منتخب غزلیں

323

سلیم احمد

عشق میں جس کے یہ احوال بنا رکھا ہے
اب وہی کہتا ہے اس وضع میں کیا رکھا ہے
لے چلے ہو مجھے اس بزم میں یارو لیکن
کچھ مرا حال بھی پہلے سے سنا رکھا ہے
حال دل کون سنائے اسے فرصت کس کو
سب کو اس آنکھ نے باتوں میں لگا رکھا ہے
دل برا تھا کہ بھلا کام وفا کے آیا
یار جانے بھی دے اس بحث میں کیا رکھا ہے
اے صبا آ کہ دکھائیں تجھے وہ گل جس نے
باتوں ہی باتوں میں گلزار کھلا رکھا ہے
دیکھ اے دل نہ کہیں بات یہ اس تک پہنچے
چشم نمناک نے طوفان اٹھا رکھا ہے
حسن چاہے جسے ہنس بول کے اپنا کر لے
دل نے اپنوں کو بھی بیگانہ بنا رکھا ہے
دل جو اس بزم میں آتا ہے تو جاتا ہی نہیں
ایک دن دیکھنا دیوانہ ہوا رکھا ہے
حال مت پوچھ محبت کا ہوا ہے کچھ اور
لا کے کس نے یہ سر راہ دیا رکھا ہے
انتظام ایسا کہ گھٹتی ہی نہیں رونق بزم
ہم سے کتنے ہیں کہ وعدے پہ لگا رکھا ہے
ہوش تو پہلے ہی کھو آئے تھے اس محفل میں
اب اگر جائیں تو پھر دل بھی گیا رکھا ہے
تیرے آنے کی خبر پا کے ابھی سے دل نے
شکوہ کو اور کسی دن پہ اٹھا رکھا ہے
بارہا یوں بھی ہوا تیری محبت کی قسم
جان کر ہم نے تجھے خود سے خفا رکھا ہے
دشت و در خیر منائیں کہ ابھی وحشت میں
عشق نے پہلا قدم نام خدا رکھا ہے
ہجر میں رنج بھی کرتے ہیں پہ اتنا بھی سلیم
یار تو نے تو عجب حال بنا رکھا ہے
٭٭٭

انسان اور قرآن

فیض ِ عالم بابر

انسان کہہ رہا ہے بہت بے قرار ہوں
قرآن کہہ رہا ہے مجھے پڑھ نہیں رہا
انسان کہہ رہاہے پریشان ہوں بہت
قرآن کہہ رہا ہے مجھے پڑھ نہیں رہا
انسان کہہ رہا ہے کہیں بھی اماں نہیں
قرآن کہہ رہا ہے مجھے پڑھ نہیں رہا
انسان کہہ رہا ہے کثافت میں گِھر گیا
قرآن کہہ رہا ہے مجھے پڑھ نہیں رہا
انسان کہہ رہا ہے گرفتار غم میں ہوں
قرآن کہہ رہا ہے مجھے پڑھ نہیں رہا
انسان کہہ رہا ہے بہت بے سکون ہوں
قرآن کہہ رہا ہے مجھے پڑھ نہیں رہا
انسان کہہ رہا ہے نہیں لگ رہا ہے دل
قرآن کہہ رہا ہے مجھے پڑھ نہیں رہا
انسان کہہ رہا ہے خوشی مل نہیں رہی
قرآن کہہ رہا ہے مجھے پڑھ نہیں رہا
انسان کہہ رہا ہے کہ بے زار خود سے ہوں
قرآن کہہ رہا ہے مجھے پڑھ نہیں رہا
٭٭٭

احمد فراز

اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی
یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں
غم دنیا بھی غم یار میں شامل کر لو
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں
تو خدا ہے نہ مرا عشق فرشتوں جیسا
دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں
آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر
کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں
اب نہ وہ میں نہ وہ تو ہے نہ وہ ماضی ہے فرازؔ
جیسے دو شخص تمنا کے سرابوں میں ملیں
٭٭٭

