یوم پاکستان اور ہماری ذمہ داری

2006

’’دھرتی ماں‘‘ کتنا پیارا‘مختصر جملہ ہے جو اپنے اندر گہرے معنی سمیٹے ہوئے ہے۔ یہ وطنِ عزیز کے لیے‘ اس کی ارضِ پاک کے لیے ہر محب وطن و حساس شخص کے لیے محبتوں کی چاشنی سے بھرپور الفاظ ہیں‘ بالکل اسی طرح جیسے ہم اپنی ماں کے لیے ’’میری ماں‘‘ کہتے ہیں۔ ممتا کی محبت سے سرشار ماں‘ جس کی محبت کا تقاضا اس کا ادب احترام اور اسے عزت سے سر آنکھوں پر بٹھانا ہے۔ ماں جس کی آغوش اولاد کے لیے ٹھنڈی چھائوں اور راحت و تسکین کا سبب ہے۔ اس ٹھنڈی چھائوں کا ہم زندگی بھر بھی قرض نہیں چکا سکتے۔ اِسی طرح میرا وطن میری دھرتی ماں اس کی چھائوں میںہمیں آزادی کا احساس ہوتا ہے کہ ’’ہاں ہم آزاد قوم ہیں۔‘‘ دنیا میں یہ ہماری پہچان ہے۔ دنیا کے کسی خطے میں بھی چلے جائیں آپ سے پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ آپ کا تعلق کس ملک سے ہے؟ ہم فخر سے کہتے ہیں ’’پاکستان سے۔‘‘
ہمارا شمار آزاد قوموں میں ہے۔ پردیس میں رہنے والوں کو اکثر اپنی دھرتی ماں کی یاد آتی ہے‘ اس کی سوندھی خوشبو‘ اس کے پہاڑ‘ دریا‘ سمندر‘ ہریالی ہم یاد کر کے کبھی کبھار اداس بھی ہو جاتے ہیں۔ الحمدللہ میرا یہ ملک بہت حسین ہے‘ وسائل سے مالا مال ہے۔ ہم ماں سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں تو اس کی خدمت‘ فرماں برداری کو اپنا ایمان سمجھتے ہیں‘ اس پر آنچ بھی نہیں آنے دیتے بالکل اسی طرح اس وطنِ عزیز کی محبت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس پر آنچ بھی نہ آنے دیں‘ اس کی عزت و ناموس کے لیے ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ صرف سرحدوں کی حفاظت جو ہماری عظیم ترین فوج کر رہی ہے‘ اتنا کافی نہیں بلکہ ہر فرد کو اپنے اپنے وسائل اور پیشے کے مطابق اس دھرتی ماں کے لیےیہ فرض ادا کرنا ہے ہر شخص کو اپنا اپنا محاسبہ کرنا ہوگا کہ میں اپنا کردار صحیح اور ایمان داری سے ادا کر رہا ہوں۔ یہ وطن جو شہیدوں کے خون‘ مائوں کی سسکیوں سے وجود آیا ہے ہم سے ہماری وفاداری اور محبت کا ثبوت مانگ رہا ہے۔ 14 اگست ہو یا 23 مارچ یا ایسے ہی قومی دن ہم سے سوال کرتے ہیں کہ آپ وطن کو سرسبز اور روشن کرنے کے لیے کیا حصہ ڈال رہے ہو۔ کیا سرحدوں پر پاک فوج کا ایمان داری سے اپنا فریضہ ادا کرنا ہی کافی ہے۔ بے شک کسی بھی ملک کی سلامتی کے لیے افواج کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ سرحدوں کی حفاظت اور سلامتی ان کا فریضہ ہے۔ الحمدللہ اس فریضے کو ہماری باہمت افواج بڑی جانفشانی اور ایمان داری سے انجام دے رہی ہے جس کی عظمت کا اقرار نہ صرف ہم‘ بلکہ پوری دنیا کر رہی ہے لیکن ملک کے اندرونی حالات کو خوش گوار اور پُر امن بنانا عوام‘ حکومت‘ مملکت کے اداروں کا فرضِ اوّلین ہے آج میرے وطنِ عزیز کے اندرونی حالات ہم سب کو جھنجھوڑ رہے ہیں کہ آنکھیں کھولیں… جی ہاں سیاست سے لے کر تمام اداروں ‘ تعلیمی اداروں‘ کاروبار غرض کہ ہر جگہ بے چینی اور بدامنی کی فضا نظر آتی ہے۔ شہیدوں کے خون سے’’سینچے گئے‘‘ اس وطنِ عزیز کے ہم خود لٹیرے بن گئے ہیں۔ رشوت خوری‘ لوٹ مار‘ مہنگائی‘ چور بازاری‘ ذخیرہ اندوزی‘ بے ایمانی‘ دھوکے بازی‘ بے حیائی کوئی ایسی برائی نہیں جو ہمیں اپنے آس پاس نظر نہیں آرہی ہو۔
