آل احمد سرورکا انٹریو

369

آل احمد سرور‘ نقادوں کی اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جس نے ادب اور زندگی کے تعلق کو واضح کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ وہ صاحبِ طرز ادیب ہیں۔ عموماً تاثراتی تنقید لکھتے ہیں اور تنقید میں شاعرانہ زبان کے استعمال کو کوئی مضائقہ تصور نہیں کرتے۔ غالب اور اقبال فہمی کے سلسلے میں ان کا کمال یہ ہے کہ اردو کے ان دو عظیم شعرا کے کلام کے مختلف پہلوئوں پر انہوں نے مسلسل لکھا اور ایک ایسی فضا پیدا کی جس میں ان کے شاعرانہ محاسن کی تفہیم آسان ہو گئی۔ یہ الگ بات کہ ہمارے محبوب نقاد محمد حسن عسکری نے جو اپنی پسند و ناپسند کے معاملے میں انتہائی شدید اور مائل بہ انتہا پسندی تھے‘ آل احمد سرور کی بابت اپنی تحریروں میں دو ایک مقامات پر ایسے تبصرے کیے اور ایسی پبھتی کسی ہے جسے محتاط لفظوں میں بھی توہین آمیز کہا جاسکتا ہے۔ عسکری صاحب کی متصوفانہ دین داری اور یہ دل آزارانہ پھبتیاں‘ دونوں کو یک جا کیا جائے تو کسی ایک کاہی اعتبار کیا جاسکتا ہے۔
دسمبر 1983ء میں آل احمد سرور پاکستان آئے‘ ان کی کتابیں اور مضامین کچھ نہ کچھ میری نظر سے گزر چکے تھے‘ ان کا نام یہاں کے ادبی حلقوں میں نہایت احترام سے لیتے میں نے دیکھا لہٰذا ملاقات سے پہلے ہی ان کی تجّر علمی کا دبدبہ میرے ذہن پر چھایا ہوا تھا۔ گلشن اقبال میں وہ اپنی کسی عزیزہ کے ہاں مقیم تھے‘ ٹیلی فون پر ملنے کا وقت طے کرکے پہنچا تو وہ آسمان ی رنگت سوٹ اور ٹائی میں گہرے شیشوںکی عینک جس کے عقب سے ان کی سوچ میں ڈوبی چھوٹی چھوٹی متجسس نگاہیں جھانکتی تھیں‘ نہایت خلیق‘ ملنسار اور متواضح بہت محبت سے ملے۔ گفتگو شروع ہوئی تو مختلف علمی‘ تہذیبی و تمدنی موضوعات و مباحث پر ان کے خیالات کو الجھائو سے پاک اور بہت واضح انداز میں انہیں سوچتے اور وضاحت خیال کے ساتھ اپنی بات کہتے ہوئے پایا۔ یہی وجہ ہوئی کہ گفتگو کا سرا دراز ہوتا گیا۔ تقریباً دو گھنٹے کی طویل بات چیت کے بعد جس میں انہوں نے ہر سوال کا تسلی بخش جواب دیا‘ میں مطمئن و مسرور لوٹا۔ خوش تھا کہ انٹرویو وہ جو انگریزی میں کہتے ہیں۔ Thought Provoking یعنی خیالات کو مہمیز کرنے والا ہو گیا تھا۔ مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘ جب ٹیپ ریکارڈ سے نقل کرنے بیٹھا تو ابتدائی گفتگو کے بعد سوائے کھڑکھڑاہٹ کے کچھ بھی سنائی نہ دیا۔ چوں کہ اطمینان تھا کہ ریکارڈنگ ہو رہی ہے لہٰذا متوجہ ہو کر حافظے کو استعمال ہی میں نہ لایا اور یوں سرور صاحب کے خیالات کا بیشتر نہایت قیمتی حصہ ضائع ہو گیا۔ اس کے باوجود زیر نظر گفتگو بھی اسلامی فکر پر طاری جمود‘ مغرب و مشرق کی باہم کشمکش‘ جدیدیت و قدامت پسندی کے مباحث پر سرور صاحب کے خیالات تازگی لیے‘ نئی منزلوں‘ نئی جہتوں کا پتا دیتے ہیں۔ بدقسمتی کہ پھر ان کی علمی صحبت نصیب نہ ہوئی لیکن 1998ء میں جب میں اپنی زندگی کے نہایت اذیت ناک دور سے گزرا اور ذہنی سکون اور یک سوئی کی تلاش میں غریب الدیار ہوا تو یہاں سے رخصت ہوتے ہوئے جو کتاب میرے ساتھ تھی اس کا عنوان تھا ’’خواب ابھی باقی ہیں۔‘‘
یہ آل احمد سرور صاحب کی خود نوشت تھی۔ میں تب کتاب کے مطالعے کے بھی قابل نہ تھا لیکن کتاب کو فقط اس کے حوصلہ دلانے والے عنوان کے سبب کتابوں کے بیچ میں سے اٹھا لیا تھا۔ خود نوشت کا عنوان مبارک پیش بینی تھی جو بعد میں سچ ہی نکلی کہ خواب مرے نہیں‘ میرے ساتھ زندہ رہے‘ جب کہ میں تو زندگی ہی سے مایوس ہوچکا تھا۔ اس تفصیل کی یوں تو ضرورت نہ تھی مگر نہ کروں بیان تو ناشکر گزاری کا مرتکب ہوں گا۔
