صرف معلومات سے مریض کو فائدہ نہیں ہوتا

371

’’سر آپ ڈاکٹر خالد بات کررہے ہیں؟ آپ کا نمبر ایک دوست نے دیا ہے۔ میری بچی کو کورونا کا پرابلم ہے۔ کیا ٹیسٹ کرانا ممکن ہے؟ اس کی عمر بھی کم ہے۔‘‘ فون کرنے والے صاحب نے ایک سانس میں یہ گفتگو کی۔
’’بھائی! بچی کو کیا تکلیف ہے؟‘‘
’’جی بس کھانسی اور بخار تھا 10 دن پہلے، پھر فلو ہوا تھا۔ بلغم نہیں تھا۔ ڈاکٹر نے پہلے دوا دی جس سے بخار کم ہوا۔ اب دوبارہ بخار ہوا تو کورونا کی دوا دے دی اور ٹیسٹ بھی نہیں کرایا۔ ٹائیفائیڈ بتایا لیکن ٹائیفائیڈ کا ٹیسٹ نہیں کرایا۔‘‘ مریضہ کے والد صاحب نے بتایا۔ ’’سر! اب بتائیں بچی کا کوروناٹیسٹ کروانا ضروری ہے؟‘‘
اُن سے کہا ’’بھائی آپ مجھے صرف یہ بتادیں کہ بچی کو کتنے دن سے بخار ہے، کھانسی ہے؟ اب کیا تکالیف ہیں؟‘‘
انہوں نے بتایا ’’میں نے یونیورسٹی سے MBA کیا ہے۔ ڈیفنس میں رہتا ہوں۔ آپ کو بتادیا، اب اور کیا بتائوں؟‘‘
اس کے بعد میں نے بڑی مشکل سے بار بار بات کرنے پر تفصیلات حاصل کرلیں، اور انہیں کیا کرنا ہے بیماری کے بارے میں، یہ بھی بتادیا۔ وہ میں مختصراً بتادوں گا، لیکن یہ داستان تقریباً ہر دوسرے مریض کی ہے۔
مریض کے رشتے دار اپنی معلومات کی روشنی میں مریض کے مرض کا تجزیہ کرتے ہیں، پھر انٹرنیٹ سے اپنی معلومات کے مطابق سرچ کرکے مزید معلومات لیتے ہیں، اور جب ڈاکٹر کے پاس آتے ہیں تو مریض کی تکالیف کے بجائے اپنی رائے، اپنی معلومات، یا کسی دوسرے معالج کی معلومات کو ملا کر بیان کرتے ہیں جس سے مریض کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
اب پہلے ہم اس مریضہ کا بتاتے ہیں۔ بچی کو بخار ہوا تھا، کھانسی تھی۔ تین دن ڈاکٹر سے علاج کرایا، بچی بہتر ہوگئی۔ تین دن ٹھیک رہنے کے بعد پانچ دن سے پھر بخار ہے، لیکن کھانسی نہیں۔ ڈاکٹر نے جگر کا ٹیسٹ کرایا جو نارمل تھا، اور خون کے کلچر کا ٹیسٹ کروانے بھیج دیا، اور اس کے بعد ٹائیفائیڈ کے لیے AZOMAX نام کی دوا دے دی۔ یعنی ڈاکٹر نے بہترین تشخیصی طریقہ اختیار کیا۔ لیکن معاشرے میں یہ بات عام ہے کہ Azomax کورونا کی دوا ہے۔ وہ صاحب گھر آئے تو ان کے رشتے داروں نے دوا کا نام سنتے ہی کہہ دیا کہ یہ تو کورونا سے متاثرہ بچی ہے، اسے الگ کرو، فوراً ناک میں ڈنڈی ڈال کر جو ٹیسٹ ہوتا ہے وہ کرائو۔ بچی کے والدین پر ان کے دیگر قریبی لوگوں نے بھی دبائو ڈالا۔ کہا: کس ڈاکٹر کو دکھا دیا جو ٹائیفائیڈ کے نام پر کورونا کی دوا ہماری بچی کو دے رہا ہے! نہ ہی اس نے ٹائیفائیڈ کا ٹیسٹ کرایا، نہ کورونا کا۔
