منتخب غزلیں

293

شفاخانہ حجاز/علامہ اقبال
اک پيشوائے قوم نے اقبال سے کہا
کھلنے کو جدہ ميں ہے شفاخانہ حجاز
ہوتا ہے تيري خاک کا ہر ذرہ بے قرار
سنتا ہے تو کسي سے جو افسانہ حجاز
دست جنوں کو اپنے بڑھا جيب کي طرف
مشہور تو جہاں ميں ہے ديوانہ حجاز
دارالشفا حوالي لبطحا ميں چاہيے
نبض مريض پنجہ عيسيٰ ميں چاہيے
ميں نے کہا کہ موت کے پردے ميں ہے حيات
پوشيدہ جس طرح ہو حقيقت مجاز ميں
تلخابہ اجل ميں جو عاشق کو مل گيا
پايا نہ خضر نے مے عمر دراز ميں
اوروں کو ديں حضور! يہ پيغام زندگي
ميں موت ڈھونڈتا ہوں زمين حجاز ميں
آئے ہيں آپ لے کے شفا کا پيام کيا
رکھتے ہيں اہل درد مسيحا سے کام کيا!
٭٭٭
سلیم احمد
دکھ دے یا رسوائی دے
غم کو مرے گہرائی دے
اپنے لمس کو زندہ کر
ہاتھوں کو بینائی دے
مجھ سے کوئی ایسی بات
بن بولے جو سنائی دے
جتنا آنکھ سے کم دیکھوں
اتنی دور دکھائی دے
اس شدت سے ظاہر ہو
اندھوں کو بھی سجھائی دے
افق افق گھر آنگن ہے
آنگن پار رسائی دے
٭٭٭
احمد جاوید
کوئی جل میں خوش ہے کوئی جال میں
مست ہیں سب اپنے اپنے حال میں
جادۂ شمشیر ہو یا فرشِ گل
فرق کب آیا ہماری چال میں
ایک آنسو سے کمی آ جائے گی
غالباً دریائوں کے اقبال میں
شعلۂ صد رنگ کی سی کیفیت
تجھ میں ہے یا تیرے خذ و خال میں
ایک لمحہ میرا یار غار ہے
اس مصیبت گاہِ ماہ و سال میں
یہ جو میرے جی کو چین نہیں آتا نہیں
ہند میں، ایران میں، بنگال میں
روز کا رونا لگا ہے اپنے ساتھ
ہم نے آنکھیں باندھ لیں رومال میں
دیدہ و دل نے کیا ہے کام بند
ٹھپ ہے کاروبار اس ہڑتال میں
اس نگاہِ ناز کی ایک ایک بات
ہے ہمارے پیر کے اقوال میں
دل پہ سایہ ہے کسی سلطان کا
ورنہ کیا رکھا ہے اس کنگال میں
٭٭٭
محمد خالد
ہے سفر میں کاروان بحر و بر کس کے لیے
ہو رہا ہے اہتمام خشک و تر کس کے لیے
کس کی خاطر ذائقوں کی سختیوں میں ہیں ثمر
اور جھک جاتی ہے شاخ بارور کس کے لیے
کس کی خاطر ہیں بدلتے موسموں کی بارشیں
دل غمیں کس کے لیے ہے چشم تر کس کے لیے
رت جگوں میں گونجنے والی صدائیں کس کی ہیں
ہے ہنر کس کے لیے عرض ہنر کس کے لیے
کس نے زخم نارسی سے بھر دیے ہیں راستے
چارہ سازی کس لیے ہے چارہ گر کس کے لیے
لا مکاں میں کون رہتا ہے مکاں میں کیا نہیں
دشت ہیں کس کے لیے دیوار و در کس کے لیے
کس نے رکھی ہیں ہر اک منظر میں رنگیں ساعتیں
خلق فرمائے گئے ہیں بے بصر کس کے لیے
کون سنتا ہے ہواؤں کی عجب سرگوشیاں
اور جاتی ہیں ہوائیں در بدر کس کے لیے
٭٭٭
نعت شریف
شاعر: ڈاکٹر سید محبوب شاہ (پی ایچ ڈی)
مدینے کا سفر ہے اور میں ہوں
کرم ان کا نگر ہے اور میں ہوں
کروں تعریف کیا اس سرزمیں کی
زمیں رشکِ قمر ہے اور میں ہوں
جہاں کا زرہ زرہ نور کا ہے
ہوا بادِ سحر ہے اور میں ہوں
فضا بھی رشکِ فردوسِ بریں ہے
یہ وہ رنگِ جہاں ہے اور میں ہوں
مدینے جائوں تو واپس نہ آئوں
یہ وہ عزم سفر ہے اور میں ہوں
ہر اک شاداں ہراک فرحاں جہاں ہے
مدینہ وہ نگر ہے اور میں ہوں
ارے لوگو میری قسمت تو دیکھو
نبی کا سنگ در ہے اور میں ہوں
٭٭٭

