ادب اور ثقافت

2364

ہر سوال کا ایک پس منظر ہوتا ہے۔ جب ہم کسی چیز کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ وہ کیا ہے، کیسی ہے، کیوں ہے، اُس کا دوسری چیزوں سے کیا رشتہ ہے، وہ اُن پر کیسے اثر انداز ہوتی ہے اور اُن کا اثر کیسے قبول کرتی ہے؟ تو ہماری یہ تفتیش ہمیشہ ایک مخصوص صورتِ حال کا تقاضہ کرتی ہے، ایک ایسی صورتِ حال جس میں یہ سوالات اپنی معنویت اور اہمیت اختیار کرتے ہیں۔ اور ایک ایسے جواب کے طالب ہوتے ہیں جو اِس صورتِ حال کے مطابق ہوتا ہے۔ مثلاً آپ نے کبھی یہ سوال ضرور سُنا ہوگا کہ مذہب کی کیا ضرورت ہے، جیسے کہ اقبال نے اپنے ایک خطبے کا عنوان ہی اس سوال کو بنایا ہے کہ کیا مذہب ممکن ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ سوال ایک مخصوص پس منظر میں پوچھا گیا ہے۔ یعنی ایک ایسے زمانے میں جب مذہب کی معنویت اور اہمیت پہلے جیسی باقی نہیں رہی اور لوگوں کے دلوں میں مذہب کی طرف سے ایسے شکوے پیدا ہوگئے جن کا جواب دینا ضروری ہوگیا۔ ایک ایسے زمانے میں جب مذہب کی ضرورت بطور ایک مسلمہ حقیقت کے تسلیم کی جاتی ہو یہ سوال بے معنی ہوتا یا کم از کم اتنی اہمیت اختیار نہ کرتا، لیکن اس مخصوص صورتِ حال میں جس میں یہ سوال پوچھا گیا ہے اس کی ضرورت اور اہمیت ایک ایسے چیلنج کی ہے جسے نظر انداز کرنا ناممکن ہوگیا ہو۔ اب سوال کی طرح جواب بھی اپنی مخصوص صورت حال کا نتیجہ ہوتا ہے اس لیے کسی بھی سوال کا کوئی بھی جواب حتمی، لازمی اور آخری نہیں ہوتا۔ سوال کے پس منظر کے ساتھ جواب بھی بدلتے رہتے ہیں۔ چنانچہ آج اس سوال کا جواب دینے سے پہلے کہ تہذیب اور ثقافت پر ادب کے کیا اثرات ہوتے ہیں اور ہوتے بھی ہیں یا نہیں اور ہوتے ہیں تو کس قسم کے؟ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اس سوال کے پس منظر کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
پہلی بات جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ یہ سوال ایک خصوصی تہذیبی پس منظر میں ہی پوچھا جاسکتا تھا۔ یعنی سوال بجائے خود ایک تہذیبی صورتِ حال کا نتیجہ ہے جس کے بغیر یہ سوال نہیں اُٹھایا جاسکتا تھا۔ آئیے یہ تہذیبی صورتِ حال کیا ہے اس کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جس میں ادب کی اہمیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ معاشرہ ادب کو کیا سمجھتا ہے اسے واضح کرنے کے لیے میں ایک شاعر اور ایک دیہاتی زمین دار کا مکالمہ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
ایک مرتبہ ایک شاعر ایک دیہاتی زمین دار کے پاس گیا اور اس کی تعریف میں ایک قصیدہ سنایا۔ دیہاتی زمیندار بہت خوش ہوا۔ اُس نے شاعر سے کہا۔ تم نے جن خوبصورت الفاظ میں میری تعریف کی ہے اس سے میں بہت مسرور ہوا ہوں۔ اس کے بدلے میں میں تمہیں کچھ دیتا مگر اس وقت تمہیں دینے کے لیے میرے پاس کچھ نہیں ہے، ایک ہفتے کے بعد میری فصل کٹے گی تم اس وقت میرے پاس آنا میںتمھیں ایک بوری گندم دوں گا۔ شاعر یہ وعدہ سن کر بہت خوش ہوا اور دیہاتی زمین دار کو سلام کرکے چلا گیا۔ ایک ہفتے کے بعد جب فصل کٹنی شروع ہوئی تو شاعر زمین دار کے پاس پہنچا اور اس کا وعدہ اسے یاد دلایا۔ دیہاتی زمین دار نے کہا، میاں کیا بات کرتے ہو تم نے قصیدہ سنا کر لفظوں کے ذریعے مجھے خوش کیا تھا۔ میں نے بھی وعدہ کرکے تمہیں لفظوں سے خوش کردیا، حساب برابر ہوگیا۔ اب لین دین کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے؟
