کچھ نظامِ تعلیم کے بارے میں

382

کسی بھی نظریاتی مملکت میں تعلیم کا مقصد ایسے افراد پیدا کرنا ہوتا ہے جو اس کے نظریے پر پختہ یقین رکھتے ہوں اور اپنی زندگیوں کو اس نظریے کے مطابق ڈھال سکیں۔پاکستان ان معنوں میں ایک نظریاتی مملکت ہے کہ اس کی بنیاد اسلام پر ہے اور یہ بیسیویں صدی کے تقاضوں کے مطابق اسلام کو زندگی کے ہر شعبے میں نافذ کرنے کے لیے وجود میں آئی ہے‘ اس لیے پاکستان میں تعلیم کا مقصد ایسے افراد پیدا کرنا ہے جو اسلام پر مکمل یقین رکھتے ہوں اور اسلام کے مطابق زندگی بسر کرسکیں‘ یعنی پکے اور سچے مسلمان ہوں۔ بظاہر یہ ایک سیدھی سادی اور منطقی بات ہے جس میں کوئی پیچیدگی یا الجھائو نظر نہیں آتا‘ لیکن جب ہم اس بات پر عملی نقطۂ نظر سے غور کرتے ہیں تو بہت سے سوالات پیدا ہونے لگتے ہیں جن پر غور کیے بغیر اور ان کا کوئی تشفی بخش جواب سوچے بغیر ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔مثلاً ایک سوال یہ ہے کہ ہم جب اسلام کو بیسویں صدی یا عہدِ جدید کے تقاضوں سے مشروط کرتے ہیں تو اس سے ہماری کیا مراد ہوتی ہے؟ کیا بیسویں صدی میں مسلمان ہونا‘مثال کے طور پر پندرہویں صدی میں مسلمان ہونے سے مختلف بات ہے؟ دوسرے لفظوں میں ہمارا سوال یہ ہے کہ وہ کیا چیزیں ہیں جو بیسویں صدی سے تعلق رکھتی ہیں اور وہ کیا چیزیںہیں جو اسلام سے تعلق رکھتی ہیں اور لمحۂ موجود میں ان کا اشتراک کیا معنی رکھتا ہے؟ہمارے سامنے یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ ظہور اسلام سے اب تک ہماری معاشرت بہت کچھ بدلتی رہی ہے۔ اسلام عرب کے قبائلی نظام میں پیدا ہوا تھا اور اپنی تاریخ کے مختلف ادوار میں متعدد معاشروں سے دوچار ہوا۔ ان کے اعتبار سے عرب‘ عجم‘ ہندوستان میں اسلام نے کم از کم ظاہری طور پر مختلف شکلیں اختیار کیں۔ اب ان سب ملکوں کی معاشرت میں واضح اور نمایاں تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اسلام ان تبدیلیوں کے بارے میں کیا روّیہ رکھتا ہے۔ شاید یہ سوال ایک مثال سے زیادہ واضح ہوسکے۔عہدِ جدید سے پہلے مسلمان عورتیں پردے میں رہتی تھیں۔ پردے کی مختلف شکلیں مسلمان ملکوں اور معاشروں میں رائج تھیں۔ برصغیر کے مسلمانوں میں اس کی ایک مخصوص شکل تھی۔ہندوستان میں انگریزوں کی آمد کے بعد جب عورتوں میں بے پردگی پھیلی تو پورے معاشرے میں بڑی بے چینی پیدا ہوئی اور عورتوں کے پردے سے باہر نکلنے کو خلافِ اسلام قرار دیاگیا۔اس کے مقابلے پر جو لوگ بے پردگی کے حامی تھے انہوں نے ایسے دلائل دینے شروع کیے جن سے یہ ثابت ہوتا تھا کہ برصغیر کے مسلمانوں میں جو پردہ رائج تھا وہ غیر اسلامی تھا اور اس کے مقابلے پر موجودہ بے پردگی اسلامی ہے۔ یہ بحثیں کچھ عرصے تک زور و شور سے جاری ہیں‘ لیکن اس کے بعد بے پردگی کے رجحان نے قوت پکڑ لی اور معاشرے میں دو طبقات وجود میں آگئے ایک طبقہ اُن لوگوں کا جو اب بھی عورتوں کو پردہ کراتے ہیں‘ دوسرا طبقہ ان لوگوں کا جن کی عورتیں پردہ نہیں کرتیں۔ تاہم پردہ کرنے والوں میں بھی وہ سختی باقی نہیں رہی اور ایک ایسا ڈھیلا ڈھالا نظام وجود میں آیا کہ ماں برقعہ اوڑھ کر باہر نکلتی ہے تو بیٹی بے پردہ ساتھ ہوتی ہے۔ نتیجہ ظاہر ہے حالات جوں جوں تبدیل ہوتے جارہے ہیں بے پردگی کا رجحان زیادہ تقویت حاصل کرتا جارہا ہے۔ اب عملاً تو یہ بے عملی موجود ہے‘ لیکن نظریاتی طور پر یہ بات کھل کر طے نہیں ہو سکی کہ دونوں طبقات میں کس طبقے کا عمل اسلام کے مطابق ہے اور کس کا اسلام کے خلاف؟ کم از کم اسلام کے مستند شارح اور مفسر اس مسئلے پر ویسی بات نہیں کرتے جیسی پہلے کرتے تھے۔ ایسا لگتا ہے جیسے پچھلے مقتدر نقطۂ نظر کی جگہ ایک خاموش قسم کےسمجھوتے نے لے لی ہے اور زبان سے صاف طور پر قبولے بغیر بے پردگی کو تسلیم کر لیا گیا ہے۔ یہ ایک مثال ہے جس کے ذریعے بہت سے دوسرے مسائل کو دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔ مثلاً عورتوں ہی سے متعلق ایک دوسرا سال مخلوط تعلیم کا ہے۔ آپ ان مثالوں کو پیش نظر رکھیں تو آپ کو بہت سے ایسے مسائل نظر آئیں گے جن میں اسلام کا قدامت پسندانہ نقطۂ نظر یعنی وہ نقطۂ نظر جو ان تبدیلیوں کے آغاز میں اختیار کیا گیا‘ عہد جدید کے رویوں سے متصادم نظر آئے گا۔ تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں اسلام کا نفاذ قدامت پسندانہ نقطۂ نظر کے مطابق ہوگا یا اس میں ان جدید روّیوں کو قبول کر لیا جائے گا جو خواہ کسی زمانے میں اسلامی نہ سمجھے گئے ہوں مگر موجودہ زمانے میں کسی نہ کسی طرح مسلمانوں میں رائج ہو گئے ہیں؟
اوپر دی ہوئی وضاحت کی روشنی میں ہمارا بنیادی سوال ہے اس حقیقت کی موجودگی میں کہ دنیا کے ہر معاشرے کی طرح ہمارا معاشرہ بھی آئے دن نت نئی تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے ہمارا رویہ کیا ہونا چاہیے؟ ہمیں ان تبدیلیوں کو قبول کرنا چاہیے یا انہیں رد کر نا چاہیے‘ اگر قبول کرنا چاہیے تو اسلام میں اس کا اصول کیا ہے؟ اگر رد کرنا چاہیے تو کیا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہمیں ویسا رہنا چاہیے جیسے ہم عہد جدید کے آغاز سے پہلے تھے اور کیا یہ ممکن ہے؟ جہاں تک مذہب کے مستند نمائندوں کا تعلق ہے ہم یہ دیکھتے آئے ہیں کہ انہوں نے ابتدا میں معاشرے میں رونما ہونے والے ہر چھوٹے بڑے تغیر کی مخالفت کی۔ بالوں کی وضع قطع‘ لباس‘ داڑھی‘ پردہ‘ تصویریں کھنچوانا‘ مسجد میں لائوڈ اسپیکر کا استعمال اور ایسے ہی بے شمار مسئلوں پر یہ اختلاف موجود تھا کہ اسلامی ہیں یا غیر اسلامی۔ یہاں تک کہ خود جدید تعلیم کا م حصول بھی ایک اختلافی مسئلہ تھا بعد میں حالات کی تبدیلی کے ساتھ خاموشی اور اس کے بعد سمجھوتے کے رویے اختیار کیے گئے۔ شاید تصویر کھنچوانے کے بارے میں بھی علما کا مسلک یہ تھا کہ یہ ناجائز ہے‘ لیکن علمائے کرام کی تصویریں بھی دھڑلے سے کھینچی اور کھنچوائی جاتی ہیں۔
