سود ۔۔۔ قسط (25)

سوال:2 – جناب نے جس تفصیل سے میرے سوالات کا جواب عنایت فرمایا ہے اس سے میری اس قدر حوصلہ افزائی ہوئی ہے کہ میں جناب کو دوبارہ تکلیف دینے کی جرأت کر رہا ہوں۔
قرآن کریم میں جس قدر سخت وعید ربوٰ کے متعلق آئے ہیں شاید کسی اور گناہ کے لیے نہیں آئے۔ اس لیے میرے خیال ناقص میں علمائے کرام کو چاہیے کہ اس معاملے میں قیاس سے کام نہ لیں اور جب تک سود کو کسی قسم کے متعلق ان کو یقین نہ ہو جائے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اُس قسم کا سود عام طور پر لوگو میں متداول تھا اس کو ’’الربوٰ‘‘ کی تعریف میں شامل نہ کریں۔ جناب کے خط سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب والا نے تجارتی سود کے رواج کی موجودگی کا قیاس مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر فرمایا ہے:
-1 مدینہ کے زراعت پیشہ لوگ یہودی سرمایہ داروں سے سود پر قرض لیا کرتے تھے۔ میں بااداب عرض کروں گا کہ ایسے قرض ’’تجارتی قرض‘‘ نہ کہلانے چاہئیں۔ اس قسم کے قرض نادار اور حاجت مند لوگ لیا کرتے ہیں۔ زراعت کے لیے ’’تجارتی قرض‘‘ زمانہ جدید کی ایجاد ہے۔ جب سے زمین دارو کو ’’تجارتی قرض‘‘ لینے کی ضرورت ہوئی۔ زمانہ قدیم کے زراعت پیشہ لوگوں کے قرض مجبوری کے قرض ہوا کرتے تھے اور ضروریاتِ زندگی پورا کرنے کی غرض سے لیے جاتے تھے۔
-2 خود یہودیوں میں باہم بھی سودی لین دین ہوتا تھا۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کے قرض تجارتی کاموں کے لیے ہوتے تھے۔ عرب کے یہود اکثر زراعت پیشہ تھے یا ساہوکار۔ جیسا کہ یورپ میں عرصہ تک ہوتا رہا۔ ممکن ہے کہ عرب کے یہودی ساہوکار بھی غریب اور امیر دونوں قسم کے حاجت مندوں کو ان کی نجی ضروریات کے لیے روپیہ قرض دے کر اپنا چلاتے رہے ہوں۔
-3 قریش کے لوگ جو زیادہ تر تجارت پیشہ تے‘ باہم سود پر قرض لیتے دیتے تھے۔ اس کے متعلق عرض ہے کہ قریش میں سود کی جو مثالیں میری نظر سے گزری ہیں ان سے اس بات کی وضاحت نہیں ہوتی کہ متعلقہ روپیہ تجارت کے لیے قرض لیا گیا تھا۔ اگر جناب کے مطالعہ میں کوئی ایسی مثال آئی ہو تو مہربانی فرما کر مطلع فرما دیں۔ تجارت ان دنوں یا نجی سرمایہ سے یا مضاربت سے ہوتی تھی۔ جو تجارتی ’’کاروان‘‘ قریش بھیجتے تھے ان میں سب لوگ حصہ لے سکتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک دینار اور نصف دینار تک بھی حصہ لیا جاسکتا تھا۔ بظاہر اس طریقے کی تجارت کے لیے روپیہ قرض لینے کی حاجت نہ ہونی چاہیے۔ جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں تجارتی سود یورپ میں بہت بعد میں آیا اور پانچویں اور دسویں صدی عیسوی کے درمیان اس کا وہاں رواج نہ تھا۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ عرب کی بھی یہی حالت ہو۔ لیکن یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ جاہلیت کے عرب میں تجارتی سود کے رواج کی موجودگی کو ماننی سے پہلے اس کے متعلق تحقیق کر لی جائے۔ عرب اور دیگر مورخوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے حالات کافی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ تجارتی سود کے متعلق ان کی خاموشی سے کیا یہ گمان نہ ہوگا کہ ایسے سود کا ان دنوں رواج ہی نہ تھا؟ خاص طور پر جب کہ تجارت کا طریقِ کار ہی ایسا تھا کہ اس میں ہر پیسے والا شامل ہوسکتا تھا۔