آل احمد سرور نے اپنی ساری زندگی علم و ادب کو نذر گزاری اور 9 فروری 2002ء کو چادرِِ خاک اوڑھ لی۔
آل احمد سرور اگست 1911ء کو بدایوں کے ایک متوسط خاندان میں پیدا ہوئے۔ والد صاحب ڈاک خانے میں ملازم تھے۔ پانچ برس کی عمر میں رسمی تعلیم کا آغاز کیا۔ گھر کی فضا نیم ادبی تھی۔ بڑی بوڑھیاں کہانیاں سناتی تھیں۔ بیت بازی کا رواج عام تھا جس میں سارے اہل خانہ حصہ لیتے تھے۔ پانچویں جماعت میں ’’فسانہ آزاد‘ پڑھتے ہوئے پکڑ لیے گئے اور خوب پٹائی ہوئی مگر عادت سے باز نہیں آئے۔ والد صاحب کے زیر مطالعہ کتابیں چوری چھپے پڑھتے رہے۔ دس سال کی عمر میں ’’مراۃ العروس‘‘، توبتہ النصوح‘‘ اور ’’الف لیلہ‘‘ کا مطالعہ کر لیا تھا۔ میٹرک میں نمایاں کامیابی کےبعد سینٹ جان کالج میں فرسٹ ایئر سائنس میں داخلہ دلایا گیا۔ والدین کی خواہش تھی کہ لڑکا ڈاکٹر بنے‘ لیکن انہیں سائنس سے قطعی دلچسپی نہیں تھی۔ طبیعت پر جبر کرکے بی ایس سی کیا اور علی گڑھ میں انگریزی میں داخلہ لیا۔ کالج کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ یونین کے نائب صدر‘ میگزین کے ایڈیٹر بھی مقرر ہوئے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد اکتوبر 1934ء میں شعبہ انگریزی میں لیکچرر کی حیثیت سے تعینات کیے گئے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین کے مشورے پر 1936ء میں اردو میں ایم اے کیا‘ اسی سال اگست میں شادی ہوئی۔ 1945ء میں علی گڑھ میں پروفیسر اور صدر شعبہ اردو ہوئے۔ اگست 1960ء میں حکومت ہند نے انہیں بین الاقوامی مستشرقین کانگریس کے پچسویں اجلاس ماسکو کے لیے وفد کا ممبر نامزد کیا۔
تصنیفات:
-1 سلسبیل (مجموعہ کلام) 1935‘ -2تنقید کیا ہے؟ 1946‘ -3 تنقیدی اشارے 1953‘ -4 نئے اور پرانے چراغ 1953‘ -5 ادب اور نظریہ 1954‘ -6 ذوق و جنوں (مجموعہ کلام) 1955‘ -7 نظر و نظریہ 1973‘ -8 مسرت سے بصیرت تک 1974۔ 9-ہندوستان کدھر 1983ء
تالیفات:
-1 انتخابات جدید ‘ -2 تنقید کے بنیادی مسائل 1973‘ -3 عکس غالب 1973‘ -4 جدیدیت اور ادب 1979‘ -5 عرفان غالب۔
…٭…
طاہر مسعود: آپ نے پاکستان کے ادیبوں اور دانشوروں سے ملاقاتیں اور گفتگو کیں‘ جامعات اور علمی و ادبی انجمنوں کو بھی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا‘ لہٰذا میں اس حوالے سے پوچھنا چاہوں گا کہ یہاں کا موسم‘ ماحول اور لوگوں نے آپ کے ذہن پر کیا اثرات مرتب کیے؟
آل احمد سرور: میں نے یہاں چھ تقریریں کیں اور ان میں بالخصوص دو باتیں محسوس کیں ایک تو یہ کہ بعض شعرا اور ادیب تو ایسے تھے جو میرے ہر لیکچر میں شریک ہوئے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ انہیں زبان اور تہذیب کے مسائل سے دل چسپی تھی اور وہ چاہتے تھے کہ ان موضوعات پر تبادلہ خیال ہو۔ دوسرے صحافی‘ اساتذہ‘ طالب علم وغیرہ تھے‘ ان کے ذہنوں میں بھی اسی نوع کے سوالا ت تھے اور وہ چاہتے تھے کہ ان پر سیر حاصل گفتگو کے نتیجے میں مسائل کے حل کی راہ نکالی جائے۔ اس کے ساتھ ہی مجھے یہ بھی محسوس ہوا کہ ان لوگوں میں ایک طرح کی بے اطمینانی سی بھی ہے‘ مجھے یہ دیکھ خوشی ہوئی کہ لوگ یہاں اچھی زندگی گزار رہے ہیں اور عام زندگی میں خوش حالی بھی نظر آتی ہے‘ لیکن جیسا کہ میں نے اپنی پریس کلب کی تقریر میں کہا تھا کہ مجھے ایک خطرہ محسوس ہو رہا ہے کہ مادّی خوش حالی کا سلسلہ جس طرح سے آگے بڑھ رہا ہے اور مغرب سے بعض ایسی قدریں آرہی ہیں جن کی وجہ سے ہماری جو نئی مشرقیت ہے اور جس میں لوگوں کو اپنی ذہنی‘ روحانی اور اخلاقی قدروں کا حساس اور ساتھ ہی نئی دنیا میں اپنا راستہ بنانے کی خواہش ہے‘ اس میں کچھ خلل پڑنے کا بھی اندیشہ ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ صارفیت کا جو سلسلہ ہے اس کی کوئی حد نہیں ہے اور اس صارفیت سے جو ایک منصفانہ سماج بنانے کی کوششیں ہیںاس کو شاید خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ میرے ذہن میں اس مسئلے کا حل کی صورت یہ ہے کہ یہاں کے ادیب‘ صحافی اور معلم جنہیں دانش وری کا حق پہنچتا ہے‘ وہ سماج کی ذہنی قیادت کا فریضہ سرانجام دیں اور رائے عامہ کو بیدار کریں۔ اصل میں اس میں ہوتا یہ ہے کہ کوئی فرد چاہے وہ کتنی ہی صلاحیت کا مالک ہو‘ وہ اپنے طور پر صرف یہ کرسکتا ہے کہ تقریر کرے‘ کتاب لکھے یا زیادہ سے زیادہ اپنے حلقے میں اپنے خیالات پہنچا دے لیکن اگر ادیبوں کی انجمنیں‘ صحافیوں اور معلموں کی انجمنیں طاقت ور ہوں اور یہ صرف محدود معنوں میں اپنے حقوق کی نگہبانی نہ کریں بلکہ اس سے آگے جا کر اپنے سماجی فرائض کو بھی محسوس کریں۔ اس قسم کے اہل قلم کے ادارے ہوں جن میں نظریاتی بحثیں تو ہوتی رہیں لیکن اس میں سب لوگ شریک ہوں اور پھر اس میں مجموعی طور پر ادیبوں‘ معلموں اور صحافیوں کی آوازیں ہوں‘ جب یہ ساری آوازیں جمع ہوںگی تو ایک مجموعی آواز بنے گی اور جبھی ایک اچھے سماج کی تشکیل کی جانب قدم آگے بڑھے گا۔ دانش وری کا مطلب مسائل کا عقل کی روشنی میں جائزہ لینا ہے لیکن اس دانش وری میں محض عقل کا استعمال نہ ہو بلکہ اس میں پرسوز عقلیت شامل ہونی چاہیے جس کے پیچھے ایک نصب العین جو گرمی اور توانائی سے بھرپور ہو۔ ایک مثال لیجیے کہ ہم سب کا خیال ہے کہ پاک بھارت تعلقات کو بہتر ہونا چاہیے‘ سماجی انجمنوں کی قراردادوں کے ذریعے یہ بات عموماً کہی جاتی ہے لیکن یہ اگر ہمارے ایک مبسوط پروگرام کا جزو ہو تو یقینا تعلقات کی بہتری میں حائل وہ تمام شکوک و شبہات زائل ہو جائیں گے جو دونوں ممالک کے درمیان ہیں اور جن کی وجہ سے ان کی بہت سی توانائیاں فضول میں ضائع ہو جاتی ہیں۔ تیسری دنیا بڑی طاقت کی دست نگر ہے۔ ہمیں کسی طاقت سے چڑ نہیں ہے‘ ہمیں سب سے اچھے تعلقات رکھنے چاہئیں لیکن ہر ملک کا ذاتی و اجتماعی مفاد ہوتا ہے۔ اجتماعی مفاد یہ ہے کہ جنوب مشرقی ایشیا کو عالمی سیاست میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ہمیں نو آبادیاتی دور سے نکلے ہوئے زیادہ دیر نہیں ہوئی ہے۔ وقت کی رفتار تیز ہوگئی ہے۔ یہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے لیکن عام خوش حالی کے ساتھ ساتھ ہمیں جمالیاتی اور روحانی قدروںکی حفاظت کرنا ضروری ہے تاکہ تعیشات کے دست نگر سے محفوظ رہتے ہوئے ہم اپنی مشرقیت کو باقی رکھ سکیں۔
طاہر مسعود: آپ کے میں نے دو لیکچر سنے جس میں آپ نے اردو سے محبت رکھنے والوں اور بالخصوص مسلمانوںکو سائنس اور تحقیق و تفتیش کے جدید مآخذ سے استفادہ کرنے اور ٹیکنالوجی کے عہد کی ضروریات سے ہم آہنگ ہونے پر خصوصی طور پر زور دیا۔ اس حوالے سے میں آپ سے پوچھنا چاہوں گا کہ جدید علوم کو اختیار کرنے اور نئے زمانے کے ساتھ چلنے کی اوّلین تحریک سرسید احمد خان نے شروع کی تھی اور ان ہی کی تحریک کے نتیجے میں برصغیر کے مسلمانوں میں ایک ایسا طبقہ پیدا ہوا جو اس خیال‘ نظریے یا تحریک کا پرچارک رہا جب کہ ہمارے قدامت پسند علما نے اپنی مشرقیت کی بقا و استحکام کے لیے ابتدا ہی سے اس کی مخالفت کی۔ کیا آپ بتائیں گے کہ جدیدیت کی تحریک کی کامیابی کی راہ میں عملاً کون سی رکاوٹیں حائل رہی ہیں اور اس کے بنیادی مسائل کیا ہیں؟