اعتراض یہ نہیں ہے کہ ایسا کیوں ہے‘ اعتراض یہ ہے کہ عملاً اگر کچھ چیزیں ابتدائی مخالفت کے بعد اختیار کرلی گئیں تو اس اصول کو واضح کیوں نہیں کیا گیا جن کے تحت تبدیلیوں کو قبول کیا جاسکتا ہے۔ مذہب کے نمائندوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس بنیادی سوال کی وضاحت کریں کہ معاشرتی تبدیلیوں کے بارے میں اسلام کا رویہ کیسا ہے؟ جدید تعلیم یافتہ لوگوں کا ایک گروہ جو کچھ مذہب سے بھی شغف رکھتا ہے‘ اجتہاد کے اصول پر زور دیتا ہے لیکن جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں ہمارے یہاں ایسے مذہبی فرقے موجود ہیں جو اجتہاد کے بجائے تقلید کے قائل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان بطور ایک نظریاتی مملکت کے اجتہاد کو اپنا اصول بنائے گا یا تقلید کو؟ اس کے بعد دوسرا سوال یہ ہے کہ اجتہاد کا حق کسے حاصل ہوگا؟ اب تک صورت حال یہ رہی ہے کہ کچھ لوگوں نے انفرادی طور پر جو اجتہاد کرنا چاہا ہے مذہب کے نمائندوں اور اس کے ساتھ معاشرے کی اکثریت نے اسے رد کر دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اجتہاد اگر ہماری ضرورت ہے تو اس کے لیے باقاعدہ ایک ادارے کی ضرورت ہوگی۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ ادارہ کس قسم کے لوگوں پر مشتمل ہوگا؟ اگر اس کی باگ ڈور علما کے ہاتھ میں ہوگی تو کیا ان میں وہ لوگ شامل ہوں گے جو تقلید سے ایک انچ بھی ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں؟ اگر نہیں تو پھر علما کے تعاون کے بغیر کوئی اجتہاد مستند سمجھا جا سکے گا؟
یہ سوال بظاہر تعلیم کے مسئلے سے غیر متعلق معلوم ہوتے ہیں لیکن ذرا گہرائی میں جاکر دیکھا جائے تو تعلیم کے مسئلے سے ان کا براہِ راست تعلق ہے۔ تعلیم کا مقصد اگر سچے اور پکے مسلمان پیدا کرنا ہے تو ہمیں اس سوال کا جواب دینا ہوگا کہ ایک سچے اور پکے مسلمان کا ہمارا ذہن میں کیا تصور ہے‘ یعنی وہ ظاہر اور باطن میں کیسا ہوگا اکبر کے الفاظ میں ہم اسے مسٹر دیکھنا پسند کریں گے یا مولانا‘ یا دونوں کی کوئی ملی جلی شکل؟
