منتخب غزلیں

314

شاہین/علامہ اقبال
کیا میں نے اس خاکداں سے کنارا
جہاں رزق کا نام ہے آب و دانہ
بیاباں کی خلوت خوش آتی ہے مجھ کو
ازل سے ھے فطرت میری راہبانہ
نہ باد بہاری، نہ گل چیں، نہ بلبل
نہ بیماریٔ نغمۂ عاشقانہ
خیابانیوں سے ہے پرہیز لازم
ادائیں ہیں ان کی بہت دلبرانہ
ہواءے بیاباں سے ہوتی ہے کاری
جوانمرد کی ضربت غازیانہ
حمام و کبوتر کا بھوکا نہیں میں
کہ ہے زندگی باز کی زاہدانہ
جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
یہ پورب، یہ پچھم، چکوروں کی دنیا
مرا نیلگوں آسماں بیکرانہ
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ
٭٭٭
منظور علی راہی

اس دور کا ہر آدمی عیار ہو گیا
اپنا ضمیر بیچ کے سردار ہو گیا
خدمت کی فکر ہے نہ کسی کا ذرا خیال
خادم ہماری قوم کا غدار ہو گیا
سمجھو کہ خوف اس کو بھی چنگاریوں کا ہے
بارود کا جو ملک خریدار ہو گیا
دن رات لٹ رہی ہیں غریبوں کی بستیاں
سرگرم جب سے لوٹ کا بازار ہو گیا
سر چڑھ کے بولتا ہے ہر اک آدمی کے وہ
قبضے میں جس کے آج کا اخبار ہو گیا
اتنی سی بات پر میں اذیت نصیب ہوں
سچائی کا زبان سے اظہار ہو گیا
رہبر لگے ہیں کرنے یہاں رہبری کا کام
راہے ہر ایک راستہ دشوار ہو گیا
٭٭٭
عبدالرحیم نشتر

چٹان کے سائے میں کھڑا سوچ رہا ہوں
میں آب رواں کس کے لیے ٹھہر گیا ہوں
پانی میں چمکتا ہے کوئی مہرباں سایہ
شفاف سمندر ہوں اسے چوم رہا ہوں
پتھر نے پکارا تھا میں آواز کی دھن میں
موجوں کی طرح چاروں طرف پھیل گیا ہوں
اک سیپ تو لے آیا تھا پانی میں اتر کر
مانا کہ اسے ریت پہ اب پھینک چکا ہوں
صحرائے ہوس اپنی طرف کھینچ رہا ہے
میں اندھے سمندر کی طرف دیکھ رہا ہوں
٭٭٭
خواجہ رضی حید

کبھی مکاں میں کبھی رہ گزر میں رہتے تھے
یہ روز و شب تو ہمیشہ نظر میں رہتے تھے
ہوا کی راہ میں اڑتی تھی زندگی اپنی
مثال موج کبھی ہم بھنور میں رہتے تھے
محبتوں میں بہت دل دھڑکتا رہتا تھا
عجیب لوگ دل معتبر میں رہتے تھے
ہمیں بھی شوق تھا کچھ تتلیاں پکڑنے کا
تمام رنگ مگر چشم تر میں رہتے تھے
خزاں سے پہلے یہاں کا عجیب موسم تھا
ثمر کی طرح پرندے شجر میں رہتے تھے
گریز پائی کا شکوہ کریں تو کس سے کریں
سفر میں رہ کے بھی ہم لوگ گھر میں رہتے تھے
ہوا کے ساتھ زمانہ بدل گیا ہے رضی
ہمیں تھے وہ جو کبھی اس نظر میں رہتے تھے
٭٭٭
شکیل بدایونی کےمنتخب اشعار

کیسے کہہ دوں کہ ملاقات نہیں ہوتی ہے
روز ملتے ہیں مگر بات نہیں ہوتی ہے
٭٭٭
کبھی یک بہ یک توجہ کبھی دفعتاً تغافل
مجھے آزما رہا ہے کوئی رخ بدل بدل کر
٭٭٭
ان کا ذکر ان کی تمنا ان کی یاد
وقت کتنا قیمتی ہے آج کل
٭٭٭
انہیں اپنے دل کی خبریں مرے دل سے مل رہی ہیں
میں جو ان سے روٹھ جاؤں تو پیام تک نہ پہنچے
٭٭٭

خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے
ایسی تنہائی کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے
افتخار عارف
٭٭٭
آدمی آدمی سے ملتا ہے
دل مگر کم کسی سے ملتا ہے
جگر مراد آبادی
٭٭٭
سمجھے گا آدمی کو وہاں کون آدمی
بندہ جہاں خدا کو خدا مانتا نہیں
صبا اکبرآبادی
٭٭٭
ظفرؔ آدمی اس کو نہ جانئے گا وہ ہو کیسا ہی صاحب فہم و ذکا
جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا
بہادر شاہ ظفر
٭٭٭
سب سے پر امن واقعہ یہ ہے
آدمی آدمی کو بھول گیا
جون ایلیا
٭٭٭
راہ میں بیٹھا ہوں میں تم سنگ رہ سمجھو مجھے
آدمی بن جاؤں گا کچھ ٹھوکریں کھانے کے بعد
بیخود دہلوی
٭٭٭
جانور آدمی فرشتہ خدا
آدمی کی ہیں سیکڑوں قسمیں
الطاف حسین حالی
٭٭٭
ہزار چہرے ہیں موجود آدمی غائب
یہ کس خرابے میں دنیا نے لا کے چھوڑ دیا
شہزاد احمد
٭٭٭
میری رسوائی کے اسباب ہیں میرے اندر
آدمی ہوں سو بہت خواب ہیں میرے اندر
اسعد بدایونی
٭٭٭
نہ جانے باہر بھی کتنے آسیب منتظر ہوں
ابھی میں اندر کے آدمی سے ڈرا ہوا ہوں
آنس معین
٭٭٭

بھیڑ تنہائیوں کا میلا ہے
آدمی آدمی اکیلا ہے
صبا اکبرآبادی
٭٭٭

گاہے گاہے کی ملاقات ہی اچھی ہے امیرؔ
قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا
امیر مینائی
کیسے کہہ دوں کہ ملاقات نہیں ہوتی ہے
روز ملتے ہیں مگر بات نہیں ہوتی ہے
شکیل بدایونی
٭٭٭
جانے والے سے ملاقات نہ ہونے پائی
دل کی دل میں ہی رہی بات نہ ہونے پائی
شکیل بدایونی
٭٭٭
مل رہی ہو بڑے تپاک کے ساتھ
مجھ کو یکسر بھلا چکی ہو کیا
جون ایلیا
٭٭٭
فرازؔ ترک تعلق تو خیر کیا ہوگا
یہی بہت ہے کہ کم کم ملا کرو اس سے
احمد فراز
٭٭٭
نقشہ اٹھا کے کوئی نیا شہر ڈھونڈیئے
اس شہر میں تو سب سے ملاقات ہو گئی
ندا فاضلی
٭٭٭
آج تو مل کے بھی جیسے نہ ملے ہوں تجھ سے
چونک اٹھتے تھے کبھی تیری ملاقات سے ہم
جاں نثاراختر
٭٭٭

جگر مراد آبادی
اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں
فیضان محبت عام سہی عرفان محبت عام نہیں
یہ تو نے کہا کیا اے ناداں فیاضی قدرت عام نہیں
تو فکر و نظر تو پیدا کر کیا چیز ہے جو انعام نہیں
یارب یہ مقام عشق ہے کیا گو دیدہ و دل ناکام نہیں
تسکین ہے اور تسکین نہیں آرام ہے اور آرام نہیں
کیوں مست شراب عیش و طرب تکلیف توجہ فرمائیں
آواز شکست دل ہی تو ہے آواز شکست جام نہیں
آنا ہے جو بزم جاناں میں پندار خودی کو توڑ کے آ
اے ہوش و خرد کے دیوانے یاں ہوش و خرد کا کام نہیں
زاہد نے کچھ اس انداز سے پی ساقی کی نگاہیں پڑنے لگیں
مے کش یہی اب تک سمجھے تھے شائستہ دور جام نہیں
عشق اور گوارا خود کر لے بے شرط شکست فاش اپنی
دل کی بھی کچھ ان کے سازش ہے تنہا یہ نظر کا کام نہیں
سب جس کو اسیری کہتے ہیں وہ تو ہے امیری ہی لیکن
وہ کون سی آزادی ہے یہاں جو آپ خود اپنا دام نہیں
٭٭٭
سلیم احمد
دکھ دے یا رسوائی دے
غم کو مرے گہرائی دے
اپنے لمس کو زندہ کر
ہاتھوں کو بینائی دے
مجھ سے کوئی ایسی بات
بن بولے جو سنائی دے
جتنا آنکھ سے کم دیکھوں
اتنی دور دکھائی دے
اس شدت سے ظاہر ہو
اندھوں کو بھی سجھائی دے
افق افق گھر آنگن ہے
آنگن پار رسائی دے

حصہ