اس کا ثبوت نہ مل جائے کہ تجارتی (Productive) سود بھی ’’ربوٰ‘‘ میں شامل تھا‘ اس کو گمان کی بنا پر حرام قرار نہ دیا جائے؟
-6 جو سودی رقم مجھے پراویڈنٹ فنڈ سے ملی تھی‘ اسے چند روز بعد ہی ایک دوست بطور قرض لے گئے اور آج تک ان سے واپس نہیں ملی۔ لیکن اگر مل گئی تو ان شاء اللہ تعالیٰ آپ کی ہدایت کے مطابق میں اس کو اپنی ذات پر خرچ نہ کروں گا۔
-7 ایک غیر متعلقہ امر کے متعلق بھی جناب سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ خمر و میسر کے متعلق فرماتے ہیں ’’اثمھما اکبر من نفعہما‘‘ آپ نے اس آیت کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ ان کا نقصان ان کے فائدے سے بہت زیادہ ہے۔ لغت کی جو کتابیں میری نظر سے گزری ہیں ان میں مجھے ’’اثم‘‘ کا ترجمہ ’’نقصان‘‘ نہیں ملا۔ جناب سے استدعا ہے کہ اپنے ترجمہ کے حق میں کوئی مستند حوالہ عنایت فرما کر ممنون فرما دیں۔
جواب: عنایت نامہ مورخہ 31 جولائی مجھے بروقت مل گیا تھا‘ لیکن اس وقت سے اب تک مسلسل ایسی مصروفیت رہی کہ جواب لکھنے کی مہلت نہ مل سکی۔ اس تاخیر کے لیے معافی چاہتا ہوں۔
آپ نے جن نکات کی طرف توجہ دلائی ہے ان کے متعلق کچھ عرض کرنے سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ آپ ایک مرتبہ پھر اصل مسئلے کو نئے سرے سے سمجھنے کی کوشش فرمائیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ’’الربوٰ‘‘ جس کو قرآن نی حرام کیا ہے اس کی حقیقت یا بالفاظ دیگر علتِ حرمت کیا ہے۔ آیا یہ کہ ایک شخص اپنی دیے ہوئے مال (راس المال) سے زیادہ وصول کرے یا یہ کہ وہ دوسرے شخص کی حاجت مندی سے ناجائز فائدہ اٹھائے؟ میں پہلی چیز کو اس کی حقیقت اور علتِ حرمت کہتا ہوں اور اس کے دلائل مختصراً یہ ہیں:
-1 قرآن جس چیز کو حرام کر رہا ہے اس کے لیے وہ مطلق لفظ ’’الربوٰ‘‘ استعمال کرتا ہے جس کا مفہوم لغت عرب میں مجرد زیادتی ہے حاجت مند سے زیادہ لینا اس لفظ کے مفہوم میں شامل نہیں ہے۔ غیر حاجت مند کو قرض دے کر یا بار آور اغراض کے لیے قرض دے کر زیادہ واپس لیا جائے تب بھی لغت کے اعتبار سے اس زیادتی پر الربوٰ ہی کا اطلاق ہوگا۔
-2 قرآن خود اس الربوٰ کو کسی ایسی قید سے مقید نہیں کرتا جس سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ وہ اس ربوٰ کو حرام کرنا چاہتا ہے جو کسی حاجت مند کو قرض دے کر وصول کیا جائے اور اس ربا کو حکمِ حرمت سے خارج کرنا چاہتا ہے جو غیر حاجت مند لوگوں سے یا بارآور اغراض کے لیے قرض دے کر کاروباری لوگوں سے وصول کیا جائے۔
-3 قرآن نے لکم رؤس اموالکم کہہ کر اس بات کی وضاحت بھی کر دی کہ قرض دینے والا صرف اتنا ہی واپس لینے کا حق دار ہے جتنا اس نے دیا ہے۔ اس سے زائد لینے کا حق دار نہیںہے۔ یہاں بھی کوئی اشارہ اس امر کی طرف نہیںہے کہ جس شخص کو بارآور اغراض کے لیے راس المال دیا گیا ہو اس سے اصل پر کچھ زائد لینے کا حق دائن کو حاصل ہوتا ہے۔
