میرپورخاص میں مشاعرہ اور ماہر اجمیری پر لکھی گئی کتاب کی تقریب اجرا

431

میرپور خاص ہمیشہ سے علم و ادب کا مرکز رہا ہے‘ زبان و ادب کی بہت سے قدآور شخصیات میرپور خاص سے وابستہ رہیں‘ ان قلم کاروں کی موجودگی میں محمد حسین ماہر اجمیری نے اپنے لیے جگہ بنائی اور وہ اعتبار حاصل کیا کہ وہ میرپور خاص کی پہچان بن گئے‘ اس کا سبب ان کی نصف صدی سے زائد عرصے پر محیط علمی و ادبی خدمات ہیں جو اس بات کی متقاضی ہیں کہ ماہر اجمیری کے فن اور شخصیت کی پذیرائی کی جائے۔ 5 مئی 1938ء کو بھارت کے شہر اجمیر میں پیدا ہونے والے ماہر اجمیر اکتوبر 1947ء سے میرپور خاص میں علم و آگہی کے چراغ روشن کیے ہوئے ہیں۔ ان کا ایک شعری مجموعہ ’’موسم بدل رہا ہے‘‘ منظر عام پر آچکا ہے جب کہ ان کی کئی کتابیں زیورِ طباعت سے آراستہ ہونے کی منتظر ہیں۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر مرزا سلیم بیگ نے حافظ حبیب اللہ طبیب کی تحریر کردہ کتاب ’’ماہر اجمیری شخصیت اور فن‘‘ کی تقریب اجرا کے موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔
تقریب میؤ فائونڈیشن کے زیر اہتمام ملک سینٹر میرپور خاص میں منعقد ہوئی جس میں ڈاکٹر جاوید منظر‘ منور علی تالپر‘ سید ذوالفقار علی شاہ اور عطا اللہ بخاری مہمانان خصوص اور پروفیسر کرن سنگھ‘ اختر سعیدی‘ محمد عمران‘ محمد عثمان اور غلام نبی چندیجہ مہمانانِ اعزازی تھے۔ مقررین میں ڈاکٹر ذوالفقار علی دانش‘ شفیق الرحمن‘ احمد سعید قائم خانی اور حافظ حبیب اللہ طبیب شامل تھے جب کہ پروفیسر نوید سروش اور اسد شوکت نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ تقریب کا آغاز تلاوتِ کلام مجید سے ہوا جس کی سعادت حافظ عزیز الحق نے حاصل کی۔ محمد ذکریا نے نعت سولؐ پیش کی۔ اس موقع پر سید ذوالفقار علی شاہ نے کہا کہ وہ اپنے طور پر اور حکومتی سطح پر بھی میرپور خاص کی ترقی کے لیے کوشاں ہیں اس علاقے کی خوش حالی سے ہمارا مسقبل وابستہ ہے‘ ہم شعر و سخن کی پرورش میں بھی اپنا حصہ شامل کرتے رہیںگے‘ میں ماہر اجمیری کی ادبی کاوشوں کا مداح ہوں اللہ تعالیٰ انہیں مزید عزت و شہرت عطا فرمائے۔
میرپور منور علی تالپور نے کہا کہ شاعری اللہ کی دین ہے‘ شعرائے کرام اپنے اشعار کے ذریعے زندگی کے مختلف مسائل پر بات کہتے ہیں بہت سے شعرا مزاحمتی شاعری کرتے ہیں وہ حق و باطل کا فرق نمایاں کرنے کے ساتھ ساتھ مظلوم کی آواز بن جاتے ہیں اور ظالم کے خلاف ڈٹ جاتے ہیں۔ ہمارے شہر میرپور خاص میں بھی ایک جواں فکر شاعر ماہر اجمیری موجود ہیں جو متاعِ علم و فن لٹا رہے ہیں آج ہم انہیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے یہاں جمع ہوئے ہیں جس کا سارا کریڈٹ میؤ فائونڈیشن کے سر ہے۔ احمد سعید قائم خانی نے کہا کہ ماہر اجمیری نے ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی اور نام کمایا۔ اس کے علاوہ ماہر اجمیری اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے بھی مصروف عمل ہیں۔ ہم بڑے خوش نصیب ہیں کہ ہمیں ایک قادرالکلام شاعر و ادیب میسر ہے‘ ہمیں ان سے استفادہ کرنا چاہیے۔ تقریب میں اختر سعیدی اور حبیب الرحمن نے ماہر اجمیری کو منظوم خراج تحسین پیش کیا۔ دونوں شعرا نے قابل ستائش اشعار پیش کیے۔