بچی کے والد صاحب کو یہ معلومات دی گئیں:
-1 کورونا کا ٹیسٹ سات سال کی بچی کا ہو سکتا ہے۔ میں نے خود تین سال کے بچوں کا کورونا کا مثبت ٹیسٹ دیکھا ہے۔ لیکن آپ کی بچی کو کورونا ٹیسٹ کی ضرورت نہیں، ڈاکٹر صاحب جو چائلڈ اسپیشلسٹ ہیں انہوں نے نہیں کرایا تو پھر خاندان والوں کی رائے کے مطابق ٹیسٹ کرانا مناسب نہ ہوگا۔
-2 ٹائیفائیڈ کے جو ٹیسٹ پہلے کیے جاتے تھے Typhi Dot, Widal Test… تجربے سے پتا چلا کہ ان کی کوئی اہمیت نہیں۔ یہ ٹیسٹ دنیا کی بڑی لیبارٹریز میں اب نہیں کیے جاتے، نہ ان سے بیماری کی صحیح تشخیص ہوتی ہے۔ میڈیکل سائنس میں مسلسل ریسرچ ہورہی ہے۔ ان ٹیسٹ کے نتائج سے بیماری کی تشخیص بالکل ٹھیک نہیں ہوتی، اس لیے آپ کے ڈاکٹر صاحب نے یہ ٹیسٹ نہیں کرائے۔
-3 جگر کا ٹیسٹ اس لیے کرایا کیونکہ آپ نے بتایا تھا کہ بچی کو کھانا پسند نہیں آرہا تھا۔ پچھلے ہفتے آپ نے باہر سے Pizza، اس کے ساتھ چٹنی وغیرہ منگوا کر کھلائی تھی۔ باہر سے آنے والے کھانے میں ہیپاٹائٹس A اور ٹائیفائیڈ کا خطرہ رہتا ہے۔ جگر میں تو کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ بخارکی دوسری عمومی وجہ باہر کا کھانا استعمال کرنے پر ٹائیفائیڈ B ہے۔
انہوں نے اس پر سوال اٹھایا کہ Take Away اور گھر پر کھانا تو آج کل عام ہے۔
انہیں بتایا کہ اس طرح کا کھانا کھانے والے بچوں میں ٹائیفائیڈ بھی عام ہے۔ آغا خان اسپتال کے بچوں کے وارڈ میں ٹائیفائیڈ… اور ایسا ٹائیفائیڈ جو عام دوائوں سے صحیح نہ ہو… کے بہت بچے داخل ہورہے ہیں۔ ان میں 95 فیصد بچے امیر گھرانوں کے ہوتے ہیں۔ گھر کا کھانا اچھا نہ لگنا اور باہر سے کھانا منگوانا عام بات ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہاہے کہ ٹائیفائیڈ کی بیماری آرہی ہے، جس سے آنتیں بہت دنوں تک متاثر رہتی ہیں۔
-4 ڈاکٹر نے پہلے خون کے کلچر کا ٹیسٹ کرایا، پھر Azomax شروع کرائی، یہی درست طریقہ ہے۔ اگر دوا نے اثر کیا تو ٹھیک، ورنہ کلچر کی رپورٹ بتادے گی۔ خون کا کلچر ہی ٹائیفائیڈ کا درست ٹیسٹ ہے۔ لیکن یہ ٹیسٹ دوا شروع کرنے سے پہلے کرائیں تو رپورٹ ٹھیک آئے گی۔ اینٹی بایوٹک شروع کرنے کے بعد کرانے سے رزلٹ ٹھیک نہیں آتا۔
-5 اب Azomax پر آپ کے ذہن میں سوالات ہیں۔ آپ نے بتایا کہ آپ کے دوست احباب نے بتایا کہ یہ دوا تو کورونا کے مریضوں کو دی جاتی ہے۔ یہ دوا دینے کا مطلب ہے کورونا کا مریض۔ بھائی! Azomax ٹائیفائیڈ کے لیے بہترین دوا ہے ۔ یہ دوا بہت سے ناموں سے آتی ہے۔