جناب کی نظر سے مولانا ابوالکلام آزاد صاحب کا سورۂ بقر کی آیات 277, 276 کا ترجمہ گزر چکا ہوگا۔ انہوں نے ’’الربوٰ‘‘ سے وہ سود مراد لیا ہے جو کسی حاجت مند سے لیا جاوے۔ کیا علمائے کرام اور مفسرین عظام میںسے کسی اور نے بھی یہ معنی کیے ہیں؟ اگر ان معنوں سے اور بزرگان دین کو اتفاق ہو تو ایک بہت بڑے اور اہم مسئلے کا حل مل جائے گا۔
جواب: مجھے آپ کے اس خیال سے اتفاق ہے کہ جس چیز کی حرمت کی تصریح قرآن میں نہ کی گئی ہو اس کو بعینہ اس چیز کے درجے میں نہ رکھنا چاہیے جس کے حرام ہونے کی صراحت قرآن میں کی گئی ہے۔ لیکن ربوٰ کے معاملے پر اس قاعدے کا انطباق آپ جس طرح کر رہے ہیں وہ میرے نزدیک صحیح نہیں ہے۔ آپ کے استدلال کی بنیاد دو باتوں پر ہے۔ ایک یہ کہ ربوٰ سے مراد لازماً معاملہ قرض کی وہی صورت لی جانی چاہیے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں رائج تھی۔ دوسرے یہ کہ تجارتی سود کا رواج چونکہ اس زمانے میں نہ تھا اور نہ صرف نادار حاجت مند لوگ ہی سود پر قرض لیا کرتے تھے اس صرف دوسری چیز ہی قرآنی حکم تحریم کی زد میں آتی ہے اور پہلی چیز اس سے خارج رہتی ہے۔ یہ دونوں باتیں درست نہیں ہیں۔
پہلی بات اس لیے غلط ہے کہ قرآن صرف ان معاملات کا حکم بیان کرنے نہیں آیا تھا جو نزول قرآن کے وقت عرب یا دنیا میں رائج تھے‘ بلکہ وہ اصول بیان کرنے آیا تھا جو قیامت تک پیش آنے والے معاملات میں جائز و ناجائز اور صحیح و غلط کا فرق ظاہر کریں۔ اگر یہ بات نہ مانی جائے تو پھر قرآن کی ابدی اور عالم گیر راہ نما ہونے کے کوئی معنی نہیں ہیں نیز اس صورت میں معاملہ صرف ایک ربوٰ کا نہیں ہرتا۔ ایک شخص یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ قرآن جس شراب کو حرام قرار دیتا ہے اس سے مراد صرف اس قسم کی شرابیں ہیں جو اس وقت عرب دنیا میں بنا کرتی تھیں۔ قرآن جس سرقے کو حرام ٹھہرا رہا ہے اس سے مراد صرف اس طریقے یا ان طریقوں سے سرقہ کرنا ہے جو اس وقت استعمال ہوتے تھے حالانکہ اصل چیز شراب اور سرقے کی حقیقت ہے جو ممنوع کی گئی ہے نہ کہ اس کی رائج الوقت قسمیں اور صورتیں۔ اسی طرح اصل چیز ربوٰ کی حقیقت ہے جو حرام کی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ معاملہ قرض میں دائن مدیون سے اصل پر کچھ زائد وصول کرنے کی شرط کرے۔ یہ حقیقت جس معاملۂ قرض میں بھی پائی جائے گی اس پر قرآن کے حکم تحریک کا اطلاق ہو جائے گا۔ قرآن نے مطلق ربوٰ کو حرام کیا ہے اور کہیں یہ نہیں کہا کہ جو شخص ناداری و حاجت مندی کی حالت میں اپنی ضروریاتِ شخصی کی خاطر قرض لے صرف اس سے سود لینا حرام ہے۔
