معمولی سی خواہش

216

اس کی خواہش تھی بڑی کوچ (بس) میں سفر کرنا اور جب سے اسے دین محمد عرف دینو نے بڑی کوچ میں نظر آنے والے اِردگِرد کے نظاروں ، قدرت کی رنگینیوں کے متعلق بتایا تب سے اس کی یہ خواہش اس کا جنون بن گئی تھی۔
کچی بستی میں رہنے والے اور کچرا چن کر گزر بسر کرنے والے اصغر عرف اچھو کی یہ چھوٹی بلکہ یوں کہنا ٹھیک رہے گا اک عجیب سی خواہش تھی بڑی کوچ میں بیٹھنا، کھڑکی سے باہر کا نظارہ کرنا، درختوں اور پہاڑوں کو پیچھے چھوڑنا، مسافروں کی نوک جھونک ، بسوں میں غبارے اور کھلونے بیچنے والے بچے وہ ان سب چیزوں سے لطف اندوز ہونا چاہتا تھا۔ لیکن جہاں دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوں وہاں بس کے مہنگے ٹکٹ کے پیسے کہاں سے آئیں اور اگر پیسوں کا انتظام کر بھی لیا جائے تو کس رشتے دار کے پاس جایا جائے اس کے قریبی سارے رشتے دار تو یہاں کچی بستی میں ہی رہتے تھے۔ جب سے اس نے ہوش سنبھالا اپنے آپ کو کچرا چنتے پایا۔ باپ اس کا فارغ ، نشے میں دھت رہتا۔ نشے کرنے کے بعد اول فول بکتا اور ان ماں بیٹے کی دھنائی کر دیتا۔
ماں اس کی کوٹھی میں جھاڑ پونچھ کا کام کرتی تھی بایاں ہاتھ پیپ اور زخم سے بھرا ہوا تھا نہ جانے کون سا زخم تھا جو بھرنے میں ہی نہیں آتا تھا۔ اس طرح ان لوگوں کی زندگی کی گاڑی چل رہی تھی اور یوں اچھو کی سوچ کچی بستی سے ہی شروع اور اسی پر ختم ہو جاتی۔ لیکن بھلا ہو دینو کا جو اچھو کے بچپن کا دوست تھا اور آج کل بڑی کوچ میں کنڈیکٹر تھا۔ اس نے باتوں ہی باتوں میں اچھو کو نا جانے کیا کیا بتایا کہ وہ ہر وقت ہوش و خرد سے بیگانہ اپنے آپ کو کوچ میں کھڑکی کے پاس بیٹھتے ہوئے پاتا۔
ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ اس کی ماں نے اسے بلایا اور بتایا کہ اس کی ماسی جو سرگودھا میں رہتی تھی بستر ِ مرگ میں مبتلا ہے۔اور اپنے میلے کچیلے ڈوپٹے کے اِک کنارے پر بنی ہوئی چھوٹی سی گرہ کو کھول کر اپنی زندگی بھر کی تمام جمع پونجی اس کے ہاتھ پہ دھر دی۔ اچھو کو تو جیسے ہفت ِاقلیم مل گیا ہو۔ اسے ماسی سے زیادہ بڑی کوچ میں سفر کرنے کی خوشی تھی ساری رات وہ خوشی سے کروٹیں بدلتا رہا۔ نیند کی دیوی تو جیسے روٹھ ہی گئی تھی مرغے کی پہلی بانگ پر وہ بستر سے اٹھاجلدی سے منہ پر پانی کے چھپاکے مارے لوہے کے آدھے زنگ لگے ہوئے صندوق‘ جس کے قبضے ٹوٹے ہوئے تھے جنہیں باریک تار کی مدد سے بڑی مہارت سے جوڑا گیا تھا‘ اسے کھولا ، تہہ کیاہوا ایک جوڑا جو اپنی اصلی حالت کھو چکا تھا لیکن پہننے کے قابل تھا اسے نکالا، جلدی سے پہنا دونوں ہاتھوں سے اس کی سلوٹیں دور کیں، بالوں کو تیل سے چپڑا، چپل اڑسی، دو نوالے زہر مار کیے اور لاری اڈے کی طرف چل دیا۔ خوشی اس کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی اڈے میں اسے اس کی مطلوبہ کوچ مل گئی تھی خوشی خوشی ٹکٹ لیا اور کھڑکی کے پاس جا بیٹھا کبھی اپنے بالوں میں ہاتھ چلاتا اور کبھی اپنے کپڑوں کی سلوٹیں دور کرتا۔
اڈے پربھانت بھانت کی آوازیں گونج رہی تھی کبھی کوئی بچہ مونگ پھلی، نمکو، ریوڑی کی ٹوکری لے آتا تو کبھی کوئی ماسک۔ اسے کسی چیز سے سروکار نہ تھا بس جلدی تھی تو کوچ کے چلنے کی۔ سواریوں کے بیھٹتے ہی ڈرائیور نے پان کی پچکاری ماری اور بائیں کندھے پہ دھرے ہوئے سفید اور سرخ رنگ کی دھاری والے رومال جس پر جا بجا پان کے داغ تھے‘ سے منہ صاف کیا اور گیئر لگا دیا۔ کوچ اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی۔ اس کی خوشی دیدنی تھی جیسے کسی بچھڑے ہوئے کو اس کا اپنا مل جائے یا کئی دن سے بھوکے کو کھانا۔
ٹھنڈی کھلکھلاتی ہوا، پیچھے رہتے درخت اور پہاڑ، ہوا کے دوش پر اڑتے ہوئے بادل، وہ ان سب سے لطف اندوز ہو رہا تھا اور باہر کی جانب دیکھنے میں اس قدر مستغرق تھا کہ اسے مسافروں کی چیخ و پکارنے بھی اپنی طرف نہ کھینچا لیکن اچانک ان سب کی چیخ و پکار میں اس کی بھی چیخ شامل ہو گئی تھی۔
اگلے دن اخبار میں یہ خبر چپھی ’’ لاہور سے سرگودھا جانے والی بس بریک فیل ہونے کی وجہ سے کھائی میں جا گری‘‘۔ یوں اصغر عرف اچھو کی یہ معمولی سی خواہش پوری ہو گئی۔

حصہ