اس مکالمے سے دیہاتی زمین دار کا لفظ نکال دیجیے۔ اس کی جگہ ’’معاشرے‘‘ کا لفظ رکھ دیجیے۔ ہمارا معاشرہ شعر و ادب سے یہی سمجھتا ہے۔ اس کے نزدیک شاعر و ادیب ایسے لوگ ہوتے ہیں جو لفظوں کے ذریعے معاشرے کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔ یہ خوش کا لفظ بھی بڑا اہم ہے، کیونکہ خوشی کے معیار، پیمانے اور ذرائع بدلتے رہتے ہیں۔ ایک ایسے معاشرے میں جس میں تفریح کے ذرائع محدود ہوں، شعر و ادب تفریحی ذریعے کے طور پر ممکن ہے کچھ اہمیت رکھتا ہو، لیکن ایک ایسے معاشرے میں جس میں ہاکی اور کرکٹ میچ جیسی تفریح موجود ہو یا جس میں فلمیں، ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے پروگرام سمعی اور بصری لذتوں کے تقاضوں کو پورا کردیتے ہوں، ادب کی تفریحی نوعیت بھی بہت معمولی درجے کی رہ جاتی ہے۔ وجہ ظاہر ہے ادب کا تعلق صرف لفظوں سے ہے۔ اور لفظوں کو دیہاتی زمیندار اور سماجی مصلح دونوں کوئی اہمیت نہیں دیتے۔
اب ہمارا پہلا سوال یہ ہے کہ کیا ادب صرف ایک ذریعہ تفریح ہے۔ اور ذریعہ تفریح بھی معمولی اور ازکارِ رفتہ قسم کا۔ اس سوال کا جواب دینے کے لیے میں اپنے دیہاتی زمین دار کو واپس بلاتا ہوں اور اُسے اُس کے شاعر کے ساتھ شہنشاہ جہانگیر یا عبدالرحیم خانِ خاناں کے دربار میں پیش کرتا ہوں جہاں عرفی انہیں اپنا قصیدہ سنارہا ہے۔ قصیدہ سن کر خانِ خاناں حکم دیتا ہے کہ شاعر کا منہ موتیوں سے بھر دیا جائے۔ براہِ کرم اس سچویشن پر غور کیجیے۔ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ خانِ خاناں کا یہ حکم سن کر ہمارے شاعر اور دیہاتی زمین دار نے کیا محسوس کیا ہوگا؟ شاعر تو یقینا خوش ہوگیا ہوگا اور اُس نے فخر سے دیہاتی زمین دارکو دیکھا ہوگا کہ دیکھو ایک مہذب انسان شاعری کی کیسی قدر کرتا ہے، لیکن دیہاتی زمیندار نے کیا سوچا ہوگا۔ کیا اُس نے اپنے دل میں نہ کہا ہوگا کہ خانِ خاناں ایک بے وقوف آدمی ہے جو لفظوں کے بدلے میں گندم چھوڑ موتی دے رہا ہے۔ مجھے دیہاتی زمین دار کے خیالات سے پوری ہمدردی ہے، لیکن میں اسے یہ ضرور بتائوں گا کہ ایک خانِ خاناں اور دیہاتی زمین دار میں کیا فرق ہوتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ دونوں کی تہذیبی سطح مختلف ہے۔ خانِ خاناں ایک مخصوص تہذیب کا اعلیٰ ترین معیار ہے جب کہ دیہاتی زمین دار اپنی ذہانت، حسن ظرافت اور گندم کی بوری کے باوجود اس سے ناآشنا ہے۔ تہذیب کی نچلی سطح پر اعلیٰ تہذیبی اقدار کو سمجھنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا ایک دیہاتی زمیندار کے لیے خانِ خاناں کے رویے کو سمجھنا مشکل ہے۔
