بزم یارانِ سخن کا نعتیہ مشاعرہ اور سیمینار

391

بزمِ یارانِ سخن کراچی کا شمار کراچی کی اہم ادبی تنظیموں میں ہوتا ہے گزشتہ ہفتے اس تنظیم کے زیر اہتمام فاران کلب کراچی کے تعاون سے نعتیہ مشاعرہ اور نعت نگاری میں تنقیدی رجحانات پر سیمینار ترتیب دیا گیا۔ سعید الظفر صدیقی نے صدارت کی۔ ڈاکٹر عزیز احسن‘ ڈاکٹر رخسانہ صبا اور لیاقت علی پراچہ مہمانان خصوصی تھے۔ سلمان صدیقی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ نظر فاطمی نے تلاوتِ کلام مجید کی سعادت حاصل کی۔ نورالدین نور نے نعت رسولؐ پیش کی۔ شاعر علی شاعر نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ بزمِ یاران سخن تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرتی ہے جو آج ہماری تقریب میں تشریف لائے ہیں۔ نعت رسول سننا‘ پڑھنا اور لکھنا عین عبادت ہے۔ اس سیمینار کی افتتاحی تقریر میں رانا خالد محمود نے کہا کہ نعت نگاری‘ جمال مصطفی اور سیرتِ مصطفی کے امتزاج ہی کا نام ہے ان روّیوں سے جب کوئی شاعر تجاوز کرتا ہے تو وہ الوہیت میں پہنچ جاتا ہے اور کمی کرتا ہے تو تنقیص ہوتی ہے نعت نگاری میں تنقیدی رجحانات کے بارے میں بالخصوص احمد رضا خاں بریلوی‘ مولانا یوسف بنوری‘ مولوی عبدالحق‘ ڈاکٹر فرمان فتح پوری‘ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی‘ محسن کاکوری‘ امیر مینائی‘ الطاف حسین حالی‘ ظفر علی خان اور علامہ اقبال کے نعتیہ اسالیب ہماری رہنمائی کر رہے ہیں اس کے علاوہ بہت سے قلم کاروں نے نعت کے مضامین کی حدود بندی کی ہے نعت میں تنقیدی حوالہ جات سے نعتیہ ادب فروغ پا رہا ہے۔ ڈاکٹر رخسانہ صبا نے کہا کہ نعت نگاری میںغلو کی گنجائش نہیں ہے بہت سے پیشہ ور شعرا نے بے احتیاطی سے نعت خوانوں کو غیرمعیاری نعتیں لکھ کر دی ہیں۔ وہ اظہار ِ محبت میں افراط و تفریط کا شکار ہوئے۔ توصیف محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں شاعر کو ذہن اور دل کو گرفت میں رکھنا پڑتا ہے تاکہ اس کے قلم سے طلوع ہونے والے الفاظ حدود ِ شریعت میں رہیں۔ ڈاکٹر عزیز احسن نے کہا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف شاعری سماعت فرمائی ہے بلکہ خیال و بُنت کی اصلاح بھی فرمائی ہے جس کا ذکر نعتیہ ادب میں محفوظ ہے۔ نعت گو دراصل اعلیٰ اقدار کا دفاع کرنے والے صحیح الفکر شعرا ہونے چاہئیں اس لیے لازمی ہے کہ وہ اپنے موضوع کی نزاکت‘ عظمت اور ہنر مندی سے متصف ہو کر سخن گوئی کا فریضہ انجام دیں۔ رسول اکرمؐ کی حدیث ہے کہ جس نے میرے متعلق قصداً جھوٹ بات کہی تو وہ جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنا لے۔ ہمیں اس حدیث کی روشنی میں نعتیہ شاعری کرنی چاہیے۔ سعیدالظفر صدیقی نے کہا کہ نعت کے تخلیقی نقوش اپنے محاسن کے ساتھ اردو شاعری میں ابتدا ہی سے ظاہر ہونا شروع ہو گئے تھے لیکن نعت نگاری میں تنقید کا آغاز بہت بعد میں شروع ہوا۔ تنقید کسی بھی زبان اور اس کے ادب میں نہ صرف ترقی کی ضامن ہوتی ہے بلکہ مہمیز کا کام کرتی ہے۔خدا کا شکر ہے کہ نعت نگاری مختلف مسائل سے گزر کر صنفِ سخن کا حصہ بن چکی ہے‘ نعتیہ ادب میں تنقید کے معیارات‘ فکر‘ فنی محاسن‘ زبان و بیان کے ساتھ ساتھ قرآن و حدیث کے مطابق ادب اور احترام کے ساتھ شانِ رسول کا صحیح ادراک لازم ہوتا ہے۔ پروگرام کے دوسرے دور میں نعتیہ مشاعرہ منعقد ہوا جس میں سعیدالظفر صدیقی‘ ڈاکٹر عزیزاحسن‘ ڈاکٹر رخسانہ صبا‘ اختر سعیدی‘ سلمان صدیقی‘ کوثر نقوی‘ زاہد حسین جوہری‘ ڈاکٹر نثار‘ نسیم شیخ‘ حنیف عابد‘ عارف شیخ عارف‘ مقبول زیدی‘ راشد نور‘ شاعر علی شاعر‘ احمد سعید خان‘ صفدر علی انشاء‘ نورالدین نور‘ آسی سلطانی‘ ناہید عزمی‘ یاسر صدیقی‘ نظر فاطمی‘ رانا خالد محمود‘ کمال اظہر‘ شائستہ سحر‘ شاہین برلاس‘ الحاج نجمی‘ شاہدہ عروج‘ عتیق الرحمن‘ نشاط غوری‘ ضیا حیدر زیدی‘ شہناز رضوی‘ نجیب عمر‘ تنویر سخن‘ واجد رازی‘ افسر علی‘ شائق شہاب‘ عاشق شوکی‘ علی کوثر‘ زبیر صدیقی اور کاشف سومرو نے نعتیہ کلام پیش کیا۔ اس موقع پر لیاقت علی پراچہ نے اپنے پیغام میں کہا کہ وہ اس پروگرام سے بہت متاثر ہوئے ہیں آج یہاں نعت نگاری کے حوالے سے بہت اہم گفتگو ہوئی ہے جس کا فائدہ یہ ہوگا کہ بہت سے نعت گو شعرا اپنی اصلاح کر لیں گے ہمیں چاہیے کہ ہم نعت نگاری میں فضائل رسول و مناقب رسالت کے ساتھ ساتھ سیرت رسولؐ کی تبلیغ اور مقاصدِ نبوت کو نعتیہ شاعری کا محور بنائیں۔ بزمِ یاران سخن کراچی کے صدر سلمان صدیقی نے کہا کہ وہ فاران کلب کراچی کی انتظامیہ کے شکر گزار ہیں۔