آل احمد سرور: سرسید کی تحریک پہلو دار تحریک تھی۔ اس کا ایک پہلو یہ تھا کہ تہذیب کا نیا تصور پیدا کیا جائے جو فارغ البال طبقے کی جاگیر نہ ہو بلکہ ایسا نیا متوسط طبقہ پیدا کیا جائے جس کے اندر یہ شعور ہو کہ بعض رسوم و رواج مذہب کا حقیقی جزو نہیں ہیں۔ اس کی ایک اسپرٹ اور ایک روح ہے۔ اس کے بعض بنیادی پہلو ہیں جن کے اوپر حالات کے مطابق نئی تعمیریں ہو سکتی ہیں مگر ہوا یہ کہ جب انہوں نے مذہب کی تفسیر کی تو اس میں انیسویں صدی کی جو عقلیت پرستی تھی‘ اس کا دخل ذرا زیادہ تھا۔ آج ہم یہ سمجھ چکے ہیں کہ وہ عقلیت پرستی بھی محدود تھی تو اب ہمارے ہاں علما کو خطرہ پیدا ہوا کہ یہ جو عقلیت پرستی ہے‘ یہ نئی نسل کو نئے سماج کو مذہب سے بے گانہ کر دے گی اور واقعتاً یہ خطرہ موجود تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس نو آبادیاتی دور کی وجہ سے عقلیت پرستی کو سب کچھ سمجھ لیا گیا۔ اس لیے اب میں ’’پرسوز عقلیت‘‘ کی بات کرتا ہوں اس لیے میں صرف مغربیت کی بات نہیں کرتا بلکہ نئی مشرقیت کی بات کرتا ہوں۔ صرف سائنسی فکر پیدا کرنے پر زور نہیں دیتا بلکہ نئی مشرقیت کی روحانی قدروں کے امتزاج کے خیال پر اصرار کرتا ہوں۔ ہم نے سرسید کے مغربی تعلیم کے پہلو کو تو قبول کر لیا لیکن انہوں نے جو تفسیر لکھی تھی اسے بالکل نظر انداز کر دیا۔ اس کا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ ہم نے اقبال کو پاک بھارت میں اتنی عظمت دی ہے‘ ان کی عظمت و آفاقیت کا گن گایا ہے‘ ان کی فکر کی اسلامی بنیاد کو واضح کیا ہے لیکن ان کے لیکچرز کی اہمیت کو نظر انداز کر دیا جس میں انہوں نے دو‘ تین باتیں بڑی اہم کہی ہیں۔ انہوں نے پہلی بات یہ کہی تھی کہ یہ ضروری ہے کہ مذہب کو سائنس کی زبان میں سمجھا جائے۔ دوسرے یہ کہ نئی نسل کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ بنیادی حقائق کو اپنے طور پر سمجھے اور تیسرے یہ کہ اجتہاد کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہنا چاہیے۔ ہوا یہ کہ سرسید کے اثر سے جو عقلیت اور جو میلان پیدا ہو رہا تھا اس سے ہمارے علما کو خطرہ پیدا ہوا۔ علما کے سامنے مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہم اجتہاد کا دروازہ کھول دیں گے تو نت نئے فتنے دین میں داخل ہو جائیں گے اور پھر ہماری بنیادیں متزلزل ہو جائیں گی۔ یہ خطرہ ہے اور خطرہ ہر نئی چیز میں ہوتا ہے۔
طاہر مسعود: کیا ان علما میں علامہ شبلی نعمانی بھی شامل تھے؟
آل احمد سرور: جی نہیں‘ شبلی کا معاملہ یہ نہیں ہے۔ شبلی اور دیگر علما میں فرق بھی تھا۔ ان کا خیال یہ تھا کہ حالاتِ زمانہ سے باخبر علما پیدا کیے جائیں مگر شبلی کی علما کے گروہ میں مخالفت ہوئی‘ معمولی سے مثال یہ ہے کہ وہ ندوے کے نصاب میں انگریزی شامل کرنا چاہتے تھے جسے سخت ناپسند کیا گیا‘ کیوں کہ وہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ نئی زبان کے ذریعے جو نئے خیالات معاشرے میں در آئیں گے اس سے ان کے قلعے کے منہدم ہونے کا خدشہ ہے۔ (جاری ہے)

