شھر رمضان

295

روزہ ایک عظیم عبادت اور دین کے اُن ستونوں میں مرکزی حیثیت کا حامل ہے جن پر اس کی پوری عمارت مضبوطی کے ساتھ کھڑی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک پہلو اس کا یہ بھی ہے کہ روزہ اللہ رب العزت کا اپنے بندوں پر ایک بہت ہی عظیم الشان انعام ہے، اور اس نعمت کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔
اللہ کے اس انعام کا ایک پہلو ایسا ہے جو اسے عبادات اور احکامِ الٰہی میں منفرد بنادیتا ہے، اور وہ یہ پہلو ہے کہ یہ وہ عمل ہے جس کا گواہ اللہ اور صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ نماز عمادالدین ہے، مگر وہ حضوریِ قلب کے ساتھ جسم کے ایسے اعمال و حرکات پر مشتمل ہے جن کی وجہ سے جماعت ہی میں نہیں، تنہائی میں، حتیٰ کہ گھر کی چاردیواری میں ادا کی جانے والی نماز بھی دوسروں کی نظر سے اوجھل نہیں ہوسکتی۔ حج پوری دنیا کے مسلمانوں کا ایک مرکزی اجتماع ہے، اسی طرح زکوٰۃ اگر مکمل اخفاء کے ساتھ ادا کی جائے تب بھی کم از کم ایک شخص یعنی اس کا وصول کرنے والا تو اس راز میں شریک ہو ہی جاتا ہے، لیکن روزہ ہی ایک ایسی عبادت ہے جس کا گواہ صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اگر ایک شخص سب کے ساتھ سحری کرے اور سب کے ساتھ افطار کرے جب بھی تنہائی میں اس کے کھانے پینے سے احتراز کرنے کا گواہ صرف اللہ تعالیٰ ہے، اور اگر ایک شخص دنیا کو دھوکا دینے کے لیے روزے کے تمام اجتماعی آداب کا احترام کرے لیکن تنہائی میں کھا پی لے تو دنیا کی کوئی آنکھ اُس کے روزے پر شک نہیں کرے گی، البتہ اللہ اس کی حرکات سے بخوبی واقف ہوگا۔
روزہ صرف اللہ کے لیے ہے اور وہی اس کا گواہ ہے، اور اس طرح بندے کے رب سے تعلق کا یہ پہلو روزے کی امتیازی شان ہے، کہ جلوت اور خلوت سب اللہ کے حکم اور اس کی رضا کے پابند ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ روزہ اپنے تمام اجتماعی پہلوئوں کے باوجود صرف اللہ ہی کی رضا کے لیے ہے، صرف اللہ ہی اس کا اصل گواہ ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ رب کریم نے یہ مژدہ بھی سنادیا ہے کہ صرف وہ اس کا اصل اجر دینے کا ذمہ دار ہے۔ گویا روزہ بندے اور رب کے بلاواسطہ تعلق کا عنوان ہے، اور صرف رب کا بندہ بن جانے کی علامت ہے۔ اور یہی وہ چیز ہے جو اسے اسلام کی روح اور اس کے اصل جوہر کا مظہر بناتی ہے۔
صرف اللہ کا بندہ بننے اور اس کی رضا کے لیے بھوک، پیاس اور شہوت کی جائز ذرائع سے تسکین سے بھی اجتناب انسان کو تقویٰ کی اس نعمت سے مالا مال کرتا ہے جو دنیا اور آخرت میں کامیابی کا ذریعہ ہے، اور جو انسان میں وہ صلاحیت پیدا کرتا ہے جو اسے اللہ کی ہدایت سے فیض یاب ہونے میں ممدو معاون ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے اپنی ہدایت کے لیے جن کو اہل قرار دیا ہے وہ اصحابِ تقویٰ ہی ہیں (ھُدًی لِّلْمُتَّقْینَ یہ اہل تقویٰ کے لیے ہدایت ہے)۔ روزہ انسان کے اندر وہ تقویٰ پیدا کرتا ہے جو اسے ہدایتِ ربانی سے مستفید ہونے اور اس کا علَم بردار بننے کے لائق بناتا ہے: ’’اے ایمان لانے والو! تم پر روزہ فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا، تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہوسکے۔ رمضان نزولِ قرآن کا مہینہ ہے اور روزے اور قرآن کا تعلق ایک جان اور دو قالب جیسا ہے‘‘۔(البقرۃ 183-2)
