میں رب نوں مناواں

213

اسے کسی پل چین نہیں آ رہا تھا، کبھی اوپر کبھی نیچے، کبھی دائیں کبھی بائیں۔ اسے انتظار تھا کسی کا! اس نے سوچ لیا تھا کہ اِس دفعہ تو بس ’’وہ‘‘ آ گیا تو منائے بغیر ہرگز نہیں جانے دوں گی، لیکن اس کی خبر تو آئے… ہر دفعہ وہ آتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ اس کی خاطر کرنے کی، اس کو وقت دینے کی فرصت ہی نہیں ملتی۔ گھر والوں کے چونچلے ختم ہوں تو میں اس کے صدقے واری جاؤں۔ ہر دفعہ یہی سوچتی ہوں اور ہر دفعہ ہاتھ ملتی رہ جاتی ہوں… بس اِس دفعہ تو سوچ لیا ہے کہ روؤں گی، گڑگڑائوں گی لیکن منائے بغیر جانے نہ دوں گی۔
ہر دفعہ آتا ہے تو جھولیاں بھر بھر کے سب کو دے کر جاتا ہے۔ میں نصیبوں جلی ہر دفعہ خالی ہاتھ ہی رہ جاتی ہوں۔ بس اب کی دفعہ نہیں، سوچ لیا ہے اس کا حق پہلے ادا کروں گی پھر سوچوں گی باقی سب کا۔ وہ تو میرا ایک آنسو برداشت نہیں کرسکتا۔ ایک آنسو ٹپکا اور اس نے مجھے معاف کیا۔ بس اس بار تو رو رو کر دریا بہا دوں گی، کہہ دوں گی جب تک تُو معاف نہیں کرے گا، قدموں میں پڑی رہوں گی، سر نہ اٹھاؤں گی۔ مجھے پتا ہے وہ مجھے سب زیادہ چاہتا ہے۔ وہ تو میرے سب سے قریب، سب سے عزیز ہے… لیکن اس کی کوئی خبر تو آئے۔ دل بے چین ہے، اب تو صبر نہیں ہورہا، چھت پر جاکر دیکھوں تو سہی،کہیں کوئی آس کا جگنو…
ارے باہر سے پٹاخے، پھلجھڑیاں،انار پھوٹ رہے ہیں۔ یقینا وہ آگیا۔ میری نجات، میری مغفرت، میری معافی کا پیغام آ پہنچا… رمضان کا چاند نظر آگیا۔ اِس دفعہ تو اس سے ساری رحمتیں سمیٹ لوں گی، رل مل جاؤں گی لیکن رب کو منائے بغیر نہ مانوں گی۔ ہر دفعہ یہی سوچتی رہ جاتی ہوں کہ اگلے سال ڈھنگ سے عبادت کرلوں گی۔ پورا مہینہ گھر والوں کے چونچلے اٹھانے میں ہی گزر جاتا ہے اور آ خری عشرے میں تو سب کو دعوتیں اور افطاریاں یاد آجاتی ہیں۔ جاگنے والی رات ہوتی ہے تو بچی کھچی خریداری نمٹائی جاتی ہے۔ ہائے میرے ربّا! میں کیا کروں، کیسے ان بکھیڑوں کو سمیٹوں؟ لیکن بس، میں نے سوچ لیا ہے کہ اب اور نہیں… جس کو برا لگتا ہے لگے، میں اِس بار ہارنے والی نہیں۔ میں نے شیطان کو اِس بار ہرانا ہی ہرانا ہے۔ سب سے بڑھ کر ہمارا نفس جو ہمیں خواہشات میں جکڑے ہوئے ہے، اس بے لگام کو لگام ڈالنی ہے۔ اس نے ہمیں بڑا خوار کروایا ہے۔ نفس کی پورا سال غلامی کرتے کرتے ہم اتنے عادی ہوگئے ہیں کہ اب اس غلامی سے نکلنا بڑا کٹھن اور دشوار گزار مرحلہ ہے۔ لیکن اس دشوار گزار مرحلے کو طے تو کرنا ہے۔ اس پہاڑ کو سر تو کرنا ہے۔ اپنے نفس کی خواہشات کو شیطان کا بہکاوا کہہ کر ہم اپنے آپ کو بہلا لیتے ہیں کہ شیطان کا تو کام ہی بہکانا ہے، اس نے تو آدم و حوّا کو بھی بہکا دیا تھا، تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں!
تو چلیں اِس دفعہ اسفل السافلین نہ بنیں، اشرف المخلوقات بن کر دکھا دیں۔ دل کی ہر خواہش کو رب کی خواہش کے مطابق ڈھال لیں، رب کی مرضی کو اپنی مرضی بنالیں۔

حصہ