لمس

180

’’جب میرے بچے پیار سے میرا ہاتھ پکڑتے ہیں تو اس پیار کی گرمی سے مجھ میں دوبارہ جینے کی امنگ پیدا ہوجاتی ہے۔‘‘ ہماری پڑوسن رشیدہ باجی کا یہ جملہ میرے کانوں میں آج بھی گونجتا ہے۔
رشیدہ باجی کو گزرے آج ایک سال ہوگیا ہے، لگتا ہے کہ وہ آج بھی میرے آس پاس ہیں۔ رشیدہ باجی بہت ملنسار اور ہنس مکھ خاتون تھیں، ہر کسی سے خوش ہوکر ملتی تھیں۔ جب وہ ہمارے محلے میں آئیں تو ان کے بچے چھوٹے تھے، میری عمر بھی ان کی بڑی بیٹی کے برابر تھی، اسی لیے ہم دونوں میں جلد ہی دوستی ہوگئی۔
رشیدہ باجی ماشاء اللہ کثیر الاولاد تھیں، ان کے شوہر کی بہت اچھی جاب نہ تھی، بس گزارا ہوجاتا تھا، مگر وہ اپنے سب بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کررہی تھیں۔ پھر آہستہ آہستہ ہم سب عمر کی منزلیں طے کرتے چلے گئے اور اب شادی کی عمر کو پہنچ گئے۔
رشیدہ باجی کے دو بیٹے تعلیم مکمل کرنے انگلینڈ چلے گئے۔ اب ان کے حالات بھی بہتر ہورہے تھے۔ انہوں نے اپنے بچوں کی شادیاں کردیں۔ میری تعلیم مکمل ہوتے ہی اماں نے میری بھی شادی کردی۔ میں اماں ابا کی اکلوتی اولاد تھی، میری شادی کے کچھ عرصے بعد میرے والد فوت ہوگئے اور والدہ اکیلی رہ گئیں۔ میں اپنے جیٹھ کے گھر رہتی تھی، والد کی وفات کے بعد میں اماں کے گھر شفٹ ہوگئی تاکہ ان کی تنہائی ختم ہوسکے۔
رشیدہ باجی کے سب بچے اپنی زندگی میں مگن تھے، ان کی بیٹیاں اپنے اپنے سسرال میں خوش اور مگن تھیں۔ پندرہ دن میں ایک بار چکر لگا لیا کرتی تھیں، جب کہ بیٹے بھی اپنے اپنے گھروں میں شفٹ ہوگئے تھے۔ انگلینڈ والے بیٹے وہیں کے ہو رہے۔ پہلے تو ہر سال آتے تھے، پھر آہستہ آہستہ انہوں نے آنا بند کردیا، اور اب صرف فون پہ ہی رابطہ رہتا تھا۔ اور جو بیٹے اسی ملک میں رہتے تھے وہ بھی کبھی کبھار ہی ملنے آتے تھے۔ رشیدہ باجی ابھی بھی اپنے شوہر کے ساتھ اسی گھر میں رہ رہی تھیں۔ ان کے شوہر بہت بیمار رہتے تھے۔ ان کے بچے پیسے بھیجتے لیکن خبرگیری کم ہی کرتے تھے۔
ایک دن اچانک رشیدہ باجی کے شوہر بھی اللہ کے گھر چلے گئے اور رشیدہ باجی اکیلی رہ گئیں۔ اب وہ بھی بہت بیمار رہنے لگی تھیں۔ ویسے تو انھیں کوئی ایک بیماری نہیں تھی، بہت سی بیماریوں کا مجموعہ بن چکی تھیں، مگر ایک بیماری جو انھیں اندر ہی اندر گھن کی طرح کھا رہی تھی وہ تھی اکیلے پن کی بیماری۔ اور یہی اکیلا پن انھیں گھلا رہا تھا۔ شوہر کی وفات کے بعد ان کے بیٹے اپنے گھر لے گئے، مگر تھوڑے ہی دن بعد یہ کہہ کر چھوڑ گئے کہ ان کا دل نہیں لگتا، انھیں اپنا گھر یاد آتا ہے۔