تاہم ہم دیہاتی زمین دار کو خانِ خاناں کی مدد سے دبانے کی کوشش نہیں کریں گے۔ ہمارے لیے ضروری ہے ہم اس کے رویے کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس کے نزدیک خانِ خاناں کا رویہ بے وقوفی پر مبنی ہے۔ لفظ ہرگز اس قابل نہیں ہیں کہ ان کا بدلہ موتیوں کی شکل میں پیش کیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ لفظوں کے بدلے میں موتی کیوں پیش کیے گئے۔ یعنی لفظوں کی افادیت کیا ہے؟ آپ کو معلوم ہے یہی وہ سوال تھا جس نے مولانا حالی کو مدتوں پریشان رکھا۔ اُن کے سامنے سوال یہ تھا کہ تہذیب کے اعلیٰ ترین مظاہر غیر افادی ہیں۔ تو کیا اُن کی غیر افادیت کے باوجود انہیں اہم سمجھنا چاہیے؟ اور سمجھنا چاہیے تو کیوں؟ اپنے شہرئہ آفاق مقدمہ شعر و شاعری میں انہوں نے یہ سوال ان الفاظ میں اُٹھایا۔ ’’معاشرے میں کسان خوش ہے، کیوں کہ لوگوں کو اُس کے غلّے کی ضرورت ہے، اس لیے لوگ اسے اہم سمجھتے ہیں۔ معمار خوش ہے، کیوں کہ لوگوں کو مکانوں کی ضرورت ہے اور وہ اسے اہم سمجھتے ہیں۔بزاز خوش ہے، کیوں کہ لوگوں کو کپڑوں کی ضرورت ہے اور لوگ اسے اہم سمجھتے ہیں، لیکن معاشرے میں اس آدمی کا کیا مقام ہے جو ایک سنسان ٹیکرے پر تنہا بیٹھا بانسری بجا رہا ہے‘‘۔ مولانا حالی شعر و ادب کو بھی سنسان ٹیکرے پر تنہا بیٹھ کر بانسری بجانے کا عمل سمجھتے تھے، اس لیے اُن کا سوال یہی تھا جو ہمارے دیہاتی زمیندار کا ہے۔ یعنی خوبصورت لفظوں کے اس کھیل میں جسے شعر و ادب کہتے ہیں کیا افادیت ہے؟
ہمارے نزدیک یہ بات اہم ہے کہ مولانا حالی نے یہ سوال ایک مخصوص زمانے میں اُٹھایا۔ اس سے پہلے یہ سوال ہماری تہذیب میں نہ اُٹھایا گیا نہ شاید اُٹھایا جاسکتا تھا۔ اس بات کو پوری طرح سمجھنے کے لیے ہمیں اس تہذیب کی نوعیت اور حقیقت کو سمجھنا پڑے گا۔ یہ ایک ایسی تہذیب تھی جس میں تمام انسانی اعمال کا ایک جما جمایا نقشہ موجود تھا اس میں ہر انسانی عمل کا ایک مقام تھا۔ اور کوئی انسانی عمل نہ کسی دوسرے عمل کی وجہ سے اپنا مقام چھوڑ سکتا تھا، نہ دوسرے کا مقام حاصل کرسکتا تھا۔ یہ تہذیب شعر و ادب کو بھی اُس کے مقام پر رکھتی تھی۔ اور جہاں تک اس مقام کا تعلق تھا اس بات کی پوری ضمانت موجود تھی کہ اپنی حدود میں اسے برقرا ررکھا جائے گا۔ بلکہ ’’رکھا جائے گا‘‘ کے الفاظ بھی نامناسب ہیں، کیوں کہ ان میں ایک عزم و ارادہ موجود ہے، جب کہ اس تہذیب میں شعر و ادب کو اُن کے مقام پر رکھنے کے لیے نہ عزم کی ضرورت تھی نہ ارادے کی۔ اُس تہذیب میں وہ بالکل فطری طور پر اپنی جگہ موجود تھا۔ مولانا حالی کے زمانے میں اس تہذیب میں جو باطنی تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں ان میں سب سے بڑی اور گہری تبدیلی یہ تھی کہ اس تہذیب کا نظام اقدار اپنی جگہ سے کھسک کر ڈانواں ڈول ہوگیا۔ یہ تبدیلی اولین طور پر دو چیزوں میں ظاہر ہوئی۔ مذہب میں اور شعر و ادب میں۔ یہ وہی زمانہ تھا جب سرسید کو سب سے پہلے اس فکر نے ستانا شروع کیا کہ اُن کا مذہب عقل کے معیار پر پورا اُترتا ہے یا نہیں۔ عقلی معیارات بہت گہرے طور پر افادی معیارات ہوتے ہیں۔ چناں چہ عقلی مسائل کے ساتھ ایک سوال یہ پیدا ہوا کہ مذہب انسان کو کیا فائدہ پہنچاتا ہے۔ اور دوسرا سوال یہ اُٹھایا گیا کہ تہذیبی مظاہر جو غیر افادی ہیں، انسان کے لیے کوئی اہمیت رکھتے ہیں یا نہیں؟ شعر و ادب کی ضرورت اور اہمیت کا سوال ان دو بڑے سوالوں سے وابستہ تھا۔ چوں کہ یہ سوال ایک مخصوص صورت حال میں پیدا ہوئے تھے، اس لیے اُن کے جواب بھی یکساں ہیں۔ سرسید نے مذہب کو عقلی معیارات کے مطابق ثابت کرنے کی کوشش کی۔ اور مولانا حالی نے شعر و ادب کی بنیاد افادیت پر رکھ کر انہیں بحال کرنے کا خواب دیکھا۔ اب اس مختصر سی بحث سے یہ واضح ہوگیا کہ آج ہمارا یہ سوال کہ شعر و ادب تہذیب و ثقافت پر کیا اثر ڈالتے ہیں یعنی شعر و ادب کا تہذیب و ثقافت سے کیا رشتہ ہے، ایک ایسی صورت حال کا نتیجہ ہے جس میں ہم مذہب، تہذیبی اقدار اور شعر و ادب سب کے بارے میں اس تشویش میں مبتلا ہوگئے ہیں کہ اُن کا قائم رہنا ممکن ہے یا نہیں؟ اور اگر ممکن ہے تو کیا ضروری بھی ہے؟
میرا خیال ہے کہ یہاں پہنچ کر آپ کے ذہن میں یہ سوال آرہا ہوگا کہ یہ صورت حال مولانا حالی کے زمانے میں کیوں پیدا ہوئی۔ اور اس کی وجہ کیا تھا کہ اس زمانے میں ہم نے مذہب، تہذیب اور شعر و ادب کے بارے میں وہ سوال اٹھائے جو اس سے پہلے نہیں اٹھائے گئے تھے۔ یا جیسا کہ میں نے کہا، اُٹھائے نہیں جاسکتے تھے۔ یہ سوال اس لیے اور بھی اہم ہوجاتا ہے کہ ہم جوں جوں اس زمانے سے آگے بڑھتے ہیں یہ بات شدت سے ہمارے مشاہدے میں آنے لگتی ہے کہ یہ سوالات زیادہ شدید زیادہ گہرے اور زیادہ چیلنجنگ ہوتے جاتے ہیں، یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آجاتا ہے جب ان سوالات کا ہر جواب ہمیں کچھ غیر تسلی بخش محسوس ہونے لگتا ہے۔
ہمیں یقینا اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کرنی چاہیے اور جہاں تک میرا سوال ہے میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نے پانی زندگی کا نصف سے زیادہ حصہ اسی سوال سے اُلجھنے میں گزارا ہے۔ چنانچہ ایک ایسے آدمی کی حیثیت سے جسے اس سوال سے دلچسپی رہی ہے، جو اس پر اپنی بساط کے مطابق اُلٹی سیدھی طرح سوچنے کی کوشش بھی کرتا رہا ہے۔ میں صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ مولانا حالی کے زمانے میں ہم ایک ایسی اجنبی تہذیب کے زیر اثر آنا شروع ہوگئے تھے جو بنیادی طور پر ایک مادی تہذیب تھی۔ یہ تہذیب مغرب میں پیدا ہوئی اور اپنی عمر کا ایک حصہ پورا کرنے کے بعد مغرب کے سیاسی تسلط کے ساتھ دنیا کے دوسرے حصوں میں پھیلی۔ اور اب تک جہاں جہاں اس کے اثرات پھیل چکے ہیں، وہاں وہاں اس کے زیر اثر پرانی تہذیبوں کے نظام اقدار اور نظام تصورات میں ایک ایسی تبدیلی پیدا ہوتی جاتی ہے جو اس تہذیب کے اثرات سے پہلے معدوم تھی۔ خود اس تہذیب میں ان سوالوں کی نوعیت کیا رہی ہے اس پر گفتگو کرنا ’’حمامِ بادگرد‘‘ کی خبرلانے کے برابر ہے۔ وجہ ظاہر ہے، جدید مغرب کسی اصول پر قائم نہیں ہے۔ مشرق کی روایتی تہذیبوں اور جدید مغرب میں بنیادی فرق یہ ہے کہ مشرق کی روایتی تہذیبیں مابعد الطبیعاتی اصولوں پر قائم ہیں جب کہ جدید مغربی تہذیب ہر اصول کی نفی کرتی ہے۔