دوسری بات اس لیے غلط ہے کہ اوّل تو تجارتی سود کی صرف یہ شکل جدید ہے کہ تجارت کے لیے ابتدائی سرمایہ ہی قرض کے ذریعے اکٹھا کیا جائے ورنہ تجارتی کاروبار کے دوران میں تاجروں کا ایک دوسرے سے قرض لینا یا ساہوکاروں سے قرض لے کر کسی کاروباری ضرورت کو پورا کرنا تو قدیم ترین زمانے سے دنیا بھر میں رائج ہے اور اس کے جدید ہونے کا کوئی ثبوت موجود نہیںہے۔ دوسرے شخصی حاجتوں کیلیے غیر تجارتی قرض لینے کی بھی صرف یہی ایک صورت نہیں ہے کہ آدمی بیماری میںدوا کا محتاج ہو یا مفلسی کی حالت میں گھر کے لیے آٹا‘ دال فراہم کرنا چاہتا ہو اور اس کے لیے کسی مال دار سے قرض لے اس کے علاوہ بہت سی صورتیں ایسی بھی ہیں جن میں بالکل نادار نہ ہونے کے باوجود آدمی قرض لے کر اپنی کوئی آتی ضرورت پوری کرتا ہے۔ مثلاً بچوں کی شادیاںکرنا یا گھر بنانا ایسے قرض بھی ہر زمانے میں لیے جاتے رہے ہیں۔ آپ رض کی ان بہت سی مختلف صورتوں میںسے کس کس کو تحریم ربوٰ کے حکم سے خارج اور کس کس کو داخل کریں گے؟ اس کے لیے کیا اصول مقرر کریں گے؟ اور قرآن کے کن الفاظ سے یہ اصول نکالیں گے۔
زمانۂ جاہلیت یا ابتدائی زمانۂ اسلام کے کاروباری رواج میں تجارتی سود اور غیر تجارتی سود کی تفصیل نہ ملنے کی وجہ یہ ہے کہ اس زمانے میں اس تفریق و امتیاز کا تصور پیدا نہ ہوا تھا اور یہ اصطلاحیں نہیں بنی تھیں۔ اس زمانے کے لوگوں کی نگاہ میں قرض‘ ہرطرح کا قرض ہی تھا خواہ نادار لے یا مال دار‘ خواہ ذاتی ضروریات کے لیے لے یا کاروباری ضروریات کے لیے۔ اس لیے وہ صرف معاملہ قرض اور اس پر سود کے لین دین کا ذکر کرتے اور اس کی ان تفصیلات میں جاتے تھے۔
مولانا آزاد کا صحیح منشا وہ نہیں ہے جو آپ نے سمجھا ہے وہ اپنی تشریحی عبارتوں میں صرف یہ دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ سود میں اخلاقی حیثیت سے کیا قباحت ہے لیکن ان کا منشا یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ سود سے مراد ہی صرف وہ سود ہے جو کسی حاجت مند کو ذاتی ضروریات کے طلیے قرض دے کر وصول کیا جائے۔
مولانا موصوف کی تشریح سے جو مفہوم آپ اخذ کر رہے ہیں وہ قرآن کے الفاظ سے بھی زائد ہے اور مفسرین و فقہاء میں سے بھی کسی نے تحریم ربوٰ کے اس قرآنی حکم کو حاجت مندی سے مقید نہیں کیا ہے۔ اس سلسلے میں بہت ہو کہ آپ میری تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘ جلد اوّل صفحہ 210 سے 218 تک ملاحظہ فرما لیں (مارچ 1957)
