معتبر سے مؤثر کا سفر!۔

240

عملی زندگی میں قدم رکھتے ہی 1998ء میں ورکنگ ویمن گروپ کی نشستوں میں شرکت کا موقع ملا تو اُس وقت یہ بحث چل رہی تھی کہ 8 مارچ عالمی یوم خواتین کو ہم منائیں یا نظرانداز کریں؟ دونوں مؤقف کے لیے زبردست دلائل سننے کو ملے۔ اتفاق سے انہی دنوں میرا کمیونٹی اسکولز سے تعارف ہوا تو فطرتاً مجھے اس میں زیادہ دل چسپی محسوس ہوئی اور میں اس شعبے سے منسلک ہوگئی (ایک مخصوص شعبے میں توجہ مرکوز ہونے کی وجہ سے نسبتاً بہتر کام سامنے آتا ہے، اور پھر تعلیمی میدان خواتین کی ذاتی تسکین کے لیے ایک فطری مقام رکھتا ہے)۔ مگر کسی نہ کسی حوالے سے شعبہ خواتین کی سرگرمیوں سے بھی آگہی رہی۔
گزشتہ آٹھ، دس برسوں میں ’’عالمی یوم خواتین‘‘ کے حوالے سے اوائلِ مارچ سے ہی خواتین کے حقوق کے سلسلے میں تبصروں اور تجزیوں کی بھرمار ہوجاتی تھی، مگر پچھلے سال تو فروری میں ہی اس کی دھوم مچ گئی جب عورت مارچ کی تیاریوں پر مبنی وڈیو وائرل ہوگئی تھی۔
جماعت اسلامی، جو شعبہ خواتین کے تحت قانونی اور گھریلو خواتین کی دل چسپی، معاشی اور سماجی ترقی اور خوش حالی کے عنوانات پر ہمیشہ سے ہی سرگرم ہے، اس نے 7 مارچ 2020ء کو ’’خواتین کانفرنس‘‘ کا اہتمام کیا۔ کورونا کی آہٹ کے باوجود زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والی ہزاروں خواتین کی شرکت نے کانفرنس کے اعلامیے پر مہر ثبت کردی کہ انہیں عزت اور وقار کی زندگی مطلوب ہے۔
حقوقِ نسواں کی گونج زمانۂ طالب علمی میں ہی سنی تھی، اور اس حوالے سے ڈاکٹر نسیمہ ترمذی مرحومہ سے ملاقات اچھی طرح یاد ہے جس میں انہوں نے باقاعدہ ڈانٹ کر کہا تھا کہ ہر طبقے اور معاشرے کی عورت کا کردار اسی کے مرد کے حوالے سے متعین ہوگا۔ بنگال کے مرد کا مقابلہ افریقہ کی عورت سے نہیں کیا جا سکتا۔ اس جملے کی معنویت آشکارا ہوئی جب معاشرے کے مختلف طبقات کو ایک دوسرے سے متصادم کر وانے کی کوششوں کو بام عروج پر دیکھا۔ طبقاتی نظام کو بڑھاوا دینے کے ساتھ ساتھ ایک چھت تلے رہنے والے دو افراد کے درمیان تقسیم پیدا کرنے کی بھرپور کاوشیں منظر عام پر آنے لگیں۔ ہر معاشرے کی ایک بناوٹ ہوتی ہے جسے تبدیل کرنا آسان نہیں ہے۔ بہ قول شاہد ہاشمی صاحب ’’آپ حکومت تبدیل کر سکتے ہیں، معاشرہ نہیں۔‘‘
کسی بات کو معتبر بنانے کے لیے ضروری نہیں کہ آپ نے بہت سفر کیے ہوں، بہت سے اعلیٰ اداروں میں کام کیا ہو، یا پھر گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہو۔ بعض اوقات محض مطالعہ یا مشاہدہ ہی آپ کا نقطہ نظر واضح کردیتا ہے۔ صاحبِ طرز مولانا مودودیؒ مرحوم نے 1930ء سے 1940ء کے عرصے میں جو تحریر لکھی وہ سو سال بعد بھی آج کے معاشرے پر ہو بہو منطبق ہورہی ہے۔ ابتدائی عمر میں مولانا مرحوم کو پڑھنے سے ذہن کو جو بالیدگی اور وسعت ِنظر عطا ہوئی اس کا نتیجہ یہ رہا کہ 20 سال کی عمر میں خواتین کے بارے میں جو مقالے نظر سے گزرے وہ عمر کی پانچویں دہائی میں آج بھی جوں کے توں پیش کیے جاسکتے ہیں۔ مجھے اپنی رائے پر کبھی اصرار نہیں رہا، مگر پچھلی ربع صدی میں حالات و واقعات کے حوالے سے اپنی پیش گوئی کو درست پانا مبہوت اور کسی حد تک مایوس کردیتا ہے۔
معاشرے کے جس طبقے سے تعلق رہا وہاں شرح خواندگی 100فیصد رہی ہے، اور اُس زمانے میں بھی ورکنگ ویمن کا تناسب بہت زیادہ تھا۔ اسکول ٹیچرز، کالج لیکچررز اور یونیورسٹی پروفیسرز، سائنس دانوں اور ڈاکٹروں کی کثرت… جبکہ گھر بیٹھنے والی خواتین آٹے میں نمک کے برابر تھیں۔ اس پس منظر کے ساتھ یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ورکنگ ویمن اپنے کردار سے غیر مطمئن نظر آئیں۔ میرا مشاہدہ رہا کہ جس خاتون کا عہدہ اور تعلیم جتنی زیادہ تھی اُس نے اپنی بیٹیوں کی واجبی تعلیم کے بعدکم عمری کی شادی کا اہتمام کیا۔ یہ تجزیہ 25 سال پہلے کا تھا، لیکن آج کی صورتِ حال بھی کچھ ایسے ہی فیصلوں کی منتظر لگتی ہے۔ کیوں کہ بہرحال خواتین خواہ کتنا ہی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوجائیں، گھر بنانا ایک ضروری امر ہوتا ہے۔
