شوکت صدیقی کا انٹرویو

469

میرا ذہن نہ ابھی بانجھ ہوا ہے اور نہ ہی خیال کے دریچے بند ہوئے ہیں۔ میرا سفر اس وقت تک جاری رہے گا جب تک میرا مطالعہ و مشاہدہ جاری ہے۔ بڑا ناول لکھنے کے لیے وسیع اور گیہرا مطالعہ بے حد ضروری ہے۔ اس کے لیے صرف مشاہدہ ہی کافی نہیں

طاہر مسعود: میں اپنا سوال دہرانے کی اجازت چاہوں گا کہ کیا آپ ادب میں اپنے حصے کا کام مکمل کر چکے ہیں یا ابھی سفر جاری ہے؟
شوکت صدیقی: میرا ذہن نہ ابھی بانجھ ہوا ہے اور نہ ہی خیال کے دریچے بند ہوئے ہیں۔ میرا سفر اس وقت تک جاری رہے گا جب تک میرا مطالعہ و مشاہدہ جاری ہے۔ بڑا ناول لکھنے کے لیے وسیع اور گیہرا مطالعہ بے حد ضروری ہے۔ اس کے لیے صرف مشاہدہ ہی کافی نہیں۔ جب میں نے ’’جانگلوس‘‘ لکھنا شروع کیا تو بے شمار کتابوں اور اخبارات کا مطالعہ کیا۔ اس کی کہانی پنجاب کی دیہی زندگی سے متعلق ہے۔ میں نے پنجاب میں خاصا وقت گزارا ہے اور وہاں کی زندگی کے متعلق بہت کچھ جانتا ہوں۔ اس ناول کو لکھتے وقت میرا اخبار نویس ہونا بے حد کام آیا۔ میں نے پہلی بار محسوس کیا کہ بڑا ناول نگار ہونے میں صحافت کا تجربہ کتنا معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
طاہر مسعود: ہمارے ادیبوں میں عام تاثر ہے کہ صحافی اچھا ادیب نہیں بن سکتا کیوں کہ صحافی چلتا ہوا کام کرنے کا عادی ہوتا ہے‘ جب کہ ادب جم کر بیٹھنے کا مطالعہ کرتا ہے۔ آپ ادیب بھی ہیں اور صحافت کا طویل تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ آپ کی رائے میں یہ تاثر کس حد تک درست ہے؟ آپ نے خود ادب اور صحافت میں کس طرح توازن برقرار رکھا؟
شوکت صدیقی: صحافت عارضی ادب ہے‘ جس کی زندگی چوبیس گھنٹے پر محیط ہوتی ہے۔ ادب کی زندگی کا عرصہ متعین نہیں ہے‘ وہ صدیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ صحافت کا مقصدرائے عامہ کی ترجمانی‘ تربیت اور اسے باخبر رکھنا ہے۔ ادب کا وسیع تر مفہوم بھی یہی ہے۔ صحافت میں خالص حقائق کو اور ادب میں حقائق سے زیادہ تخیل کو پیش کیا جاتا ہے۔ ہمارے بہت سے ادیب صحافی تھے مثلاً رتن ناتھ سرشار نے ’’نورتن‘‘ میں کام کیا اور ’’فسانہ آزاد‘‘ جیسی کتاب لکھی۔ عبدالحلیم شرر نے ’’دلگداز‘‘ نکالا اور ناول نگار بھی ٹھہرے۔ فی زمانہ دیکھیے تو فیض‘ احمد ندیم قاسمی‘ صفدر میر یہ سب ادیب بھی ہیں اور صحافی بھی۔