سوال: جیسا جناب نے فرمایا تھا‘ میرے استدلال کی بنیاد و باتوں پر ہے۔ ایک یہ کہ ربوٰ سے مراد لازماً قرض کی وہی صورت لی جانی چاہیے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں رائج تھی اور دوسرے یہ کہ تجارتی سود کا رواج چونکہ اس زمانے میں نہ تھا اس لیے سود کی یہ صورت قرآنی حکم تحریم میں نہیں آتی۔ جناب ان دونوں باتوں کو درست نہیں سمجھتے مگر یہ دونوں جناب کی تصنیف ’’سود‘‘ حصہ اوّل کے صفحات 35, 34 کی بحث ہیں۔ جناب نے فرمایا ’’قرآن جس زیادتی کو حرام قرار دیتا ہے وہ ایک خاص قسم کی زیادتی ہے اس لیے وہ اسے ’’الربوٰ‘‘ کے نام سے یاد کرتا ہے۔ اہلِ عرب کی زبان میں اسلام سے پہلے بھی معاملہ کی ایک خاص نوعیت کو اس اصطلاحی نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ اور چونکہ ’’الربوٰ‘‘ ایک خاص قسم کی زیادتی کا نام ہے اور وہ معلوم و مشہور تھی۔ اس لیے قرآن مجید میں اس کی کوئی تشریح نہیں کی گئی…‘‘ اس کے بعد وہ روایات ہیں جن میں زمانۂ جاہلیت کے ربوٰ کی مثالیں دی گئی ہیں اور انکے بعد بعد مرقوم ہے کہ ’’کاروبار کی یہ صورتیں عرب میں رائج تھیں‘ انہی کو اہلِ عرب اپنی زبان میں ’’الربوٰ‘‘ کہتے تھے اور یہی وہ چیز تھی جس کی تحریم کا حکم قرآن مجید میں نازل ہوا۔‘‘ میں یہ عرض کر چکا ہوں کہ جناب کی کتاب میں اور دوسری کتابوں میں ’’الربوٰ‘‘ کی جو مثالیں دی ہوئی ہیں ان سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ عرب تجارت کے لیے بھی قرض لیتے تھے اور اگر عرب میں تجارتی سود رائج نہیں تھا تو جناب کے اپنے استدلال کے مطابق ’’الربوٰ‘‘ کی زد میں نہیں آنا چاہیے۔ اگر یہ نتیجہ نکالنے میں مجھ سے کوئی غلطی سرزد ہوئی ہے تو مہربانی فرما کر مجھے اس سے مطلع فرمایئے اور علمائے کرام نے بھی مانا ہے کہ ’’الربوٰ‘‘ سے وہی بڑھوتری مقصود ہے جو ان دنوں عربوںمیں متداول تھی اور ربوٰ کے نام سے یاد کی جاتی تھی۔
اب رہی یہ بات کہ آیا زمانہ جاہلیت کے عربوں میں تجارتی سود واقعی رائج تھا کہ نہیں۔ اس کے متعلق جناب فرما چکے ہیں کہ یہ بات صراحت کے ساتھ کسی کتاب میں نہیں لکھی گئی اس لیے میں نے عرض کیا تھا کہ ایسے سنگین معاملے میں جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے بڑی سخت سزا مقرر کی ہے قیاس پر عمل نہ کرنا چاہیے بلکہ جہاں تک ممکن ہو سکے اصل حالات معلوم کرنے چاہئیں۔ میں نے یہ بھی عرض کیا تھا کہ یہ تاریخی امر ہے کہ یورپ میں پانچویں اور دسویں صدی عیسوی کے درمیان تجارتی سود کا رواج نہ تھا اس کے لیے میں جناب کی خدمت میں مختلف کتابوں کے حوالے پیش کر سکتا ہوں‘ نیز جن کتابوں تک میری رسائی ہو سکی ان سے یہ معلوم ہوا کہ ان دنوں عرب میں تجارت نجی سرمایہ سے یا مضاربت سے ہوتی تھی۔ تجارت کے جتنے تذکرے میری نظر سے گزرے ہیں ان میں کہیں تجارتی قرض کا ذکر نہیں۔ جناب کی علمیت اور وسعتِ مطالعہ سے مجھے امید تھی کہ جناب میری رہنمائی کسی ایسی کتاب کی طرف فرمائیں گے جس سے اس بات کے متعلق قابلِ وثوق حالات معلوم ہو سکیں لیکن یہ امید بر نہ آئی۔ جیس اکہ پہلے عرض کر چکا ہوں مصنفین نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے حالات بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں لیکن اس کا کہیں ذکر نہیں آتا کہ لوگ قرض لے کر تجارت کیا کرتے تھے۔ قریش تاجر تھے‘ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سود پر روپیہ دیتے تھے مگرکن کو؟ کھجور کے کاشت کاوں کو‘ طبقہ تجار کا ایک فرد بھی اپنا سرمایہ سود پر دیتا ہے تو کاشت کاروں کو۔ کیا اس سے یہ گمان نہ ہوگا کہ تجارتی سود ناپید تھا؟