یہ دھیان رہے کہ ہم شہری خواتین کی بات کررہے ہیں، ورنہ دیہی خواتین تو اپنے مردوں کے ہم پلہ کام کرہی رہی ہیں۔ عورت پر معاش کی ذمے داری نہیں ڈالی گئی، لیکن اگر کوئی کرنا چاہے تو اس پر پابندی بھی نہیں ہے۔ اگر گھر ایک ادارہ ہے تو عورت اس کی منیجر۔ اگر کسی ادارے کا منیجر اپنی ذمہ داری کسی اور کو سونپ کر خود کسی اور ادارے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرے تو اسے کیا کہیں گے؟ اپنے وقت کا بہترین حصہ گھر سے باہر رہ کر کتنا کوالٹی ٹائم وہ دے سکے گی؟ ایک خاتون کی مثال دوں گی جس کو سنگل پیرنٹ ہونے کی وجہ سے گھر سے باہر نکلنا پڑا۔ اسکول ٹیچر ٹیوشن کے ساتھ ساتھ بیوٹی پارلر کا کام اپنے گھر سے ہی کررہی تھی۔ ایک فطری اور کسی حد تک اطمینان بخش حالات کے باوجود اس نے آفس ورک کو ترجیح دی۔
اس کی بنیادی وجہ وہ غلط فہمی ہے کہ کیرئیر وومن کا تصور ماہانہ تنخواہ اور9 سے 5 بجے تک بیگ اٹھاکر گھر سے باہر جانے کا نام ہے۔ کیا ورکنگ وومن صرف آفس میں کام کرنے والی خواتین ہوں گی؟ ہزاروں خواتین گھر بیٹھے آن لائن کام کررہی ہیں۔ کوئی فروزن فوڈ سپلائی کررہی ہے، تو کوئی دفتروں اور گھروں میں تازہ کھانا سپلائی کررہی ہے، کوئی بوتیک چلاکر بہت سے نفوس کو روزگار مہیا کرکے اُن کے گھروں کے چولہے جلانے کا اہتمام کررہی ہے، تو کوئی آن لائن کپڑے اور سامان منگوا کر خرید و فروخت کا کام کرکے اُن کو آسانی فراہم کررہی ہے جو بازار جانے کی مہلت اور سہولت نہیں رکھتیں۔ کورونا کے بعد تو اس میں اضافہ ہی نظر آتا ہے، لیکن انہیں مؤثر خواتین کی فہرست میں نہیں رکھا جاتا۔
یہی وجہ ہے کہ اپنے علاقے کی مؤثر خواتین کی فہرست بناتے ہوئے میں اکثر سوچ میں پڑ جاتی ہوں۔ میرے نزدیک ایک مؤثر خاتون وہ ہے جو پارک میں روزانہ ستّر، اسّی خواتین سے ملے اور انہیں کسی بات پر قائل کرلے، بہ نسبت اُس خاتون کے جو ایک اعلیٰ عہدے پر فائز ہو اور اس کا دائرہ گھر سے محض دفتر تک محدود ہو۔ لیکن مجھے معلوم ہے معاشرے پر اثرانداز ہونے والی خواتین کی تعریف (definition) تب ہی درست سمجھی جائے گی جب اس کو عہدے اور تنخواہ سے تولا جائے گا۔
ایک خاتون کا کہنا ہے کہ مجھے اس بات پر کوئی فخر نہیں کہ 1992ء میں برازیل کی بین الاقوامی ماحولیاتی کانفرنس میں میرے سپروائزر نے میری ریسرچ پر مبنی اپنا مقالہ پڑھا تھا، اور مجھے کوئی افسوس بھی نہیں کہ میرا نام 50 پاکستانی خواتین سائنس دانوں میں ہوسکتا تھا۔ لیکن مجھے اپنی اس شناخت پر ضرور فخر ہے جب ایک معروف بلاگر نے میرا ذکر ’’باکمال خواتین‘‘ میں کیا۔ انہوں نے یومِ خواتین پر اپنی ٹوئٹ میں نام لے کر جماعت اسلامی کی خواتین کو شان دار خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا کہ بہت باکمال خواتین ہیں۔ بچے ان کے منتظر رہتے ہیں… گویا وہ نبض پر ہاتھ رکھ کر نہ صرف تشخیص کرتی ہیں بلکہ علاج کے لیے بھی کوشاں رہتی ہیں، اپنے اہداف پر نظر رکھتے ہوئے مصروف اور ہر دم فعال تحریک اسلامی کی ہزاروں کارکنان کی حوصلہ افزائی اور دل جوئی کا باعث بنے گا۔اپنی تحریر کا اختتام میں رب کے اس پیغام پر کروں گی کہ ’’میں کسی کا عمل ضائع کرنے والا نہیں ہوں خواہ مرد ہو یا عورت۔ تم سب ایک دوسرے کے ہم جنس ہو۔‘‘اس بدلتی دنیا میں عورت کا کردار بدلنے کی کوشش میں مجھے کب اور کیسے پیش رفت کرنی ہے؟ آج کی عورت کے لیے سوالیہ نشان ہے، کہ اجر تو بہرحال اپنی مقرر کردہ ذمے داری پر ہی ملے گا اور حساب بھی اسی کا دینا ہوگا۔

حصہ