میں یہ کہتا ہوں کہ نئے خوف سے آزاد ہونا چاہیے۔ اس ضمن میں اقبال کا قول یاد رکھنا چاہیے کہ علما کی ڈکٹیٹر شپ نہیں ہونی چاہیے۔ علما کی شرکت ہونی چاہیے‘ ان کا مشورعہ ہونا چاہیے۔ میرا مطلب کہنے کا یہ ہے کہ ہمارا ذہن سہل پسند ہے اور ہم خانوں میں چیزوں کو بانٹتے ہیں اس وجہ سے اقبال کے لیکچرز کا اثر قریب قریب نہ ہونے کے برابر ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ جہاں ان کی شاعری اور پیغام کی اہمیت کو تسلیم کیا جارہا ہے‘ وہ خیالات جو انہوں نے پیش کیے ہیں‘ اس پر غور ہونا چاہیے۔ اقبال نے بہت پتے کی بات یہ کہی کہ اسلام میں جو حرکت کا تصور ہے اس کو نظرانداز کرنے کی وجہ سے پانچ سو سال سے اسلامی دنیا میں جمود طاری ہے۔
اگر ہم اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں پتا چلے گا کہ جب کبھی کوئی مسئلہ پیدا ہوا ہے تو اسلام کے باطن سے تحریکیں ابھری ہیں۔ اصلاحی تحریکیں بھی ابھی ہیں اور تجدید کی تحریکیں بھی۔ اسی طریقے سے ایسی تحریکیں بھی ابھری ہیں کہ پھر سے قرون اولیٰ کے اسلام کو پیش کیا گیا۔ ان تمام چیزوں کا مجموعی تصور یہ ہے کہ ہمیں نئچے کو دیکھنے‘ سمجھنے اور اسے قبول کرنے میں پس و پیش نہیں کرنا چاہیے اس لیے کہ اب ماڈرینیٹی سے مفر نہیں ہے۔ قانون قدرت یہی ہے کہ زندگی اسی طریقے سے آگے بڑھے۔ مشیت ایزدی یہی ہے اب ہمیں اس میں اپنا راستہ بنانا ہے‘ اسی لیے میں صارفین کے خطرے کو اہمیت دیتا ہوں۔ مادہ پرستی‘ ہوس زر اور ہوس اقتدار کے خطرے سے آگاہی پر زور دیتا ہوں اور اسی لیے میں ادب کو بھی اہمیت دیتا ہوں کیوں کہ ادب کے ذریعے زندگی کی اچھی قدروں کا شعور عام کیا جاسکتا ہے اسی لیے میں حریت فکر کو بھی ضروری تصور کرتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ جس طرح اثبات کی آزادی حاصل ہے اسی طرح انکار کی آزادی بھی ملنی چاہیے۔ سماج میں Descent کی آزادی ہونی چاہیے لیکن Descent صرف Descent کی خاطر نہیں ہونی چاہیے۔ میں نے ایک دفعہ کہا تھا:
آج جب ہر بات پر ہاں کہنے والے ہیں بہت
یہ مرے انکار کی کافر روش بھی کم نہیں
میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ایک لبرل سماج کو فروغ دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔
طاہر مسعود: سائنس اور ٹیکنالوجی کی اہمیت پر آپ کا اصرار بجا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی اپنے ساتھ صرف مشینیں لے کر نہیں بلکہ اپنا نظام اقدار‘ نظام افکار بھی ساتھ لے کر آتی ہیں اور یہ نظام اقدار ہمارے مروجہ دینی و مذہبی نظام اقدار سے براہِ راست متصادم ہوتی ہیں۔ ان حالات میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ وہ کون سی صورت اختیار کی جائے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کو اس کے مادّی اقدار سے کاٹ دیں اور اسے اپنے دینی نظام اقدار سے وابستہ کر دیں؟
آل احمد سرور: میرا خیال ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا نظام اقدار ہمارے دینی نظام اقدار سے متصادم نہیں۔ دیکھیے! مذہب کے تین پہلو ہیں‘ ایک ہے عقیدہ۔ اسلام میں عقیدہ ہے کہ خدا نے یہ کائنات پیدا کی ہے۔ قرآن میں خدا کو سارے عالم کا رب کہا گیا ہے‘ اسے صرف مسلمانوں کا رب نہیں کہا گیا ہے۔ ہمارا فرض یہ ہے کہ اس خدائی کو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت اور انؐ کی سیرت کی مدد سے سمجھیں۔ اقبال نے بڑے پتے کی بات کہی تھی کہ ختم نبوت کا جو عقیدہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اب وحی کی ضرورت نہیں ہے‘ اب انسان آزاد ہے کہ اپنی فکر کی مدد سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کی روشنی میں اپنی سیرت کی تشکیل کرے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ جب آپ سائنس اور ٹیکنالوجی کو دیکھتے ہیں تو وہ محض ایک عمل نہیں ہے بلکہ یہ ایک ذہنیت کا نام ہے۔ عقیدے کے سلسلے میں سائنس کی جو کیفیت انیسویں صدی میں تھی‘ اس میں اور آج کی سائنس میں بہت بنیادی فرق ہے۔ پہلے کی سائنس میں ایک رعونت تھی اور وہ کہتی تھی کہ یہ چیز صحیح ہے اور یہ چیز غلط ہے۔ اب وہ کہتی ہے کہ ہمارا دائرۂ کار ہے‘ ہم اسی دائرے میں رہتے ہوئے حقائق سے علم حاصل کرتے رہیں‘ لیکن جو چیز ہمارے دائرۂ کار سے باہر ہے۔ اس کے بارے میں ہمارا حکم کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اس اعتبار سے سائنس اور روحانیت کا ملاپ آج کے دور میں ممکن ہے۔ مذہب کی دوسری چیز عبادات ہیں۔ اسلام کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ اس نے ترکِ دنیا کی تعلیم نہیں دی بلکہ یہ کہا کہ دنیا میں رہ کر صرف دنیا کے اسیر نہ ہو‘ دنیا میں جو عمل ہو وہ اس لیے ہو کہ آخرت سنور جائے اقبال کی نظم ’’روح ارضی‘‘ میں کہا گیا ہے کہ آدم کا دنیا میں آنا سزا نہیں ہے بلکہ یہ ایک نئی زندگی کا پیغام ہے۔ وہ جو عقل سے پہلے کی معصومیت تھی‘ وہ بہشت کی تھی‘ اب علم کادور ہے اس کے ساتھ مسائل اور الجھنیں بھی ہیں‘ امتحان بھی ہوگا‘ کش مکش بھی ہوگی‘ لیکن بہکیں گے بھی‘ اس طرح یہ دنیا اور اسی عمل کی جزا و سزا کا نام ہے۔ عبادات ہمارے عقیدے کے استحکام کے لیے ہیں۔ دوسرے اس کے اجتماعی فوائد بھی ہیں۔ مذہب کا تیسرا پہلو معاملات کا ہے۔ میرے خیال میں مذہب کا وہ حقیقی تصور نہیں ہے جس میں عقیدے اور عبادات کا معاملہ تو ہے لیکن معاملات کا تصور سرے سے غائب ہے۔ میںمذہبیات کے سلسلے میں عالم ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا لیکن میں جتنا کچھ علم اس بارے میں رکھتا ہوں اس کی بنا پر میں کہنے پر مجبور ہوں کہ معاملات کے سلسلے میں آخر یہ کیا بات ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ نماز پڑھیے‘ روزہ رکھیے‘ حج کیجیے لیکن رشوت بھی لیجے‘ اپنے سماج کے حقوق غصب کیجیے‘ اپنی جنت تو پکی کیجیے لیکن سماج کو جہنم بنا دیجیے۔ یہ مذہب کا حقیق تصور نہیں ہے۔ آپ قرون اولیٰ کا دور دیکھیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ارشادات دیکھیے۔ آپ کو معاملات کی اور بھی روشن مثالیں مل جائیں گی۔ میں علما کی نیت پر حملہ نہیں کرتا‘ لیکن انہیںچ ہمیشہ یہ خطرہ محسوس ہوا کہ اگر اجتہاد کی اجازت دیں گے فتنوں کا دروازہ کھل جائے گا۔ میں یہ عرض کرتا ہوں کہ ان مسائل پر سوچنے کا حق تو ہر شخص کو حاصل ہے لیکن فیصلے کے سلسلے میں اظہار رائے کا حق علما دانش ور‘ معلمین‘ منتخب نمائندے سب کو ہونا چاہیے۔ علما کے پاس بہت کچھ ہے لیکن ان کے پاس جدید ذہن نہیں ہے۔ جدید مسائل کا ادراک اور علم نہیں ہے۔ ہر معاملے میں علما کا مشورہ حاصل ہونا چاہیے لیکن ان کی آمریت کو میں تسلیم نہیں کرتا۔ میں نے ایک بار کہا بھی تھا کہ ہماری قدیم درس گاہیں ہیں ان کی بڑی اہمیت ہے لیکن ان کا ذہن ایک خاص دائرے کے اندر محدود ہوتا ہے۔ ان کے اندر حریت فکر کی کمی ہوتی ہے‘ اسی طرح یہ جدید علوم کے ماہرین میں بھی ایک کمی ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ قدیم علوم کوئی معنی نہیں رکھتے اور وہ فرسودہ ہو گئے ہیں۔ یہ بالکل غلط بات ہے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ کراچی یونیورسٹی یا کہیں اور کچھ فارغ التحصیل طلبہ جو مختلف علوم کے ماہرین ہوں‘ وہاں کچھ قدیم علوم کے ماہرین نہیں کرسکتے۔ جدید علوم کے ماہرین کو قدیم علوم سے آراستہ ہونا چاہیے۔ اگر آپ کو اپنی تہذیبی بنیادوں کا علم نہیں ہے‘ اپنے مذہب کا علم نہیں ہے تو آپ جدید دور کی قیادت کا صحیح فریضہ انجام نہیں دے سکیں گے۔ آپ کی قیادت یک طرفہ ہوگی۔
