وہ صبح یقینا آئے گی

287

’’مجھے کچھ نظر نہیں آتا میں کدھر جائوں۔ کوئی میرا ہاتھ پکڑ لے۔ کوئی میری رہنمائی کے لیے آگے بڑھے۔ اگر کسی نے میری رہنمائی نہ کی تو میں بھی برائیوں میں کھو جائوں گا میں بھی عریانی اور فحاشی کے سیلاب میں بہہ جائوں گا‘‘۔ یہ ایک پندرہ سالہ نوجوان کی آواز ہے جس کا نام احمد ہے۔ احمد جو معاشرے میں موجود برائیوں سے اُکتا گیا ہے، جو انسانوں کے نافذ کردہ قوانین سے بدظن ہوچکا ہے، جو برائیوں کے اس گھٹا ٹوپ اندھیرے سے تنگ آگیا ہے، جس کی وجہ سے آنکھیں ہوتے ہوئے بھی اُسے کچھ نظر نہیں آرہا ہے۔ احمد اب روشنی کا منتظر ہے۔ اُس سورج کے طلوع ہونے کا منتظر ہے جو برائیوں کے اس گھٹا ٹوپ اندھیرے کو روشنی میں بدل دے۔ پھر کبھی اندھیرا نہ ہو۔ پھر کبھی تاریکی کے سائے اُس کے سر پر نہ منڈلائیں پھر کبھی قتل و غارت گری کا بازار گرم نہ ہو۔ پھر کبھی تخریب کاری کو پنپنے کا موقع نہ ملے کہ شہر میں بم کے دھماکے ہوں۔ پھر کبھی کوئی کسی کو بُری نظر سے نہ دیکھے۔
احمد اکثر یہ سوچا کرتا تھا کہ ایسا معاشرہ کب وجود میں آئے گا۔ کیا میری سوچ محض خواب ہے یا حقیقت کا روپ بھی دھار سکتی ہے۔ ایک دن رات کہ سونے سے پہلے وہ یہ سب کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ اُس کی آنکھ لگ گئی۔
احمد اُٹھو! بیٹا صبح ہوگئی ہے۔ دیکھو، آج عید کا دن ہے لوگ باہر شکرانے کی نماز ادا کرنے کے لیے مسجدوں میں جارہے ہیں۔ تم نہیں جائو گے۔ احمد کے کانوں میں جب یہ آواز پہنچی تو وہ چونک پڑا۔ آج عید کا دن ہے، کون سی عید کا دن۔ بقر عید تو ابھی دو ماہ پہلے ہی گزری ہے۔ اب دوبارہ کون سی عید آگئی۔ یکدم اُس کے ذہن میں یہ خیالات پیدا ہوئے اور وہ آنکھیں کھولتے ہوئے اپنی امی جان سے مخاطب ہوا۔ امی! آپ کیا کہہ رہی ہیں۔ عید کا دن۔ آج کونسی عید آگئی۔ احمد بیٹا! تم اکثر کہا کرتے تھے نا کہ یہ برائیوں کا گھٹ ٹوپ اندھیرا کب ختم ہوگا۔ وہ سورج کب طلوع ہوگا جو ظلم و بربریت کو معاشرہ سے ختم کردے گا اور چہار جانب اُجالا بکھیر دے گا۔ ہاں! امی جان، میں واقعی یہی چاہتا ہوں۔ میں اُسی سورج کا منتظر ہوں، میں اُسی صبح کا منتظر ہوں جو اسلامی انقلاب کی نوید لائے جو ظلم و استحصال کے خاتمے کی نوید لائے۔ خوش ہوجائو بیٹا، آج وہی صبح ہے جس کے تم منتظر تھے۔ آج وہی سورج طلوع ہوا ہے جس نے برائیوں کے اندھیرے کو روشنی میں تبدیل کردیا ہے۔ آج اسلامی انقلاب برپا ہوچکا ہے۔ احمد کو یقین نہیں آرہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کیا واقعی وہ دن آگیا ہے جس کا میں خواب دیکھا کرتا تھا۔ جس کے لیے میں دعائیں کیا کرتا تھا۔
اچھے بیٹا، اب دیر مت کرو جلدی سے نہا دھو لو اور تم بھی مسجد جا کر شکرانے کی نماز ادا کرو۔ کیونکہ آج یہ دن اللہ کی مدد کی وجہ سے ہی دیکھنا نصیب ہوا ہے۔ جائو، اللہ کا شکر بجا لائو۔