بہادر شاہ ظفر

بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی
لے گیا چھین کے کون آج ترا صبر و قرار
بے قراری تجھے اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی
اس کی آنکھوں نے خدا جانے کیا کیا جادو
کہ طبیعت مری مائل کبھی ایسی تو نہ تھی
عکس رخسار نے کس کے ہے تجھے چمکایا
تاب تجھ میں مہ کامل کبھی ایسی تو نہ تھی
اب کی جو راہ محبت میں اٹھائی تکلیف
سخت ہوتی ہمیں منزل کبھی ایسی تو نہ تھی
پائے کوباں کوئی زنداں میں نیا ہے مجنوں
آتی آواز سلاسل کبھی ایسی تو نہ تھی
نگہ یار کو اب کیوں ہے تغافل اے دل
وہ ترے حال سے غافل کبھی ایسی تو نہ تھی
چشم قاتل مری دشمن تھی ہمیشہ لیکن
جیسی اب ہو گئی قاتل کبھی ایسی تو نہ تھی
کیا سبب تو جو بگڑتا ہے ظفرؔ سے ہر بار
خو تری حور شمائل کبھی ایسی تو نہ تھی
٭٭٭

جگر مراد آبادی

اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں
فیضان محبت عام سہی عرفان محبت عام نہیں
یہ تو نے کہا کیا اے ناداں فیاضی قدرت عام نہیں
تو فکر و نظر تو پیدا کر کیا چیز ہے جو انعام نہیں
یارب یہ مقام عشق ہے کیا گو دیدہ و دل ناکام نہیں
تسکین ہے اور تسکین نہیں آرام ہے اور آرام نہیں
کیوں مست شراب عیش و طرب تکلیف توجہ فرمائیں
آواز شکست دل ہی تو ہے آواز شکست جام نہیں
آنا ہے جو بزم جاناں میں پندار خودی کو توڑ کے آ
اے ہوش و خرد کے دیوانے یاں ہوش و خرد کا کام نہیں
زاہد نے کچھ اس انداز سے پی ساقی کی نگاہیں پڑنے لگیں
مے کش یہی اب تک سمجھے تھے شائستہ دور جام نہیں
عشق اور گوارا خود کر لے بے شرط شکست فاش اپنی
دل کی بھی کچھ ان کے سازش ہے تنہا یہ نظر کا کام نہیں
سب جس کو اسیری کہتے ہیں وہ تو ہے امیری ہی لیکن
وہ کون سی آزادی ہے یہاں جو آپ خود اپنا دام نہیں
٭٭٭

شیخ ابراہیم ذوقؔ

اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
تم نے ٹھہرائی اگر غیر کے گھر جانے کی
تو ارادے یہاں کچھ اور ٹھہر جائیں گے
خالی اے چارہ گرو ہوں گے بہت مرہم داں
پر مرے زخم نہیں ایسے کہ بھر جائیں گے
پہنچیں گے رہ گزر یار تلک کیوں کر ہم
پہلے جب تک نہ دو عالم سے گزر جائیں گے
شعلۂ آہ کو بجلی کی طرح چمکاؤں
پر مجھے ڈر ہے کہ وہ دیکھ کے ڈر جائیں گے
ہم نہیں وہ جو کریں خون کا دعویٰ تجھ پر
بلکہ پوچھے گا خدا بھی تو مکر جائیں گے
آگ دوزخ کی بھی ہو جائے گی پانی پانی
جب یہ عاصی عرق شرم سے تر جائیں گے
نہیں پائے گا نشاں کوئی ہمارا ہرگز
ہم جہاں سے روش تیر نظر جائیں گے
سامنے چشم گہر بار کے کہہ دو دریا
چڑھ کے گر آئے تو نظروں سے اتر جائیں گے
لائے جو مست ہیں تربت پہ گلابی آنکھیں
اور اگر کچھ نہیں دو پھول تو دھر جائیں گے
رخ روشن سے نقاب اپنے الٹ دیکھو تم
مہر و ماہ نظروں سے یاروں کی اتر جائیں گے
ہم بھی دیکھیں گے کوئی اہل نظر ہے کہ نہیں
یاں سے جب ہم روش تیر نظر جائیں گے
ذوقؔ جو مدرسے کے بگڑے ہوئے ہیں ملا
ان کو مے خانے میں لے آؤ سنور جائیں گے
٭٭٭
ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا
ندا فاضلی
٭٭٭
اسی لئے تو یہاں اب بھی اجنبی ہوں میں
تمام لوگ فرشتے ہیں آدمی ہوں میں
بشیر بدر

حصہ