طاہر مسعود: جب ہم جدیدیت یا ماڈرینیٹی کی بات کرتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم مغرب کی فکری رہنمائی کو قبول کر رہے ہیں یا یہ کہ ہم مشرقی تہذیب کو کسی نہ کسی طور مغربی تہذیب سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اب یہاں سے مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مغربی اور مشرقی تہذیبوں میں کسی نوع کا امتزاج یا ہم آہنگی ممکن ہے؟ جب کہ ان دونوں کی تہذیبی بنیادیں نہ صرف مختلف اور متضاد ہیں بلکہ باہم متصادم بھی ہیں؟
آل احمد سرور: پہلی بات تو یہ کہ مشرق و مغرب ایک دوسرے سے اتنے متصادم نہیں ہیں۔ یہاں بھی میں اقبال کی مدد حاصل کرنا چاہتا ہوں‘ ان کے لیکچرز میں واضح طور پر یہ بات کہی گئی ہے کہ اسپین اور سسلی میں اور وسطی یورپ میں جو مسلمان سائنس دانوں کا کارنامہ تھا‘ مغربی تہذیب اس کا ایک ارتقائی سلسلہ ہے۔ ان معنوں میں اگر آپ دیکھیے تو مغرب کی فکر صرف مغربکی اپنی نہیں ہے‘ وہ توسیع ہے اس فکر کی جو مسلمانوں نے دی تھی‘ اس زمانے میں جب وہ علم و دانش کے علم بردار تھے اور اس سے خوف نہیں کھاتے تھے۔ مغرب کے معنی صرف یہ نہیں ہیں کہ ہم اپنی چیز کو چھوڑ کر ان کی چیز کو اختیار کر رہے ہیں۔ بالآخر دیکھیے تو قدیم زمانے کی فکر کی رہنمائی ایشیا اور افریقہ کر رہے تھے۔ پھر قانون قدرت کے مطابق انسانی فکر کی رہنمائی مغرب کے ذمے آگئی۔ ایشیا اور افریقہ میں آزادی کے بعد بیداری آئی ہے۔ اپنے باطن میں جھانک کر وہ توانائی پیدا کر رہے ہیں۔ یہ بات بالکل قرین قیاس ہے کہ مستقبل میں عالمی فکر کی رہنمائی ایشیا و افریقہ کریں اس لیے میں کہتا ہوں کہ ہمیں مغرب کو سمجھنا چاہیے اور اسے ایک حد تک اپنانا بھی چاہیے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں اس مغرب کی ذہنی غلامی کا قائل ہوں‘ اس لیے میں ماڈرنائزیشن اور ایسٹرانائزیشن کی بات بہ یک وقت کرتا ہوں۔ جدید کاری کا عمل ایک عالمی عمل ہے اس سے مفر ممکن نہیں‘ لیکن ضروری نہیں کہ جدید کاری کا عمل جس طرح مغرب میں ہوا ہے‘ اسی طرح مشرق میں بھی ہو۔ معاملہ یہ نہیں ہے کہ ہم مغرب کے طور طریقوں کو بجنسہ اختیار کریں بلکہ مغربی خیالات کو لے کر اپنے طور پر ڈھالیں یعنی Adopt کرنے کے بجائے Adapt کریں جیسا کہ ایک حد تک جاپان نے کیا ہے۔ اس نے اپنی تہذیب کو باقی رکھا ہے۔ وہ جو آپ کہہ رہے تھے کہ مشرقی اور مغربی تہذیب کا امتزاج کیسے ممکن ہے؟ اس کا جواب ہمیں جاپان کی مثال میں مل جاتا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی برکتوں سے فائدہ اٹھانا ضروری ہے۔ اگر ہم اپنے اوپر اعتماد کریں تو عالمی معیاروں کو اپنے ماحول اور اپنی تاریخ اور شعور کے مطابق ڈھال سکتذے ہیں جو صرف مغرب کی تقلید کے ذیل میں نہیں آئے گا۔
طاہر مسعود: اب کچھ گفتگو ادبی مسائل و موضوعات پر۔ آپ کے خیال میں کیا ادب کے ذریعے لوگوں میں سماجی آگہی پیدا کی جاسکتی ہے؟