-5 لغت اور قرآن کے بعد تیسرا اہم ترین ماخذ سنت ہے جس سے اللہ تعالیٰ کے احکام کا منشا معلوم کیا جاسکتا ہے یہاں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ علّت ِ حکم مجرّد زیادتی کو قرار دیا گیا ہے نہ کہ اس زیادتی کو جو کسی حاجت مند سے وصول کی جائے۔ حدیث میںیہ صراحت ہے کہ ’’ہر وہ قرض جس سے نفع اٹھایا جائے ربوٰ ہے۔‘‘
-6 نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اُس ربوٰ کی حرمت پر اکتفا نہیں فرمایا جو قرض کی صورت میں لیا جاتا ہے‘ بلکہ دست بدست لین دین کی صورت میں بھی ایک ہی جنس کی اشیا کی درمیان تفاضل کا معاملہ کرنا حرام کر دیا۔ ظاہر ہے کہ اس میں حاجت مندی کاکوئی سوال نہیں ہے اور اس سے صاف معلوم ہوتاہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم کا جو منشا سمجھا تھا وہ لامحالہ یہی تھا کہ زیادہ ستانی کو اللہ حرام کرنا چاہتا ہے۔ اسی کے رجحانات کو ختم کرنے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض کے علاوہ دست بدست لین دین میںبھی زیادہ ستانی سے منع فرما دیا۔
-7امت کے تمام فقہا نے بالاتفاق اس حکم کا منشا یہی سمجھا ہے کہ قرض کے معاملے میں اصل سے زائد جو کچھ بھی لیا جائے وہ حرام ہے‘ قطع نظر اس سے کہ قرض لینے والا اپنی شخصی حاجات کے لیے قرض لے یا کسی نفع آور کام میں لگانے کے لیے یعنی ’’شریعت کی اصطلاح میں ربوٰ سے مراد اصل مال سی زیادہ لینا ہے بغیر اس کے کہ فریقین میں بیع کا معاملہ ہوا ہو۔‘‘ (ابن اثیر) اس تعریف کے مطابق تمام فقہا اس نفع کو حرام قرار دیتے ہیں جو قرض دے کر دائن مدیون سے حاصل کرے۔
ان وجوہ کو نظر انداز کرکے آپ جس بنا پر حرمتِ ربوٰ کو صرف ان قرضوں تک محدود رکھنا چاہتے ہیں جو حاجت مند لوگ اپنی ضروریات کے لیے لیں اور نفع بخش کاموں پر لگانے کے لیے جو قرض دیا جائے اس کے سود کو اس حرمت سے مستثنیٰ قرار دیتے ہیں‘ وہ صرف یہ ہے کہ آپ کے نزدیک عرب میں نزولِ قرآن کے وقت پہلی قسم کے معاملۂ قرض کارواج تھا اور دوسری قسم کے کاروبار قرض کا رواج دنیا میں بہت بعد میں ہوا۔ لیکن آپ کی یہ رائے اس وقت تک قبول نہیں کی جاسکتی جب تک آپ حسبِ ذیل سوالات کا واضح اور اطمینان بخش جواب نہ دیں۔
-1 کیا اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسولؐ نے قرضوں کے درمیان نفع آور اور غیر نفع آور کا فرق کرکے صراحتاً یا اشارتاً حرمتِ ربوٰ کو صرف دوسری قسم تک محدود اور پہلی قسم کو حرمت کے حکم سے مستثنیٰ کیا ہے؟ اگرکیا ہے تو اس کا حوالہ ملنا چاہیے کیوں کہ حرمت کا حکم جس نے دیا ہے مستثنیٰ کرنے کا اختیار بھی اسی کو حاصل ہے اور اس کے کسی اشارے کے بغیر ہم اور آپ بطور خود حرام اور حلال کا فیصلہ کر لینے کے مختار نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں غالباً آپ یہ استدلال کریں گے کہ ’’چونکہ اس زمانے میں صرف غیر نفع آور قرضوں پر ہی سود لینے کا رواج تھا اس لیے اللہ تعالیٰ کے حکمِ تحریم کو اسی سے متعلق مانا جائے گا۔