جناب نے دریافت فرمایا ہے کہ قرض کی بہت سی مختلف صورتوں میں سے کس کس کو تحریک ربوٰ کے حکم سے خرج اور کس کو داخل کریں گے۔ سود کی وہ صورتیں جو زمانۂ جاہلیت میں رائج تھیں سب ممنوع ہوں گی۔ جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں اس وقت ذاتی ضروریات کے لیے اور اضطراری قسم کے قرض ہی لیے جاتے تھے اور ایسے قرض لینے والے لوگوں کو مہاجن اکثر لوٹتے تھے اور ان کو بچانا ضروری تھا اس لیے ’’الربوٰ‘‘ حرام ہوا۔ ایسے سود کی جتنی بھی مذمت کی جائے درست ہے اور اس کے مجرموں کے لیے جس قدر سخت سزا تجویز کی جائے بجا ہے۔ اس کے برخلاف ایسے قرضجن کے لینے والا نفع آور کاموں میں لگاتے ہیں ان پر سود جائز ہونا چاہیے۔ ایسے سود دینے والے اور لینے والے دونوں کے لیے فائدہ مند ہوتے ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ کئی دفعہ مدیون ان کومضاربت پر ترجیح دیتا ہے۔ مجھے یہ سمجھنے میں بڑی مشکل پیش آتی ہے کہ علمائے کرام ایسے سود کو ’’حَرْبُ ٗ من اﷲ و رسولہٖ‘‘ جیسی سخت سزا کا مستوجب کیوں قرار دیتے ہیں کیا اسلامی فقہ کے مطابق جرم اور اس کی سزا میں مطابقت میں نہیں ہونی چاہیے۔ ایسے سود پر جو اعتراض کیے جاتے ہیں وہ یہ ہیں: ایک یہ کہ اس سے ایسا طبقہ پیدا ہوتا ہے جو بغیر محنت و مشقت کے آمدنی وصول کرتا ہے۔ یہ اعتراض ان لوگوں پر بھی ہونے چاہئیں جن کے پاس بڑی بڑی زمین داریاں اور کئی کئی مکان ہیں اور وہ بن محنت گزر اوقات ہی نہیں بلکہ عیش کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ اگر اسلام ان نکھٹوئوں کو نہیں روکتا تو تجارتی سود لینے الا ہی کیوں موردِ عتاب ہو؟ دوسرے یہ کہ سود لے کر تجارت کرنے والے کو چاہیے نقصان ہو مگر سود لینے والے کو منافع ہی ملے گا۔ یہ اعتراض کچھ حد تک درست ہے لیکن اس بات کو نظر انداز نہ کرنا چاہیے کہ سود پر روپیہ تجارت کے لیے لیا جاتا ہے کہ مدیون کو اس شرح سود سے کئی گنا زیادہ منافع کی امید ہوتی ہے اور بیشتر اوقات یہ امید پوری ہوتی ہے ورنہ تجارتی قرض کو اس قدر فروغ نہ ہوتا۔ ایسے قرض دینے والے کو سالانہ ایک چھوٹی سی رقم ملتی رہتی ہے اور اس کے بدلے روپیہ لینے والا کبھی اس رقم سے کئی گنا زیادہ نفع کما لیتا ہے اور کبھی اس کو نقصان ہوتا ہے اس قسم کے خطرے (Risk) کو قبول کرنا تجارت کا عام مسلک ہے اور یہ ایسی چیز نہیں اور اس سے ایسی خرابیاں پیدا نہیں ہوتیں کہ اس پر ’’الربوٰ‘‘ والی سزا لازم آئے۔ میرے خیال ناقص میں ہمیں سود کی نفع آور اور غیر نفع آور صورتوں میں تفریق کرنی چاہیے اور پہلی جائز اور دوسری ممنوع ہونی چاہیے۔ (جاری ہے)