فانی بدایونی
کتنوں کو جگر کا زخم سیتے دیکھا
دیکھا جسے خون دل ہی پیتے دیکھا
اب تک روتے تھے مرنے والوں کو اور اب
ہم رو دیے جب کسی کو جیتے دیکھا
٭٭٭
صوفی تبسم
خاموشی کا راز کھولنا بھی سیکھو
آنکھوں کی زباں سے بولنا بھی سیکھو
لب کیسے کہیں گے دل کی ساری باتیں
نظروں سے نظر ٹٹولنا بھی سیکھو
٭٭٭

کشتیاں سب کی کنارے پہ پہنچ جاتی ہیں
ناخدا جن کا نہیں ان کا خدا ہوتا ہے
امیر مینائی
٭٭٭
عاشقی سے ملے گا اے زاہد
بندگی سے خدا نہیں ملتا
داغؔ دہلوی
٭٭٭
بس جان گیا میں تری پہچان یہی ہے
تو دل میں تو آتا ہے سمجھ میں نہیں آتا
جون ایلیا

٭٭٭
مجھ کو خواہش ہی ڈھونڈنے کی نہ تھی
مجھ میں کھویا رہا خدا میرا
جون ایلیا
٭٭٭

گناہ گن کے میں کیوں اپنے دل کو چھوٹا کروں
سنا ہے تیرے کرم کا کوئی حساب نہیں
یگانہ چنگیزی
٭٭٭
جو چاہئے سو مانگیے اللہ سے امیرؔ
اس در پہ آبرو نہیں جاتی سوال سے
امیر مینائی
٭٭٭

نہ جانے باہر بھی کتنے آسیب منتظر ہوں
ابھی میں اندر کے آدمی سے ڈرا ہوا ہوں
آنس معین
٭٭٭
گاہے گاہے کی ملاقات ہی اچھی ہے امیرؔ
قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا
امیر مینائی
٭٭٭
کیسے کہہ دوں کہ ملاقات نہیں ہوتی ہے
روز ملتے ہیں مگر بات نہیں ہوتی ہے
شکیل بدایونی
nn
بھیڑ تنہائیوں کا میلا ہے
آدمی آدمی اکیلا ہے
صبا اکبرآبادی
٭٭٭
جانے والے سے ملاقات نہ ہونے پائی
دل کی دل میں ہی رہی بات نہ ہونے پائی
شکیل بدایونی
٭٭٭
مل رہی ہو بڑے تپاک کے ساتھ
مجھ کو یکسر بھلا چکی ہو کیا
جون ایلیا
٭٭٭
فرازؔ ترک تعلق تو خیر کیا ہوگا
یہی بہت ہے کہ کم کم ملا کرو اس سے
احمد فراز
٭٭٭
نقشہ اٹھا کے کوئی نیا شہر ڈھونڈیئے
اس شہر میں تو سب سے ملاقات ہو گئی
ندا فاضلی
٭٭٭
آج تو مل کے بھی جیسے نہ ملے ہوں تجھ سے
چونک اٹھتے تھے کبھی تیری ملاقات سے ہم
جاں نثاراختر
٭٭٭

٭٭٭
اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں
فیضان محبت عام سہی عرفان محبت عام نہیں
محمد خالد
٭٭٭

جگر مراد آبادی
اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں
فیضان محبت عام سہی عرفان محبت عام نہیں
یہ تو نے کہا کیا اے ناداں فیاضی قدرت عام نہیں
تو فکر و نظر تو پیدا کر کیا چیز ہے جو انعام نہیں
یارب یہ مقام عشق ہے کیا گو دیدہ و دل ناکام نہیں
تسکین ہے اور تسکین نہیں آرام ہے اور آرام نہیں
کیوں مست شراب عیش و طرب تکلیف توجہ فرمائیں
آواز شکست دل ہی تو ہے آواز شکست جام نہیں
آنا ہے جو بزم جاناں میں پندار خودی کو توڑ کے آ
اے ہوش و خرد کے دیوانے یاں ہوش و خرد کا کام نہیں
زاہد نے کچھ اس انداز سے پی ساقی کی نگاہیں پڑنے لگیں
مے کش یہی اب تک سمجھے تھے شائستہ دور جام نہیں
عشق اور گوارا خود کر لے بے شرط شکست فاش اپنی
دل کی بھی کچھ ان کے سازش ہے تنہا یہ نظر کا کام نہیں
سب جس کو اسیری کہتے ہیں وہ تو ہے امیری ہی لیکن
وہ کون سی آزادی ہے یہاں جو آپ خود اپنا دام نہیں
٭٭٭

حصہ