‘‘ لیکن یہ استدلال اس وقت تک نہیں چل سکتا جب تک یہ بھی فرض نہ کر لیا جائےکہ انسانی معاملات میں اللہ اور اس کے رسول کا علم بھی بس انہی معاملات تک محدود تھا جو نزولِ قرآن کے دور میں رائج تھے اور انہیں کچھ پتا نہ تھا کہ آگے کیا کچھ آنے والا ہے۔ نیز یہ کہ اسلام صرف ایک وقت خاص تک کے معاملات میں رہنمائی دینے والا ہے‘ کوئی اذلی و ابدی رہنما نہیں ہے۔ اگر یہ مفروضہ آپ کے استدلال کی بنیاد میں کام نہیں کر رہا ہے تو پھر آپ کو ماننا پڑے گا کہ معاملات کی وہ صورتیں بھی اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں تھیں جو بعد میں پیش آنے والی تھیں اور جب یہ مان لیں گے تو آپ کو ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کا منشا فی الوقع غیر نفع آور قرضوں تک ہی حکم تحریم کو محدود رکھنا ہوتا تو وہ ضرور کسی نہ کسی طریقے سے اپنے اس منشا کو ظاہر فرماتے اور اس کی رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس منشا کو اس حد تک کھول دیتے کہ تحریمِ ربوٰ کا حکم تمام اقسام قرض پر حاوی نہ ہو سکتا۔
-2 دوسرا سوال یہ ہے کہ آپ کے پاس اس کا کیا ثبوت ہے کہ عرب میں صرف حاجت مند لوگ ہی اپنی ذاتی ضروریات کے لیے قرض لیا کرتے تھے اور کوئی شخص کاروبار میں یا کسی نفع بخش کام میں لگانے کے لیے قرض نہ لیتا تھا؟ صرف یہ بات کہ دنیا میں نفع آور کاموں کے لیے قرض پر سرمایہ جمع کرنے کا رواج عام بہت بعد میں شروع ہوا ہے‘ اس بات کا فیصلہ کر دینے کی لیے کافی دلیل نہیں ہے کہ پہلے کوئی شخص کاروبار کے آغاز یا کاروبار کی دوران میں کبھی کاروباری اغراض کے لیے قرض نہ لیا کرتا تھا۔ آپ ایک بہت اہم مسئلے کا فیصلہ کرنے بیٹھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے کسی چیز کو مستثنیٰ کرنا کوئی ہلکی بات نہیں ہے اس کے لیے آپ کو اس سے زیادہ وزنی دلیل لانی چاہیے جو آپ پیش کر رہے ہیں۔ یہ ثبوت لانا ہمارے ذمے نہیں ہے کہ عرب میںاس وقت کاروباری اغراض کے لیے کوئی شخص قرض نہ لیا تھا اس لیے کہ استثنیٰ کا دعویٰ آپ کر رہے ہیں اور اس کی بنا پر آپ نے خدا اور رسولؐ کے کسی اشارے یا تصریح پرنہیں رکھی ہے بلکہ اس دلیل پر رکھی ہے کہ عرب میں اس وقت الربوٰ کا اطلاق صرف ان قرضوں پر ہوتا تھا جو غیر نفع بخش اغراض کے لیے لیے جاتے تھے۔
اب میں مختصراً آپ کے پیش کردہ نکات کاجواب عرض کرتا ہوں۔
الربوٰ کا مفہوم متعین کرنے اور اس کی علّت ِ حرمت معلوم کرنے میں ہمارا انحصار صرف ان معاملات کی نوعیت پر ہی نہیں ہے جو اس وقت عرب میں رائج تھے بلکہ لغت‘ بیانِ قران‘ حدیث اور فقہائے امت کی توضیحات اس کے اصل مآخذ ہیں اور ان کے ساتھ ایک مددگار چیز یہ ہے کہ اس وقت جن معاملات پر ربوٰ کا اطلاق ہوتا تھا ان میں قدر مشترک معلوم کی جائے۔