ادیب کی دو شخصیتیں ہوتی ہیں۔ وہ ادیب ہونے کے علاوہ کسی نہ کسی پیشے سے بھی منسلک ہوتا ہے۔ جب رئٹر گلڈ بنا تو اعتراضً ہوا کہ ادیبوں کی ٹریڈ یونین بنائی جارہی ہے‘ حالانکہ اس کا مقصد ادیبوں کے سماجی اور معاشی حقوق کا تحفظ تھا۔ اس کا مسئلہ اچھا ادب تخلیق کرانا ہرگز نہیں تھا۔ ادب جبر و اکراہ سے تخلیق نہیں ہوتا۔ یہ تو اس طرح تخلیق ہوتا ہے جیسے شاخ سے کونپل پھوٹتی ہے۔ گلڈ میں معدودے چند ادیب ایسے تھے جن کا کوئی پیشہ نہیں تھا۔ ہمارے معاشرے میں ادیب ایک اکائی کی حیثیت سے یعنی صرف ادیب آپ کو بہت کم ملیں گے۔ منٹو واحد ادیب تھا جس نے ادب کے سہارے زندہ رہنے کی کوشش کی تھی اور اس کا حشر آپ کو معلوم ہے۔
طاہر مسعود: آپ نے فرمایا کہ لکھنے کے لیے مشاہدہ اور مطالعہ ضروری ہوتا ہے۔ اس حوالے سے پوچھنا چاہوں گا کہ کن کتابوں نے آپ کی تحریروں کو متاثر کیا؟
شوکت صدیقی: کئی خیال مل کر ایک خیال کی تشکیل کرتے ہیں‘ جس کا اظہار ادیب اپنی تحریروں میں کرتا ہے۔ یہ ذہنی نشوونما کا ارتقائی عمل ہے۔ میرے لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ کن کتابوں نے میری تحریروں کو متاثر کیا۔ ویسے میں نے اردو کا کلاسیکی ادب‘ انگریزی ادبیات‘ فرانسیسی اور روسی ادب کا (جو انگریزی میں ترجمہ ہو کر مجھ تک پہنچا) بہ طور خاص مطالعہ کیا ہے۔
طاہر مسعود: اگر یوں پوچھا جائے کہ آپ نے کن ادیبوں کو ذوق شوق سے پڑھا ہے؟
شوکت صدیقی: بھئی والد صاحب کو مطالعے کا شوق تھا‘ گھر میں ’’قصص النبیا‘‘، فسانہ آزاد‘‘، ’’امرائو جان ادا‘‘، عبدالحلیم شرر کے ناول‘ پریم چند کا ’’میدانِ عمل‘‘، ’’گئودان‘‘، غالب اور آتش وغیرہ کے دیوان موجود تھے۔ ان سب کو میں نے بچپن ہی میں پڑھ ڈالا۔ کالج میں آکر مغربی ادیب زیر مطالعہ آئے۔ ان میں بالخصوص ہارڈی‘ ڈکنس‘ ہیمنگوے‘ رومن رولاں‘ گورکی‘ موپساں‘ چیخوف اور دوستو فیسکی وغیرہ کو بے حد ذوق و شوق سے پڑھا۔ اب بھی جو نئے ناول مل جاتے ہیں‘ انہیں دل چسپی سے پڑھتا ہوں۔
طاہر مسعود: اردو کی ادیبوں میں کون اچھے لگے‘ خصوصاً ہم عصر ادیبوں میں؟
شوکت صدیقی: بھئی اس سوال پر لوگ ناراض ہو جاتے ہین‘ کہتے ہیں فلاں کو نظر انداز کر دیا اور فلاں کی تعریف خواہ مخواہ کر دی۔
طاہر مسعود: یہ سوال متنازع ضرور ہے لیکن جو ادیب آپ کو اچھے لگے ہیں آپ ان کے مقروض ہو چکے ہیں اور جب تک آپ ان کا ذکر نہیں کریں گے‘ یہ قرض آپ پر سے نہیں اترے گا۔
شوکت صدیقی: (قہقہہ لگا کر) اچھا یہ بات ہے‘ بھئی یہی اپنے بیدی ہیں‘ کرشن چندر‘ منٹو اور قرۃ العین حیدر ہیں۔ ان کے علاوہ احمد ندیم قاسمی‘ ہاجرہ مسرور اور خدیجہ مستور ہیں۔ ان کی تخلیقات نے مجھے متاثر کیا ہے‘ البتہ یہ علامتی افسانہ مجھ سے ہضم نہیں ہوتا۔ میں علامت کے خلاف نہیں ہوں۔ شعر بھی علامتی ہوتا ہے لیکن آج کل جس قسم کے علامتی افسانے لکھے جارہے ہیں ان میں اتنی پے چیدگی اور ابہام ہوتا ہے کہ انہیں پڑھتے وقت خیال آتا ہے کہ کیوں نہ کوئی سنجیدہ کتاب پڑھی جائے کہ علم میں ہی اضافہ ہو۔