بزمِ شعر و سخن کا الیکشن اور طارق جمیل کا مشاعرہ

۔ 21 فروری کو بعد نمازِ مغرب رباط العلوم لائبریری پر عالمگیر مسجد بہادر آباد کے سبزہ زار پر بزم شعر و سخن کے سالانہ انتخابات منعقد ہوئے جس میں کراچی کے اہل علم اور زندگی کے دوسروں شعبوں کے افراد بھی موجود تھے۔ اس الیکشن میں بزم شعر و سخن کی صدارت کے لیے طاہر سلطان پرفیوم والا منتخب ہوئے اور عبید ہاشمی کو جنرل سیکرٹری کا عہدہ دیا گیا جب کہ پانچ افراد پر مشتمل مجلس منتظمہ قائم کی گئی جس میں خالد میر‘ عدیل سلیم‘ امجد محمود‘ اقبال عاصی اور حمود الرحمن شامل ہیں۔ طارق جمیل بزم شعر و سخن کے صدر تھے جن کی سربراہی میں اس تنظیم نے بہت ترقی کی- انہوں نے پی ای سی ایچ سوسائٹی کے یونین کلب میں ایک شاندار مشاعرہ ترتیب دیا جس کی صدارت سعید الظفر صدیقی نے کی جب کہ حامد الاسلام خان نے نظامت کی اس موقع پر طارق جمیل نے کہا کہ مشاعرے کی روایت ہماری مشرقی تہذیب کا حوالہ ہیں ہر زمانے میں اس ادارے کی کارکردگی اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے۔ مختلف تنظیمیں اپنی مدد آپ کے تحت مشاعرہ منعقد کرا رہی ہیں۔ قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے حکومتی سطح پر کوئی قابلِ ستائش کام سامنے نہیں آرہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ الیکٹرانک میڈیا کی وجہ سے کتب بینی کا شعبہ تقریباً ختم ہو رہا ہے اسی طرح مشاعروں سے سامعین بھی غالب ہو رہے ہیں۔ ہم قلم کاروں کی کتابیں قارئین تک پہنچا رہے ہیں۔ سعیدالظفر صدیقی نے کہا کہ اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے ہمیں بہت محنت کرنی ہے اس وقت یہ حالت ہے کہ ہم فیس بک پر اردو کو رومن انگریزی میں لکھ رہے ہیں جب کہ اردو کا سافٹ ویئرموجود ہے۔ عدالتی فیصلے کے باوجود بھی سرکاری اداروں میں اردو نافذ العمل نہیں ہو پارہی اس سلسلے میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیںچاہیے کہ ہم اردو کی حفاظت کے لیے ایک صف میں کھڑ ہو جائیں۔ حامد الاسلام نے کہا کہ میں نے اردو مرکز جدہ کے پلیٹ فارم سے اردو زبان و ادب کی خدمت میں اپنا حصہ شامل کیا ہے اب میں کراچی کے قلم کاروں کے ساتھ ساتھ اردو کے لیے سرگرم ہوں۔ مشاعرے میں سعیدالظفر صدیقی‘ رونق حیات‘ احمد سعید خان‘ سید آصف رضا رضوی‘ علی اوسط جعفری‘ اختر سعیدی‘ فیاض علی خان‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ حنیف عابد‘ نعیم انصاری‘ ضیا حیدر زیدی‘ یاسر صدیقی‘ سعدالدین سعد‘ تنویر سخن‘ شائق شہاب‘ عاشق شوکی اور علی کوثر نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔

حصہ