آل احمد سرور: جب ادیب ادب پیدا کرے اور کہے کہ میں ادب کے ذریعے لوگوں میں سماجی پیدا کروں گا تو یہ طریقہ ادب کا نہیں ہے۔ ظُاہر ہے ادیب جو ادب پیدا کرتا ہے وہ ایک انفرادی کوشش ہوتی ہے۔ ادیب سماج کا فرد ہے۔ وہاس کی قدروں میںسے کچھ تسلیم کرتا ہے اور بعض سے بغاوت کرتا ہے۔ ظاہر بات ہے ادیب مروجہ اقدار سے آگے ہوتا ہے اور زندگی کی نئی معنویت کو تلاش کرتا ہے۔ وہ ادب کے ذریعے اس طریقے سے سماجی آگہی پیدا نہیں کرتا کہ مشین میں اکنی ڈالی اور ٹکٹ نکل آیا۔ وہ شعور کی تربیت کرتا ہے اور اپنے سماج سے ہم آہنگ رہتا ہے۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہمارا اس سے کیا واسطہ کہ سماج میں کیا ہو رہا ہے؟ لیکن اس کا جو کارنامہ ہے وہ انفرادی کارنامہ ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ خلوت اور جلوت میں تناسب پیدا کرے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ترگنیف جب لکھتا تھا تو اس کے کمرے کے دریچے کھلے ہوتے تھے اور اس کے پیروںکے پاس انگیٹھی جلتی رہتی تھی۔ کھڑکی کھلی رکھنا باہر کی دنیا سے رابطہ برقرار رکھنے کی علامت ہے اور انگیٹھی کی آگ تخلیقی حرارت کی۔ خلوت اور جلوت کے تناسب سے میری مراد ہے کہ ادیب کو خلوت کی ضرورت ہے تاکہ وہ محض ایک بھیڑ کا فرد نہ ہو بلکہ اس کی جو تخلیقی سرگرمیاں ہیں اسے اپنے تجربے کی روشنی میں جاری رکھے اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ براہِ راست اظہار کا دور اب نہیں رہا۔ ہاں کبھی کبھی اس کی ضرورت پڑتی ہے۔ بالواسطہ طویل نغموں میں کبھی بیان کا سا انداز آجاتا ہے جیسے اقبال کی ایک نظم میں ہے کہ:
ہے دل کے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
یہ بیانیہ شاعری ہے۔ آج کے دور میں جو ادبی اظہار ہے وہ تمام ادبی ذرائع سے کام لے گا اور ان میں علامات کا استعمال بھی شامل ہے۔
طاہر مسعود: فی زمانہ جب کہ معاشرے کو تبدیل کرنے کا کام سیاسی اقتدار کے بغیر ممکن نہیں رہا‘ کیا ادب کے ذریعے سماج کو بدلنے اور سماج پر اثر انداز ہونے کے امکانات باقی ہیں؟
آل احمد سرور: عام طور پر سمجھا یہی جاتا ہے کہ جب سیاسی اقتدار آجائے گا تو معاشڑے کو تبدیل کرنے کا عمل خود بہ خود مکمل ہو جائے گا‘ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نئے سماج کو جو آپ تعمیر کریںگے تو کیا آپ ایڈہاک کام لیں گے یا آپ کے پاس اس کے لیے پہلے سے منصوبہ ہونا چاہیے۔ آپ کو سماج کی تعمیر کے لیے باقاعدہ ایک لائحہ عمل کے تحت کام کرنا ہوگا کہ کیا چیزیں دور رس ہیں اور کن چیزوں کے نتائج فوری طور پر برآمد ہوں گے۔ ہو سکتا ہے کہ جب آپ کے پاس اقتدار آجائے تو اس اقتدار کو باقی رکھنے کے لیے اتنی قوت صرف کرنی پڑ جائے کہ اس بات سے آپ کو دل چسپی ہی نہ ہو کہ نیا سماج تعمیر ہو رہا ہے یا نہیں۔ اس لیے اب میں ایک بات کہتا ہوں کہ ادب کا معاملہ اتنا سیدھا سادا نہیں ہے۔ ادب کوئی تلوار نہیں ہے جس کے ذریعے آپ انقلاب لے آئیں۔ ادب شخصیت‘ ذہنی میلان اور فضا پیدا کرتا ہے اور ادب کے ذریعے جو ذہن پیدا ہوتا ہے اس میں تبدیلی کی خواہش ہوتی ہے اس لیے میں دانش وری کو اہمیت دیتا ہوں۔ اچھا دانش ور ہی ہے جو مسائل پر غور کرنے کے بعد عمل کی راہ سجھائے۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اصل طاقت عوام کے پاس ہوتی ہے اور اسی لیے جمہوری ادارے وجود میں آتے ہیں۔ ادیب کا کام قیصر المیعاد نہیں ہوتا ‘کثیر المیعاد ہوتا ہے۔ ادیب ذہنوں کی تشکیل کرتا ہے۔ وہ صالح قدروں کو تازہ کرتا ہے۔ وہ قدریں جو بالآخر دنیا کو روشن کرتی ہیں۔ انقلاب لانا صرف ادیبوں کا فریضہ نہیں ہے۔ یہ ایک مشترکہ جدوجہد کے ذریعے ہی آسکتا ہے۔

حصہ