جب کورونا کے لیے ڈاکٹرز Azomax لکھ رہے تھے تو بچوں کے ماہر ڈاکٹرز، سینئر ڈاکٹرز اور فارمیسی کے ڈاکٹرز نے بہت سمجھایا کہ خدا کے واسطے یہ دوا نہ استعمال کریں۔ زیادہ استعمال سے یہ دوا اپنی افادیت کھو بیٹھے گی۔ لیکن جونیئر ڈاکٹرز، مریضوں اور ان کے لواحقین نے سوشل میڈیا کے ذریعے اتنا لکھا کہ لوگ اس کو کورونا کا علاج سمجھنے لگے۔ بعض NGO’s اور ویلفیئر کا کام کرنے والوں نے توپیکٹ بنالیا جس میں ملٹی وٹامن وغیرہ کے علاوہ یہ اینٹی بایوٹک بھی شامل تھی، اور اسے کورونا کے مریضوں کے لیے مفت بانٹنا شروع کردیا۔ کم معلومات ہونے کی وجہ سے یہ سب مریضوں کے ساتھ اور معاشرے کے بچوں کے ساتھ ظلم کرتے رہے۔ دلیل یہ دی گئی کہ جب سب یہ بات کہہ رہے ہیں، کورونا کے ٹھیک ہونے والے مریض کہہ رہے ہیں تو کیا یہ سب غلط ہیں؟
’’کہیے ڈاکٹر صاحب اب کیا کریں؟‘‘
بتایا کہ بچی کو دوا دیں، ابلا ہوا پانی دیں، گھر کا کھانا کھلائیں۔
معاشرے میں دوائوں کے متعلق سنی سنائی باتوں اور اپنے تجربات کی روشنی میں بہت مسائل ہوتے ہیں۔
یہ آج سے 10 سال پہلے کا واقعہ ہے، مریضہ کو چکر آتے تھے، الٹی ہوتی تھی جب بھی وہ سفر کرے۔ میں نے Stemetil کی گولی لکھ دی۔ میڈیکل اسٹور والے نے مریضہ کے شوہر کو بتایا کہ یہ تو پاگلوں کو دی جانے والی دوا ہے۔ مریضہ کا شوہر آیا، اس نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب! میری بیوی کو دماغ کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ آپ نے پاگلوں والی دوا کیوں دی؟
میں نے میڈیکل اسٹور پر کام کرنے والے متعلقہ لڑکے کو بلالیا۔ اس نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب! مریض کے رشتے دار نے پوچھا، میں نے بتادیا۔ یہ لڑکا ایک نفسیاتی اسپتال کے میڈیکل اسٹور پر کام کرتا رہا تھا، مالیخولیا اور ڈپریشن کے مریضوں کے نسخے میں اس نے یہ دوا دیکھی، اور اپنی جانب سے یہ نتیجہ اخذ کرلیا۔
مریضہ کے شوہر نے بتایا کہ بیوی کا بھائی انٹرنیٹ کا ماہر ہے، اس نے مجھ سے جھگڑا کیا، اس نے انٹرنیٹ پر سرچ کرکے معلوم کیا کہ میڈیکل اسٹور والے لڑکے نے صحیح بتایا ہے، یہ دوا مالیخولیا اور ذہنی پریشانی کے مریضوں کے علاج میں استعمال ہوتی ہے اور آپ نے یہ دوا دے دی۔ بیوی کے بھائی نے مجھ سے کہا کہ تم نے یقینا ڈاکٹر کو بتایا ہوگا کہ میری بیوی پاگل ہے، ورنہ ڈاکٹر یہ دوا نہ دیتا۔ اس نے بتایا کہ میری بیوی کی طبیعت خراب تھی، اس نے کہا ہم سیر کے لیے باہر چلتے ہیں۔ اس پر میں راضی نہیں تھا کیونکہ آفس سے چھٹی نہیں مل رہی تھی۔ بیوی کا اصرار تھا کہ اسی ہفتے جانا ہے۔ اس پر ہم دونوں میں تلخ کلامی ہوئی۔ اس نے کہا کہ اگر میں گھر سے نہیں گئی تو پاگل ہوجائوں گی۔ اس طرح یہ بات خاندان میں پھیل گئی کہ میں بیوی کو پاگل سمجھتا ہوں۔ مجھے آفس سے چھٹی بھی گئی اور ایڈوانس رقم بھی۔ اب بیوی نے بتایا کہ سفر پر، خاص طور پر لمبے سفر اور پہاڑی پر سفر کرنے پر متلی اور چکر آتے ہیں۔ آپ نے یہ دوا دی کہ سفر سے ایک گھنٹہ پہلے استعمال کرلیں۔ میں نے نسخہ گھر میں رکھ دیا کہ شام کو لادوں گا۔ دن میں بیوی کا بھائی آیا، بیوی نے یہ دوا بھائی سے منگوالی۔ پہلے تو وہ اس پر حیران تھا کہ اتنی سستی دوا بہن کے لیے لکھوائی ہے! یہ تو کنجوسی کررہے ہیں (واضح رہے گولی کی قیمت ایک روپیہ ہے، اور وہ بھی پاگل پن کی گولیاں)۔ میڈیکل اسٹور والے کی بات تو رہی الگ، انٹرنیٹ کی معلومات تو مستند ہوتی ہیں۔ ہمارے گھومنے جانے کا طے ہوگیا تو گھر میں امن ہوگیا تھا۔ لیکن جب آپ نے یہ دوا دی تو پھر نیا فساد کھڑا ہوگیا۔اب بڑا اعترض ہے: سستی دوا،پاگلوں والی دوا۔ بیوی کا بھائی اپنے خاندان میں پڑھا لکھا اورقابل فرد مانا جاتا ہے۔ سب کہہ رہے ہیں جب انٹرنیٹ سے پتا چل گیا کہ یہ پاگلوں کی دوا ہے تو ہم کیا سمجھیں کہ بیوی کے متعلق اس کے کیا خیالات ہیں۔
اسے بتایا کہ انٹرنیٹ پر ایک لفظ لکھیں، ہزاروں ویب سائٹ آجاتی ہیں۔ دنیا میں ہر چیز بہت سے کاموں کے لیے استعمال ہوتی ہے، فائدہ مند ہوتی ہے اور چند مضر اثرات بھی ہوسکتے ہیں، لیکن یہ فیصلہ کرنا کہ اس چیز کا اس فرد کو فائدہ زیادہ ہے یہ علم والے کا کام ہے۔ دوا کے بارے میں صحت کے علم کا ماہر بتا سکتا ہے۔ انٹرنیٹ پر معلومات حاصل کرکے، جس کا مریض سے کوئی تعلق نہ ہو، مریض اور اس کے رشتے داروں کو مزید کنفیوژن ہوتی ہے، اور جسمانی بیماری تو دوا لینے سے ٹھیک ہوجاتی ہے لیکن ذہنی پریشانی برقرار رہتی ہے۔
میری بیٹی ڈاکٹر فارعہ بتاتی ہے کہ آغا خان میں اکثر مریض انٹرنیٹ پر پڑھی غیر متعلق معلومات کی بنیاد پر سوالات کرکے اپنا اور معالج کا وقت ضائع کرتے ہیں۔ مرض کے بارے میں کم اور اپنی سرچ کی ہوئی معلومات پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ مریض اور علاج کے بارے میں خاندان، معاشرہ، سوشل میڈیا، انٹرنیٹ سے حاصل شدہ معلومات اہم ہیں، لیکن مریض کی بہتری کے لیے ضروری ہے کہ معالج سے مریض کی تکالیف پر بات کریں۔ احتیاطی تدابیر اور مریض کی خدمت پر توجہ دیں۔(جاری ہے)

حصہ