شفیق الرحمن نے کہا کہ ماہر اجمیری نے علامہ اقبال پر بھی مطالعاتی اور تحقیقی کام کیا ہے جو بہت جلد کتابی شکل میں شائع ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ماہر اجمیری نے غزلوں میں سماجی‘ سیاسی مسائل پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ ان کی بیشتر غزلوں غزلوں میں روایتی مضامین کی چاشنی کے ساتھ جدید لفظیات کی رنگا رنگی بھی موجزن ہے ان کی نظمیں زندگی سے جڑی ہوئی ہیں انہوں نے قرآن و سنت کی روشنی میں نعتیں کہی ہیں حافظ حبیب اللہ طبیب نے ماہر اجمیری پر کتاب لکھ کر قابل قدر کارنامہ انجام دیا ہے۔ یہ کتاب ایک دستاویز ہے۔ ڈاکٹر ذوالفقار علی دانش نے کہا کہ ماہر اجمیری ہمہ جہت انسان ہیں ان کا فیض عام جاری ہے ان کے اشعار میں گہرائی اور گیرائی پائی جاتی ہے۔ ان کے کلام میں سماجی شعور اور انسانی فکر کا بھرپور اظہار ہے۔ انسانیت کی توقیر ان کا خاص بیانیہ ہے۔ پروفیسر کرن سنگھ نے کہا حبیب اللہ طبیب نے ماہر اجمیری پر ایم اے کا مقالہ لکھا ہے جس کی اشاعت بھی ہو رہی ہے ہم اس نیک عمل کو سراہتے ہیں اور تمام منتظمین تقریب کو مبارک باد پیش کرتے ہیں۔
پروفیسر نوید سروش نے کہا کہ حافظ حبیب اللہ طبیب کی تحریر کردہ 198 صفحات کی کتاب میں ماہر اجمیری کی زندگی کے تمام گوشوں پر روشنی ڈالی گئی ہے اس کے علاوہ انکی نعت نگاری‘ بہاریہ شاعری اور مذہبی شعری کو بھی نمایاں کیا گیا ہے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت میرپور خاص میں ماہر اجمیری ایک استاد شاعر ہیں اور شعر و سخن کی محفلوں کی جان ہیں۔ غلام نبی چندیجہ نے کہا کہ وہ اردو زباب و ادب کے خادم ہیں۔ وہ ہر لحاظ سے قلم کاروں کی عزت کرتے ہیں اسی جذبے کے تحت آج ہم نے ماہر اجمیری کے لیے محفل سجائی ہے۔ آج یہاں زندگی کے مختلف شعبوں کے بہت سے اہم افراد موجود ہیں ہم ان سب کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ حافظ حبیب اللہ طبیب نے اس کتاب میں میرپور خاص کا 40 سالہ ادبی منظر نامہ پیش کیا ہے یہ کتاب اردو ادب کا سرمایہ ہے۔
حافظ حبیب اللہ طبیب نے کہا کہ میں نے ماہر اجمیری اور پروفیسر نوید سروش سے بہت کچھ سیکھا ہے‘ میں طفل مکتب ہوں اور ان دونوں حضرات کی انگلی تھامے اپنی منزلیں طے کر رہا ہوں۔ صاحبِ اعزاز تقریب ماہر اجمیری نے کہا کہ وہ غلام نبی ایڈووکیٹ کے ممنون وشکر گزار ہیں کہ جن کی مالی اعانت سے اس کتاب کی اشاعت ممکن ہوئی اور آج کی تقریب بھی آپ کی محبتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ڈاکٹر جاوید منظر نے کہا کہ ماہر اجمیری پر تحریر کردہ کتاب طالب علموں کے لیے ایک قیمتی تحفہ ہے۔ حافظ حبیب اللہ طبیب نے ماہر اجمیری کے ان گوشوں پر بات کی ہے جو ابھی تک لوگوں کی نظروں سے اوجھل تھے۔ خاکہ اس جان دار انداز میں لکھا گیا ہے کہ حافظ حبیب اللہ کے زبان وبیان کی خوبی‘ سادگی اور لفظوں کی بنت مقالہ نگار کے گہرے مطالعے کا اعلان کرتی ہے۔ غلام نبی ایڈووکیٹ نے کہا کہ میؤ فائونڈیشن کے منشور میں سماجی خدمات اور ادبی تقریبات کاانعقاد شامل ہیں۔ ماہر اجمیری ہمارے شہر کا وہ تناور شجر ہے جو علم و ادب کے مسافروں پر سایہ فگن ہے۔ آج ہم نے کُل پاکستان مشاعرہ بھی ترتیب دیا ہے تاکہ یہاں کے رہنے والے بھی تفریح طبع کے ساتھ ساتھ ذہنی آسودگی سے ہم کنار ہو سکیں۔ اہم اس پروگرام میں آنے والے تمام شعرا اور سامعین کو دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہتے ہیں۔
تقریب میں میؤ فائونڈیشن کی طرف سے تمام شعرائے کرام کو اجرک پیش کی گئی۔ نثری دور کے بعد ماہر اجمیری‘ ڈاکٹر جاوید منظر‘ پروفیسرعتیق الرحمن‘ راشد نور‘ اختر سعیدی‘ پروین حیدر‘ راقم الحروف نثار احمد نثار‘ مرزا عاصی اختر‘ نوید سروش‘ ناصرہ زبیری‘ احمد سعید قائم خانی‘ رفیق ساگر‘ سحر تاب رومانی‘ اسد اللہ میؤ‘ احمد فہیم میؤ‘ لیاقت لاہوری‘ حمیرا راحت‘ غزل انصاری‘ یاسمین یاس‘ فخر اللہ شاد‘ ذوالفقار علی دانش‘ شبیر نازش‘ ناظم حسنی‘ یونس عظیم‘ ظہیر شمس‘ م ش عالم‘ نیر صدیقی‘ کاشف نور‘ فاروق اطہر‘ احمد عمران اویسی‘ خالد دائود‘ نغمان سید‘ لاریب جہاں‘ یوسف چوہان‘ اشعر بیگ‘ ذیشان عثمانی‘ دانش انڑ‘ اسد شوکت‘ روبینہ راجپوت اور دیگر شعرا نے اپنا اپنا کلام نذر سامعین کیا۔

حصہ