طاہر مسعود: شکوکت صاحب! آپ کو یاد ہے کہ لکھنے کی ابتدا کب اور کیسے ہوئی؟
شوکت صدیقی: میرے لکھنے کی ابتدا حادثاتی طریقے سے ہوئی۔ بعض شاعروں اور ادیبوں کی طرح میرے وادل‘ چچا یا ماموں‘ شاعر یا ادیب تو تھے نہیں کہ میں ان سے متاثر ہو کر لکھنا شروع کر دیتا۔ والد کو مطالعے کا شوق ضرور تھا‘ انہی کی وہ سے مجھ میں بھی پڑھنے کا ذوق پیدا ہوا۔ جب میں طالب علم تھا تو چند احباب نے مل کر ایک لائبریری بنائی۔ ہم لوگ ہر ماہ دو‘ چار روپے کا چندہ جمع کرکے رسائل منگاتے تھے۔ ان رسائل میں ’’عالمگیر‘‘، ’’ادب لطیف‘‘، ’’بیسیویں صدی‘‘، ’’خیام‘‘،‘ ’’ہمایوں‘‘ وغیر شامل تھے۔ ان میں بعض غیر سنجیدہ اور تفریحی رسائل بھی تھے۔ اس زمانے میں ’’خیام‘‘ میں ادب لطیف کی صنف بے حد مقبول تھی اور ٹیگور کی ’’گیتا نجلی‘‘ سے متاثر ہو کر نثری نظمیں کہی جارہی تھیں۔ میٹرک کے نصاب میں ہمیں ٹینی سن کی ایک نظم پڑھائی جاتی تھی‘ مین نے اس نظم کا ترجمہ کیا اور ’’خیام‘‘ کو روانہ کر دیا۔ یہ نظم میرے نام کے ساتھ شائع ہوئی۔ اپنا نام چھپا دیکھ کر میں بہت خوش ہوا۔ حوصلہ بڑھا تو دوسری نظم کا ترجمہ کیا۔ وہ بھی شائع ہو گئی پھر میں نے ایک کہانی لکھی۔ یہ میری پہلی کہانی تھی‘ اس کا عنوان تھا ’’کون کسی کا‘‘ یہ 1941ء کا ذکر ہے۔ یہ کہانی جنگ کے پس منظر میں لکھی گئی تھی۔ میری عمر سترہ اٹھارہ سال کی رہی ہوگی۔ امنگوں اور آرزوئوں کا دور تھا اس لیے رومانی کہانیاں لکھا کرتا تھا۔ رسالے میں ہر ماہ باقاعدگی سے ’’آئندہ پرچے کی جھلک‘‘ دکھائی جاتی تھی۔ اس میں دیگر ناموں کے ساتھ میرا نام بھی درج ہوتا تھا۔ ساتھی مجھے رشک سے دیکھتے اور پوچھتے ’’یہ کہانیاں تم کہاں سے لکھ لیتے ہو؟‘‘ پھر میں ہر ہفتے ایک کہانی لکھتا تھا اور وہ چھپ بھی جاتی۔ افسوس کہ اس دور کی کہانیاں نہ میرے پاس محفوظ ہیں اور نہ ہی میرے کسی افسانوی مجموعے میں شامل ہیں۔ ان دنوں جو لوگ باقاعدگی سے لکھ رہے تھے ان میں احمد ندیم قاسمی‘ شفیق الرحمن‘ رام لعل‘ احمد شجاع پاشا‘ صابر نور محل غرض کہ خاصی طویل فہرست تھی۔ ان مین سے متعدد نے اب لکھنا چھوڑ دیا ہے۔ میں ان میں بالکل نیا لکھنے والا تھا۔ بیش تر لوگوں کو شبہ تھا کہ میں خود نہیں لکھتا بلکہ مجھے کوئی لکھ کر دیتا ہے۔ ایک بار بڑا دل چسپ واقعہ پیش آیا۔ میرے بڑے بھائی کے پاس جنگلات کا ٹھیکہ تھا۔ یہ جنگلات لکھنؤ اور بریلی کے درمیان واقع تھے‘ میں وہاں کافی عرصے تک رہا ہوں۔ میرے افسانون میں جنگلات کا ماحول وہیں سے اخذ شدہ ہے۔ میری کہانیاں ’’مہکتی وادیوں میں‘‘ اور ’’جھیلوں کی سرزمین پر‘‘ اس کجرا بن کے علاقے کی کہانیاں ہیں۔ خیر یہ تو برسبیل تذکرہ ہے۔ ہوا یوں کہ میں بہ ذریعہ ریل کجرا بن جا رہا تھا۔ سفر میں ایک صاحب قریب لکھنوی بھی شریک تھے۔ ان کے پاس رسالہ ’’عالمگیر‘‘ تھا۔ اس میں میری ایک کہانی چھپی تھی جسے پڑھنے کے بعد وہ اپنے ہم سفر سے جو غالباً شکاری تھے‘ کہنے لگے ’’یہ شخص شوکت صدیقی نہایت عمدہ لکھتا ہے۔ میں نے ان کی کئی کہانیاں پڑھی ہیں۔ پتا نہیں یہ کون صاحب ہیں؟‘‘