آپ فرماتے ہیں کہ ان میں قدر مشترک صرف اصل سے زائد ایک رقم لینا ہی نہ تھا بلکہ یہ بھی تھا کہ یہ زائد رقم حاجت مندوں کی ذاتی ضروریات کے لیے قرض دے کر وصول کی جاتی تھی۔ لیکن اوّل تو اس کا اعتبار علّت ِ حکم شخص کرنے میں اس لیے نہیں کیا جاسکتا کہ نہ قرآن نے اس کی طرف کوئی اشارہ کیا ہے اور نہ سنت میں کوئی چیز ایسی ملتی ہے جس کی بنا پر فرض کیا جائے کہ حاجت مندوں سے زائد رقم وصول کرنا وجہ حرمت ہے۔ دوسرے ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ اس وقت قرض کے معاملات صرف اسی نوعیت تک محدود تھے۔ جہاں تک عرب کے تجارتی معاملات کا تعلق ہے‘ ان کے بارے میں نہ یہ تصریح ہمارے علم میں آئی ہے کہ وہ قرض کے سرمائے سے چلتے تھے اور نہ یہ تصریح ہم تک پہنچی ہے کہ ان میں قرض کا عنصر بالکل ہی شامل نہ ہوتا تھا اس لیے کسی ریکارڈ پر نہ ہم مدارِ بحث رکھ سکتے ہیں نہ آپ۔ لیکن یہ بات تو عقلِ عام سے تعلق رکھتی ہے اور دنیا کے عام تجارتی معاملات کی سمجھ بوجھ رکھنے والا کوئی شخص بھی اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ تجارت میں قرض کے سرمائے کو بطور بنیاد استعمال کرنے کا رواج چاہے بعدہی میں شروع ہوا ہو‘ لیکن تاجروں کو اپنے کاروبار کے دوران میں ایک دوسرے سے بھی اور ساہوکاروں سے بھی قرض لینے کی ضرورت پہلے بھی پیش آیا کرتی تھی اور چھوٹے تاجر بڑے تاجروں سے قرض پر مال پہلے بھی حاصل کیا کرتے تھے۔ عرب کے متعلق ایسا ریکارڈ اگر موجود نہ ہو تب بھی دنیا کے دوسرے ملکوں کے متعلق تو ایسا ریکارڈ نزولِ قرآن سے سینکڑوں‘ بلکہ کئی ہزار برس پہلے کا بھی ملتا ہے اور تاریخی طور پر یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ پہلے زمانے میں تجارتی کاروبار قرض کے عنصر سے بالکل صاف ہوا کرتا تھا۔ (جاری ہے)
آپ کا خیال یہ ہے کہ سود کے معاملات میں ضرر رساں صفت مشترک صرف یہ ہو سکتی ہے کہ حاجت مندوں کی شخصی ضروریات کے لیے قرض دے کر ان سے ظالمانہ شرح سود طے کی جائے۔ لیکن ہمارے نزدیک صرفی ہی ایک ضرر رساں صفت اس میں نہیں ہے۔ یہ صفت بھی ضرر رساں ہے کہ ایک شخص یا ادارہ صرف روپیہ دے کر اپنے لیے ایک متعین منافع کی ضمانت حاصل کرے اور وہ سب لوگ جو اس روپے کے ذریعے سے اپنی محنت‘ قابلیت اور دماغ سزی کرکے منافع حاصل کرنے کی کوشش کریں ان کے لیے متعین منافع تو درکنار‘ خود منافع تک کی کوئی ضمانت نہ ہو‘ قرآن مجید جو قاعدہ تجویز کرتا ہے وہ یہ ہے کہ قرض کی صورت میں کسی کو مال دو تو تم اصل سے زائد کچھ لینے کے حق دار نہیں ہو اور ربیع یعنی تجارت کا منافع حاصل کرنا چاہو تو پھر سیدھی طرح یا تو خود براہِ راست تجارت کرو یا پھر تجارت میں شریک بن جائو۔ قرآن کے اسی منشا کو سمجھ کر اسلام میں مضاربت کو جائز اور سودی قرض کو ناجائز قرار دیا گیا ہے۔