احمد جلدی جلدی تیار ہو کر مسجد کی جانب چل پڑا۔ مسجد میں پہلے سے بہت سارے افراد موجود تھے۔ تمام افراد ایک دوسرے سے گلے مل رہے تھے۔ احمد نے دیکھا کہ آج فضل صاحب اور اکرم صاحب دونوں ہی ہماری مسجد میں نماز پڑھ رہے ہیں۔ فضل صاحب خود کو دیو بندی کہا کرتے تھے لہٰذا اُن ہی کی مسجد میں نماز پڑھا کرتے تھے اور اکرم صاحب خود کو بریلوی کہا کرتے تھے لہٰذا بریلویوں کی مسجد میں نماز پڑھا کرتے تھے لیکن آج دونوں آپس میں گلے مل رہے تھے اور سابقہ غلطی پر ایک دوسرے سے معافی مانگ رہے تھے۔ احمد نے دیکھا تو اُسے تو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو نظریں گاڑھ کر اُن ہی دونوں کی طرف دیکھے جارہا تھا۔ پیچھے سے شوکت نے آکر اُسے اپنی طرف متوجہ کروالیا۔ شوکت، احمد سے مخاطب ہوتے ہوئے بولا۔ گلے نہیں ملو گے۔ کیوں نہیں، ضرور ملوں گا یہ کہہ کر احمد فوراً شوکت کے سپنے سے چمٹ گیا۔
نماز سے فارغ ہونے کے بعد احمد اور شوکت مسجد سے باہر نکلے اور بہت سے لوگوں سے ملنے کے بعد گھر کی جانب جانے لگے۔ شوکت نے کہا، احمد میں تو اپنی خالہ کے گھر جائوں گا۔ تم گھر چلے جائو۔ میں رکشہ تلاش کرتا ہوں۔ احمد نے کہا، دونوں مل کر ہی رکشہ تلاش کرلیتے ہیں۔ جب رکشہ مل جائے گا تو میں گھر چلا جائوں گا۔ رکشہ نظر آیا تو احمد نے آواز لگائی رکشہ… رکشہ۔ فوراً رکشہ رُک گیا اور شوکت نے بڑھ کر کہا، کلفٹن جائیں گے۔ رکشہ والے نے کہا ہاں! ہاں! کیوں نہیں جائوں گا۔ رکشہ سڑک پر اس لیے تو نکالا ہے کہ سواریوں کو اُن کی منزل تک پہنچائوں۔ شوکت نے کہا کرایہ تو میٹر کے مطابق ہی لیں گے نا؟ رکشہ ڈرائیور نے جواب دیا ’’نہیں‘‘۔ شوکت نے کہا، کیوں؟ تو رکشہ ڈرائیور نے جواب دیا، بیٹا ایک عرصے تک تو بددیانتی کی ایک عرصے تک میٹر میں ہیر پھیر کی لیکن آج اللہ نے ہمیں اسلام پر چلنے کی توفیق بخشی ہے۔ آج اسلامی انقلاب کا پہلا دن ہے، اس لیے آج میں نے فیصلہ کیا ہے کہ آج کے دن کسی سے کوئی کرایہ نہیں لوں گا۔ آپ رکشہ پر بیٹھیے۔ اور شوکت اپنے دوست کو خدا حافظ کہہ کر رکشہ پر بیٹھ گیا۔
احمد، شوکت کو رُخصت کرکے گھر جارہا تھا کہ گھر کے قریب ہوٹل میں اُسے حشمت نظر آیا۔ حشمت، احمد کے والد کا قاتل تھا۔ احمد کے والد کا جرم یہ تھا کہ وہ اسلامی قانون کو اس سرزمین میں نافذ کرنے کی کوشش کررہے تھے اور اپنا سب کچھ اس راستے میں لگادیا تھا۔ حشمت، غیر مسلموں کا ایجنٹ تھا۔ لہٰذا اُس نے احمد کے والد کو اپنے لیے کانٹا تصور کیا اور انہیں قتل کر ڈالا۔ احمد نے جب حشمت کو دیکھا تو اُس کا خون کھول گیا۔ اُس نے کہا کہ آج تو میرا دن ہے آج تو حشمت کی بدمعاشی ختم ہوگئی ہے لہٰذا آج اُس سے بدلہ لیا جاسکتا ہے۔
احمد بھاگتا ہوا ہانپتے کانپتے گھر پہنچا اور کچھ تلاش کرنے لگا۔ اُس کی امی نے دیکھا تو پوچھا، بیٹا! کیا تلاش کررہے ہو۔ احمد کہنے لگا امی، آج میں اپنے ابو کے قاتل سے بدلہ لوں گا آج میں حشمت کو مار ڈالوں گا اسی لیے میں ہتھیار تلاش کررہا ہوں۔ احمد کی امی نے چلا کر کہا، احمد! رُکو، تم اپنے ابو کے قاتل کو کیوں مارنا چاہتے ہو اب تو اسلام کا غلبہ ہوچکا ہے۔ مسلمان جب غالبب ہوتے ہیں تو قصور وار کو معاف کردیا کرتے ہیں۔ اسلام نے ہمیں اسی کی تعلیم دی ہے۔ بیٹا! حضور صلی اللہ علیہ وسلم ن بھی فتح مکہ کے بعد یہی کیا تھا کہ تمام غیر مسلموں کو معاف کردیا تھا جنہوں نے آپؐ کو اذیتیں دی تھیں، یہاں تک کہ حضرت فاطمہؓ کے قاتل کو بھی معاف کردیا تھا۔ بیٹا، تم بھی حشمت کو معاف کردو۔ ہوسکتا ہے وہ راہِ راست پر آجائے۔ احمد کے دل پر اُس کی والدہ کی باتیں اثر کر گئیں اور اُس نے حشمت کو معاف کرنے کا فیصلہ کیا۔ اچھا بیٹا اب ایسا کرو بازار سے سودا سلف لے آئو۔ احمد اپنی امی کا حکم سنتے ہی بازار کی جانب چل دیا۔ لیکن آج بازار کی صورت حال بھی عجیب تھی۔ آج خواتین بازار میں بہت کم تھیں اور جو تھیں انہوں نے بھی پردہ کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ ملاوٹ سے پاک سامان بازار میں دستیاب تھا، قیمت بھی مناسب تھی، لوگ اطمینان سے قطار میں کھڑے ہو کر سامان خرید رہے تھے، کوئی افراتفری نہیں تھی، لوگ سکون کے ساتھ خریدوفروخت کررہے تھے۔ احمد کو یہ تبدیلی بہت پسند آئی۔ ہر جانب امن و سکون تھا، فحاشی اور عریانی کے اڈے ختم ہوچکے تھے، اب تمام لوگ ایک دوسرے کے خیر خواہ تھے ایک دوسرے کے غمخوار تھے۔
احمد، اسکول کا وقت ہورہا ہے۔ جلدی اُٹھو، کیا اسکول نہیں جانا؟ احمد اپنی امی کی آواز پر فوراً کھڑا ہوا۔ لیکن وہ یہ سوچنے لگا کہ کیا یہ سب کچھ خواب تھا۔ کیا ابھی وہ سورج طلوع نہیں ہوا جس سے برائیوں کے اس اندھیرے دور کا خاتمہ ہو اور ہر طرف نیکی کی روشنی پھیلے۔ احمد، جلدی کرو، کیا سوچنے لگ گئے، احمد کی امی نے باورچی خانے سے ہی آواز لگائی۔ امی کیا یہ سب کچھ محض خواب تھا، احمد نے کہا کس کی بات کررہے ہو بیٹا، احمد کی والدہ نے پوچھا۔ احمد نے جواب دیتے ہوئے کہا، امی میں نے خواب میں دیکھا کہ ہمارا معاشرہ تبدیل ہوچکا ہے، ظلم و استحصال ختم ہوچکا ہے، ہر طرف لوگ نیک کام کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں، کیا ابھی وہ دن نہیں آیا۔
نہیں، بیٹا! تم نے تو خواب میں یہ سب کچھ دیکھا ہے حقیقت میں ابھی ایسا نہیں ہوا ہے۔ لیکن امی، میں تو اسلام کی سربلندی کے لیے بہت دعائیں کرتا ہوں پھر بھی وہ دن نہیں آیا۔ امی نے جواب دیا احمد میاں! محض دعائوں سے کبھی معاشرہ تبدیل نہیں ہوا کرتا صرف دعائوں سے اسلامی انقلاب نہیں آیا کرتا اس کے لیے مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہے اس کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردینے کی ضرورت ہے، اپنی زندگی کا مقصد اسی کام کو بنالینا ہے تب جا کر معاشرہ تبدیل ہوتا ہے، تب اسلامی انقلاب برپا ہوتا ہے۔
یہ سن کر احمد نے کہا، امی! میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں آج سے معاشرہ کو تبدیل کرنے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردوں گا۔ میں اسلام کی سربلندی کے لیے مسلسل جدوجہد کروں گا احمد کی امی احمد کی یہ بات سن کر کہتی ہیں کہ کاش یہی جذبہ تمام نوجوانوں میں پیدا ہوجائے تو وہ سورج ضرور طلوع ہوگا جو اسلام کی سربلندی کی خوشخبری لائے گا وہ صبح یقینا آئے گی جو برائیوں کے خاتمے کا پیغام لائے گی۔ ان شاء اللہ
nn

حصہ