الحمدللہ ہم مسلمان ہیں‘ ہمارا وطن ’’اسلام کا قلع‘‘ کہلاتا ہے۔ اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے وطن کو ہم نے اپنی بے ایمانی کی بدولت کھوکھلا کر دیا ہے۔ وقت ہم سے وطن عزیز کے لیے خلوص‘ ایمان داری‘ وفاداری قربانی مانگ رہا ہے۔ تمام ادارے ان کے کارکن غرض کہ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے کو سچائی و ایمان داری سے کام کرنا ہوگا۔
الحمدللہ ہم مسلمان ہیں‘ قرآنی احکامات و احادیث سے ہمیں زندگی کے ہر معاملے کے متعلق تعلیمات ملتی ہیں۔ حکمران سے لے کر عام کارکن کے فرائض پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کو کسی اہم عہدیدار کے متعلق معلوم ہوا کہ یہ حجاج بن یوسف کے ساتھ کام کر چکا ہے تو فوراً یہ کہہ کر اسے عہدہ سے ہٹا دیا کہ ’’اس کے لیے یہی کافی ہے کہ یہ حجاج کے ساتھ کام کر چکا ہے۔‘‘ یہ رعایا کی بھلائی کے لیے سوچ کر آپؒ نے قدم اٹھایا کہ حجاج بن یوسف کا یہ ساتھی رعایا پر ظلم کرے گا جو عمر بن عبدالعزیزؒ کو گوارا نہ تھا۔
تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان حکمران اپنے نیند اور آرام کو عوام کی بھلائی کے لیے قربان کر دیتے تھے۔ حکمرانوں کے ساتھ عملہ اپنے فرائض ایمان داری سے انجام دیتا۔ آج افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے ہر ادارے میں چالیس فیصد بھی ایمان دار عملہ نظر نہیں آتا۔ کسی بھی معمولی کام کا سفارش و رشوت کے بغیر ہونا ناممکن نظر آتا ہے۔ ایمان دار افسران کا جینا حرام کر دیا جاتا ہے۔
گزشتہ دنوں ایک خبر سنی کہ محکمہ تعلیم سے فارغ ہونے والے ایک اسکول استاد کے پنشن اور فنڈز کا معاملہ طول پکڑتا جارہا ہے کیوں کہ وہ استاد محترم رشوت دے کر اپنی آخرت خراب نہیں کرنا چاہتا۔ سلام ہے اس استاد کو۔ دین اسلام نے ہمیں رزقِ حلال کے لیے تاکید فرمائی ہے۔ مذکورہ بالا واقعہ ہمارے معاشرے پر ایک دھبہ ہے۔ احادیث کریم سے رزق حلال کی اہمیت روشن ہے جب کہ حلال کو چھوڑ کر حرام کی تلاش نہ صرف اپنا اور اپنی اولاد کا نقصان ہے بلکہ عوام کی پریشانی و اذیت کا باعث بھی ہے۔
حسنِ معاشرت اور حقوق العباد کے لیے دین اسلام نے سختی سے عمل پیرا ہونے کی تاکید فرمائی ہے۔ آج میرے وطن میں چور بازاری‘ ذخیرہ اندوزی‘ رشوت خوری‘ سود خوری‘ دھوکا بازی اور بے حیائی سراسر دین اسلام کی خلاف ورزی ہے۔ ہر فرد دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرا رہا ہے۔ عوام مہنگائی کا رونا رو رہے ہیں جب کہ وہ خود اس مہنگائی کو مزید بڑھانے میں شامل ہیں۔ سرکار کی طرف سے مقرر کردہ قیمتوں میں خود اضافہ کیا جارہا ہے۔