رشیدہ باجی کو پیسوں کی کوئی کمی نہیں تھی، کمی تھی تو انسانوں کی۔ میرے بھی بچے چھوٹے تھے، جب بھی وقت ملتا میں اُن کی خیریت پوچھنے چلی جاتی۔ مجھے دیکھ کر ان کا چہرہ کِھل اٹھتا تھا۔ ان کا جو بھی کام ہوتا، میں کر آتی تھی۔ رشیدہ باجی میری اماں کی خوش قسمتی پہ رشک کرتی تھیں کہ میں ان کے ساتھ رہتی ہوں۔ وہ کہتیں کہ تمہاری اماں کو تمہاری محبت کا لمس حاصل ہے، یہ لمس انسان میں زندہ رہنے کی گرمی پیدا کرتا ہے، یہ لمس انسان میں نئی آرزو جگاتا ہے، ہر انسان کو اس لمس کی ضرورت ہوتی ہے جس سے انسان ری چارج ہوتا ہے۔ جیسے بچہ اپنی ماں کی گرمی کو پہچانتا ہے اور اس کے پیار بھرے لمس کا منتظر رہتا ہے، اسی طرح جب وہ بوڑھا ہوجاتا ہے تو اسے اپنے بچوں کے لمس کی ضرورت ہوتی ہے، اور بچے یہ سمجھتے ہیں کہ ماں باپ اب بہت مضبوط ہوگئے ہیں، انھیں کیا ضرورت! جب کہ اس وقت انھیں پیسوں کی نہیں بلکہ اس پیار بھرے لمس کی ضرورت ہوتی ہے، چاہے وہ جادو کی جپھی کی صورت میں ہو یا پیار بھری باتوں کی صورت میں۔ رشیدہ باجی کہتیں کہ جب میرے بچے پیار سے میرا ہاتھ پکڑتے ہیں تو اس پیار کی گرمی کی وجہ سے مجھ میں دوبارہ جینے کی، دوبارہ ہنسنے کی امنگ پیدا ہوتی ہے، اور جب بچے صرف پیسے وغیرہ دے کر چلے جاتے ہیں تو یہ امنگ ختم ہوجاتی ہے، میرے بچے یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ مجھے پیسوں کی نہیں اُن کے پیار بھرے لمس کی ضرورت ہے! یہ کہتے کہتے وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتیں اور میں اداس ہوجاتی… اب میں ان کا اور زیادہ خیال رکھنے لگی، لیکن میں ان کی اولاد تو نہیں تھی جس کی وجہ سے ان میں جینے کی امنگ پیدا ہوتی۔ اور اس لمس کی خواہش دل میں لیے رشیدہ باجی اپنے اللہ کے پاس چلی گئیں۔
ان کے جانے کے بعد میں نے اپنی امی کا اور زیادہ خیال رکھنا شروع کردیا کہ کہیں میری ماں بھی ایسی کوئی خواہش دل میں لیے اللہ کے پاس نہ چلی جائیں۔ میرے بچے بھی اب بڑے ہورہے ہیں، جب وہ میرے گلے لگتے ہیں تو مجھ میں بھی ایک توانائی سی آجاتی ہے اور رشیدہ باجی کی باتیں یاد آنے لگتی ہیں کہ واقعی انسان کو ری چارج کی ضرورت ہوتی ہے، ایک پیار بھرے لمس کی ضرورت ہوتی ہے۔ رشیدہ باجی کی باتیں میرے لیے سرمایہ ہیں، اب میں اپنے بچوں کی پرورش میں اس بات کا خیال رکھوں گی کہ میرے بچے اس پیار کی چاشنی سے آراستہ ہوں۔

حصہ