وَذَروامَابَِقیَ مِنَ الِرّبوٰ سے آپ نے جواستدلال کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے یہ محض اسی زمانے کے لیے ایک وقتی حکم نہ تھا بلکہ قرآن کے دوسرے احکام کی طرح ایک ابدی حکم تھا۔ جب اور جہاں بھی کوئی آدمی ایمان لائے وہ اس حکم کا مخاطب ہے۔ اسے اگر کسی سے اپنے دیے ہوئے قرض پر سود لینا ہو تو اس کو سود کا مطالبہ چھوڑنا ہوگا اور صرف اپنے دیے ہوئے راس المال کی واپسی پر اکتفا کرنا پڑے گا۔ علاوہ بیں اس آیت سے آپ کا استدلال اس دعوے پر مبنی ہے کہ اس وقت کی اقسام رض کافروباری نوعیت کے سود سے خالی تھیں۔ یہ دعوی خود محتاجِ ثبوت ہے‘ اسے دلیل کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ جن اقسامِ قرض کا آپ بار بار حوالہ دیتے ہیں کہ یہ صرف ذاتی نوعیت کے قرض ہی ہوسکتے تھے‘ خود ان میں یہ احتمال موجود ہے کہ ایک چھوٹا تاجر کسی بڑے تاجر سے قرض پر مال لے کر جاتا ہو اور بڑا تاجر اس پر اصل قیمت کے علاوہ سود بھی عائد کرتا ہو‘ پھر جب وہ مدتِ مقررہ کے اندر پوری قیمت ادا نہ کرتا ہو تو وہ مزید مہلت دے کر سود میں اور اضافہ کر دیتا ہو۔ا س طرح کے سود کے بقایا بھی تو حکم ذرو مابقی من الربوٰ کی زد میں آجاتے ہیں۔ آپ کے پاس اس کا کیا ثبوت ہے کہ ان بقایا میں اس نوعیت کے بقایا شامل نہ ہوتے تھے۔
میرے نزدیک اگر تجارتی سود کو حکم ربوٰ کے تحت لانے یا نہ لانے کی بنا محض گمان ہی پر ہو (اگرچہ واقعہ یہ نہیں ہے) تب بھی گمان پر ایک امکانی حرام کو حلال کر دینا اس سے زیادہ خطرناک ہے کہ اسے حرام مان کر اس سے اجتناب کیا جائے۔ حدیث کا یہ حکم صاف ہے کہ دعوا الربوا اور الربیہ سود کو بھی چھوڑو اور اس چیز کو بھی جس میں سود کا شک ہو۔ یہ بات میں برسبیل تنزل محض آپ کی اس بات کے جواب میں کہہ رہا ہوں کہ تجارتی سود کو حرام قرار دینے کی بنیاد محض گمان ہے ورنہ مجھے اس امر میں کوئی شک نہیں ہے کہ قطعاً حرمت کے تحت آتا ہے اور اس کے حرام ہونے کی بنا گمان نہیں ہے بلکہ قرآن و سنت کے محکمات ہیں۔
مجھے اس بات کی مسرت ہے کہ آپ نے خود اپنے پراویڈنٹ فنڈ کے سود کے معاملے میں میرا مشورہ قبول فرما لیا ہے آپ سے توقع یہی ہے کہ کم از کم اپنی ذات کو تو مالِ مشکوک کے فائدے سے محفوظ رکھیں گے۔ خدا کرے کہ آپ اسے دوسروں کے لیے حلال کرنے کی فکر بھی چھوڑ دیں اور مالیات کے مسائل پر جو تجربہ و بصیرت آپ کو حاصل ہے اسے ایک غیر سودی نظام مالیات مرتب کرنے میں استعمال کریں۔
آپ کے آخری سوال کا جواب یہ ہے کہ میں نے ’’اثم‘‘ کا ترجمہ نفع کے تقابل کی وجہ سے گناہ کے بجائے نقصان کیا ہے۔ ویسے یہ زبان کے اعتبار غلط بھی نہیں ہے کیوں کہ ’’اثم‘‘ کے اصل معنی خیر مطلوب کو پہنچنے میں قاصر رہ جانے کے ہیں۔ اسی معنی کے لحاظ عرب کہتے ہیں ’’اثمت الناقۃ‘‘ یعنی اونٹنی سست رفتار ہے۔ جو اس تیز رفتاری اس سے مطلوب ہے اس میں کوتاہی برتتی ہے۔‘‘ (ترجمان القرآن محرم صفر 1377 ہجری‘ اکتوبر‘ نومبر 1957ء) (جاری ہے)