اس بات کو وضاحت سے بیان کرنے کے لیے میں ایک مثال پیش کرتا ہوں، آپ سے سوال کیا جائے کہ اسلامی تہذیب کیا ہے تو آپ کے ذہن میں اس کا ایک جما جمایا نقشہ آجائے گا۔ آپ کہیں گے کہ اسلامی تہذیب وہ ہے جو قرآن حکیم، احادیث نبویؐ، فقہ، اسلامی اخلاق و احکام اور فطرتِ انسانی کے مختلف تقاضوں کے ہم آہنگ مرکب کی حیثیت سے مختلف زمینوں اور ماحولوں میں اپنی بنیادی مرکزیت کے ساتھ پروان چڑھی ہے۔ اسی طرح ہندو تہذیب کا ذکر کیا جائے تو آپ ویدوں کا نام لیں گے۔ وید شاستر، سمرتیاں، گیتا اور معاشرتی ادارے جو ان کی تعلیمات پر قائم ہوئے انسانی فطرت اور ماحول کی رنگا رنگی کے ساتھ ہندو تہذیب کہلاتے ہیں، لیکن جدید مغربی تہذیب اس قسم کی کسی بھی مرکزیت کا کوئی تصور نہیں رکھتی۔ یہاں ہر چیز ایک دوسرے سے مختلف بلکہ متضاد طور پر حرکت کرتی ہے۔ اور ایک دوسرے کے ردعمل میں ایک دوسرے کی تردید کے ایک لامختتم سلسلے میں گرفتار ہے، اس لیے مغرب پر اس طرح بات کرنا کہ آپ کی اس رُوح میں اُتر کر کسی بنیادی مرکزیت میں پہنچ جائیں گے خود اپنی شامت کو دعوت دینا ہے۔ مثلاً موضوعِ زیر بحث کی روشنی میں صرف یہ دیکھیے کہ شعر و ادب کے بارے میں وہاں کیا کیا کہا جاتا ہے۔ مغرب میں ایک طرف یہ خیال موجود ہے کہ شعر و ادب بیکار چیزیں ہیں۔ دوسری طرف یہ خیال بھی ہے کہ مذہب کے ازکارِ رفتہ ہونے کے بعد شعر و ادب مذہب کی جگہ لے لیں گے۔ ایک صاحب لکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شعر و ادب کی اقدار خالص جمالیاتی اقدار ہیں۔ دوسرے صاحب ہانک لگاتے ہیں کہ شعر و ادب کی رُوح اخلاقی ہے۔ کوئی صاحب کہتے ہیں کہ شعر و ادب میں مرکزی اہمیت مواد کی ہے۔ دوسرے صاحب فرماتے ہیں کہ مواد کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں اصل چیز ہیئت ہے۔ ایک گروہ کا نعرہ ہے ادب برائے زندگی۔ دوسرا کہتا ہے جی نہیں ادب برائے ادب۔ خیر خدا کے فضل سے اب یہ باتیں تو ہمارے یہاں بھی ہونے لگی ہیں اور شاعر اور ادیب پیغمبر، اور بازی گر صفر محض کی تمام منزلوں سے گزرنے لگے ہیں، لیکن ہماری روایتی تہذیب میں ایسا نہیں تھا تب شاعری نہ پیغمبری تھی نہ کارِ بے کاراں۔ تب ادب نہ صفر محض کی جگہ لے سکتا تھا نہ کوڑے کے ڈھیر پر پھینکا جاسکتا تھا۔ مغرب کی مدد سے ہم نے یہ دونوں کام سیکھے نہ صرف اس وجہ سے کہ مغربی تہذیب کے زیر اثر ہم میں وہ تبدیلیاں پیدا ہوگئیں جن کا اظہار جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں سب سے پہلے سرسید اور حالی کے رویوں میں ہوا۔ مغربی تہذیب کی طرح ہمارے یہاں بھی یہ تبدیلی کئی مرحلوں سے گزری۔ عقلیت پرستی، افادہ پرستی، فطرت پرستی، بلکہ اب تو مادّہ پرستی کہنا بھی غلط ہے، کیوں کہ مغرب مادّے کی نفی کی منزل میں بھی داخل ہوچکا ہے۔ میرے استاد محمد حسن عسکری مرحوم نے مغرب کے اس پورے سفر کا حال تین فقروں میں لکھا ہے۔ خدا مر گیا (نطشے)۔ انسانی تعلقات کا ادب مر گیا (ڈی ایچ لارنس)۔ انسان مر گیا (مالرو)۔
بتائیے اب اس فضا میں میں تہذیب اور ثقافت پر ادب کے اثرات کا جائزہ لوں یا آپ سے یہ کہہ کر اجازت چاہوں کہ مغرب کے زیر اثر آنے کے بعد ہماری تاریخ تہذیب و ثقافت پر ادب کے اثرات کی تاریخ نہیں ہے بلکہ ان اثرات کو زیادہ سے زیادہ غیر موثر بنانے کی تاریخ ہے۔ اور ہم جدید تہذیب و ثقافت کے نام پر ایک ایسے دور میں داخل ہوچکے ہیں جو خود تہذیب و ثقافت کی مکمل نفی کا دور ہے۔

حصہ