سرکار اور متعلقہ اداروں کا کام ایسے کاروباری لوگوںسے سختی سے نمٹنا ہے تاکہ وہ من مانی نہ کر پائیں۔ پولیس‘ جو کسی بھی ملک کے عوام کے لیے تحفظ کی ضامن ہے‘ میں معذرت کے ساتھ کہوں گی کہ ان میں 60 فیصد بھی ایسے نہیں ہیں جن کے ’’ہاتھ صاف‘‘ ہوں۔ اسی لیے ہمارے ایسے ادارے بدنام ہو چکے ہیں بلکہ جو ایمان دار افسران ہیں ان کی ایمان داری پر بھی لوگ شک کرتے ہیں۔ اچھے و برے ہر محکمے میں موجود ہیں لیکن ہمیشہ اچھائی تو دب جاتی ہے۔ برائی سر چڑھ کر بولتی ہے۔رمضان کی آمد آمد ہے رمضان کی اہمیت فضیلت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں لیکن مقام شرمندگی ہے کہ اس ماہِ مبارک میں بھی گناہوں سے بچنے کی کوشش نہیں کی جاتی ہے۔ ذخیرہ اندوزی کرکے مال کو رمضان المبارک میں اپنی مرضی کی قیمتوں پر فروخت کرنا پاکستانی تاجروں کا شیوہ بن گیا ہے۔کس کس چیز کا شکوہ کیا جائے۔ قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی حکومت کے لیے بھی ایک سوال ہے۔ اگر کہیں سرکار کی طرف سے سختی کی بھی جارہی ہے تو سیاسی پارٹیاں‘ اپوزیشن اور عوام کی طرف سے بھی خاص ردعمل آتا ہے۔ مثلاً سرکاری زمین پر تجاوزات کو ہٹانے پر واویلا مچایا گیا۔ اس مہم کو بے حیائی ملک میں عام ہوتی جارہی ہے جس کا مظاہرہ خواتین کے عالمی دن پر سامنے آیا‘ اس کے اثرات بھی سامنے آرہے ہیں۔ تعلیمی ادارے بھی محفوظ نہیں رہے۔ اگر اس کے خلاف آواز اٹھائی جائے تو نہ صرف نام نہاد آزادی کی دلدادہ اور لبرل خواتین بلکہ کچھ ادارے بھی ان کا ساتھ دینے کے لیے آگے بڑھتے ہیں۔
یہ صورت حال ملک و ملت کے لیے انتہائی تشویش ناک ہے‘ اس کے اثرات ہماری نئی نسل پر پڑ رہے ہیں بلکہ سب سے زیادہ نئی نسل ہی متاثر ہو رہی ہے۔ آنے والے وقت میں اس دھرتی ماں کی ذمے داریاں انہی کو اٹھانی ہیں اس پاک دھرتی کے سپوت اگر ان تمام برائیوں میں ملوث ہوں گے تو کیا اپنے ملک کی باگ ڈور کا فریضہ ایمان داری سے انجام دے پائیں گے۔ کیا اسے اسلام کا قلع رہنے دیں گے؟
مسلمان کا فرض صرف یہاں پر آکر ختم نہیں ہو جاتا کہ صرف نماز‘ روزہ اور عبادت کی جائے۔ عبادت الٰہی کے ساتھ آس پاس کے لوگوں‘ اس دھرتی کے رہنے والوں‘ اس دھرتی کی ماں بیٹیوں کا تحفظ و وقار بھی قائم رکھا جائے انہی خوبیوں کی بدولت وطن اور ملک سلامت رہتے ہیں‘ ان کا وقار بلند ہوتا ہے دنیا میں ترقی یافتہ ملکوں کی فہرست میں شمار ہوتے ہیں وطن عزیز سے اگر محبت ہے اس کا وقار و سلامتی اگر ہمیں عزیز ہے تو ہر شخص کو ہر قسم کی برائی سے اپنا آپ بچانا ہوگا۔ خود کو اسلامی تعلیمات کے سانچے میں ڈھالنا ہوگا‘ قرآن و حدیث کے مطابق اصلاح معاشرہ کو استحکام دینا ہوگا۔ اسی میں ہمارے ملک کی ہی نہیں بلکہ ہم سب کی بھلائی ہے۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
nn

حصہ