میں نے عرض کیا ’’جناب یہ میں ہوں۔‘‘
وہ میری طرف دیکھ کر مسکرائے اور بولے ’’اچھا آپ ہیں۔‘‘
پھر پوچھا ’’آپ کیا کرتے ہیں؟‘‘
کہا ’’کالج میں زیر تعلیم ہوں۔‘‘
انہوں نے دریافت کیا ’’آپ آسی رام نگری کو جانتے ہیں؟‘‘
میں نے جواب دیا ’’میں جانتا تو نہیں ہوں لیکن انہیں پڑھا ضرور ہے۔‘‘
فرمانے لگے’’آپ انہیں ضرور جانتے ہوں گے۔ ان کا ایک اشتہار رسائل میں باقاعدگی سے چھپتا ہے۔‘‘ مجھے یاد آیا کہ ’’بیسویں صدی‘‘ اور دیگر ادبی رسائل میں آسی رام نگری صاحب کی طرف سے ایک اشتہار شائع ہوتا تھا‘ جس میں معاوضے کی بنیاد پر افسانے لکھوانے کے خواہش مندوں کو رابطہ قائم کرنے کی دعوت دی جاتی تھی۔ اس زمانے میں امان الدین اور آسی رام نگری یہی کام کرتے تھے کہ شوقین مزاج حضرات سے معاوضہ وصول کرکے ان کے نام سے افسانے لکھ دیا کرتے تھے۔ غالباً کم عمری کی وجہ سے مجھ میں اتنی ذہانت نہیں تھی کہ میں فریب لکھنوی صاحب کے طنز کو سمجھ سکتا۔ اس لیے میں نے نہایت معصومیت سے کہا ’’میں واقعی ان صاب سے کبھی نہیں ملا‘ نہ ہی میں انہیں جانتا ہوں۔‘‘ وگہ مسکرا کر بولے ’’ظاہر ہے‘ ظاہر ہے آپ انہیں کیوں جاننے لگے۔ اگر نہ جانتے ہوتے تو آپ کی کہانی میں آسی رام نگری کا رنگ کیو جھلکتا۔‘‘ یہ سن کر مجھے سخت غصہ آیا لیکن دوسرے صاحب جو بندوق بردار تھے اور غالباً انہیں ادب سے بھی شغف تھا‘ کہنے لگے ’’بھئی یہ آدمی آسی رام نگری تو رومانی کہانیاں لکھتا ہے۔ اس کہانی میں اس کا رنگ تو کہیں بھی نہیں ہے۔‘‘ غرض کہ اس زمانے میں خاصی مدت تک ہماری کم عمری ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے ہمارا اعتبار قائم کرنے کی راہ میں رکاوٹ بنی رہی۔
طاہر مسعود: کہا جاتاہے کہ لکھتے وقت ہر ادیب تخلیق کے کرب (Creative agone) سے گزرتا ہے۔ کیا آپ بھی لکھتے وقت اس تجربے سے دوچار ہوئے ہیں؟
شوکت صدیقی: منٹو کے بارے میں سنا ہے کہ وہ قلم اٹھاتا تھا اور لکھنے بیٹھ جاتا تھا۔ پچھلے دنوں کرسن چندر کی بیوی سلمیٰ صدیقی آئی ہوئی تھیں تو میں نے ان سے پوچھا کہ کرشن کس طرح لکھتے تھے؟ تو انہوں نے بتایا کہ وہ دن میں لکھتے تھے۔ صبح نہا دھو کر ناشتا کیا اور بارہ بجے لکھنے بیٹھے تولکھتے رہے۔ میرا بھی آج کل یہی معمول ہے۔ میں صبح چہل قدمی اور بعد ناشتے کے لکھنے بیٹھ جاتا ہوں۔ کبھی کبھی لکھنے سے پہلے رک جاتا ہوں اور سوچنے لگتا ہوں‘ کسی خیال کو کمکمل کرنا‘ اسے ذہن سے باہر لانا خاصا تکلیف دہ عمل ہوتا ہے۔ تب مین سگریٹ کا سہارا لیتا ہوں۔ تخلقی کا ایک کرب ہے۔ ایک زمانہ ایسا بھی رہا ہے (اور یہ بیس پچیس سال قبل کی بات ہے) مجھے صرف پہلا جملہ سوچنے کی دیر تھی اور افسانہ روانی سے چل پڑتا تھا۔ افسانے کا اختتام اتنا مشکل نہیں ہوتا جتنا کہ آغاز۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک نشست میں نہیں لکھ سکا تو دوسری بار لکھنے کی کوشش کی‘ لیکن ایسی صورت میں پہلی بار کا لکھا بے کار چلا جاتا ہے کیوں کہ پھر افسانے کو نئے سرے سے لکھنا پڑتا ہے۔ البتہ دوبارہ لکھنے میں‘ میں نے ہمیشہ محسوس کیا کہ وہ پہلی بار سے بہتر ہوتا ہے۔لکھنے کے عمل سے گزرتے وقت یوں بھی ہوا ہے کہ بیوی آگئی ہے اور اس نے کوئی بات دریافت کی ہے اور میں کچھ ایسی غائب دماغی کی کیفیت میں ہوتا ہوں کہ اسے درست جواب نہیں دے پاتا۔ مجھ پر ایک سحر طاری رہتا ہے۔ میں جو کچھ لکھنا چاہتا ہوں‘ اس کے ماحول اور کردار میں میری شخصیت بکھر کر رہ جاتی ہے۔ کرداروں کی خوشی اور ان کے غم کو میں اپنے اندر جذب کر لیتا ہوں اور خارجسے میرا رشتہ عارضی طور پر کٹ جاتا ہے۔
ایک دن ایک سوال میرے ذہن میں پیدا ہوا کہ میں نے بحیثیت افسانہ نگار یا ناول نویس آج تک جتنے کردار تخلیق کیے ہیں‘ کیا میں ان کے ساتھ انصاف کر سکا ہوں؟ میرے کردار اگر حقیقی زندگی میں ہوتے تو کیا وہ اسی طرح ہوتے جیسا کہ میں نے انہیں پیش کیا ہے۔ چنانچہ میں نے ایک فینٹسی لکھی جس میں میرے کردار مجھے کٹھہرے میں کھڑا کرکے میرا محاسبہ کرتے ہیں۔ ہر کردار باری باری سامنے آکر ان ناانصافیوں کو گنواتا ہے جو بحیثیت مصنف میں نے اس کے ساتھ روا رکھیں۔ یہ وہ کردار تھے جن کے اندر عدم تکمیل کا پہلو تھا اور ایک اعتبار سے یہ اظہار تھا اس تکلیف کا جسے آپ تخلیق کا کرب قرار دے رہے ہیں۔
طاہر مسعود: آپ نے ’’خدا کی بستی‘‘ کے دیباچے میں بیان کیا ہے کہ یہ ناول آپ نے قلم برداشتہ لکھا۔ یعنی لکھنے بیٹھتے تھے تو ایک ہی نشست میں کئی کئی باب لکھ ڈالتے تھے۔ اس سے مجھے یہ تاثر ملا کہ جیسے یہ ناول مکمل حالت میں آپ کے ذہن میں موجود تھا۔ ہمارے ہاں عموماً ناول لکھنے کا طریقہ کار یہ ہے کہ ناول نگار پہلے ناول کا مواد تیار کرتا ہے اور اس کے لیے ڈائری‘ نوٹس اور یادداشتوں سے مدد لیتا ہے پھر اس کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے غرض کئی مراحل سے گزرنے کے بعد ناول کے خدوخال واضح ہوتے ہیں۔ میں پوچھنا چاہوںگا کہ ’’خدا کی بستی‘‘ لکھتے وقت آپ کا طریقہ کار اس مروجہ طریقہ کار سے کس حد تک اور کیوں مختلف تھا؟
(جاری ہے)

حصہ