ہم نے معاشرتی تبدیلیوں کے حوالے سے جو سوال اٹھائے ہیں اب تعلیم سے ان کے تعلق کو واضح کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کا جواب پردے کے بارے میں یہ ہے کہ پردہ ہونا چاہیے تو تعلیم پر اس کے مختلف اثرات نمایاں ہوںگے۔ سب سے پہلے تو مخلوط تعلیم کو ختم کرنا پڑے گا اور اس کے بعد یہ سوال پیدا ہوگا کہ عورتوں کو کس قسم کی تعلیم دی جائے۔ جو نقطۂ نظر پردے کے حق میں ہے وہ عورتوں کے مخصوص سماجی کردار کا قائل ہے۔ اس کے نزدیک عورت ماں‘ بہن‘ بیٹی اور بیوی کی حیثیت سے خاتونِ خانہ ہے‘ لیکن معاشرے میں اس کا گھر سے باہر کوئی رول نہیں ہے اس کے معنی یہ ہوئے کہ اس نقطۂ نظر سے عورتوں کو ایسی تعلیم نہیں دی جائے گی جس سے وہ ملازمتوں یا دوسرے پیشوں میں جہاں مردوں سے ان کے آزادانہ ربط و ضبط کے مواقع ہوں‘ داخل ہو سکیں۔ اسی طرح مردوں کے بارے میں یہ سوال اٹھایا جائے گا کہ ان کی تعلیم میں سیرت و کردار کی تعمیر کو اوّلین اہمیت دی جائے یا پیشہ وارانہ ہنر مندی کو۔ ابھی کچھ دن پہلے جھوٹی گواہی کے مسئلے پر اسلامی نقطۂ نظر سے ایسی سفارشات کی گئی ہیں جن سے یہ پورا نظام ختم ہو سکے۔ ہمارے خیال میں ایسا ہی مسئلہ خود وکالت کے پیشے کے سلسلے میں پیدا ہوتا ہے۔ وکالت بطور پیشے کے جھوٹے مقدمات سے دامن نہیں چھڑا سکتی۔ اب پہلا سوال یہ ہے کہ پاکستان میں کیا عدالت کا کوئی ایسا نظام پیدا کرنا ہوگاجس میں وکیل کی ضرورت نہ پڑے یا وکیلوں میں خود ایسی ماہئیت قلب پیدا کرنی پڑے گی کہ وہ جھوٹے مقدمات کی پیروی نہ کریں۔ اگر ہمارا جواب یہ ہو کہ اسلامی معاشرے میں پیشہ ور وکیل کی ضرورت نہیں ہوگی تو تعلیم میں اس کے مطابق ردوبدل کرنا پڑے گا۔ ایک طرف ضروری ہوگا کہ وکالت کی مخصوص تعلیم ختم کر دی جائے۔ دوسری طرف اس کے بدل کے طور پر ہر طالب علم کو اتنا قانون سکھانا پڑے گا کہ وہ وقتِ ضرورت اپنے مقدمے کی پیروی خود کر سکے۔
معاشرتی تبدیلیوں کے بارے میں ایک سے زیادہ گہری بات یہ ہے کہ وہ ذہنی تبدیلیوں کا نتیجہ یا سبب بنتی ہیں۔ ذہنی تبدیلی میں خیال‘ جذبہ اور احساس سب کی تبدیلی شامل ہے۔ ایک ایسا فرد جو بچپن سے مذہبی ماحول میں رہا ہو‘ ایک ایسے فرد سے مختلف ہوتا ہے جو طبعاً آزادانہ ماحول کا تربیت یافتہ ہو۔ اس کی مثالیں آپ عورتوں اور مردوں میں واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ ایک لڑکی جو پردے میں رہی ہو اور قدامت پسندانہ ماحول میں پالی گئی ہو‘ جدید تعلیم و تربیت یافتہ کی لڑکیوں سے اپنے پورے طرزِ احساس میں مختلف ہوتی ہے اور قطعی مختلف قسم کے معاشرتی رویے کا اظہار کرتی ہے۔ پاکستانی معاشرے میں کس قسم کے معاشرتی روّیوں کو پروان چڑھائیں گے اور تعلیم و تربیت کے ذریعے ان میں سے کون سے رویے کی حوصلہ افزائی کریں گے۔ذہنی تبدیلیوں کے سلسلے میں دوسرا اہم سوال خالص نصابی نوعیت رکھتا ہے۔ ایک نوجوان جس کو تخلیق کائنات اور تخلیق انسان کے عام مذہبی عقائد کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس نوجوان سے مختلف ذہنیت رکھتا ہے جو مثال کے طور پر ارتقا کے نظریے پریقین رکھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم اپنے نصاب میں ان نظریات اور خیالوں کو شامل کریں گے یا نہیں جو مذہب کی عام تعلیمات سے لگّا نہیں کھاتے۔ یہ نظریہ کہ انسان آدم کی اولاد ہے اور یہ نظریہ کہ انسان بندر سے بنا ہے اکبر کے زمانے میں متصادم نظریات کے ضمن میں آتا تھا۔ اب تک مستند مذہبی حلقوں کی طرف سے یہ بات واضح نہیں کی گئی کہ مسئلہ ارتقا کے بارے میں مذہب کا نقطۂ نظر کیا ہے۔ موجودہ صورتِ حال میں ہم اپنے بچوں کو دونوں طرح کی باتیں بغیر کسی ترجیح کی سکھاتے ہیں جن سے شخصیت میں تضاد ثنویت اور کشمکش پیدا ہوتی ہے۔ ہمیں بہر حال یہ طے کرنا پڑے گا کہ ایسے علوم کے بارے میں جو اسلام سے مختلف تصورات پر قائم ہمارا رویہ کیا ہو۔ کیا ہم ایسے علوم پڑھانے سے گریز کریں گے یا ان کے نظریات سکھانے کے باوجود ان کے بارے میں ایک تنقیدی نقطۂ نظر کو پیدا کرنے پر زور دیں گے؟ جن نظریات سے اسلامی سیرت و کردار کی تعلیم پر گہرا اثر پڑ سکتا ہے ان میں بعض نفسیاتی نظریے بھی شامل ہیں۔ ایک طالب علم جو لاشعوری محرکات کے نفیساتی نظریات سے اثر قبول کرتا ہے‘ سیرت و کردار کی شعوری تعمیر کے نصب العین سے ہم آہنگی محسوس نہیں کرتا۔ ہمیں اپنی تعلیم میں اس بات کو طے کرنا پڑے گا کہ ہم اپنے بچوں کو ایسے نظریات پڑھائیں یا نہ پڑھائیں؟ اگر ہمارا فیصلہ یہ ہو کہ ایسے نظریات کی تعلیم دینا مناسب نہ ہوگا تو پھر یہ سوال پیدا ہوگا کہ ہم اپنے بچوں کو کس کس علم کی تعلیم نہ دیں۔ دیں تو کس حد تک اور اس کے بارے میں ہمارا مجموعی رویہ کیا ہو؟
ہمارے پرانے نظامِ تعلیم میں جو فکر و عمل کی یک جائی پائی جاتی ہے اس کا سبب یہ تھا کہ اس نظام کا بنیادی پتھر مذہب تھا۔ اس کے نصاب میں جو کچھ
بقیہ صفحہ 10پر
سکھایا جاتا تھا وہ مذہب کی روشنی میں سکھایا جاتا تھا۔ دوسرے لفظوں میں زندگی کے ہر شعبے تشریح و تفسیر مذہبی نقطۂ نظر ہی سے کی جاتی تھی اور اگر ایسے علوم کی تعلیم دی بھی جاتی تھی جو مذہب سے براہِ راست تعلق نہیں رکھتے تھے تو ان میں مذہبی نقطۂ نظر شامل کر دیا جاتا تھا۔ مثلاً فلسفۂ یونان کی تعلیم دی جاتی تھی مگر اس کی خالص شکل میں نہیں بلکہ اس کے اس جواب کی شکل میں جو مسلمانوں میں ’’علم الکلام‘‘ کی صورت میں ظاہر ہوا تھا۔ طالب علم فلسفۂ یونان کے مسائل کو کلامی استدلال کی روشنی میں پڑھتا تھا اب اگر اس اصول کو ہم نئے علوم پر منطبق کریں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہمیں سب سے پہلے مذہب کی روشنی میں ان علوم کا جواب ڈھونڈنا پڑے گا‘ صرف اسی صورت میں ہم اپنے بچوں کو ان علوم کے ساتھ اسلامی نقطۂ نظر کی تعلیم دے سکیں گے۔
