لینڈ مافیا نے سمندر کو بھی نہیں چھوڑا

840

مینگروز خطرے میں

یہ بات تو ہم سب کے علم میں ہے کہ درخت ماحولیاتی زندگی کی آکسیجن ہیں جو نہ صرف ماحول کو کثافت سے پاک کرتے ہیں بلکہ زہریلی گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ اپنے اندر جذب کرتے ہیں تاکہ ہم صاف ہوا میں سانس لے سکیں۔ پاکستان کی ساحلی پٹی پر بھی ایک اہم آبی پودا تیمر جسے عرف عام میں مینگروزکہا جاتا ہے یہ ایک ایسی قدرتی نعمت ہے جسے بے دردی سے ختم کیا جارہا ہے،افسوس اس بات کا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا بھر میں تیمر کے جنگلات کی تعداد انتہائی کم ہیں اور پاکستان میں انڈس ڈیلٹا پر پھیلا تیمر جنگلات کا یہ بیش بہا انمول خزانہ ساتویں نمبر پر ہے۔ اس سے پہلے ہم بات آگے بڑھائیں یہ جاننا ضروری ہے کہ آخر تیمر یا مینگرووز ہیں کیا؟ اور یہ کیوں ضروری ہیں؟
اس درخت کو اردو اور برصغیر کی دیگر زبانوں میں تمر کہتے ہیں جب کہ انگریزی میں Mangrove مینگرو یا منگروز کہتے ہیں مینگروز کے جنگلا ت ساحل اور سمندر دونوں ہی میں گرمی یا درجہ حرارت میں اضافہ نہیں ہونے دیتے یعنی اس کی جڑیں پانی اور دلدل میں آکسیجن پیدا کرتی ہیں اور ٹہنیاں اور پتے فضا میں آکسیجن پیدا کر کے ساحل کی فضا کو ٹھنڈا کرتے ہیں۔
پاکستان میں اب مینگرووز کی ایک ہی قسم پائی جاتی ہے تیمر اس کا مقامی نام ہے جبکہ اس کا سائنسی نامAvicennia marina ہے اسے سفید مینگروز چھال کی وجہ سے یا شہد والا مینگروز پھولوں کی خوشبو کی وجہ سے بھی کہا جاتا ہے۔ تیمر یا مینگرووز چھوٹے پتوں پر مشتمل پودے ہیں جن کی جڑیں پانی میں ڈوبی ہوتی ہیں اور کئی فٹ نیچے تک جاتی ہیں۔مینگرووز کی جڑیں نہایت مضبوطی سے زمین کو جکڑے رکھتی ہیں جس کی وجہ سے سمندری کٹاؤ رونما نہیں ہوتا جبکہ سمندر میں آنے والے طوفانوں اور سیلابوں سے بچاؤ کایہ قدرتی طریقہ ہیں۔ساحلی پٹی پر موجود مینگروز سمندری طوفان کے ساحل سے ٹکرانے کی صورت میں نہ صرف اس کی شدت میں کمی کرتے ہیں، بلکہ سونامی جیسے ہولناک خطرے کے سامنے بھی حفاظتی پل کا کام کرتے ہیں۔آپ کو یا د ہوگا جب 2004 میں بحیرہ عرب میں آنے والے بے رحم سونامی کے عفریت نے انڈیا سمیت کئی ممالک کو اپنا نشانہ بنایا لیکن پاکستان مینگرووز کے جنگلات کی وجہ سے محفوط رہا۔تیمر جنگلات چھوٹی مچھلیوں جیسے فن فش، شرمپس، شیل فش نایاب قسم کے جھینگوں کی آماجگاہ ہے
مگر افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ کراچی کو خوفناک سمندری طوفانوں اور سیلابوں سے بچائے رکھنے والے یہ مینگرووز اب روایتی بے حسی کا شکار ہیں اور تباہی کی زد میں ہیں۔ساحل سمندر پر زمین کے کٹاو اور مٹی کے بہاوکو روکتے دراڑیں پڑنے سے بچاتے مینگرووز ہمیں بے شمار فائدے پہنچا رہے ہیں لیکن یہ جنگلات شدید خطرے کا شکار ہیں۔
مینگرووز کے ایکوسسٹم کو تین مسائل درپیش ہیں۔پہلا مسئلہ ساحلی علاقوں میں مینگرووز کے اندر انسانی بستیوں کی تعمیر ہے۔ دوسرا مسئلہ لوگوں کا روزگار کے لیے ڈیلٹا کے اطراف موجود اپنی جھونپڑیوں کو چھوڑ کر دوسرے علاقہ جات میں منتقلی ہے یہ خاندان اب قریبی شہروں میں لیبر فورس فراہم کررہے ہیں۔ تیسرے مسئلے کا تعلق بائیوڈائیورسٹی سے ہے۔ ایک وقت تھا جب مینگرووز کی ایک درجن یا اس سے زائد اقسام تھیں، لیکن اب ہمارے پاس صرف ایک ہی قسم کے مینگرووز باقی رہ گئے ہیں۔حکومت کی طرف سے مینگرووز کے ختم ہوتے ہوئے ذخائر کو بچانے کے لیے زیادہ کوششیں نہیں کی گئی ہیں، اور بدقسمتی سے ان کوششوں کا مقصد مسئلے کا حل کم اور میڈیا میں تشہیر زیادہ ہے۔چوتھا بڑا مسئلہ صنعتوں اور فیکٹریوں کا گندا آلودہ کیمیائی پانی شامل ہورہا ہے۔ جس کی وجہ سے نہ صرف پودے بلکہ آبی مخلوق کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔
جولائی سال 2020میں اس وقت کے صوبائی وزیر جنگلات اطلاعات و بلدیات سندھ سید ناصر حسین شاہ نے اپنے بیان میں بتایا تھا کہ سندھ کے مختلف ساحلی علاقوں میں 2 ارب سے زائد د مینگرو ز کے پودے لگائے جاچکے ہیں جنہیں ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ کمپیوٹرائزڈ کیا گیا جبکہ مینگروز کے پودے لگانے اور انہیں کمپیوٹرائزڈ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔جبکہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بڑے پیمانے پر مینگروز کی شجر کاری حکومت کا اہم اقدام ہے جس سے 10 ارب روپے سے زائد آمدنی ہوگی جو کہ متعلقہ مقا می افرا د و آباد ی کی فلاح و بہبود پر خرچ کئے جا ئیں گے۔سید ناصر حسین شاہ نے یہ بھی بتایا تھا کہ سندھ میں مینگروز کی پیداوار 2008 ء سے تقریبا” دگنا ہو گئی ہے اور سندھ نے سب سے زیادہ شجرکاری کے تین عالمی ریکارڈ قائم کیے ہیں یادرہے کہ سندھ کے ساحلی علاقوں میں مینگرووز کی سب سے زیادہ پائی جانے والی نسل تمر(Avicennia marina) ہے۔لیکن ہاکس بے میں مینگرووز کی کٹائی کرکے تعمیرات کا عمل شروع کردیا گیا ہے- یہ بات جان لینا ضروری ہے کہ ساحلی علاقوں میں مینگرووز قدرتی ماحول برقرار رکھتی ہے جبکہ دوسری جانب یہ سمندر کی بپھری ہوئی لہروں سے بھی ساحلوں کے لیے محافظ ہیں۔
مینگرووز کے پودے دیگر پودوں کے مقابلے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کی 18 فیصد زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں اور اسی وجہ سے ان کو ماحول دوست کہا جاتا ہے۔ کراچی کی ساحلی پٹی کے لیے یہ بہت ضروری ہیں بدقسمتی سے کراچی کو جہاں دیگر مسائل کا سامنا ہے وہیں ماحولیاتی آلودگی کے خطرات کے چیلینجز سے بھی لڑنا ہے ۔
اب چلتے ہیں خبر کی طرف جو کچھ یوں ہے کہ قبضہ مافیا نے سمندر کو بھی نہیں چھوڑا اور کراچی کی ساحلی پٹی پر موجود مینگرووز کی کٹائی کا عمل تیزی سے جاری ہے جبکہ غیر قانونی پلاٹنگ کا سلسلہ پورے عروج پر ہے جبکہ سمندر میں ملبہ بھی ڈالا جارہا ہے اور اس غیر قانونی پلاٹنگ کے نتیجے میں نہ صرف تمر کے جنگلات خطرے میں بلکہ قومی تنصیبات کے قریب بھی یہ آبادیاں پھیلتی جارہی ہیں جب پر فوری طور ایکشن لینے کی ضرورت ہے حیران کن بات یہ ہے کہ اس غیر قانونی پلاٹنگ کو کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے جبکہ معاملات صرف کاغذی کارروائیوں تک ہی محدود ہیں۔ اس سلسلے میں جس بھی ادارے سے بات کرنے کی کوشش میں صرف متعلقہ اداروں کی جانب سے صرف خدشات کا اظہار ہی کیا جارہا ہے۔ بہت سارے گوٹھوں میں جعلی کاغذات پر پلاٹنگ کا عمل جارہی ہے جبکہ فاریسٹ کی زمین بھی اس کی زد میں ہیں۔یہ تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں اداروں کے درمیان اپنے اپنے مفادات کے لیے ٹکراؤ کوئی نئی بات نہیں ہے، وہاں مینگرووز پر ان مفادات کے ٹکراؤ کا سایہ منڈلاتا رہتا ہے کیونکہ درخت محکمہ جنگلات کی ملکیت میں ہیں جبکہ زمین محکمہ ریوینیو کی۔ لہٰذا ان کے درمیان کسی بھی قسم کے عدم اتفاق کا نقصان بالآخر ماحولیات کو اٹھانا پڑتا ہے۔اور اس وقت کراچی کی ساحلی پٹی پر موجود مینگرووز کو شدید خطرات کا سامنا ہے- ضرورت اس بات کی ہے کہ متعلقہ قوانین کو تبدیل کیا جائے تاکہ مینگروز کا بچایا جاسکے جبکہ فاریسٹ کی زمین کو کمرشل مقاصد کے لیے ہرگز بھی استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔کراچی کی ساحلی پٹی پر موجود مینگرووز کے جنگلات کو بچانے کے لیے ایمرجنسی کی ضرورت ہے جس میں انڈس ڈیلٹا کو صاف پانی کی دوبارہ فراہمی، بغیر ٹریٹمنٹ سیوریج کے پانی کو سمندر میں پھینکنے پر پابندی، رہائشی اسکیموں کی تعمیر اور دیگر کمرشل ضروریات کے لیے جنگلات کے کٹاؤ کی روک تھام اور عوام میں اس حوالے سے شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔

حصہ