’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر بیان کرنے والی ہیں۔ لہٰذا جو شخص اس مہینے کو پائے اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے‘‘۔(البقرۃ 185:2)
ایک اور قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ نزولِ قرآن کا آغاز غارِ حرا میں ہوا جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل عبادت فرماتے اور روزے رکھتے تھے، اور حضرت موسیٰؑ کو جب تورات سے نوازا گیا تو ان ایام میں آپؑ بھی روزے کا اہتمام فرما رہے تھے۔ روزہ اور قرآن کا یہی ناقابلِ انقطاع تعلق ہے جس کا تجربہ اور جس کی شہادت امتِ مسلمہ ماہِ رمضان میں قرآن سے تعلق کی تجدید کرکے کرتی ہے، اور اس طرح روزہ ہماری زندگیوں میں ہدایتِ ربانی کو حرزِ جاں بنانے کا ذریعہ اور وسیلہ بن جاتا ہے۔ یہ اللہ کا عظیم ترین انعام نہیں تو اور کیا ہے؟
اس انعام الٰہی سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ روزے کی حقیقت کو ٹھیک ٹھیک سمجھا جائے اور محض روایتاً یا مسلم معاشرے کے ایک معمول کے طور پر نہیں بلکہ پورے شعور کے ساتھ اور اس کے مقاصد اور آداب کے پورے ادراک اور اہتمام کے ساتھ روزہ رکھا جائے۔ نیز رمضان میں حاصل کی جانے والی تربیت کی روشنی میں سال کے باقی ایام گزارے جائیں۔ جس طرح گاڑی چلانے کے لیے بیٹری کو چارج کیا جاتا ہے اور مناسب چارجنگ کے بعد ایک مدت تک وہ بیٹری اپنا کام ٹھیک ٹھیک انجام دیتی ہے اسی طرح انسانی جسم اور زندگی کی گاڑی کو چلانے کے لیے رمضان کے روزے اور اس ایک مہینے میں قرآن سے تجدیدِ عہد، انسانی جسم و روح کی بیٹری کو چارج کرتے ہیں، اور پھر باقی گیارہ مہینے اس قوت کے سہارے یہ گاڑی رواں دواں رہتی ہے۔ اس سے بڑا انعام ہمارے رب کی طرف سے اور کیا ہوسکتا ہے؟
بندے کے اپنے رب سے تعلق کے تین پہلو ہیں۔ پہلا اور سب سے اہم رب کو پہچاننا، اس سے عہدِ وفا باندھنا، ہر لمحہ اس عہد کا ادراک رکھنا اور ہر دوسری غلامی اور وفاداری سے نجات پاکر صرف اللہ، اپنے خالق اور مالک کا بندہ بن جانا ہے۔ رب کو رب ماننے کا دوسرا پہلو فرد کی اپنی ذات کی تربیت، تزکیہ اور ترقی ہے تاکہ وہ اپنے رب کے انسانِ مطلوب سے زیادہ سے زیادہ مماثلت حاصل کرسکے۔ اس کے لیے نمونہ اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ مبارکہ اور سنتِ مطہرہ ہے۔ اپنی ذات کی مسلسل اصلاح اور صفاتِ محمودہ کے رنگ میں اپنے کو رنگنے اور صفاتِ مذمومہ سے بچنے کی مسلسل کوشش اصلاحِ ذات اور بندگیِ رب کا اولین اور مستقل تقاضا ہے۔ پھر اس تعلق کا تیسرا پہلو دنیا اور اس کے رہنے والوں سے تعلق کو صحیح بنیادوں پر استوار کرنا ہے۔ اللہ کی ہدایت ہی یہ رہنمائی بھی دیتی ہے کہ انسانوں، معاشرہ، ریاست، انسانیت اور کائنات، ہر ایک سے کس طرح معاملہ کیا جائے تاکہ اللہ کی رضا حاصل ہو، اور انسانی زندگی میں حق اور انصاف کے قیام کے ذریعے انسانوں کی زندگی خیر اور فلاح کا نمونہ بن جائے۔ اسلام ان تینوں جہتوں کے باب میں صحیح تعلق اور صحیح رویّے کا نام ہے۔ یہ سب اللہ کی بندگی کے ایک ہی دائرے کا حصہ ہیں، اور کسی بھی جہت کو نظرانداز کرنا یا عبدیت کے دائرے سے باہر تصور کرنا شرک، بغاوت اور طاغوت کا بندہ بننے کے مترادف ہے۔
روزہ ان تینوں میدانوں میں بیک وقت بندے کا تعلق اپنے رب سے، اور اس تعلق کی روشنی میں زندگی کے ہر دائرے اور پہلو کو ہدایت ِالٰہی کے مطابق گزارنے اور نورِ ربانی سے منور کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔
nn

حصہ