جذباتی باتوں کا تو خیر معاملہ ہی اور ہے‘ لیکن جو لوگ ٹھوس معنوں میں اسلام کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ اس حقیقت سے صرفِ نظر نہیں کر سکتے کہ موجودہ زمانہ غالب طور پر ایک مخالفِ مذہب زمانہ ہے۔ جدید سائنسی اور معاشرتی علوم اپنی بنیاد میں اگر مذہب دشمن نہیں تو کم از کم غیر مذہبی ضرور ہیں۔ طبیعات میں ہم پہلا اصول یہ پڑھتے ہیں کہ مادّے کو نہ پیدا کیا جاسکتا ہے نہ ختم کیا جاسکتا ہے جب کہ مذہب میں ہمیں تعلیم دی جاتی ہے کہ ہر چیز کا پیدا اور ختم کرنے والا خدا ہے۔ اس طرح نفسیات‘ بشریات‘ حیاتیات اور دیگر علوم میں ہمیں بہت سی ایسی باتیں پڑھائی جاتی ہیں جو مذہبی نقطۂ نظر سے زیادہ ایک غیر مذہبی نقطۂ نظر کے حق میں جاتی ہیں۔ پاکستان میں اگر تعلیم کا مقصد سچے اور پکے مسلمان پیدا کرنا ہے تو ہمیں یا تو ان علوم کی تعلیم بند کرنی پڑے گی یا ان کے مقابلے پر اسلامی علوم پیدا کرنے ہوں گے۔ مثال کے طور پر اشتراکی ملکوں میں ان علوم کی جو تعلیم دی جاتی ہے ان میں جبلیاتی مادّیت کے اصول کو ان کی تہہ میں رکھ دیا جاتا ہے۔ انہوں نے طبیعات‘ نفسیات‘ حیاتیات‘ بشریات‘ سارے علوم کا ایک اشتراکی ورژن پیدا کیا ہے جو ان کے پورے نظام کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ ہم اگر اسلام کو علوم کی بنیاد بنانا چاہیں گے تو ہمہ گیر مذہبی طبیعات کے مقابلے پر اسلامی طبیعات‘ ہمہ گیر مذہبی حیاتیات کے مقابلے پر اسلامی حیاتیات اور اسی طرح دیگر اسلامی علوم پیدا کرنے ہوں گے۔ یہ کام ظاہر ہے کہ آسان نہیں ہے۔ سرسید کے زمانے میں کچھ حالات ایسے پیدا ہو گئے تھے جو نوجونواں کو مذہب سے دور لے جارہے تھے مثلاً فلکیات کا نیا علم بظاہر ان عقائد سے متصادم تھا جو اس وقت ہمارے معاشرے میں رائج تھے۔ آسمانوں کے فریبِ نظر ہونے کا نظریہ۔ زمین کے گول ہونے کا اور حرکت کرنے کا نظریہ۔ مادّے کے خواص میں تبدیل نہ ہونے کا نظریہ۔یہ سب نئے نئے مشہور ہوئے تھے اور مروجہ تصورات سے متصادم تھے۔ سرسید کو ان نظریات کی روشنی میں اسلامی عقائد کی ایک ایسی تاویل پیش کرنی پڑی جس نے پورے معاشرے میں کہرام مچا دیا۔ مذہبی حلقوں کی طرف سے سرسید کی تکفیر کی گئی اور عوام میں ان کو ’’نیچری‘‘ قرار دیا گیا۔ مسئلہ سیدھا سادا تھا۔ قرونِ وسطیٰ میں اسلام کے بہت سے عقائد کو اس وقت کے بطلیموسی نظامِ فلکیات کے مطابق بنا لیا گیا تھا۔ نئے انکشافات سے جب بطلی موسی نظامِ فلکیات زد میں آیا تو اس کا اثر مذہبی عقائد پر بھی پڑا۔ بہرحال سرسید کا قصور ہم نے آج تک معاف نہیں کیا اور اکثر حلقوں میں ان پر اب بھی یہ اعتراض ہوتا ہے کہ انہوں نے اسلامی عقائد میں جدید سائنس کا پیوند لگایا۔ یہ بات اگر بری تھی تو ہمیں اس بات کا جواب دینا پڑے گا کہ سائنس سے تصادم کی صورت میں ان عقائد کے بارے میں کیا رویہ اختیار کیا جائے جو جدید ذہن کو کسی طرح قابلِ قبول نہیں معلوم ہوتے۔ جواب شاید یہ ہے کہ سوال کو ذہن میں آنے ہی نہ دیا جائے‘ لیکن یہ رویہ چند در چند خطرات سے خالی نہیں ہے۔ اس کے نتیجے کے طور پر یا تو آپ ایک ایسا ذہن پیدا کریں گے جو جدید ماحول اور اس کے تقاضوں سے یکسر بے خبر ایک جامد ذہن ہوگا یا ؒپھر آپ اپنے طالب علموں میں ایک ناگزیر منافقت کا رویہ پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ایسے طالب علم اجتماعی طور پر آپ کے رویے کا اظہار کرتے ہوئے شخصی اور انفرادی طور پر اس پر یقین نہ کریں گے بلکہ شاید تنفر اور حقارت کا رویہ اختیار کریں گے۔ ہماری دانست میں یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ ایک طرف تو یہ بات بالکل واضح طور پر سرکاری پالیسی کی بنیاد ہو کہ اسلام کی وہ کون سی چیزیں ہیں جو جزو دین ہیں اور وہ کون سی چیزیں ہیں جو صرف ماحول اور زمانے کے اثر سے کسی خاص وقت میں اسلامی سمجھ لی گئی ہیں جب کہ موجودہ زمانے میں ان کی ویلیڈٹی (Validity) باقی نہیں رہی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ ان مسائل سے دوچار ہو کر مسلمان ائمہ فکر نے جو کچھ سوچا ہے اس میں کتنا حصہ ہمارے لیے قابل قبول ہے اور کتنا حصہ نظر ثانی کا محتاج ہے۔ ابھی پچھلے دنوں پروفیسر کرار حسین اور محمد حسن عسکری کے نام سے مولانا اشرف علی تھانویؒ کا ایک انگریزی ترجمہ شائع ہوا تھا جس میں انہوں نے جدید ذہن کے مسائل کی روشنی میں مذہبی نقطہ نظر سے بعض اصولوں کی تشریح کی ہے۔ یہ کام ابتدائی نوعیت کا ہے اور موجودہ حالات میں زیادہ کارگر اور مؤثر معلوم نہیں ہوتا‘ لیکن بہرحال اصولی طور پر ہمیں ایسے کام کی شدید ضرورت ہوگی اور وہ بھی بڑے پیمانے پر جدید ذہن کی ضروریات کو سامنے رکھ کر اسلامی عقائد کی دل لگتی تشریحات کے بغیر ہم اپنے نظامِ تعلیم کو ایک قدم بھی آگے نہ لے جائیں گے۔ پاکستان کو اگرنظریاتی مملکت کی حیثیت سے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرنا ہے تو اسے اوّلین اہمیت اسی کام کو دینی پڑے گی اور اپنے پورے وسائل کے ساتھ ایسے ادارے قائم کرنے پڑیں گے جو ایک طرف ایسے لوگوں پر مشتمل ہوں جو مذہب کا صحیح اور مستند علم رکھتے ہوں اور دوسری طرف ایسے لوگوں پر مبنی ہوں جو جدید ذہن کے مسائل کو سمجھتے ہوں۔ ان دونوں کے اشتراک سے اسلام کی ایسی تشریح کی جا سکے گی جو جدید ضروریات کے مطابق مذہب کو نئے ذہن کے لیے زبان اور نئے طریقِ استدلال کے ساتھ ہم آہنگ کرسکے۔ یہ کام جتنا زیادہ عمیق اور وسیع ہوگا اتنی ہی آسانی سے ہمارے نظامِ تعلیم کی بنیاد بن سکے گا۔ ( بقیہ 10پر)

حصہ